مسلم معاشرے اور جمہوریت
جمہوریت کو اسٹبلشمنٹ کے ایڈونچر کے علاوہ کچھ سیاسی جماعتوں اور غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں
چند روز قبل ترکی سے تین دانشور پاکستان آئے ہوئے تھے، جنہوں نے کراچی کی مختلف جامعات میں مسلم دنیااور جمہوریت کے عنوان سے لیکچر دیے ۔ ان میں مولانا رومیؒ یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر حاکن گوش،سیاسیات کے استاد اورسینئرتجزیہ نگار سلیم شیوک اور رومیؒ فورم کے ڈائیریکٹرعدنان یمن شامل تھے۔پروفیسر حاکن گوش اورسلیم شیوک نے مسلم دنیا میںجمہوری معاشرت کے قیام میں حائل رکاوٹوں کے اسباب کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔ سلیم شیوک کا کہنا تھا کہ یہ خدشات بے بنیاد ہیں کہ ترکی پر بنیادپرست قابض ہونے جارہے ہیں۔ ترکی کا سماجی ڈھانچہ خاصا مضبوط ہے اور سول سوسائٹی میں مزاحمت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اس لیے کم ازکم ترکی میں جمہوریت کو خطرات کا سامنا نہیں ہے۔ دراصل 80برس تک فوج نے سیکیولر ازم کے تحفظ کے نام پر دینی عقائد کی ترویج کے راستے میں جو رکاوٹیں ڈالی تھیں،وہ اب ختم ہورہی ہیں۔ اس لیے بعض حلقوں میں یہ خدشات پیدا ہورہے ہیں کہ ترکی میں شاید مذہبی قوتیں قابض ہونے جارہی ہیں،جو کہ غلط تاثر ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم حقیقی جمہوری عمل سے ابھی خاصے دور ہیں۔ اس کا بنیادی سبب دیگر مسلم معاشروں کی طرح ہمارے یہاں بھی تعلیم کی شرح کا کم ہوناہے۔جس کی وجہ سے فکری جمود کا شکار ہیں اور جمہوریت اور جمہوری نظام کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کا شعور ابھی بیدار نہیں ہوسکا ہے۔
پروفیسر حاکن نے مسلمانوں کی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ 1911ء میںشام (جو ان دنوں سلطنت عثمانیہ کا صوبہ ہواکرتا تھا)میں تعینات یونانی سفیر نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں مسلم معاشروں میں پائی جانے والی چھ سماجی کمزوریاں کی تشخیص کی۔جو103برس گذرجانے کے باوجود آج بھی موجود ہیں اورجمہوری نظم حکمرانی کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔اول،مطلق العنانی (Despotism): مسلمانوں میں طبقہ اعلیٰ سے طبقہ زرین تک مطلق العنانی کا مخصوص مزاج پایا جاتا ہے۔یعنی یہ اپنے آپ کوصحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں ۔اس لیے اختلاف رائے کو برادشت کرنا ان کی سرشت میں نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم معاشروں میں اختلاف رائے اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت قائم نہیں ہوسکی ہے، جو فکری کثرتیت کی قبولیت کے لیے اہم ہوتی ہے۔یوں یہ معاشرے نظمِ حکمرانی میں جمہوریت کے بجائے مطلق العنانیت کوترجیح دیتے ہیں۔ دوئم،ناامیدی (Despair): مسلمان دسویں صدی سے بالعموم اور1258ء میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے بعد سے شدید نوعیت کے فکری جمود کا شکار ہیں۔اس لیے ان میں مسابقت کی صلاحیت اور خواہش ختم ہوچکی ہے اور وہ مایوسیوں میں گھرچکے ہیں۔جس کی وجہ سے ان میں جھنجھلاہٹ، غصہ اور تلخ نوائی پیداہوگئی ہے۔وہ خود احتسابی کے بجائے پوری دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔
سوئم، بددیانتی(Dishonesty): اس سے مراد صرف مالیاتی امور میں عدم شفافیت نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں بددیانتی اور بدنیتی ہے۔جب حکمران اور بااثرافراد طاقت کا غلط استعمال(Power Abuse) کرتے ہوئے ہر جائزوناجائز طریقے سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں،تو عوام بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے جھوٹ اور بددیانتی کا سہارالینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں پوراسماجی ڈھانچہ بدعنوانیوں کا شکار ہوچکا ہے۔چہارم،نفرت کا بڑھتا ہوا رجحان (Love to hate):جب لوگ خود کچھ نہیں کرپاتے تو ان میں احساس کمتری پیدا ہوتاہے۔یہ احساس کمتری حسد اور کینہ کو جنم دیتاہے۔مسلمان حکمران اور دانشور اپنی ناکامیوںاور نامرادیوں کا جائزہ لینے اور اصلاح احوال کے لیے کوشش کرنے کے بجائے ان کی ذمے داری دیگرمذاہب کے ماننے والوں اورمغربی ممالک پر عائد کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے نفرتوں میں اضافہ ہورہاہے اور دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات میں پیداشدہ خلیج مزیدگہری ہورہی ہے ۔
پنجم،منفی سوچ(Negative Approach):مثبت سوچ کے حامل افراد دوسرے لوگوں کے ساتھ قدرِ مشترک تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،تاکہ تعلقات میں بہتری آسکے۔ جب کہ بیمار ذہنیت کے لوگ دوسروں کی ہر بات اور عمل میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں،جس سے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں۔مسلمانوں میں ہر بات کا منفی پہلو تلاش کرنے کا رجحان پروان چڑھ گیا ہے۔ وہ صرف غیر مسلموںہی پر عدم اعتماد کا مظاہرہ نہیں کررہے بلکہ اپنے ہم مذہب دیگر فرقوں اور مسالک کے بارے میں بھی ان کی رائے منفی اورمتشدد ہوتی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں خودمسلم معاشروں کے اپنے اندر تناؤ اور ٹکراؤ میں اضافہ ہورہاہے۔
ششم،بے جاپابندیاں (Restrictions): مسلم معاشرے چونکہ کئی صدیوں سے فکری جمود کا شکارہیں۔اس لیے خود سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔عالمی سطح پرہونے والی سائنسی ایجادات سے خوفزدہ ہوکر پہلے ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔بعد میں انھی ایجادات کا بے جا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ چھاپہ خانہ اور لاؤڈاسپیکر اس کی واضح مثال ہیں۔ جس سے ان معاشروں میں سیکھنے اور سمجھنے کا ماحول پیدا نہیں ہو پا رہا اور علم سے دوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ویسے تواس وقت پوری دنیا خلفشار کا شکار ہے۔لیکن جن چھ کمزوریوں کی آج سے103برس قبل نشاندہی کی گئی تھی، وہ مسلم معاشروں میں آج بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مسلم دنیا میںمختلف عقائد و مسالک کے درمیان متشدد آویزش اور مسلکی بنیادوں پر بالادستی کی خواہش کے باعث ان معاشروں میں سست رفتاری سے پروان چڑھتی جمہوریت اور جمہوری اقدار کوشدید نوعیت کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔مسلم دنیا جو اس وقت 1.6بلین نفوذ پر مشتمل ہے اور دنیا کی کل انسانی آبادی کا 23.4 فیصدہے،فکری، سیاسی اور سماجی طور پر ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ان 56ممالک میںجہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،نظم حکمرانی کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ لیکن ان معاشروں میں جہاں ان کی اکثریت نہیں ہے اور نہ ہی پالیسی سازی میں ان کا کوئی کردار ہے، وہاں عوام اور حکومت دونوں ہی انھیں سماجی fabric کے لیے ایک بہت بڑاخطرہ تصور کرتے ہوئے ان سے خائف رہتے ہیں۔ ایک عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ مسلمان بہت جلد آمادہ جدل ہوجاتے ہیں۔
اگر ان 56ممالک میں نظم حکمرانی کا جائزہ لیا جائے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ توان ممالک کی اکثریت میں پشتینی بادشاہتیںاور شخصی آمریتیںقائم ہیں۔جب کہ وہ ممالک جہاں جمہوریت کے نام پرعام انتخابات ہوتے رہتے ہیں وہاں بھی آزاد جمہوریت (Liberal Democracy) کاکوئی تصورموجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی مثال ترکی کی ہے۔جہاں پہلی جنگ عظیم کے بعد سطلنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور تین برس کی لڑائی کے بعد24جولائی1923ء کو یہ ملک جمہوریہ بن گیا۔لیکن 80برس تک ترکی کے اقتدار اعلیٰ پر کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ فوج کاکنٹرول قائم رہا۔جس نے1960ء میں منتخب وزیر اعظم عدنان مندیرس کو پھانسی پر لٹکانے سے بھی گریز نہیں کیا۔البتہ 2002ء کے بعد سے تبدیلیاں رونماء ہونا شروع ہوئی ہیں، فوج کو اقتدار اعلیٰ سے الگ کیا گیا ہے اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس عرصے میں مذہبی قوتیں بھی مضبوط ہوئی ہیں، جو ترکی کے سیکیولر کلچر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن رہی ہیں۔یوں ترکی میں بھی لبرل جمہوریت کا خواب جلد شرمندہِ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔
دوسری مثال ایران کی ہے۔ایران میں طویل جدوجہد کے بعد1979ء میں شہنشاہیت کاخاتمہ ممکن ہوا۔ لیکن اقتداراعلیٰ پر مذہبی قوتیں قابض ہوگئیں۔ گو کہ وہاں تسلسل کے ساتھ انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے، لیکن مذہبی زعماء کا ایک ایسا بالادست وبااختیار ادارہ قائم کردیا گیا، جو منتخب پارلیمان کی آزادانہ فیصلہ سازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ملائیشیاء میں 1964ء سے 1990ء تک حکومتی جماعت کے سوا کسی دوسری جماعت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیاگیا۔1990ء کے بعد وہاں اپوزیشن سامنے آئی ہے،جو آہستہ آہستہ اپنے قدم جمارہی ہے۔ لیکن بعض سخت گیر قوانین آزادیِ اظہارکے علاوہ مکمل جمہوری کلچرکے فروغ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیاء میںآزادی کے بعد بابائے قوم سوئیکار نو کی شخصی مطلق العنانیت قائم ہوگئی، جس کا ستمبر 1965ء میں فوجی کودیتا (Coup d'état)کے نتیجے میں خاتمہ ہوگیا، لیکن فوج اقتدار پر قابض ہوگئی اور1998ء تک جنرل سوہارتو بلاشرکتِ غیرے اقتدار پر قابض رہے۔ گزشتہ 15برس سے انتخابات کے ذریعہ منتخب حکومت قائم ہورہی ہے، لیکن بعض غیر ریاستی عناصر آزادیِ اظہارکی راہ میں مسلسل روڑے اٹکارہے ہیں۔مصر،شام اور دیگر ممالک میں جہاں پشتینی بادشاہتیں نہیں ہیں،وہاں طویل شخصی آمریتیں جمہوریت کے ارتقاء میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تویہاں جمہوریت کو اسٹبلشمنٹ کے ایڈونچر کے علاوہ کچھ سیاسی جماعتوں اور غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ان قوتوں کی اسٹبلشمنٹ کہیں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ سرپرستی کرتی ہے۔ان سرگرمیوں کے نتیجے میں پارلیمان اور منتخب حکومت کی فعالیت متاثر ہورہی ہے اور وہ فیصلے نہیں ہوپارہے،جو عوام کے جذبات اور احساسات کے ترجمان ہوں۔یہی وجہ ہے کہ عوام کا ریاست پر سے اعتماد اٹھ رہاہے،جس کے نتیجے میں ریاست آہستہ آہستہ اپنا منطقی جواز کھورہی ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو ایک انتہائی زد پذیر(Fragile) ملک بنا دیا ہے ۔
پروفیسر حاکن نے مسلمانوں کی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ 1911ء میںشام (جو ان دنوں سلطنت عثمانیہ کا صوبہ ہواکرتا تھا)میں تعینات یونانی سفیر نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں مسلم معاشروں میں پائی جانے والی چھ سماجی کمزوریاں کی تشخیص کی۔جو103برس گذرجانے کے باوجود آج بھی موجود ہیں اورجمہوری نظم حکمرانی کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔اول،مطلق العنانی (Despotism): مسلمانوں میں طبقہ اعلیٰ سے طبقہ زرین تک مطلق العنانی کا مخصوص مزاج پایا جاتا ہے۔یعنی یہ اپنے آپ کوصحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں ۔اس لیے اختلاف رائے کو برادشت کرنا ان کی سرشت میں نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم معاشروں میں اختلاف رائے اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت قائم نہیں ہوسکی ہے، جو فکری کثرتیت کی قبولیت کے لیے اہم ہوتی ہے۔یوں یہ معاشرے نظمِ حکمرانی میں جمہوریت کے بجائے مطلق العنانیت کوترجیح دیتے ہیں۔ دوئم،ناامیدی (Despair): مسلمان دسویں صدی سے بالعموم اور1258ء میں تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے بعد سے شدید نوعیت کے فکری جمود کا شکار ہیں۔اس لیے ان میں مسابقت کی صلاحیت اور خواہش ختم ہوچکی ہے اور وہ مایوسیوں میں گھرچکے ہیں۔جس کی وجہ سے ان میں جھنجھلاہٹ، غصہ اور تلخ نوائی پیداہوگئی ہے۔وہ خود احتسابی کے بجائے پوری دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔
سوئم، بددیانتی(Dishonesty): اس سے مراد صرف مالیاتی امور میں عدم شفافیت نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں بددیانتی اور بدنیتی ہے۔جب حکمران اور بااثرافراد طاقت کا غلط استعمال(Power Abuse) کرتے ہوئے ہر جائزوناجائز طریقے سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں،تو عوام بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے جھوٹ اور بددیانتی کا سہارالینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں پوراسماجی ڈھانچہ بدعنوانیوں کا شکار ہوچکا ہے۔چہارم،نفرت کا بڑھتا ہوا رجحان (Love to hate):جب لوگ خود کچھ نہیں کرپاتے تو ان میں احساس کمتری پیدا ہوتاہے۔یہ احساس کمتری حسد اور کینہ کو جنم دیتاہے۔مسلمان حکمران اور دانشور اپنی ناکامیوںاور نامرادیوں کا جائزہ لینے اور اصلاح احوال کے لیے کوشش کرنے کے بجائے ان کی ذمے داری دیگرمذاہب کے ماننے والوں اورمغربی ممالک پر عائد کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے نفرتوں میں اضافہ ہورہاہے اور دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات میں پیداشدہ خلیج مزیدگہری ہورہی ہے ۔
پنجم،منفی سوچ(Negative Approach):مثبت سوچ کے حامل افراد دوسرے لوگوں کے ساتھ قدرِ مشترک تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،تاکہ تعلقات میں بہتری آسکے۔ جب کہ بیمار ذہنیت کے لوگ دوسروں کی ہر بات اور عمل میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں،جس سے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں۔مسلمانوں میں ہر بات کا منفی پہلو تلاش کرنے کا رجحان پروان چڑھ گیا ہے۔ وہ صرف غیر مسلموںہی پر عدم اعتماد کا مظاہرہ نہیں کررہے بلکہ اپنے ہم مذہب دیگر فرقوں اور مسالک کے بارے میں بھی ان کی رائے منفی اورمتشدد ہوتی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں خودمسلم معاشروں کے اپنے اندر تناؤ اور ٹکراؤ میں اضافہ ہورہاہے۔
ششم،بے جاپابندیاں (Restrictions): مسلم معاشرے چونکہ کئی صدیوں سے فکری جمود کا شکارہیں۔اس لیے خود سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔عالمی سطح پرہونے والی سائنسی ایجادات سے خوفزدہ ہوکر پہلے ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔بعد میں انھی ایجادات کا بے جا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ چھاپہ خانہ اور لاؤڈاسپیکر اس کی واضح مثال ہیں۔ جس سے ان معاشروں میں سیکھنے اور سمجھنے کا ماحول پیدا نہیں ہو پا رہا اور علم سے دوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ویسے تواس وقت پوری دنیا خلفشار کا شکار ہے۔لیکن جن چھ کمزوریوں کی آج سے103برس قبل نشاندہی کی گئی تھی، وہ مسلم معاشروں میں آج بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مسلم دنیا میںمختلف عقائد و مسالک کے درمیان متشدد آویزش اور مسلکی بنیادوں پر بالادستی کی خواہش کے باعث ان معاشروں میں سست رفتاری سے پروان چڑھتی جمہوریت اور جمہوری اقدار کوشدید نوعیت کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔مسلم دنیا جو اس وقت 1.6بلین نفوذ پر مشتمل ہے اور دنیا کی کل انسانی آبادی کا 23.4 فیصدہے،فکری، سیاسی اور سماجی طور پر ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ان 56ممالک میںجہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،نظم حکمرانی کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ لیکن ان معاشروں میں جہاں ان کی اکثریت نہیں ہے اور نہ ہی پالیسی سازی میں ان کا کوئی کردار ہے، وہاں عوام اور حکومت دونوں ہی انھیں سماجی fabric کے لیے ایک بہت بڑاخطرہ تصور کرتے ہوئے ان سے خائف رہتے ہیں۔ ایک عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ مسلمان بہت جلد آمادہ جدل ہوجاتے ہیں۔
اگر ان 56ممالک میں نظم حکمرانی کا جائزہ لیا جائے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ توان ممالک کی اکثریت میں پشتینی بادشاہتیںاور شخصی آمریتیںقائم ہیں۔جب کہ وہ ممالک جہاں جمہوریت کے نام پرعام انتخابات ہوتے رہتے ہیں وہاں بھی آزاد جمہوریت (Liberal Democracy) کاکوئی تصورموجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی مثال ترکی کی ہے۔جہاں پہلی جنگ عظیم کے بعد سطلنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور تین برس کی لڑائی کے بعد24جولائی1923ء کو یہ ملک جمہوریہ بن گیا۔لیکن 80برس تک ترکی کے اقتدار اعلیٰ پر کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ فوج کاکنٹرول قائم رہا۔جس نے1960ء میں منتخب وزیر اعظم عدنان مندیرس کو پھانسی پر لٹکانے سے بھی گریز نہیں کیا۔البتہ 2002ء کے بعد سے تبدیلیاں رونماء ہونا شروع ہوئی ہیں، فوج کو اقتدار اعلیٰ سے الگ کیا گیا ہے اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس عرصے میں مذہبی قوتیں بھی مضبوط ہوئی ہیں، جو ترکی کے سیکیولر کلچر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن رہی ہیں۔یوں ترکی میں بھی لبرل جمہوریت کا خواب جلد شرمندہِ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔
دوسری مثال ایران کی ہے۔ایران میں طویل جدوجہد کے بعد1979ء میں شہنشاہیت کاخاتمہ ممکن ہوا۔ لیکن اقتداراعلیٰ پر مذہبی قوتیں قابض ہوگئیں۔ گو کہ وہاں تسلسل کے ساتھ انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے، لیکن مذہبی زعماء کا ایک ایسا بالادست وبااختیار ادارہ قائم کردیا گیا، جو منتخب پارلیمان کی آزادانہ فیصلہ سازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ملائیشیاء میں 1964ء سے 1990ء تک حکومتی جماعت کے سوا کسی دوسری جماعت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیاگیا۔1990ء کے بعد وہاں اپوزیشن سامنے آئی ہے،جو آہستہ آہستہ اپنے قدم جمارہی ہے۔ لیکن بعض سخت گیر قوانین آزادیِ اظہارکے علاوہ مکمل جمہوری کلچرکے فروغ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیاء میںآزادی کے بعد بابائے قوم سوئیکار نو کی شخصی مطلق العنانیت قائم ہوگئی، جس کا ستمبر 1965ء میں فوجی کودیتا (Coup d'état)کے نتیجے میں خاتمہ ہوگیا، لیکن فوج اقتدار پر قابض ہوگئی اور1998ء تک جنرل سوہارتو بلاشرکتِ غیرے اقتدار پر قابض رہے۔ گزشتہ 15برس سے انتخابات کے ذریعہ منتخب حکومت قائم ہورہی ہے، لیکن بعض غیر ریاستی عناصر آزادیِ اظہارکی راہ میں مسلسل روڑے اٹکارہے ہیں۔مصر،شام اور دیگر ممالک میں جہاں پشتینی بادشاہتیں نہیں ہیں،وہاں طویل شخصی آمریتیں جمہوریت کے ارتقاء میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تویہاں جمہوریت کو اسٹبلشمنٹ کے ایڈونچر کے علاوہ کچھ سیاسی جماعتوں اور غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ان قوتوں کی اسٹبلشمنٹ کہیں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ سرپرستی کرتی ہے۔ان سرگرمیوں کے نتیجے میں پارلیمان اور منتخب حکومت کی فعالیت متاثر ہورہی ہے اور وہ فیصلے نہیں ہوپارہے،جو عوام کے جذبات اور احساسات کے ترجمان ہوں۔یہی وجہ ہے کہ عوام کا ریاست پر سے اعتماد اٹھ رہاہے،جس کے نتیجے میں ریاست آہستہ آہستہ اپنا منطقی جواز کھورہی ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو ایک انتہائی زد پذیر(Fragile) ملک بنا دیا ہے ۔