بڑھتی ہوئی مہنگائی اور وزیراعظم کا ریلیف پیکیج
اس وقت پاکستانی عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سونامی کا سامنا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی کے پیش نظر دو کروڑ خاندانوں کے لیے 120 ارب روپے کے خصوصی ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی ، ورنہ ہمارا خسارہ بڑھے گا اور محصولات میں کمی آئے گی، سردیوں میں گیس کا مسئلہ بھی جنم لے گا۔
قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی میں50 فیصد کے مقابلے میں پاکستان میں یہ شرح صرف9 فیصد ہے، اقتصادی اشاریے درست سمت گامزن ہیں، دو خاندان پیسہ واپس لائیں وعدہ کرتا ہوں کہ مہنگائی میں 50فیصد کمی کروںگا ، صنعت کار اپنے نفع میں مزدوروں کو بھی شامل کریں اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں، میڈیا انصاف اور غیر جانبداری پر مبنی تعمیری تنقید کرے۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ صائب ہیں ، وہ خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ ملک میں عام آدمی کو ریلیف ملے اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ اور حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، اور اس پر قابو پانے کی تمام سرکاری کوششیں ناکام ہیں ۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔
حکومتی ترجمان تو عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سعودی پیکیج سے پہلی بار اسٹیٹ بینک کے اپنے ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جس سے مارکیٹ میں بہت مثبت پیغام گیا ہے اور ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیاہے۔ قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ سردیوں کے چند ماہ بعد صورت حال معمول پر آجائے گی اور کورونا کی وجہ سے متاثر ہونے والی سپلائی لائن بھی بحال ہو جائے گی اوراگر آئی ایم ایف سے بھی اچھی خبر مل گئی تو ایک ڈالر کی قیمت 165 روپے تک بھی آسکتی ہے۔
اس وقت پاکستانی عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سونامی کا سامنا ہے۔ قیمتیں جس رفتار سے بڑھ رہی ہیں اس رفتار سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہورہا۔ جب ملک کا سرمایہ ہی منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ملکوں میں چلا جائے گا اور پاکستان کے اندر سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور صنعتیں نہیں لگیں گی تو روزگار کے مواقعے کیسے پیدا ہوںگے۔
اس ملک میں آٹا اور چینی مافیا سے توسب ہی واقف ہو چکے ہیں جو بنیادی ضرورت کی ان اہم ترین اشیا پر بے دریغ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں اور سیکڑوں ارب روپے کے منافع ہر سال کما لیتے ہیں جب کہ لاکھوں لوگ فاقوں پر مجبور ہوتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ محنت کش عوام بھوک سے خود کشیاں کر رہے ہیں جب کہ معاشی سرگرمیاں سست پڑ رہی ہیں۔
ادویات کی قیمتوں اور ایل این جی کی حالیہ خریداری کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جارہا ہے ۔ حالیہ برسوں میں لاکھوں محنت کش پہلے کی نسبت دُگنی قیمت پر یہ بنیادی ضرورت کی شے خرید کر غربت کی چکی میں مزید پستے چلے جا رہے ہیں۔
ایک آزمودہ نسخہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ قیمتوں کا مقابلہ کرنا ہے ، یہ گلہ بھی عوام سے اکثر سننے میں ملتا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے جب کہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ جو طبقات ٹیکس نہیں دیتے تو وہ اس ملک کے سرمایہ دار، بڑے بڑے زمیندار ، گدی نشین، قبائلی سردار و وڈیرے، فلاحی ادارے اور حکمران طبقے ہیں جب کہ محنت کش عوام تو بجلی کے بلز، پٹرول سے لے کر چائے اور ماچس کی ڈبی پر بھی ٹیکس دیتے ہیں۔
یعنی تین تین سو کنال کے گھروں میں قیام پذیر، مہنگی ترین گاڑیاں رکھنے والے طبقات کے افراد اور محنت کش عوام تقریباً ایک جتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں کے بل بوتے پر مراعات یافتہ طبقہ پرتعش زندگی گزار رہا ہے اور محنت کشوں کے لیے صرف بھوک اور بیماری ہی رہ گئی ہے۔ جس ملک کو دنیا کا سب سے سستا ترین ملک قرار دیا جا رہا ہے اس میں سب سے سستی چیز انسانی زندگی ہے۔
حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں تین سے چار کروڑ افراد بیروزگار ہوئے ہیں جب کہ مہنگائی کے باعث مزید کئی کروڑ افراد کی آمدن میں تیز ترین کمی ہوئی ہے ، لیکن یہ عمل ابھی ختم نہیں ہوا گو کہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے اور آنے والے سال میں مزید ترقی کرے گی۔ یقینا یہ ترقی اس ملک کے حکمران طبقات کے لیے ہے جن کے لیے اس بجٹ میں بڑے پیمانے پر ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹی پر چھوٹ کے اعلانات کیے گئے ہیں۔
امیر لوگوں کے لیے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے جب کہ پٹرول کی قیمت میں ابھی بیس سے تیس روپے فی لیٹر مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ اسی طرح یکم جنوری سے پہلے بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر تین سے چار روپے فی یونٹ قیمت میں اضافہ کیا جائے گا جس کے لیے آئی ایم ایف کا شدید دباؤ موجود ہے جب کہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایکسپریس کے نمایندگان کی شایع شدہ رپورٹ کے مطابق پرچون بازاروں میں طلب و رسد میں بگاڑ کے باعث چینی کی فی کلو قیمت130روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے حکومتی ترجمان دیگر ممالک کی مثال دیتے ہیں لیکن یہ بات بتانا بھول جاتے ہیں کہ وہاں فی کس آمدنی بہت زیادہ ہے، پھر وہاں بے روز گاروںکو سوشل سیکیورٹی سے رقم مل جاتی ہے ، جب کہ وطن عزیز میں سوشل سیکیورٹی کا وجود نہیں ہے ۔ ہم اس سچ کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ ملک میں تیل، گھی اور چینی کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کسی کو ریلیف نہیں مل سکے گا ۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زرعی انقلاب سے ہی پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے استحصال اور شکنجے سے آزادی حاصل کر سکتا ہے مگر افسوس سامراجی ملکوں نے پاکستان کو صارفین کی منڈی بنا دیا ہے اور اسے پیداوار کا ملک نہیں بننے دیا۔ امریکا اور برطانیہ کے ایماء پر عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے لازمی ہے کہ گورننس کو معیاری بنایا جائے، مڈل مین کی لوٹ کو ختم کیا جائے ، تعلیم کو مارکیٹ سے جوڑا جائے، ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف توجہ دی جائے اور ہیومن ریسورس پر سرمایہ کاری کی جائے تاکہ نوجوان ہنرمند بن کر روزگار حاصل کرنے کے اہل ہو سکیں۔
پاکستان کو اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں معیشت کا ڈھانچہ درست کیا جائے اور برآمدات کو بڑھایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں ایسے ذریعے سے زرمبادلہ آنا ضروری ہے جس پر سود نہ دینا پڑے جیسا کہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلات سے آنے والی رقم یا پھر برآمدات کی مد میں حاصل ہونے والا زرمبادلہ۔
گزشتہ دس سال سے پاکستان کی برآمدات 20 سے 30 ارب ڈالر تک ہی ہیں جب کہ خطے کے دیگر ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش یا ویت نام نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی برآمدات کو پاکستان سے بہت زیادہ کرلیا ہے۔
پاکستان کی حکومت کو ملک میں انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ہماری برآمدات بھی خطے کے ممالک کی طرح تیزی سے بڑھیں۔ اس کے علاوہ مزید تربیت یافتہ افرادی قوت کو بیرون ملک بھیج کر بھی زرمبادلہ میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
حکومتی سطح پر جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع معاشی و اقتصادی پالیسیاں بنائی جائیں، تب ہی عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے گا۔
قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی میں50 فیصد کے مقابلے میں پاکستان میں یہ شرح صرف9 فیصد ہے، اقتصادی اشاریے درست سمت گامزن ہیں، دو خاندان پیسہ واپس لائیں وعدہ کرتا ہوں کہ مہنگائی میں 50فیصد کمی کروںگا ، صنعت کار اپنے نفع میں مزدوروں کو بھی شامل کریں اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں، میڈیا انصاف اور غیر جانبداری پر مبنی تعمیری تنقید کرے۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ صائب ہیں ، وہ خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ ملک میں عام آدمی کو ریلیف ملے اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ اور حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، اور اس پر قابو پانے کی تمام سرکاری کوششیں ناکام ہیں ۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔
حکومتی ترجمان تو عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سعودی پیکیج سے پہلی بار اسٹیٹ بینک کے اپنے ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جس سے مارکیٹ میں بہت مثبت پیغام گیا ہے اور ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیاہے۔ قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ سردیوں کے چند ماہ بعد صورت حال معمول پر آجائے گی اور کورونا کی وجہ سے متاثر ہونے والی سپلائی لائن بھی بحال ہو جائے گی اوراگر آئی ایم ایف سے بھی اچھی خبر مل گئی تو ایک ڈالر کی قیمت 165 روپے تک بھی آسکتی ہے۔
اس وقت پاکستانی عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سونامی کا سامنا ہے۔ قیمتیں جس رفتار سے بڑھ رہی ہیں اس رفتار سے عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہورہا۔ جب ملک کا سرمایہ ہی منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ملکوں میں چلا جائے گا اور پاکستان کے اندر سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور صنعتیں نہیں لگیں گی تو روزگار کے مواقعے کیسے پیدا ہوںگے۔
اس ملک میں آٹا اور چینی مافیا سے توسب ہی واقف ہو چکے ہیں جو بنیادی ضرورت کی ان اہم ترین اشیا پر بے دریغ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں اور سیکڑوں ارب روپے کے منافع ہر سال کما لیتے ہیں جب کہ لاکھوں لوگ فاقوں پر مجبور ہوتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ محنت کش عوام بھوک سے خود کشیاں کر رہے ہیں جب کہ معاشی سرگرمیاں سست پڑ رہی ہیں۔
ادویات کی قیمتوں اور ایل این جی کی حالیہ خریداری کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جارہا ہے ۔ حالیہ برسوں میں لاکھوں محنت کش پہلے کی نسبت دُگنی قیمت پر یہ بنیادی ضرورت کی شے خرید کر غربت کی چکی میں مزید پستے چلے جا رہے ہیں۔
ایک آزمودہ نسخہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ قیمتوں کا مقابلہ کرنا ہے ، یہ گلہ بھی عوام سے اکثر سننے میں ملتا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے جب کہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ جو طبقات ٹیکس نہیں دیتے تو وہ اس ملک کے سرمایہ دار، بڑے بڑے زمیندار ، گدی نشین، قبائلی سردار و وڈیرے، فلاحی ادارے اور حکمران طبقے ہیں جب کہ محنت کش عوام تو بجلی کے بلز، پٹرول سے لے کر چائے اور ماچس کی ڈبی پر بھی ٹیکس دیتے ہیں۔
یعنی تین تین سو کنال کے گھروں میں قیام پذیر، مہنگی ترین گاڑیاں رکھنے والے طبقات کے افراد اور محنت کش عوام تقریباً ایک جتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں کے بل بوتے پر مراعات یافتہ طبقہ پرتعش زندگی گزار رہا ہے اور محنت کشوں کے لیے صرف بھوک اور بیماری ہی رہ گئی ہے۔ جس ملک کو دنیا کا سب سے سستا ترین ملک قرار دیا جا رہا ہے اس میں سب سے سستی چیز انسانی زندگی ہے۔
حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں تین سے چار کروڑ افراد بیروزگار ہوئے ہیں جب کہ مہنگائی کے باعث مزید کئی کروڑ افراد کی آمدن میں تیز ترین کمی ہوئی ہے ، لیکن یہ عمل ابھی ختم نہیں ہوا گو کہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے اور آنے والے سال میں مزید ترقی کرے گی۔ یقینا یہ ترقی اس ملک کے حکمران طبقات کے لیے ہے جن کے لیے اس بجٹ میں بڑے پیمانے پر ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹی پر چھوٹ کے اعلانات کیے گئے ہیں۔
امیر لوگوں کے لیے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے جب کہ پٹرول کی قیمت میں ابھی بیس سے تیس روپے فی لیٹر مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ اسی طرح یکم جنوری سے پہلے بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر تین سے چار روپے فی یونٹ قیمت میں اضافہ کیا جائے گا جس کے لیے آئی ایم ایف کا شدید دباؤ موجود ہے جب کہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایکسپریس کے نمایندگان کی شایع شدہ رپورٹ کے مطابق پرچون بازاروں میں طلب و رسد میں بگاڑ کے باعث چینی کی فی کلو قیمت130روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے حکومتی ترجمان دیگر ممالک کی مثال دیتے ہیں لیکن یہ بات بتانا بھول جاتے ہیں کہ وہاں فی کس آمدنی بہت زیادہ ہے، پھر وہاں بے روز گاروںکو سوشل سیکیورٹی سے رقم مل جاتی ہے ، جب کہ وطن عزیز میں سوشل سیکیورٹی کا وجود نہیں ہے ۔ ہم اس سچ کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ ملک میں تیل، گھی اور چینی کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کسی کو ریلیف نہیں مل سکے گا ۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زرعی انقلاب سے ہی پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے استحصال اور شکنجے سے آزادی حاصل کر سکتا ہے مگر افسوس سامراجی ملکوں نے پاکستان کو صارفین کی منڈی بنا دیا ہے اور اسے پیداوار کا ملک نہیں بننے دیا۔ امریکا اور برطانیہ کے ایماء پر عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے لازمی ہے کہ گورننس کو معیاری بنایا جائے، مڈل مین کی لوٹ کو ختم کیا جائے ، تعلیم کو مارکیٹ سے جوڑا جائے، ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف توجہ دی جائے اور ہیومن ریسورس پر سرمایہ کاری کی جائے تاکہ نوجوان ہنرمند بن کر روزگار حاصل کرنے کے اہل ہو سکیں۔
پاکستان کو اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں معیشت کا ڈھانچہ درست کیا جائے اور برآمدات کو بڑھایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں ایسے ذریعے سے زرمبادلہ آنا ضروری ہے جس پر سود نہ دینا پڑے جیسا کہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلات سے آنے والی رقم یا پھر برآمدات کی مد میں حاصل ہونے والا زرمبادلہ۔
گزشتہ دس سال سے پاکستان کی برآمدات 20 سے 30 ارب ڈالر تک ہی ہیں جب کہ خطے کے دیگر ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش یا ویت نام نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی برآمدات کو پاکستان سے بہت زیادہ کرلیا ہے۔
پاکستان کی حکومت کو ملک میں انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ہماری برآمدات بھی خطے کے ممالک کی طرح تیزی سے بڑھیں۔ اس کے علاوہ مزید تربیت یافتہ افرادی قوت کو بیرون ملک بھیج کر بھی زرمبادلہ میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
حکومتی سطح پر جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع معاشی و اقتصادی پالیسیاں بنائی جائیں، تب ہی عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے گا۔