’گلستان‘ اجڑ گیا
جب تک ’گلستان‘ آباد تھا، بلوچستان شاد تھا۔ یہاں کی فضاؤں میں موسیقی کے سُر بجتے تھے۔۔۔۔
'نغمہ گر' کے نام سے، برصغیر میں موسیقی کی پاکیزہ روایت کی بنیاد رکھنے والوں کی یادیں تازہ کرنے والے ہمارے عہد کے ایک پاکیزہ آدمی رضا علی عابدی نے اپنے سدا بہار انداز میں کیا دل نشیں بات کہی کہ، 'لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو پرانے گیت کیوں اچھے لگتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کیونکہ وہ اچھے ہوتے ہیں!' ...کہیے، بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے کہ حسن کیوں اچھا لگتا ہے؟ بچوں کی ہنسی معصوم سی کیوں دِکھتی ہے؟ کھلتے ہوئے پھول آنکھوں کو بھلے کیوں معلوم ہوتے ہیں؟ ابھرتے اور ڈوبتے سورج کا نظارہ تسکین کیوں بخشتا ہے؟ سمندر کی لہروں میں مدہوشی سی کیوں ہوتی ہے؟ محبوبہ کی ایک مسکراہٹ کیوں نہیں بھولتی... ان سب احساسات کا امتزاج ہی تو ہے اس خطے کی قدیم موسیقی میں۔ تو بھلا وہ اچھی کیوں نہ لگے۔ بس سننے کے لیے سماعت درست چاہیے۔
عابدی صاحب جیسے احباب سے تو یہ سوال یوں بھی نہیں بنتا کہ ان کی سماعت سے ٹکرانے والی اس خطے کی اولین موسیقی یہی تھی... اور پہلا پیار بھلا کسے بھولتا ہے۔ ہاں، سن اَسی کی دَہائی میں جنم لینے اور اکیسویں صدی میں 'بالغ' ہونے والی ہماری نسل اگر سن پچاس سے اَسی تک کی اسی موسیقی کی شیدائی ہو تو ان کے نفسیاتی تجزیے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ خدا جانے تحلیلِ نفسی کے نتیجے میں اسے کس 'مرض' کا نام دیا جائے، اپنے لیے تو کہہ سکتا ہوں کہ اگر آواگون کا کوئی وجود ہے تو موجودہ جسم میں موجود روح شاید پچاس کی دَہائی میں جنم لے کر سن اَسی تک تحلیل ہو چکی تھی، سن اکیاسی میں اس نے ایک اور بدن میں جنم لیا۔
(شاید اسی لیے یہ ان دونوں کی آپس میں جمی نہیں) میرے اچھے دوست سبھی سن پچاس اور ساٹھ کی دَہائی والے ہیں۔ ذہنی طور پر میں نے ہمیشہ خود کو ہم عصروں کی نسبت ان کے زیادہ قریب پایا۔ بعینہ یہی معاملہ موسیقی کے ساتھ رہا ہے، سن پچاس سے اَسی تک کا میوزک یوں لگتا ہے اپنی آنکھوں کے سامنے تخلیق ہوا ہو، گویا ہماری ہی سماعتوں کے لیے بنا ہو۔ حالانکہ یہ جملہ تو یونیورسٹی کے زمانے میں بلوچستان یونیورسٹی کے عین سامنے واقع کینٹین میں ہمیشہ پرانی موسیقی سننے والے اس کے مالک بزرگ سے سنا تھا کہ، 'میوزک تو اَس کے بعد مر گیا بیٹا!' پر اس کی بات سن کے لگتا تھا 'گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔'
ہاں ، ایک ناسٹیلجیا تو یوں بھی بنتا ہے کہ لتا کے گائے ہوئے گیت جب آپ نے بھری جوانی میں خوش گلو لحن اور خوبصورت دہن والی محبوبہ کی زباں سے سنے ہوں...تو ان کا نشہ عمر بھر رہنا بھی چاہیے۔ بھئی جب کوئی نازنیں آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گائے کہ 'آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے' ('لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو' اور 'نجانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا' ...) تو پھر لاکھ کوئی منی آپ کے لیے بدنام ہوتی رہے، شیلا کی جوانی خواہ کتنی ہی آگ لگائے، یا کوئی انارکلی اپنے سلیم کو چھوڑ کر آپ کے ساتھ ڈسکو جانے پہ راضی ہی کیوں نہ ہو، آپ نے ذرا بھی اس طرف کان دھرے تو کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ نہ ڈال لیں۔
خیر وہ دن تو خدا جانے کب آئے، ہماری زندگیوں میں تو نئے میوزک کے نام پہ یہ سیسہ ہمارے کانوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ شاید تبھی ہماری سماعتیں شور و غوغا کی عادی ہو چکی ہیں۔ محبت کی کوئی بات نہ ہم سن پاتے ہیں، نہ ہم پہ اثر کرتی ہے۔ ذرا ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر سوشل میڈیا پہ بحث کرنے والوں کا اندازِ گفتگو دیکھ لیں، یوں لگتا ہے جیسے زبان کی جگہ جادوگر کی طرح آگ کے گولے لیے پھر رہے ہوں۔ پھنکارتی زبانیں۔ جو جتنا اونچا بولے گا، اتنا ہی سنا جائے گا۔ پنکج ادھاس کی گزارش کہ 'اور آہستہ کیجیے باتیں' آج کی راک اسٹار نائٹس میں کہیں دب چکی۔ جن کے دیکھے سے منہ پہ رونق آ جاتی تھی، اب تو وہ صورتیں الٰہی جانے کس دیس بستیاں ہیں۔ سندھ کے خوش گلو اور خوبرو شاعر بخشنڑ مہرانڑوی کے بقول اب تو 'فیس بک کا زمانہ ہے دوست!/بے حس لڑکیاں/دوستیاں اور دلبریاں/موسموں کی طرح/ بدلتی رہتی ہیں/ وہ اکثر اپنے رستے بدل دیتی ہیں/ اپنی جوانی اور حسن کے دعوے/ اپنے پرس میں لے کر گھومتی ہیں/ جاتے جاتے/ اشک بہاتی آنکھوں کے لیے/ ٹشو پیپر کی خیرات بھی نہیں دیتیں!' (نظم، بے حس لڑکیاں)
حسن و عشق کے یہ تذکرے نہ تو خیالی پلاؤ ہیں نہ کوئی نصف صدی پہلے کا قصہ۔ یہ تو ابھی صرف ایک دَہائی پہلے کی بات ہے۔ ہاں دس سال پہلے، ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ کوئٹے کی سڑکوں پہ جوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوما کرتے تھے۔ کیفے بلدیہ کے لان میں لتا اور رفیع کو گنگنایا کرتے تھے۔ پرانے میوزک کی تلاش میں 'گلستان' جایا کرتے تھے۔گلستان......ہاں، اُسی کی موت کا تو نوحہ ہے جس نے سینے میں دبے سبھی زخم تازہ کر ڈالے ہیں۔ کوئٹہ کے ریگل چوک کے عین بائیں کونے پہ واقع (زندگی آمیز ہر اچھی چیز بائیں جانب ہی ملے گی بھائی!) قدیم میوزک کی یہ قدیم دکان شال کی شان ہوا کرتی تھی (ہائے، ہر اچھی چیز کو بالآخر 'تھی' ہو جانا ہے... ہائے یہ لوگ، خوب صورت لوگ/ ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے: افتخار نسیم)۔ برصغیر میں گایا گیا کوئی بھی راگ ہو کہ غزل، اولین گیت ہو، جدید نغمہ یا کہ بلوچی نڑایک پورا خزانہ تھا 'گلستان' کے چھوٹے سے کونے میں، جو موسیقی کے شائقین کو کھینچ کھینچ لاتا تھا۔ جیسے بلوچستان میں ہر نئی اچھی چیز، ہر اچھی خبر ذرا دیر سے پہنچتی ہے، انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی بھی خاصی دیر سے آئی۔ اس کا عام ہونا تو خیر اب تک عام نہیں ہوا۔ ہاں کوئٹہ جیسے شہروں میں جب لوگو ں نے جان لیا کہ اب ہر پرانا گیت بنا کچھ خرچ کیے انٹرنیٹ سے با آسانی مل سکتا ہے، تو 'گلستان' ویران ہونا شروع ہو گیا۔
ٹھیک ہے صاحب، نئی ٹیکنالوجی سے فیض یاب ہونا اچھا ہے، اس سے استفادہ نہایت خوب...اس سے استفادہ تو آوازوں کی دنیا بسانے والے لطف اللہ خاں صاحب نے بھی کیا تھا۔ اَسی برس کی عمر میں جب لوگ خود کو نیم مردہ جان کر موت کو خوش آمدید کہنے کے منتظر رہتے ہیں، انھوں نے کمپیوٹر سیکھا، اور گرامو فون سے ٹیپ کی کیسٹ پہ منتقل کی ہوئی ہزاروں اہم آوازوں کو جدید سی ڈی میں ڈھال دیا۔ ان کے 'دولت کدے' پہ بزرگوں کی معیت میں ہوئی ایک گفتگو کے دوران 'اس سب کا فائدہ؟' والے بے تکے سوال کے جواب میں کیا خوب صورت بات کہی تھی اس صاف ستھرے آدمی نے کہ، 'سوچتا ہوں شاید کبھی سائنس اس نہج پہ پہنچ جائے جب آوازوں کے ذریعے پتہ لگایا جا سکے کہ بولنے والا کتنا سچ بول رہا ہے اور کتنا جھوٹ، تب شاید یہ خزانہ بنی نوعِ انساں کے کسی کام آ سکے!' ...ابھی انھیں گزرے تو چند ہی برس ہوئے ہیں اور سنتے ہیں کہ سائنس آوازوں کے زیر و بم سے انسانی جذبات کا اندازہ لگانے والا نظام وضع کر چکی۔ اور جن احباب نے لطف اللہ خاں مرحوم (ایسے لوگ 'مرحوم' ہوتے ہیں کیا؟) کا خزانہ دیکھا ہے، وہی جانتے ہیں کہ یہ بنی نوعِ انساں کی کتنی بڑی خدمت ہو گی۔
ہاں تو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیجیے، اپنی روایت کو اس کے ذریعے آنے والی نسلوں تک منتقل کیجیے، ماضی کی ہر اچھی چیز کو اس کے ذریعے محفوظ کیجیے اور یہ امانت آگے بڑھاتے جائیں...تو کیا ہی خوب ہے۔ لیکن یہ کیا کہ آپ موسیقی کے 'گلستان' کو اجاڑ کر (بلکہ 'اکھاڑ' کر) وہاں جوتوں کی دکان بنا ڈالیں! جی صاحب، کوئٹہ کے ریگل چوک کے عین بائیں کونے پہ واقع 'گلستان' کی جگہ جوتوں کی ایک جدید دکان نے لے لی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کچھ عرصہ پہلے یہیں کہیں کتابوں کی ایک قدیم دکان کی جگہ کبابوں کی ایک دکان نے لے لی تھی۔ جو معاشرہ کتاب کی جگہ کباب اور موسیقی کی جگہ جوتے پسند کرتا ہو، اس کے ساتھ وہی ہونا چاہیے، جو بلوچستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
جب تک 'گلستان' آباد تھا، بلوچستان شاد تھا۔ یہاں کی فضاؤں میں موسیقی کے سُر بجتے تھے۔ رنگون سے پیا کا ٹیلی فون آتا تھا، ململ کا لال دوپٹہ ہوا میں اڑتا رہتا تھا، آنکھوں میں انتظار کا رنگ بھر کے دلِ بے قرار کا افسانہ لکھا جاتا تھا، بے وفائی کے شکوے کو محبت کی توہین سمجھا جاتا تھا، امیدوں بھری صبحِ فردا کے نغمے گونجتے تھے ('وہ صبح کبھی تو آئے گی' سے لے کر 'وہ صبح ہمیں سے آئے گی' تک: ساحر)۔ جب سے یہاں گولی کی بولی چلی ہے، زندگی آمیز سبھی سُر تھمتے چلے جا رہے ہیں۔ اب یہاں کی فضا میں بم دھماکوں کا شور اور راکٹ کی آوازیں گونجتی ہیں۔ سماج میں زندگی کی رمق لانی ہے تو کتابوں کی طرف واپس آئیے، اچھے میوزک کی طرف واپس آئیے، 'گلستان' آباد ہو جائے گا۔
عابدی صاحب جیسے احباب سے تو یہ سوال یوں بھی نہیں بنتا کہ ان کی سماعت سے ٹکرانے والی اس خطے کی اولین موسیقی یہی تھی... اور پہلا پیار بھلا کسے بھولتا ہے۔ ہاں، سن اَسی کی دَہائی میں جنم لینے اور اکیسویں صدی میں 'بالغ' ہونے والی ہماری نسل اگر سن پچاس سے اَسی تک کی اسی موسیقی کی شیدائی ہو تو ان کے نفسیاتی تجزیے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ خدا جانے تحلیلِ نفسی کے نتیجے میں اسے کس 'مرض' کا نام دیا جائے، اپنے لیے تو کہہ سکتا ہوں کہ اگر آواگون کا کوئی وجود ہے تو موجودہ جسم میں موجود روح شاید پچاس کی دَہائی میں جنم لے کر سن اَسی تک تحلیل ہو چکی تھی، سن اکیاسی میں اس نے ایک اور بدن میں جنم لیا۔
(شاید اسی لیے یہ ان دونوں کی آپس میں جمی نہیں) میرے اچھے دوست سبھی سن پچاس اور ساٹھ کی دَہائی والے ہیں۔ ذہنی طور پر میں نے ہمیشہ خود کو ہم عصروں کی نسبت ان کے زیادہ قریب پایا۔ بعینہ یہی معاملہ موسیقی کے ساتھ رہا ہے، سن پچاس سے اَسی تک کا میوزک یوں لگتا ہے اپنی آنکھوں کے سامنے تخلیق ہوا ہو، گویا ہماری ہی سماعتوں کے لیے بنا ہو۔ حالانکہ یہ جملہ تو یونیورسٹی کے زمانے میں بلوچستان یونیورسٹی کے عین سامنے واقع کینٹین میں ہمیشہ پرانی موسیقی سننے والے اس کے مالک بزرگ سے سنا تھا کہ، 'میوزک تو اَس کے بعد مر گیا بیٹا!' پر اس کی بات سن کے لگتا تھا 'گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔'
ہاں ، ایک ناسٹیلجیا تو یوں بھی بنتا ہے کہ لتا کے گائے ہوئے گیت جب آپ نے بھری جوانی میں خوش گلو لحن اور خوبصورت دہن والی محبوبہ کی زباں سے سنے ہوں...تو ان کا نشہ عمر بھر رہنا بھی چاہیے۔ بھئی جب کوئی نازنیں آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گائے کہ 'آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے' ('لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو' اور 'نجانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا' ...) تو پھر لاکھ کوئی منی آپ کے لیے بدنام ہوتی رہے، شیلا کی جوانی خواہ کتنی ہی آگ لگائے، یا کوئی انارکلی اپنے سلیم کو چھوڑ کر آپ کے ساتھ ڈسکو جانے پہ راضی ہی کیوں نہ ہو، آپ نے ذرا بھی اس طرف کان دھرے تو کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ نہ ڈال لیں۔
خیر وہ دن تو خدا جانے کب آئے، ہماری زندگیوں میں تو نئے میوزک کے نام پہ یہ سیسہ ہمارے کانوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ شاید تبھی ہماری سماعتیں شور و غوغا کی عادی ہو چکی ہیں۔ محبت کی کوئی بات نہ ہم سن پاتے ہیں، نہ ہم پہ اثر کرتی ہے۔ ذرا ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر سوشل میڈیا پہ بحث کرنے والوں کا اندازِ گفتگو دیکھ لیں، یوں لگتا ہے جیسے زبان کی جگہ جادوگر کی طرح آگ کے گولے لیے پھر رہے ہوں۔ پھنکارتی زبانیں۔ جو جتنا اونچا بولے گا، اتنا ہی سنا جائے گا۔ پنکج ادھاس کی گزارش کہ 'اور آہستہ کیجیے باتیں' آج کی راک اسٹار نائٹس میں کہیں دب چکی۔ جن کے دیکھے سے منہ پہ رونق آ جاتی تھی، اب تو وہ صورتیں الٰہی جانے کس دیس بستیاں ہیں۔ سندھ کے خوش گلو اور خوبرو شاعر بخشنڑ مہرانڑوی کے بقول اب تو 'فیس بک کا زمانہ ہے دوست!/بے حس لڑکیاں/دوستیاں اور دلبریاں/موسموں کی طرح/ بدلتی رہتی ہیں/ وہ اکثر اپنے رستے بدل دیتی ہیں/ اپنی جوانی اور حسن کے دعوے/ اپنے پرس میں لے کر گھومتی ہیں/ جاتے جاتے/ اشک بہاتی آنکھوں کے لیے/ ٹشو پیپر کی خیرات بھی نہیں دیتیں!' (نظم، بے حس لڑکیاں)
حسن و عشق کے یہ تذکرے نہ تو خیالی پلاؤ ہیں نہ کوئی نصف صدی پہلے کا قصہ۔ یہ تو ابھی صرف ایک دَہائی پہلے کی بات ہے۔ ہاں دس سال پہلے، ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ کوئٹے کی سڑکوں پہ جوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوما کرتے تھے۔ کیفے بلدیہ کے لان میں لتا اور رفیع کو گنگنایا کرتے تھے۔ پرانے میوزک کی تلاش میں 'گلستان' جایا کرتے تھے۔گلستان......ہاں، اُسی کی موت کا تو نوحہ ہے جس نے سینے میں دبے سبھی زخم تازہ کر ڈالے ہیں۔ کوئٹہ کے ریگل چوک کے عین بائیں کونے پہ واقع (زندگی آمیز ہر اچھی چیز بائیں جانب ہی ملے گی بھائی!) قدیم میوزک کی یہ قدیم دکان شال کی شان ہوا کرتی تھی (ہائے، ہر اچھی چیز کو بالآخر 'تھی' ہو جانا ہے... ہائے یہ لوگ، خوب صورت لوگ/ ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے: افتخار نسیم)۔ برصغیر میں گایا گیا کوئی بھی راگ ہو کہ غزل، اولین گیت ہو، جدید نغمہ یا کہ بلوچی نڑایک پورا خزانہ تھا 'گلستان' کے چھوٹے سے کونے میں، جو موسیقی کے شائقین کو کھینچ کھینچ لاتا تھا۔ جیسے بلوچستان میں ہر نئی اچھی چیز، ہر اچھی خبر ذرا دیر سے پہنچتی ہے، انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی بھی خاصی دیر سے آئی۔ اس کا عام ہونا تو خیر اب تک عام نہیں ہوا۔ ہاں کوئٹہ جیسے شہروں میں جب لوگو ں نے جان لیا کہ اب ہر پرانا گیت بنا کچھ خرچ کیے انٹرنیٹ سے با آسانی مل سکتا ہے، تو 'گلستان' ویران ہونا شروع ہو گیا۔
ٹھیک ہے صاحب، نئی ٹیکنالوجی سے فیض یاب ہونا اچھا ہے، اس سے استفادہ نہایت خوب...اس سے استفادہ تو آوازوں کی دنیا بسانے والے لطف اللہ خاں صاحب نے بھی کیا تھا۔ اَسی برس کی عمر میں جب لوگ خود کو نیم مردہ جان کر موت کو خوش آمدید کہنے کے منتظر رہتے ہیں، انھوں نے کمپیوٹر سیکھا، اور گرامو فون سے ٹیپ کی کیسٹ پہ منتقل کی ہوئی ہزاروں اہم آوازوں کو جدید سی ڈی میں ڈھال دیا۔ ان کے 'دولت کدے' پہ بزرگوں کی معیت میں ہوئی ایک گفتگو کے دوران 'اس سب کا فائدہ؟' والے بے تکے سوال کے جواب میں کیا خوب صورت بات کہی تھی اس صاف ستھرے آدمی نے کہ، 'سوچتا ہوں شاید کبھی سائنس اس نہج پہ پہنچ جائے جب آوازوں کے ذریعے پتہ لگایا جا سکے کہ بولنے والا کتنا سچ بول رہا ہے اور کتنا جھوٹ، تب شاید یہ خزانہ بنی نوعِ انساں کے کسی کام آ سکے!' ...ابھی انھیں گزرے تو چند ہی برس ہوئے ہیں اور سنتے ہیں کہ سائنس آوازوں کے زیر و بم سے انسانی جذبات کا اندازہ لگانے والا نظام وضع کر چکی۔ اور جن احباب نے لطف اللہ خاں مرحوم (ایسے لوگ 'مرحوم' ہوتے ہیں کیا؟) کا خزانہ دیکھا ہے، وہی جانتے ہیں کہ یہ بنی نوعِ انساں کی کتنی بڑی خدمت ہو گی۔
ہاں تو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیجیے، اپنی روایت کو اس کے ذریعے آنے والی نسلوں تک منتقل کیجیے، ماضی کی ہر اچھی چیز کو اس کے ذریعے محفوظ کیجیے اور یہ امانت آگے بڑھاتے جائیں...تو کیا ہی خوب ہے۔ لیکن یہ کیا کہ آپ موسیقی کے 'گلستان' کو اجاڑ کر (بلکہ 'اکھاڑ' کر) وہاں جوتوں کی دکان بنا ڈالیں! جی صاحب، کوئٹہ کے ریگل چوک کے عین بائیں کونے پہ واقع 'گلستان' کی جگہ جوتوں کی ایک جدید دکان نے لے لی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کچھ عرصہ پہلے یہیں کہیں کتابوں کی ایک قدیم دکان کی جگہ کبابوں کی ایک دکان نے لے لی تھی۔ جو معاشرہ کتاب کی جگہ کباب اور موسیقی کی جگہ جوتے پسند کرتا ہو، اس کے ساتھ وہی ہونا چاہیے، جو بلوچستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
جب تک 'گلستان' آباد تھا، بلوچستان شاد تھا۔ یہاں کی فضاؤں میں موسیقی کے سُر بجتے تھے۔ رنگون سے پیا کا ٹیلی فون آتا تھا، ململ کا لال دوپٹہ ہوا میں اڑتا رہتا تھا، آنکھوں میں انتظار کا رنگ بھر کے دلِ بے قرار کا افسانہ لکھا جاتا تھا، بے وفائی کے شکوے کو محبت کی توہین سمجھا جاتا تھا، امیدوں بھری صبحِ فردا کے نغمے گونجتے تھے ('وہ صبح کبھی تو آئے گی' سے لے کر 'وہ صبح ہمیں سے آئے گی' تک: ساحر)۔ جب سے یہاں گولی کی بولی چلی ہے، زندگی آمیز سبھی سُر تھمتے چلے جا رہے ہیں۔ اب یہاں کی فضا میں بم دھماکوں کا شور اور راکٹ کی آوازیں گونجتی ہیں۔ سماج میں زندگی کی رمق لانی ہے تو کتابوں کی طرف واپس آئیے، اچھے میوزک کی طرف واپس آئیے، 'گلستان' آباد ہو جائے گا۔