صارف کی ایک سادہ درخواست پر بھی بینکنگ محتسب کا ادارہ متحرک ہوجاتا ہے
ادارے کی استعداد بڑھائی اور موبائل ایپلی کیشن تیار کی جارہی ہے۔
بینکنگ محتسب محمد کامران شہزاد ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے عہدے پر فائض رہ چکے ہیں اور مرکزی بینک کے امور سمیت کمرشل بینکاری میں ان کا تجربہ 38 سال کے وسیع عرصے پر محیط ہے۔
وفاقی وزارت قانون و انصاف کے 30 جنوری 2019کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے تحت محمد کامران شہزاد نے 16اپریل 2019کو بینکنگ محتسب پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی تقرری وفاقی محتسب انسٹی ٹیوشنل ریفارم ایکت 2013کے سیکشن 3کے تحت چار سال کے لیے عمل میں لائی گئی ہے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے محمد کامران شہزاد سے وفاقی محتسب انسٹی ٹیوشن ریفارم ایکٹ 2013کے سیکشن 8کے تحت 15اپریل 2019کو بینکنگ محتسب کے عہدے کا حلف لیا۔
مرکزی بینک سے وابستگی کے دوران محمد کامران شہزاد نے بیشتر کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں ڈائریکٹر، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور منیجنگ ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک بینکنگ سروسز کارپوریشن شامل ہیں جو اسٹیٹ بینک کا ذیلی ادارہ ہے۔ اس سے قبل انہیں وزیراعظم نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا تھا۔
محمد کامران شہزاد نے مالیاتی شعبے میں حکومتی اصلاحات پر عمل درآمد اور بینکاری کے شعبے کو مضبوط، جدید اور متحرک بنانے میں اہم اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ ان کو پاکستان میں اسلامی بینکاری کی بنیاد رکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستان میں مائکروفنانس بینکاری اور سرمائے کی غیرقانونی منتقلی اور دہشت گردی کے لیے سرمائے کی فراہمی کی روک تھام کے لیے بینکاری قوانین اور ریگولیشنز پر مبنی عہد کا آغاز بھی محمد کامران شہزاد نے کیا۔
محمد کامران شہزاد پاکستان سیکیوریٹی پرنٹنگ کارپوریشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس کے بورڈ میں بھی شامل رہے۔ انہوں نے اہم قومی اور بین الاقوامی کانفرنسز، اجلاسوں اور ورکشاپس میں بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت پاکستان کی نمائندگی کی۔
اسٹیٹ بینک سے وابستگی سے قبل محمد کامران شہزاد بینکنگ، فنانس، آئل اینڈ سیکٹر کے ساتھ وابستہ رہے جب کہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں 14سال تک خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ انڈسٹریل ڈیولپمنٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی سے بھی وابستہ رہے۔ محمد کامران شہزاد بزنس ایڈمنسٹریشن (اسپیشلائزیشن ان فنانس) میں ماسٹر ڈگری اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اکنامکس) کی ڈگری رکھتے ہیں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز ان پاکستان سے ڈپلوما بھی حاصل کیا ہے۔
بینکنگ محتسب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد محمد کامران شہزاد نے بینکنگ صارفین کی شکایت کو دور کرنے کے لیے ادارے کی صلاحیت کو بڑھانے پر توجہ دی ساتھ ہی بینکنگ صارفین میں شعور اور آگاہی کے فروغ کے لیے بھی کوششوں کو تیز کیا۔ پاکستان میں کورونا کی وبا کے دوران ڈیجیٹل ادائیگیوں، آن لائن بینکاری اور ای کامرس کے رجحان میں اضافہ ہوا ساتھ ہی حکومت کی مالی شمولیت بڑھانے اور بینکاری کی سہولت عام کرنے کی کوششوں سے بھی بینکنگ لین دین اور کسٹمرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اسی تناسب سے بینکنگ محتسب کو ملنے والی شکایات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم محمد کامران شہزاد کی قیادت میں بینکنگ محتسب کا ادارہ صارفین کی شکایت کا ازالہ کرنے اور بینکنگ انڈسٹری پر عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ بینک صارفین کے لیے بینکنگ محتسب کا دفتر امید کا مرکز ہے۔ صارفین کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے بینکنگ محتسب کا ادارہ کس طرح اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ اس بارے میں بینکنگ محتسب محمد کامران شہزاد کے ساتھ ایک نشست میں ہونے والی بات چیت کا احوال پیش ہے:
سوال: بینکنگ محتسب ادارے کے بارے میں کچھ بتائے۔
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب کے ادارے کا قیام پاکستان میں 2005 میں عمل میں لایا گیا۔ اس طرز کے ادارے دنیا بھر میں قائم تھے۔ اسٹیٹ بینک پاکستان نے بروقت اس ادارے کو پاکستان میں قائم کیا۔ اس وقت بینکاری لین دین اور اکائونٹس کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی، اگر یہ ادارہ اُس وقت قائم نہ ہوتا تو اِس وقت جب کہ ڈیجیٹل بینکاری اور ادائیگیوں کا رجحان غیرمعمولی تیزی سے بڑھ رہا ہے بینک صارفین کو ریلیف اور انصاف دلانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا۔ بینکنگ محتسب کے ادارے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب گذشتہ تین سال سے بینکنگ محتسب کو موصول ہونے والی شکایات میں سالانہ پچاس سے ستر فی صد تک اضافہ ہورہا ہے، جنہیں نمٹانے کے لیے بینکنگ محتسب کا ادارہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کررہا ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب کو موصول ہونے والی شکایات میں رواں سال کتنا اضافہ ہوگا ہے؟
محمد کامران شہزاد: ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بینکنگ محتسب کو گذشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں۔ تاہم رواں سال پہلے نو ماہ میں ہی شکایتوں کی تعداد 27500 تک پہنچ چکی ہے۔ بینکوں کی خدمات سے متعلق صارفین کی 40 فی صد کے لگ بھگ شکایات کا تعلق اے ٹی ایمز، الیکٹرانک فنڈ ٹرانسفر اور ای کامرس سے سے۔ بینکنگ محتسب نے گذشتہ عرصے کی چار ہزار شکایتوں کو شامل کرکے جولائی تا ستمبر 2021کی تیسری سہ ماہی میں صارفین کی 31700شکایات کا جائزہ لیتے ہوئے 24326 شکایات کو نمٹادیا۔
رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بینکنگ محتسب نے صارفین کی بینکوں سے متعلق شکایات کی شنوائی کرتے ہوئے صارفین کو بینکوں سے 47کروڑ روپے کا ریلیف دلوایا جب کہ گذشتہ سال کے بارہ مہینوں میں صارفین کو 58کروڑ روپے کا ریلیف دلوایا گیا تھا۔ ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکنگ کی سہولت کے استعمال کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ہی صارفین کی بینکوں سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ پہلی ششماہی تک بینکنگ محتسب کو ملنے والی شکایات گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 80 فی صد تک زائد رہی تھیں۔
رواں سال کی تیسری سہ ماہی جولائی تا ستمبر 2021کے دوران بینکنگ محتسب کو صارفین کی جانب سے 7376 نئی شکایات موصول ہوئیں جب کہ گذشتہ عرصے کی 9478 شکایات تاحال زیرغور ہیں اس طرح ستمبر 2021 تک بینکنگ محتسب کے پاس 16ہزار 854 درخواستیں زیرغور تھیں جن میں سے 9416 درخواستیں نمٹادی گئیں اور 7438 درخواستیں اب بھی زیرغور ہیں۔ جولائی تا ستمبر نمٹائی جانے والی 9416 درخواستوں کے ذریعے بینکنگ صارفین کو 16کروڑ روپے سے زائد کا ریلیف ملا ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب کا ادارہ صارفین کی بڑھتی ہوئی شکایات کو بروقت نمٹانے کے لیے اپنی استعداد میں کس طرح اضافہ کررہا ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب کے ادارے میں گذشتہ ڈھائی سال کے دوران افرادی قوت کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی۔ کچھ سنیئر افراد ریٹائر ہوئے جن کی جگہ پُر کرنے کے لیے تقرریاں کی گئیں۔ اسی طرح ایڈوائزر اور اسسٹنٹس کی اسامیاں نکالی گئیں، جنہیں سرکاری طریقۂ کار اور ضوابط کے مطابق پُر کیا گیا۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بینکنگ محتسب کے ادارے کا تمام اسٹاف بہت باصلاحیت ہے۔ اس میں زیادہ تر بینکنگ انڈسٹری کے سنیئر اور تجربہ کار افراد کی تقرری کی جاتی ہے جن کے پاس بینکنگ کا وسیع تجربہ ہوتا ہے۔ انویسٹی گیشن کرنے والے نسبتاً کم عمر لوگ ہوتے ہیں جنہیں فیلڈ میں کام کرنا ہوتا ہے ۔
سوال: بینک صارفین کی شکایات بڑھنے کی شکایات بڑھ رہی ہیں: وجہ کیا ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکاری لین دین بڑھنے بالخصوص ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت اور آن لائن فنڈ ٹرانسفر کی سہولت کی وجہ سے جہاں صارفین کو آسانی ہورہی ہے وہیں نوسرباز اور دھوکے باز عناصر اس کا غلط فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اگرچہ ملکی قوانین کو سخت کیا جارہا ہے اور اسٹیٹ بینک صارفین کی آگاہی کے لیے مسلسل اقدامات کررہا ہے، اس کے باوجود سادہ لوح افراد نشانہ بن رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ شعور اور آگاہی کا فقدان ہے۔
بینک صارفین کی شکایات ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہوتی ہیں اور ترقی یافتہ ملکوں کے صارفین بھی سائبر کرائم کی وارداتوں کا نشانہ بنتے ہیں، لیکن پاکستان کے مقابلے میں یہ تناسب کافی کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح بھی کم ہے اور پھر فنانشل لٹریسی بھی محدود ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی صارفین کو اس بات کا شعور اور آگاہی دی جائے کہ وہ اپنی شناخت بالخصوص اکائونٹس کی تفصیلات کسی سے شیئر نہ کریں۔ اسے ایک مسلسل عمل کی طرح جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسکول اور تعلیمی اداروں میں سماجی اور اہم سرکاری شخصیات پبلک سروس پیغامات کے ذریعے یہ شعور اجاگر کرسکتی ہیں۔ بینکنگ لین دین، ڈیجیٹل ادائیگیوں میں معلومات کو خفیہ رکھنے کا شعور اجاگر کرکے صارفین کی شکایات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب سے رابطہ کرنا کتنا آسان ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب سے رابطہ کرنا اور بینکوں سے متعلق کسی شکایت کے حل کا طریقہ کار بہت آسان ہے۔ صارف کی ایک سادہ درخواست پر بھی بینکنگ محتسب کا ادارہ متحرک ہوجاتا ہے۔ ای میل کے ذریعے بھی شکایات جمع کرائی جاسکتی ہیں۔ بینکنگ محتسب کی ویب سائٹ کے ذریعے آن لائن شکایت جمع کرائی جاسکتی ہے۔ اب ویب سائٹ کو مزید موثر بنایا جارہا ہے۔ ایک آن لائن پرفارما بھر کے بینکنگ محتسب سے رابطہ کرکے شکایت درج کرائی جاسکے گی۔
بینکنگ محتسب کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ ملتان میں بھی ایک دفتر قائم ہے جہاں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم کے پورٹ پر جانے والی شکایات بھی بینکنگ محتسب کے دفتر ہی آتی ہیں۔ بینکنگ محتسب کے ادارے کی خدمات کا دائرہ مزید وسیع کرنے کے لیے فیصل آباد اور آزاد کشمیر میں بھی دو نئے دفاتر کھولے جارہے ہیں، جو رواں سال کے آخر تک کام شروع کردیں گے۔ ان میں سے کسی بھی دفتر میں تحریری درخواست جمع کراکے انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں اسٹیٹ بینک سے سرکلر جاری کیا ہوا ہے بینک اسٹیٹمنٹ میں نیچے لکھا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اعتراض ہے تو بینکنگ محتسب سے رجوع کریں اور اسٹیٹ بینک نے شکایت آنے پر کمرشل بینکوں کو کہا ہے کہ اگر شکایت داخل دفتر کی ہے تو اس پر لکھیں کہ اگر آپ کی شکایت برقرار ہے تو بینکنگ محتسب سے رجوع کرسکتے ہیں۔ بینکنگ محتسب کے ادارے کو اب دیہات سے بھی شکایات مل رہی ہیں حتی کہ خواتین کی بینکوں اور ادائیگیوں سے متعلق شکایات بھی بڑھ رہی ہے اور مجموعی شکایات میں خواتین کی شکایات کا تناسب 10سے 12فیصد پر آچکا ہے ۔
صارفین کی بینکنگ محتسب کے ادارے تک رسائی آسان بنانے کے لیے اب بینکنگ محتسب کی موبائل ایپلی کیشن تیار کی جارہی ہے جس کے ذریعے خودکار طریقے سے فارم بھر کے شکایات جمع کرانے کے ساتھ اس کی ٹریکنگ بھی کی جاسکے گی کہ درخواست کس مرحلے میں ہے۔ موبائل ایپلی کیشن اور ویب سائٹ کو جدید بنانے کے لیے کنٹریکٹ ہوچکا ہے اور اگلے تین سے چار ماہ میں صارفین موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے بھی بینکوں سے متعلق شکایات کے لیے بینکنگ محتسب سے رجوع کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ زوم کے ذریعے مقدمات کی سماعت بھی ہوسکے گی تاہم دستاویزی ثبوتوں کی طبعی طور پر جانچ کے لیے روایتی طریقہ ہی جاری رکھا جائے گا ۔
سوال: ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت اور ای کامرس کے بڑھتے ہوئے رجحان میں صارفین کس طرح خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
محمد کامران شہزاد: جیسے جیسے ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو آسان بنارہی ہے وہیں اس کے منفی استعمال سے لوگوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ صارف اپنی شناخت پن کوڈ، اکائونٹ نمبر سی این آئی سی اور دیگر ذاتی کوائف کسی کو نہ بتائے۔ اگر اس ضمن میں کوئی فون کرے اور کہے کہ ہم بینک یا کسی ادارے سے بات کررہے ہیں تو صارفین اس بات پر کبھی یقین نہ کریں، کیوںکہ بینک کسی کسٹمر کو فون کرکے کوائف نہیں لیتے اور ایسی گم نام کالز پر زیادہ دیر بات نہ کریں، کیوںکہ ہیکرز باتوں باتوں میں کوئی نہ کوئی کام کی بات اگلوالیتے ہیں، جو صارف کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، بہتر ہے کہ یہ کہہ کر کال منقطع کردیں کہ میں خود بینک جاکر تفصیلات جمع کرادوں گا۔ بینکنگ محتسب کو اگر موبائل فون نمبر سے فراڈ کی شکایت ملتی ہے سب سے پہلے وہ نمبر ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو دے کر بند کرادیا جاتا ہے۔
سوال: کیا سائبر کرائمز یا دھوکہ دہی کے معاملات میں بھی بینکنگ محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے؟
محمد کامران شہزاد: سائبر کرائمز یا دھوکا دہی کے معاملات وفاقی ادارہ تحقیقات یا پولیس کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں جو وہ تفتیش کرکے چالان عدالت میں پیش کرتے ہیں اور جرم ثابت ہونے یا سزا ہونے پر رقم کی ریکوری کے لیے الگ چارہ جوئی کی جاتی ہے۔ بینکنگ محتسب کو ہائی کورٹ کے جج کے مساوی اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم وہ کرمنل کیسز نہیں دیکھ سکتے۔ بینکنگ محتسب کا ادارہ بینکوں سے متعلق صارفین یا عوام کی شکایات پر تیزی کے ساتھ انصاف کرتا ہے جس پر شکایت کنندہ کا کوئی خرچ نہیں آتا نہ ہی کوئی وکیل کرنا پڑتا ہے۔
بینکنگ محتسب کی اپنی ٹیم اور لیگل ڈپارٹمنٹ اس مقدمہ میں شکایت کنندہ کا مقدمہ لڑتے ہیں اور اس میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا، بینکوں کو نوٹس دیتے ہیں معاملے پر بینک کا موقف اور ثبوت دیکھے جاتے ہیں اور جلد سے جلد فیصلہ سنادیا جاتا ہے۔ بینکنگ محتسب کا ادارہ 25 فی صد شکایات کو ایک ماہ کے اندر نمٹادیتا ہے، جب کہ 65 فیصد شکایات 90روز میں نمٹادی جاتی ہیں۔ ایسی شکایات میں وقت اس لیے لگتا ہے کہ بینکنگ محتسب کو خود جاکر جج کی حیثیت سے سماعت کرنا ہوتی ہے اور اس شہر میں جانا ہوتا ہے جہاں کا معاملہ ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ شیڈول بنایا جاتا ہے ایک ہفتے میں اسی سے سو سماعت بھی ہوتی ہیں۔
سوال: کیا بینکوں کے لاکرز ٹوٹنے اور چوری ہونے کی صورت میں متاثرین بینکنگ محتسب سے رجوع کرسکتے ہیں؟
محمد کامران شہزاد: لاکرز بینکنگ ٹرانزیکشن نہیں ہے۔ یہ ایک اضافی سہولت ہے جو بینک فراہم کررہے ہیں۔ اس پر بینکنگ کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا یہ سروس بعض نجی والٹ بھی پوش علاقوں میں فراہم کرتے ہیں۔ تاہم اسٹیٹ بینک کی جانب سے لاکرز کے سائز کے لحاظ سے انشورنس کی حد مقرر کی جاتی ہے۔ اس سہولت سے استفادہ کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انشورنس کی حد کے مطابق ہی قیمتی چیزیں لاکرز میں رکھیں ان لاکرز میں نقد رقم رکھنا ممنوع ہوتی ہے اور بینکوں کو علم نہیں ہوتا کہ لاکر لینے والے کیا رکھ رہے ہیں۔
سوال: پاکستان میں بینک اکائونٹس کی تعداد میں اضافے کے ساتھ صارفین کی شکایات میں بھی اضافہ ہوگا۔ کیا بینکنگ محتسب کا ادارہ بڑھتی ہوئی شکایات نمٹانے کے لیے تیار ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب کے ادارے کی استعداد بڑھائی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی اور آٹومیشن سے بھی مدد مل رہی ہے۔ اس کے ساتھ دو شہروں میں نئے دفاتر بھی قائم ہورہے ہیں۔ بینکنگ محتسب کے ادارے میں بینکنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ اس لیے صارفین کی شکایات کو نمٹانے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ بینکنگ محتسب پوری طرح تیار ہے۔ دنیا بھر میں بینک صارفین کو شکایات ہوتی ہیں پاکستان میں بھی ہیں انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارا ہدف ہے کہ ہر سال آنے والی 80 فی صد بروقت شکایات نمٹائی جاتی رہیں۔ پاکستان میں بینک اکائونٹس کی تعداد خطے کے دیگر ملکوں سے کافی کم ہے۔ ان میں اضافہ ہونا ہے۔ جیسے جیسے معیشت دستاویزی شکل اختیار کرے گی اور حکومت کے فنانشل انکلوژن ویژن کے اہداف پورے ہوں گے، پاکستان میں بینک اکائونٹس کی تعداد بڑھے گی۔ بینکنگ محتسب اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب کے دفتر یومیہ درجنوں شکایات آتی ہیں۔ ان میں سے کوئی شکایت جو آپ نے نمٹائی ہو اور یاد رہ گئی ہو؟
محمد کامران شہزاد: کافی شکایات ہیں اور ہر شکایت کنندہ کے لیے اس کی رقم بہت اہم ہوتی ہے، لیکن حال ہی میں ایک رائیڈر جو ہوم ڈیلیوری کرتا تھا اپنی تنخواہ نکلوانے اے ٹی ایم گیا تو جلدی میں وہ رقم لیے بغیر ہی باہر آگیا۔ اس کے بعد آنے والے کسٹمر نے وہ رقم لے لی۔ رائیڈر نے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا۔ ہم نے بینک سے سی سی ٹی وی نکلوائی تو رقم لینے والے کسٹمر کی شناخت ہوگئی۔ وہ اس بینک کا کسٹمر نہ تھا۔
ہم نے اس کسٹمر کو بلواکر رقم واپس کرنے کا کہا پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن پھر جب بتایا کہ سی سی ٹی وی موجود ہے تو اس نے غلطی مان لی اور رائیڈر کی رقم واپس کی، جس پر اس نے بہت شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح ایک بیوہ خاتون نے اپنے شوہر سے ملنے والے 30 لاکھ روپے بینک میں جمع کرائے جو بینک منیجر نے غبن کرلیے۔ اس بیوہ نے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا جس کی تحقیقات کی گئیں اور بیوہ کو رقوم واپس دلوائی گئی۔ وہ خاتون آج تک شکریہ کے خط لکھتی رہتی ہیں اور دعائیں دیتی ہیں۔
سوال: آپ عوام اور بینک صارفین کو کیا پیغام دیں گے؟
محمد کامران شہزاد: صارفین بینک ٹرانزیکشن بالخصوص ڈیجیٹل ادائیگیوں میں احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ اپنی ذاتی معلومات کسی سے شیئر نہ کریں۔ فون پر کبھی بینک یا کوئی ادارہ معلومات حاصل نہیں کرتا۔ ایسی فون کالز پر زیادہ دیر بات نہ کریں اور اپنے بینک سے رجوع کریں۔ خود بھی ان اصولوں پر عمل کریں اور دوسروں کی بھی راہ نمائی کریں۔
وفاقی وزارت قانون و انصاف کے 30 جنوری 2019کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے تحت محمد کامران شہزاد نے 16اپریل 2019کو بینکنگ محتسب پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی تقرری وفاقی محتسب انسٹی ٹیوشنل ریفارم ایکت 2013کے سیکشن 3کے تحت چار سال کے لیے عمل میں لائی گئی ہے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے محمد کامران شہزاد سے وفاقی محتسب انسٹی ٹیوشن ریفارم ایکٹ 2013کے سیکشن 8کے تحت 15اپریل 2019کو بینکنگ محتسب کے عہدے کا حلف لیا۔
مرکزی بینک سے وابستگی کے دوران محمد کامران شہزاد نے بیشتر کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں ڈائریکٹر، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور منیجنگ ڈائریکٹر، اسٹیٹ بینک بینکنگ سروسز کارپوریشن شامل ہیں جو اسٹیٹ بینک کا ذیلی ادارہ ہے۔ اس سے قبل انہیں وزیراعظم نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا تھا۔
محمد کامران شہزاد نے مالیاتی شعبے میں حکومتی اصلاحات پر عمل درآمد اور بینکاری کے شعبے کو مضبوط، جدید اور متحرک بنانے میں اہم اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ ان کو پاکستان میں اسلامی بینکاری کی بنیاد رکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستان میں مائکروفنانس بینکاری اور سرمائے کی غیرقانونی منتقلی اور دہشت گردی کے لیے سرمائے کی فراہمی کی روک تھام کے لیے بینکاری قوانین اور ریگولیشنز پر مبنی عہد کا آغاز بھی محمد کامران شہزاد نے کیا۔
محمد کامران شہزاد پاکستان سیکیوریٹی پرنٹنگ کارپوریشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس کے بورڈ میں بھی شامل رہے۔ انہوں نے اہم قومی اور بین الاقوامی کانفرنسز، اجلاسوں اور ورکشاپس میں بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت پاکستان کی نمائندگی کی۔
اسٹیٹ بینک سے وابستگی سے قبل محمد کامران شہزاد بینکنگ، فنانس، آئل اینڈ سیکٹر کے ساتھ وابستہ رہے جب کہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں 14سال تک خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ انڈسٹریل ڈیولپمنٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی سے بھی وابستہ رہے۔ محمد کامران شہزاد بزنس ایڈمنسٹریشن (اسپیشلائزیشن ان فنانس) میں ماسٹر ڈگری اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اکنامکس) کی ڈگری رکھتے ہیں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز ان پاکستان سے ڈپلوما بھی حاصل کیا ہے۔
بینکنگ محتسب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد محمد کامران شہزاد نے بینکنگ صارفین کی شکایت کو دور کرنے کے لیے ادارے کی صلاحیت کو بڑھانے پر توجہ دی ساتھ ہی بینکنگ صارفین میں شعور اور آگاہی کے فروغ کے لیے بھی کوششوں کو تیز کیا۔ پاکستان میں کورونا کی وبا کے دوران ڈیجیٹل ادائیگیوں، آن لائن بینکاری اور ای کامرس کے رجحان میں اضافہ ہوا ساتھ ہی حکومت کی مالی شمولیت بڑھانے اور بینکاری کی سہولت عام کرنے کی کوششوں سے بھی بینکنگ لین دین اور کسٹمرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اسی تناسب سے بینکنگ محتسب کو ملنے والی شکایات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم محمد کامران شہزاد کی قیادت میں بینکنگ محتسب کا ادارہ صارفین کی شکایت کا ازالہ کرنے اور بینکنگ انڈسٹری پر عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ بینک صارفین کے لیے بینکنگ محتسب کا دفتر امید کا مرکز ہے۔ صارفین کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے بینکنگ محتسب کا ادارہ کس طرح اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ اس بارے میں بینکنگ محتسب محمد کامران شہزاد کے ساتھ ایک نشست میں ہونے والی بات چیت کا احوال پیش ہے:
سوال: بینکنگ محتسب ادارے کے بارے میں کچھ بتائے۔
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب کے ادارے کا قیام پاکستان میں 2005 میں عمل میں لایا گیا۔ اس طرز کے ادارے دنیا بھر میں قائم تھے۔ اسٹیٹ بینک پاکستان نے بروقت اس ادارے کو پاکستان میں قائم کیا۔ اس وقت بینکاری لین دین اور اکائونٹس کی تعداد اتنی زیادہ نہ تھی، اگر یہ ادارہ اُس وقت قائم نہ ہوتا تو اِس وقت جب کہ ڈیجیٹل بینکاری اور ادائیگیوں کا رجحان غیرمعمولی تیزی سے بڑھ رہا ہے بینک صارفین کو ریلیف اور انصاف دلانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا۔ بینکنگ محتسب کے ادارے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب گذشتہ تین سال سے بینکنگ محتسب کو موصول ہونے والی شکایات میں سالانہ پچاس سے ستر فی صد تک اضافہ ہورہا ہے، جنہیں نمٹانے کے لیے بینکنگ محتسب کا ادارہ اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کررہا ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب کو موصول ہونے والی شکایات میں رواں سال کتنا اضافہ ہوگا ہے؟
محمد کامران شہزاد: ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بینکنگ محتسب کو گذشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں۔ تاہم رواں سال پہلے نو ماہ میں ہی شکایتوں کی تعداد 27500 تک پہنچ چکی ہے۔ بینکوں کی خدمات سے متعلق صارفین کی 40 فی صد کے لگ بھگ شکایات کا تعلق اے ٹی ایمز، الیکٹرانک فنڈ ٹرانسفر اور ای کامرس سے سے۔ بینکنگ محتسب نے گذشتہ عرصے کی چار ہزار شکایتوں کو شامل کرکے جولائی تا ستمبر 2021کی تیسری سہ ماہی میں صارفین کی 31700شکایات کا جائزہ لیتے ہوئے 24326 شکایات کو نمٹادیا۔
رواں سال کے پہلے نو ماہ کے دوران بینکنگ محتسب نے صارفین کی بینکوں سے متعلق شکایات کی شنوائی کرتے ہوئے صارفین کو بینکوں سے 47کروڑ روپے کا ریلیف دلوایا جب کہ گذشتہ سال کے بارہ مہینوں میں صارفین کو 58کروڑ روپے کا ریلیف دلوایا گیا تھا۔ ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکنگ کی سہولت کے استعمال کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ہی صارفین کی بینکوں سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ پہلی ششماہی تک بینکنگ محتسب کو ملنے والی شکایات گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 80 فی صد تک زائد رہی تھیں۔
رواں سال کی تیسری سہ ماہی جولائی تا ستمبر 2021کے دوران بینکنگ محتسب کو صارفین کی جانب سے 7376 نئی شکایات موصول ہوئیں جب کہ گذشتہ عرصے کی 9478 شکایات تاحال زیرغور ہیں اس طرح ستمبر 2021 تک بینکنگ محتسب کے پاس 16ہزار 854 درخواستیں زیرغور تھیں جن میں سے 9416 درخواستیں نمٹادی گئیں اور 7438 درخواستیں اب بھی زیرغور ہیں۔ جولائی تا ستمبر نمٹائی جانے والی 9416 درخواستوں کے ذریعے بینکنگ صارفین کو 16کروڑ روپے سے زائد کا ریلیف ملا ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب کا ادارہ صارفین کی بڑھتی ہوئی شکایات کو بروقت نمٹانے کے لیے اپنی استعداد میں کس طرح اضافہ کررہا ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب کے ادارے میں گذشتہ ڈھائی سال کے دوران افرادی قوت کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی۔ کچھ سنیئر افراد ریٹائر ہوئے جن کی جگہ پُر کرنے کے لیے تقرریاں کی گئیں۔ اسی طرح ایڈوائزر اور اسسٹنٹس کی اسامیاں نکالی گئیں، جنہیں سرکاری طریقۂ کار اور ضوابط کے مطابق پُر کیا گیا۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بینکنگ محتسب کے ادارے کا تمام اسٹاف بہت باصلاحیت ہے۔ اس میں زیادہ تر بینکنگ انڈسٹری کے سنیئر اور تجربہ کار افراد کی تقرری کی جاتی ہے جن کے پاس بینکنگ کا وسیع تجربہ ہوتا ہے۔ انویسٹی گیشن کرنے والے نسبتاً کم عمر لوگ ہوتے ہیں جنہیں فیلڈ میں کام کرنا ہوتا ہے ۔
سوال: بینک صارفین کی شکایات بڑھنے کی شکایات بڑھ رہی ہیں: وجہ کیا ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکاری لین دین بڑھنے بالخصوص ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت اور آن لائن فنڈ ٹرانسفر کی سہولت کی وجہ سے جہاں صارفین کو آسانی ہورہی ہے وہیں نوسرباز اور دھوکے باز عناصر اس کا غلط فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اگرچہ ملکی قوانین کو سخت کیا جارہا ہے اور اسٹیٹ بینک صارفین کی آگاہی کے لیے مسلسل اقدامات کررہا ہے، اس کے باوجود سادہ لوح افراد نشانہ بن رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ شعور اور آگاہی کا فقدان ہے۔
بینک صارفین کی شکایات ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہوتی ہیں اور ترقی یافتہ ملکوں کے صارفین بھی سائبر کرائم کی وارداتوں کا نشانہ بنتے ہیں، لیکن پاکستان کے مقابلے میں یہ تناسب کافی کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح بھی کم ہے اور پھر فنانشل لٹریسی بھی محدود ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی صارفین کو اس بات کا شعور اور آگاہی دی جائے کہ وہ اپنی شناخت بالخصوص اکائونٹس کی تفصیلات کسی سے شیئر نہ کریں۔ اسے ایک مسلسل عمل کی طرح جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسکول اور تعلیمی اداروں میں سماجی اور اہم سرکاری شخصیات پبلک سروس پیغامات کے ذریعے یہ شعور اجاگر کرسکتی ہیں۔ بینکنگ لین دین، ڈیجیٹل ادائیگیوں میں معلومات کو خفیہ رکھنے کا شعور اجاگر کرکے صارفین کی شکایات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب سے رابطہ کرنا کتنا آسان ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب سے رابطہ کرنا اور بینکوں سے متعلق کسی شکایت کے حل کا طریقہ کار بہت آسان ہے۔ صارف کی ایک سادہ درخواست پر بھی بینکنگ محتسب کا ادارہ متحرک ہوجاتا ہے۔ ای میل کے ذریعے بھی شکایات جمع کرائی جاسکتی ہیں۔ بینکنگ محتسب کی ویب سائٹ کے ذریعے آن لائن شکایت جمع کرائی جاسکتی ہے۔ اب ویب سائٹ کو مزید موثر بنایا جارہا ہے۔ ایک آن لائن پرفارما بھر کے بینکنگ محتسب سے رابطہ کرکے شکایت درج کرائی جاسکے گی۔
بینکنگ محتسب کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ ملتان میں بھی ایک دفتر قائم ہے جہاں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم کے پورٹ پر جانے والی شکایات بھی بینکنگ محتسب کے دفتر ہی آتی ہیں۔ بینکنگ محتسب کے ادارے کی خدمات کا دائرہ مزید وسیع کرنے کے لیے فیصل آباد اور آزاد کشمیر میں بھی دو نئے دفاتر کھولے جارہے ہیں، جو رواں سال کے آخر تک کام شروع کردیں گے۔ ان میں سے کسی بھی دفتر میں تحریری درخواست جمع کراکے انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں اسٹیٹ بینک سے سرکلر جاری کیا ہوا ہے بینک اسٹیٹمنٹ میں نیچے لکھا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اعتراض ہے تو بینکنگ محتسب سے رجوع کریں اور اسٹیٹ بینک نے شکایت آنے پر کمرشل بینکوں کو کہا ہے کہ اگر شکایت داخل دفتر کی ہے تو اس پر لکھیں کہ اگر آپ کی شکایت برقرار ہے تو بینکنگ محتسب سے رجوع کرسکتے ہیں۔ بینکنگ محتسب کے ادارے کو اب دیہات سے بھی شکایات مل رہی ہیں حتی کہ خواتین کی بینکوں اور ادائیگیوں سے متعلق شکایات بھی بڑھ رہی ہے اور مجموعی شکایات میں خواتین کی شکایات کا تناسب 10سے 12فیصد پر آچکا ہے ۔
صارفین کی بینکنگ محتسب کے ادارے تک رسائی آسان بنانے کے لیے اب بینکنگ محتسب کی موبائل ایپلی کیشن تیار کی جارہی ہے جس کے ذریعے خودکار طریقے سے فارم بھر کے شکایات جمع کرانے کے ساتھ اس کی ٹریکنگ بھی کی جاسکے گی کہ درخواست کس مرحلے میں ہے۔ موبائل ایپلی کیشن اور ویب سائٹ کو جدید بنانے کے لیے کنٹریکٹ ہوچکا ہے اور اگلے تین سے چار ماہ میں صارفین موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے بھی بینکوں سے متعلق شکایات کے لیے بینکنگ محتسب سے رجوع کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ زوم کے ذریعے مقدمات کی سماعت بھی ہوسکے گی تاہم دستاویزی ثبوتوں کی طبعی طور پر جانچ کے لیے روایتی طریقہ ہی جاری رکھا جائے گا ۔
سوال: ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت اور ای کامرس کے بڑھتے ہوئے رجحان میں صارفین کس طرح خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
محمد کامران شہزاد: جیسے جیسے ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو آسان بنارہی ہے وہیں اس کے منفی استعمال سے لوگوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ صارف اپنی شناخت پن کوڈ، اکائونٹ نمبر سی این آئی سی اور دیگر ذاتی کوائف کسی کو نہ بتائے۔ اگر اس ضمن میں کوئی فون کرے اور کہے کہ ہم بینک یا کسی ادارے سے بات کررہے ہیں تو صارفین اس بات پر کبھی یقین نہ کریں، کیوںکہ بینک کسی کسٹمر کو فون کرکے کوائف نہیں لیتے اور ایسی گم نام کالز پر زیادہ دیر بات نہ کریں، کیوںکہ ہیکرز باتوں باتوں میں کوئی نہ کوئی کام کی بات اگلوالیتے ہیں، جو صارف کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، بہتر ہے کہ یہ کہہ کر کال منقطع کردیں کہ میں خود بینک جاکر تفصیلات جمع کرادوں گا۔ بینکنگ محتسب کو اگر موبائل فون نمبر سے فراڈ کی شکایت ملتی ہے سب سے پہلے وہ نمبر ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو دے کر بند کرادیا جاتا ہے۔
سوال: کیا سائبر کرائمز یا دھوکہ دہی کے معاملات میں بھی بینکنگ محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے؟
محمد کامران شہزاد: سائبر کرائمز یا دھوکا دہی کے معاملات وفاقی ادارہ تحقیقات یا پولیس کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں جو وہ تفتیش کرکے چالان عدالت میں پیش کرتے ہیں اور جرم ثابت ہونے یا سزا ہونے پر رقم کی ریکوری کے لیے الگ چارہ جوئی کی جاتی ہے۔ بینکنگ محتسب کو ہائی کورٹ کے جج کے مساوی اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم وہ کرمنل کیسز نہیں دیکھ سکتے۔ بینکنگ محتسب کا ادارہ بینکوں سے متعلق صارفین یا عوام کی شکایات پر تیزی کے ساتھ انصاف کرتا ہے جس پر شکایت کنندہ کا کوئی خرچ نہیں آتا نہ ہی کوئی وکیل کرنا پڑتا ہے۔
بینکنگ محتسب کی اپنی ٹیم اور لیگل ڈپارٹمنٹ اس مقدمہ میں شکایت کنندہ کا مقدمہ لڑتے ہیں اور اس میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا، بینکوں کو نوٹس دیتے ہیں معاملے پر بینک کا موقف اور ثبوت دیکھے جاتے ہیں اور جلد سے جلد فیصلہ سنادیا جاتا ہے۔ بینکنگ محتسب کا ادارہ 25 فی صد شکایات کو ایک ماہ کے اندر نمٹادیتا ہے، جب کہ 65 فیصد شکایات 90روز میں نمٹادی جاتی ہیں۔ ایسی شکایات میں وقت اس لیے لگتا ہے کہ بینکنگ محتسب کو خود جاکر جج کی حیثیت سے سماعت کرنا ہوتی ہے اور اس شہر میں جانا ہوتا ہے جہاں کا معاملہ ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ شیڈول بنایا جاتا ہے ایک ہفتے میں اسی سے سو سماعت بھی ہوتی ہیں۔
سوال: کیا بینکوں کے لاکرز ٹوٹنے اور چوری ہونے کی صورت میں متاثرین بینکنگ محتسب سے رجوع کرسکتے ہیں؟
محمد کامران شہزاد: لاکرز بینکنگ ٹرانزیکشن نہیں ہے۔ یہ ایک اضافی سہولت ہے جو بینک فراہم کررہے ہیں۔ اس پر بینکنگ کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا یہ سروس بعض نجی والٹ بھی پوش علاقوں میں فراہم کرتے ہیں۔ تاہم اسٹیٹ بینک کی جانب سے لاکرز کے سائز کے لحاظ سے انشورنس کی حد مقرر کی جاتی ہے۔ اس سہولت سے استفادہ کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انشورنس کی حد کے مطابق ہی قیمتی چیزیں لاکرز میں رکھیں ان لاکرز میں نقد رقم رکھنا ممنوع ہوتی ہے اور بینکوں کو علم نہیں ہوتا کہ لاکر لینے والے کیا رکھ رہے ہیں۔
سوال: پاکستان میں بینک اکائونٹس کی تعداد میں اضافے کے ساتھ صارفین کی شکایات میں بھی اضافہ ہوگا۔ کیا بینکنگ محتسب کا ادارہ بڑھتی ہوئی شکایات نمٹانے کے لیے تیار ہے؟
محمد کامران شہزاد: بینکنگ محتسب کے ادارے کی استعداد بڑھائی جارہی ہے۔ ٹیکنالوجی اور آٹومیشن سے بھی مدد مل رہی ہے۔ اس کے ساتھ دو شہروں میں نئے دفاتر بھی قائم ہورہے ہیں۔ بینکنگ محتسب کے ادارے میں بینکنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ اس لیے صارفین کی شکایات کو نمٹانے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ بینکنگ محتسب پوری طرح تیار ہے۔ دنیا بھر میں بینک صارفین کو شکایات ہوتی ہیں پاکستان میں بھی ہیں انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارا ہدف ہے کہ ہر سال آنے والی 80 فی صد بروقت شکایات نمٹائی جاتی رہیں۔ پاکستان میں بینک اکائونٹس کی تعداد خطے کے دیگر ملکوں سے کافی کم ہے۔ ان میں اضافہ ہونا ہے۔ جیسے جیسے معیشت دستاویزی شکل اختیار کرے گی اور حکومت کے فنانشل انکلوژن ویژن کے اہداف پورے ہوں گے، پاکستان میں بینک اکائونٹس کی تعداد بڑھے گی۔ بینکنگ محتسب اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
سوال: بینکنگ محتسب کے دفتر یومیہ درجنوں شکایات آتی ہیں۔ ان میں سے کوئی شکایت جو آپ نے نمٹائی ہو اور یاد رہ گئی ہو؟
محمد کامران شہزاد: کافی شکایات ہیں اور ہر شکایت کنندہ کے لیے اس کی رقم بہت اہم ہوتی ہے، لیکن حال ہی میں ایک رائیڈر جو ہوم ڈیلیوری کرتا تھا اپنی تنخواہ نکلوانے اے ٹی ایم گیا تو جلدی میں وہ رقم لیے بغیر ہی باہر آگیا۔ اس کے بعد آنے والے کسٹمر نے وہ رقم لے لی۔ رائیڈر نے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا۔ ہم نے بینک سے سی سی ٹی وی نکلوائی تو رقم لینے والے کسٹمر کی شناخت ہوگئی۔ وہ اس بینک کا کسٹمر نہ تھا۔
ہم نے اس کسٹمر کو بلواکر رقم واپس کرنے کا کہا پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن پھر جب بتایا کہ سی سی ٹی وی موجود ہے تو اس نے غلطی مان لی اور رائیڈر کی رقم واپس کی، جس پر اس نے بہت شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح ایک بیوہ خاتون نے اپنے شوہر سے ملنے والے 30 لاکھ روپے بینک میں جمع کرائے جو بینک منیجر نے غبن کرلیے۔ اس بیوہ نے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا جس کی تحقیقات کی گئیں اور بیوہ کو رقوم واپس دلوائی گئی۔ وہ خاتون آج تک شکریہ کے خط لکھتی رہتی ہیں اور دعائیں دیتی ہیں۔
سوال: آپ عوام اور بینک صارفین کو کیا پیغام دیں گے؟
محمد کامران شہزاد: صارفین بینک ٹرانزیکشن بالخصوص ڈیجیٹل ادائیگیوں میں احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ اپنی ذاتی معلومات کسی سے شیئر نہ کریں۔ فون پر کبھی بینک یا کوئی ادارہ معلومات حاصل نہیں کرتا۔ ایسی فون کالز پر زیادہ دیر بات نہ کریں اور اپنے بینک سے رجوع کریں۔ خود بھی ان اصولوں پر عمل کریں اور دوسروں کی بھی راہ نمائی کریں۔