معاشی صورتحال میں غفلت نہ ہو
پاکستان کو سیاسی طور پر ہم آہنگی اور استحکام کی جتنی ضرورت آج ہے، ماضی میں کبھی نہیں رہی ہے۔
RAWALPINDI:
حکومت پر اپوزیشن کا ہمہ گیر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، چینی آٹے کی قلت نے عوام کے معمولات زندگی درہم برہم کر ڈالے ہیں۔
ملک میں بے چینی، اقتصادی عدم استحکام اور معاشی اقدامات کے جمہوری ثمرات ناپید ہونے کا ڈر بڑھ رہا ہے، وزیر اعظم، دیگر وزرا سسٹم کی خرابیوں پر بحثیں کر رہے ہیں، بیروزگاری کی حقیقت پر حکومت عوام کو قائل کرنے پر زور دے رہی ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ذخیرہ اندوز اور کرپٹ عناصر ملک کو چلنے نہیں دے رہے، نظام کو جام کرنے کی سازش ہو رہی ہے، حکمرانوں اور اپوزیشن میں بیانیے کی جنگ شدید ہوچکی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت پر الیکشن کی آمد کا دباؤمزید بڑھنے لگے گا، اپوزیشن مہنگائی سے پریشان عوام کے مشترکہ مقاصد کو میڈیا پر نمایاں کر رہی ہے، قوم کو حکومت اور اپوزیشن کے انداز سیاست نے ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا ہے۔
دوسری جانب اقتصادی صورتحال ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے، کوئی ایسا سماجی اور سیاسی نظام سامنے نظر نہیں آتا جو عوام کو کوئی امید دلا سکے، ہر طرف بیانات کی گھن گرج جاری ہے، جمہوری ثمرات ادارہ جاتی ترتیب کے ساتھ دستیاب ہوتے نظر نہیں آتے، بے شمار حکومتی اقدامات اقتصادی پروگراموں کی شکل میں جستہ جستہ نظر ضرور آتے ہیں لیکن ایک مستحکم اقتصادی نظام کے فقدان کے باعث عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز الٹ پلٹ ہونے لگی ہے، جہاں اقتصادی، سماجی، سیاسی سسٹم مربوط اور جڑا ہوا معلوم ہوتا ہے ویسا نہیں ہے۔
شفاف جمہوری عمل، حکومتی ایکشن پلان اور نظام تعلیم، روزگار کی فراہمی اور زندگی کے جملہ شعبے مرکزیت کھو چکے ہیں، عوام کو کوئی سہولت، ریلیف اور روزگار کا یقین ایک نظام کی صورت دہلیز تک میسر نہیں، عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں، غریب کو روزمرہ کے مسائل نے سیاست اور زندگی کی سہولتوں سے لاتعلق کر دیا ہے، عوام میں بے یقینی کی لہر شدید ہونے کا اندیشہ شدید ہوگیا ہے، لوگ بلاوجہ خوف میں مبتلا ہیں، ماہرین نظام تعلیم پر پڑنے والے اثرات کو اندوہ ناک قرار دیتے ہیں، محنت کش طبقہ کی زندگی برباد ہوگئی ہے، دیہاڑی دار مزدور قلاش ہوگئے ہیں، حکمرانوں کو حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔
اہل سیاست کا کہنا ہے کہ نام نہاد سسٹم کو سیاسی تنازعات نے دیوار سے لگا دیا، عوام کو بجلی، چینی، گیس اور مہنگائی نے ذہنی مریض بنا دیا ہے، عام آدمی کے پاس علمی سرگرمی کے لیے کوئی صحت مند شغل اور سرگرمی باقی نہیں رہی، یہی پریشانی دامن گیر رہتی ہے کہ پٹرول کے بعد بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، بجلی کی قیمت میں ایک روپے68 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
اپوزیشن ارکان نے اجلاس میں شیم شیم کے نعرے لگائے، اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے وزیر اعظم کا ریلیف پیکیج ختم ہوگیا ہے، قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ رات کو اندھیرے میں اجلاس بلائے جا رہے ہیں، مذاق بنا لیا گیا، چینی 160 روپے کلو ہوگئی ہے۔
سینیٹ اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ سینیٹ میں اٹھا لیا، اپوزیشن نے وزیراعظم کے ریلیف پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عوام کو ریلیف پیکیج کی نہیں بلکہ بنیادی اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی ضرورت ہے، سینیٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج قرار دیا۔
قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ لوگ مر رہے ہیں کیا اس ایوان میں کسی کو غریب آدمی کی فکر نہیں، وزیراعظم نے جس ریلیف پیکیج کا علان کیا آج تک اتنا بڑا ریلیف پیکیج نہیں آیا، ملک میں مہنگائی کا پہلا طوفان1970میں آیا تھا، پی پی اور (ن) لیگ کے اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ایوان میں نعرہ بازی اور شور شرابہ کیا جس پر ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا، چیئرمین سینیٹ نے صورتحال کنٹرول کرنے کی کوشش کی تاہم اپوزیشن کے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کرگئے، قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرصدارت ہوا جس میں اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی اور وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج پر بھرپور احتجاج کیا۔
تحریک وزیر قانون فروغ نسیم نے پیش کی،خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ رات کے اندھیرے میں پٹرول بم گرائے جا رہے ہیں، رات کو ہمسایہ ملک میں پٹرول دس روپے کم ہوا ہے مگر ہمارے ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، چینی ایک سو ساٹھ روپے ہو گئی ہے، عمران خان نے کہا تھا کہ مہنگائی ہوتی ہے توحکمران چور ہے، اب ہم اس کنٹینر والے کو ڈھونڈ رہے ہیں، دو سو ارب ڈالر کہاں گئے، پانچ کروڑ ملازمتیں اور لاکھوں رہائش گاہیں کدھر گئیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں چینی کا بحران پرائیویٹ شوگر ملوں کی وجہ سے ہے، سندھ میں زیادہ تر شوگر ملیں آصف زرداری جب کہ پنجاب میں شریف خاندان کی ہیں۔ ملوں نے کرشنگ میں تاخیر کی جس کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھی ہیں، حکومت کے پاس 22 دنوں کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار ٹن چینی موجود ہے لہٰذا کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں، 15دنوں کے اندر پنجاب میں کرشنگ شروع ہوئی تو صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
یہاں وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عوام (ن) لیگ کی باتوں میں نہیں آنے والے، آج جو ہمیں حل بتا رہے ہیں یہ مسائل بھی انھی لوگوں کی وجہ سے ہیں۔ حکومت نے چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو مقرر کی تو شوگر ملوں نے اسٹاک روک لیا جس کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھیں، جب ہم چینی ریلیز کرانے گئے تو انھوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ہماری عدلیہ سے اپیل ہے کہ حکم امتناعی ختم ہونا چاہیے تاکہ حکومت لوگوں کو چینی 90 روپے کلو فراہم کر سکے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سندھ میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں آٹے کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں، کراچی میں آٹا تھیلے کی قیمت پنجاب کے مقابلہ میں 380 روپے زائد ہے۔ اس موقع پر سید فخر امام نے کہا کہ حکومت کی مؤثر پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں تین بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، رواں سیزن کپاس کی 9.2 ملین گانٹھیں پیداوار حاصل ہونے کی توقع ہے، آلو کی 5.7ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوار کے علاوہ مونگ اور پیاز کی بھی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔
حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 1950 روپے فی من مقرر کی ہے، ہمارے پاس 5 ملین ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں۔ رواں سال گندم کی سپلائی میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کھادوں پر 15ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ انھوں نے کہا چند لوگ ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کر رہے ہیں، دو دہائیوں سے زراعت کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتائج دیکھ رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ملک کو خود کفیل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ساری دنیا میں مہنگائی ہے، پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے، عالمی منڈی میں پٹرول 45 سے85 ڈالر فی بیرل پر چلا گیا ہے، پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل باقی دنیا کے مقابلے میں اب بھی سب سے سستا ہے کیونکہ حکومت نے اس پر ٹیکس اور لیویز کم کیے ہیں۔ ہم نے ماحولیات پر خصوصی توجہ دی ہے۔ 10ارب درخت لگانے جا رہے ہیں جن میں سے اڑھائی ارب لگا چکے ہیں، نیشنل پارکس کی تعداد کو دو گنا کیا جا رہا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ تمام شہریوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کی مفت سہولت حاصل ہو گی۔ حکومت صحت کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو 7سے 10 لاکھ روپے کی انشورنس فراہم کرے گی۔
چارہ گرو ! ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی و سماجی نظام کی بنیاد مستحکم ہو، عوام آسودہ حال ہوں، محاذ آرائی نہ ہو، جھگڑے ختم ہوں، عوام کو روزگار ملے، مہنگائی ختم ہو ملک میں امن و امان ہو، ترقی اور خوشحالی کے منصوبے بنیں۔ غربت کے بجائے معاشی چہل پہل ہو۔ پاکستان کو سیاسی طور پر ہم آہنگی اور استحکام کی جتنی ضرورت آج ہے، ماضی میں کبھی نہیں رہی ہے۔ ملکی معیشت پگھل رہی ہے، ایسے مواقع پر حزب اقتدار کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے، موجودہ حالات غیرمعمولی سیاسی شعور کا تقاضا کرتے ہیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہوتے چلے جائیں گے۔
حکومت پر اپوزیشن کا ہمہ گیر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، چینی آٹے کی قلت نے عوام کے معمولات زندگی درہم برہم کر ڈالے ہیں۔
ملک میں بے چینی، اقتصادی عدم استحکام اور معاشی اقدامات کے جمہوری ثمرات ناپید ہونے کا ڈر بڑھ رہا ہے، وزیر اعظم، دیگر وزرا سسٹم کی خرابیوں پر بحثیں کر رہے ہیں، بیروزگاری کی حقیقت پر حکومت عوام کو قائل کرنے پر زور دے رہی ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ذخیرہ اندوز اور کرپٹ عناصر ملک کو چلنے نہیں دے رہے، نظام کو جام کرنے کی سازش ہو رہی ہے، حکمرانوں اور اپوزیشن میں بیانیے کی جنگ شدید ہوچکی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت پر الیکشن کی آمد کا دباؤمزید بڑھنے لگے گا، اپوزیشن مہنگائی سے پریشان عوام کے مشترکہ مقاصد کو میڈیا پر نمایاں کر رہی ہے، قوم کو حکومت اور اپوزیشن کے انداز سیاست نے ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا ہے۔
دوسری جانب اقتصادی صورتحال ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے، کوئی ایسا سماجی اور سیاسی نظام سامنے نظر نہیں آتا جو عوام کو کوئی امید دلا سکے، ہر طرف بیانات کی گھن گرج جاری ہے، جمہوری ثمرات ادارہ جاتی ترتیب کے ساتھ دستیاب ہوتے نظر نہیں آتے، بے شمار حکومتی اقدامات اقتصادی پروگراموں کی شکل میں جستہ جستہ نظر ضرور آتے ہیں لیکن ایک مستحکم اقتصادی نظام کے فقدان کے باعث عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز الٹ پلٹ ہونے لگی ہے، جہاں اقتصادی، سماجی، سیاسی سسٹم مربوط اور جڑا ہوا معلوم ہوتا ہے ویسا نہیں ہے۔
شفاف جمہوری عمل، حکومتی ایکشن پلان اور نظام تعلیم، روزگار کی فراہمی اور زندگی کے جملہ شعبے مرکزیت کھو چکے ہیں، عوام کو کوئی سہولت، ریلیف اور روزگار کا یقین ایک نظام کی صورت دہلیز تک میسر نہیں، عوام شدید مایوسی کا شکار ہیں، غریب کو روزمرہ کے مسائل نے سیاست اور زندگی کی سہولتوں سے لاتعلق کر دیا ہے، عوام میں بے یقینی کی لہر شدید ہونے کا اندیشہ شدید ہوگیا ہے، لوگ بلاوجہ خوف میں مبتلا ہیں، ماہرین نظام تعلیم پر پڑنے والے اثرات کو اندوہ ناک قرار دیتے ہیں، محنت کش طبقہ کی زندگی برباد ہوگئی ہے، دیہاڑی دار مزدور قلاش ہوگئے ہیں، حکمرانوں کو حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔
اہل سیاست کا کہنا ہے کہ نام نہاد سسٹم کو سیاسی تنازعات نے دیوار سے لگا دیا، عوام کو بجلی، چینی، گیس اور مہنگائی نے ذہنی مریض بنا دیا ہے، عام آدمی کے پاس علمی سرگرمی کے لیے کوئی صحت مند شغل اور سرگرمی باقی نہیں رہی، یہی پریشانی دامن گیر رہتی ہے کہ پٹرول کے بعد بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، بجلی کی قیمت میں ایک روپے68 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
اپوزیشن ارکان نے اجلاس میں شیم شیم کے نعرے لگائے، اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے وزیر اعظم کا ریلیف پیکیج ختم ہوگیا ہے، قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ رات کو اندھیرے میں اجلاس بلائے جا رہے ہیں، مذاق بنا لیا گیا، چینی 160 روپے کلو ہوگئی ہے۔
سینیٹ اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ سینیٹ میں اٹھا لیا، اپوزیشن نے وزیراعظم کے ریلیف پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عوام کو ریلیف پیکیج کی نہیں بلکہ بنیادی اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی ضرورت ہے، سینیٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج قرار دیا۔
قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ لوگ مر رہے ہیں کیا اس ایوان میں کسی کو غریب آدمی کی فکر نہیں، وزیراعظم نے جس ریلیف پیکیج کا علان کیا آج تک اتنا بڑا ریلیف پیکیج نہیں آیا، ملک میں مہنگائی کا پہلا طوفان1970میں آیا تھا، پی پی اور (ن) لیگ کے اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ایوان میں نعرہ بازی اور شور شرابہ کیا جس پر ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا، چیئرمین سینیٹ نے صورتحال کنٹرول کرنے کی کوشش کی تاہم اپوزیشن کے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کرگئے، قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرصدارت ہوا جس میں اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی اور وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج پر بھرپور احتجاج کیا۔
تحریک وزیر قانون فروغ نسیم نے پیش کی،خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ رات کے اندھیرے میں پٹرول بم گرائے جا رہے ہیں، رات کو ہمسایہ ملک میں پٹرول دس روپے کم ہوا ہے مگر ہمارے ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، چینی ایک سو ساٹھ روپے ہو گئی ہے، عمران خان نے کہا تھا کہ مہنگائی ہوتی ہے توحکمران چور ہے، اب ہم اس کنٹینر والے کو ڈھونڈ رہے ہیں، دو سو ارب ڈالر کہاں گئے، پانچ کروڑ ملازمتیں اور لاکھوں رہائش گاہیں کدھر گئیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں چینی کا بحران پرائیویٹ شوگر ملوں کی وجہ سے ہے، سندھ میں زیادہ تر شوگر ملیں آصف زرداری جب کہ پنجاب میں شریف خاندان کی ہیں۔ ملوں نے کرشنگ میں تاخیر کی جس کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھی ہیں، حکومت کے پاس 22 دنوں کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار ٹن چینی موجود ہے لہٰذا کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں، 15دنوں کے اندر پنجاب میں کرشنگ شروع ہوئی تو صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
یہاں وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عوام (ن) لیگ کی باتوں میں نہیں آنے والے، آج جو ہمیں حل بتا رہے ہیں یہ مسائل بھی انھی لوگوں کی وجہ سے ہیں۔ حکومت نے چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو مقرر کی تو شوگر ملوں نے اسٹاک روک لیا جس کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھیں، جب ہم چینی ریلیز کرانے گئے تو انھوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ہماری عدلیہ سے اپیل ہے کہ حکم امتناعی ختم ہونا چاہیے تاکہ حکومت لوگوں کو چینی 90 روپے کلو فراہم کر سکے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سندھ میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں آٹے کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں، کراچی میں آٹا تھیلے کی قیمت پنجاب کے مقابلہ میں 380 روپے زائد ہے۔ اس موقع پر سید فخر امام نے کہا کہ حکومت کی مؤثر پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں تین بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، رواں سیزن کپاس کی 9.2 ملین گانٹھیں پیداوار حاصل ہونے کی توقع ہے، آلو کی 5.7ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوار کے علاوہ مونگ اور پیاز کی بھی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔
حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 1950 روپے فی من مقرر کی ہے، ہمارے پاس 5 ملین ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں۔ رواں سال گندم کی سپلائی میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کھادوں پر 15ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ انھوں نے کہا چند لوگ ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کر رہے ہیں، دو دہائیوں سے زراعت کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتائج دیکھ رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ملک کو خود کفیل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ساری دنیا میں مہنگائی ہے، پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے، عالمی منڈی میں پٹرول 45 سے85 ڈالر فی بیرل پر چلا گیا ہے، پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل باقی دنیا کے مقابلے میں اب بھی سب سے سستا ہے کیونکہ حکومت نے اس پر ٹیکس اور لیویز کم کیے ہیں۔ ہم نے ماحولیات پر خصوصی توجہ دی ہے۔ 10ارب درخت لگانے جا رہے ہیں جن میں سے اڑھائی ارب لگا چکے ہیں، نیشنل پارکس کی تعداد کو دو گنا کیا جا رہا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ تمام شہریوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کی مفت سہولت حاصل ہو گی۔ حکومت صحت کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو 7سے 10 لاکھ روپے کی انشورنس فراہم کرے گی۔
چارہ گرو ! ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی و سماجی نظام کی بنیاد مستحکم ہو، عوام آسودہ حال ہوں، محاذ آرائی نہ ہو، جھگڑے ختم ہوں، عوام کو روزگار ملے، مہنگائی ختم ہو ملک میں امن و امان ہو، ترقی اور خوشحالی کے منصوبے بنیں۔ غربت کے بجائے معاشی چہل پہل ہو۔ پاکستان کو سیاسی طور پر ہم آہنگی اور استحکام کی جتنی ضرورت آج ہے، ماضی میں کبھی نہیں رہی ہے۔ ملکی معیشت پگھل رہی ہے، ایسے مواقع پر حزب اقتدار کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے، موجودہ حالات غیرمعمولی سیاسی شعور کا تقاضا کرتے ہیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہوتے چلے جائیں گے۔