اونٹ کے منہ میں زیرہ
آج ملک کو جن چھوٹے بڑے ہر دو قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ سابقہ دو حکومتوں کی نااہلی ہے۔
محب وطن، سنجیدہ، باوقار، دور اندیش اور بڑے قد و قامت کے سیاسی رہنماؤں اور قائدین کی پہچان یہ ہے کہ وہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں اور خطرات کا پورا ادراک و آگاہی رکھتے ہیں۔
قومی مسائل اور عالمی تنازعات و تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے گہرا شعور رکھنے کے پہلو بہ پہلو پیش آمدہ حالات پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ سیاسی و جماعتی مفادات کے مقابلے میں ملکی مفاد و وطن کی سلامتی اور قومی دفاع کو ہر صورت مقدم رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں سرگرم سیاسی رہنماؤں کی اکثریت مذکورہ صفات و خوبیوں سے عاری نظر آتی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن ہر دو جانب سے افہام و تفہیم، مثبت سیاسی رویوں اور مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرکے قومی معاملات پر یک زبان ہونے کے بجائے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں سکون قلب محسوس کرتی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے کی خواتین سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کی کردار کشی میں بھی مقابلہ بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ اندرون اور بیرون وطن درپیش سنگین چیلنجوں کا انھیں ادراک نہیں۔
خارجی محاذ پر افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس سے جنم لینے والے امکانی خطرات، بھارت کے جارحانہ عزائم اور امریکا کی روایتی بے حسی جیسے مسائل ہمارے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب داخلی محاذ پر انتہا پسندی، حکومت اپوزیشن محاذ آرائی اور گرانی و مہنگائی کے طوفان میں عوام الناس کی آہ و فغاں جیسی مشکلات حکومت کے لیے کڑا امتحان بن چکی ہیں۔
ریاست مدینہ جیسی حکمرانی قائم کرنے کی دعوے دار پی ٹی آئی حکومت گزشتہ سوا تین سال سے تکرار کے ساتھ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ آج ملک کو جن چھوٹے بڑے ہر دو قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ سابقہ دو حکومتوں کی نااہلی ہے۔ یہ سب انھی کا کیا دھرا ہے کہ جس کا خمیازہ آج عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہ ایک ایسا روایتی قسم کا گھسا پٹا الزام ہے کہ برسر اقتدار ہر حکومت اسے اپنی بے گناہی، خطاؤں، لغزشوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں اور اس کے منفی نتائج کو چھپانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
عوام اتنے بھولے بھی نہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں اور ان کے منفی اثرات سے بے بہرہ ہوں اور حکومت وقت کی ہر بات پر دل سے ایمان لے آئیں کہ حالات کے بگاڑ میں موجودہ حکمرانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، حکومت کا ہر وزیر اور مشیر دودھ میں دھلا ہوا ہے اور اس کی ہر بات آسمانی صحیفہ جیسی سچ اور حق ہے۔ اس کی تازہ مثال حکومت اور ایک تنظیم کا معاملہ ہے کہ کس طرح حکومتی وزرا معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ماحول کو آتش فشاں بنا رہے ہیں۔
اپنے بیانات میں جھوٹ کی ملاوٹ کرکے فریق دوم کو دانستہ مشتعل کر رہے ہیں۔ ایک وزیر باتدبیر نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ موجودہ معاہدے سے قبل حکومت اور تنظیم کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کا وزیر اعظم کو علم نہیں تھا۔ یہ کس قسم کی حکومت اور انداز حکمرانی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اتنی بڑی ''سرگرمی'' سے لاعلم رہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کو حکومت کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہنا پڑا کہ اس قسم کا دعویٰ کرنے والے وزرا جھوٹ بول رہے ہیں۔
حکومت ٹی ایل پی کے درمیان جو تازہ معاہدہ ہوا ہے اس کی تفصیلات میڈیا کو جاری نہیں کی گئیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے پرزور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے تاکہ اس کے خد و خال پر بحث کی جاسکے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے تنظیم کے گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا ہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے، علما کمیٹی نے ٹی ایل پی کی جانب سے یقین دہانی کرائی ہے کہ امن و امان خراب نہیں کیا جائے گا اور معاہدے کی پاسداری کی جائے گی۔ ٹی ایل پی کے قائد سعد رضوی کی رہائی بڑا مطالبہ ہے اور ٹی ایل پی سے لفظ ''کالعدم'' ختم کرنا دوسرا بڑا مطالبہ ہے۔
حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر عدالت سعد رضوی کی رہائی کا حکم صادر کرے تو حکومت رکاوٹ نہیں بنے گی۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ نکالی جائے نہ کہ تصادم و محاذ آرائی کرکے امن و امان کی صورت حال کو مزید خراب کردیا جائے۔ حکومتی رٹ ہر صورت قائم ہونی چاہیے۔
داخلی حوالے سے حکومت کو سب سے بڑا چیلنج عوامی سطح پر تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ قومی معیشت قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے آگے سرنگوں ہوچکی ہے وزیر خزانہ نے مژدہ سنایا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ تو عنقریب ہو جائے گا تاہم اس کی شرائط کی تکمیل کرتے ہوئے بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے مہنگائی کی شدت کو کم کرنے کے لیے 120 ارب روپے کے ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ملک کے تقریباً 13 کروڑ غریبوں کو آیندہ چھ ماہ تک آٹا، گھی اور دالوں پر 30 فیصد سبسڈی دی جائے گی۔ 40 لاکھ خاندانوں کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔
وزیر اعظم کا موقف تھا کہ مہنگائی آج کل ایک عالم گیر مسئلہ بن گئی ہے اور اس کا براہ راست حکومت سے تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح 50 فیصد جب کہ پاکستان میں 9 فیصد ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند ماہ میں روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اس نے عام قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
قومی مسائل اور عالمی تنازعات و تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے گہرا شعور رکھنے کے پہلو بہ پہلو پیش آمدہ حالات پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ سیاسی و جماعتی مفادات کے مقابلے میں ملکی مفاد و وطن کی سلامتی اور قومی دفاع کو ہر صورت مقدم رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں سرگرم سیاسی رہنماؤں کی اکثریت مذکورہ صفات و خوبیوں سے عاری نظر آتی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن ہر دو جانب سے افہام و تفہیم، مثبت سیاسی رویوں اور مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرکے قومی معاملات پر یک زبان ہونے کے بجائے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں سکون قلب محسوس کرتی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے کی خواتین سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کی کردار کشی میں بھی مقابلہ بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ اندرون اور بیرون وطن درپیش سنگین چیلنجوں کا انھیں ادراک نہیں۔
خارجی محاذ پر افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس سے جنم لینے والے امکانی خطرات، بھارت کے جارحانہ عزائم اور امریکا کی روایتی بے حسی جیسے مسائل ہمارے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب داخلی محاذ پر انتہا پسندی، حکومت اپوزیشن محاذ آرائی اور گرانی و مہنگائی کے طوفان میں عوام الناس کی آہ و فغاں جیسی مشکلات حکومت کے لیے کڑا امتحان بن چکی ہیں۔
ریاست مدینہ جیسی حکمرانی قائم کرنے کی دعوے دار پی ٹی آئی حکومت گزشتہ سوا تین سال سے تکرار کے ساتھ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ آج ملک کو جن چھوٹے بڑے ہر دو قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ سابقہ دو حکومتوں کی نااہلی ہے۔ یہ سب انھی کا کیا دھرا ہے کہ جس کا خمیازہ آج عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہ ایک ایسا روایتی قسم کا گھسا پٹا الزام ہے کہ برسر اقتدار ہر حکومت اسے اپنی بے گناہی، خطاؤں، لغزشوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں اور اس کے منفی نتائج کو چھپانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
عوام اتنے بھولے بھی نہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں اور ان کے منفی اثرات سے بے بہرہ ہوں اور حکومت وقت کی ہر بات پر دل سے ایمان لے آئیں کہ حالات کے بگاڑ میں موجودہ حکمرانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، حکومت کا ہر وزیر اور مشیر دودھ میں دھلا ہوا ہے اور اس کی ہر بات آسمانی صحیفہ جیسی سچ اور حق ہے۔ اس کی تازہ مثال حکومت اور ایک تنظیم کا معاملہ ہے کہ کس طرح حکومتی وزرا معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ماحول کو آتش فشاں بنا رہے ہیں۔
اپنے بیانات میں جھوٹ کی ملاوٹ کرکے فریق دوم کو دانستہ مشتعل کر رہے ہیں۔ ایک وزیر باتدبیر نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ موجودہ معاہدے سے قبل حکومت اور تنظیم کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کا وزیر اعظم کو علم نہیں تھا۔ یہ کس قسم کی حکومت اور انداز حکمرانی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اتنی بڑی ''سرگرمی'' سے لاعلم رہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کو حکومت کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہنا پڑا کہ اس قسم کا دعویٰ کرنے والے وزرا جھوٹ بول رہے ہیں۔
حکومت ٹی ایل پی کے درمیان جو تازہ معاہدہ ہوا ہے اس کی تفصیلات میڈیا کو جاری نہیں کی گئیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے پرزور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے تاکہ اس کے خد و خال پر بحث کی جاسکے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے تنظیم کے گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا ہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے، علما کمیٹی نے ٹی ایل پی کی جانب سے یقین دہانی کرائی ہے کہ امن و امان خراب نہیں کیا جائے گا اور معاہدے کی پاسداری کی جائے گی۔ ٹی ایل پی کے قائد سعد رضوی کی رہائی بڑا مطالبہ ہے اور ٹی ایل پی سے لفظ ''کالعدم'' ختم کرنا دوسرا بڑا مطالبہ ہے۔
حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر عدالت سعد رضوی کی رہائی کا حکم صادر کرے تو حکومت رکاوٹ نہیں بنے گی۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ نکالی جائے نہ کہ تصادم و محاذ آرائی کرکے امن و امان کی صورت حال کو مزید خراب کردیا جائے۔ حکومتی رٹ ہر صورت قائم ہونی چاہیے۔
داخلی حوالے سے حکومت کو سب سے بڑا چیلنج عوامی سطح پر تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ قومی معیشت قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے آگے سرنگوں ہوچکی ہے وزیر خزانہ نے مژدہ سنایا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ تو عنقریب ہو جائے گا تاہم اس کی شرائط کی تکمیل کرتے ہوئے بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
ادھر وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے مہنگائی کی شدت کو کم کرنے کے لیے 120 ارب روپے کے ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق ملک کے تقریباً 13 کروڑ غریبوں کو آیندہ چھ ماہ تک آٹا، گھی اور دالوں پر 30 فیصد سبسڈی دی جائے گی۔ 40 لاکھ خاندانوں کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔
وزیر اعظم کا موقف تھا کہ مہنگائی آج کل ایک عالم گیر مسئلہ بن گئی ہے اور اس کا براہ راست حکومت سے تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح 50 فیصد جب کہ پاکستان میں 9 فیصد ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چند ماہ میں روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اس نے عام قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔