کردار سازی

ہم ’’شیر کی ایک دن کی زندگی‘‘ کے بجائے گیدڑ کی سو سالہ زندگی جینا چاہتے ہیں۔

کردار سازی کیا ہے؟ ایک بچہ کیسے سانچے میں ڈھل سکتا ہے اور وجہ کون ہے جو اس کی کردار سازی کرتا ہے اس کی شخصیت میں ایک اچھے انسان کی تمام خوبیاں ڈالتا ہے جس کے بعد وہ بچہ ایک عظیم سائنسدان ایک بہترین مفکر، ایک صوفی، ایک درویش کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ کردار سازی ضروری کیوں ہے ؟

میری ناقص رائے کے مطابق اس مرحلے میں اول درجے پر والدین آتے ہیں ، دوئم پر اساتذہ ،سوئم پرگردوپیش کا ماحول، چہارم۔ پر دوست احباب۔ یہ سب مل کر ایک بچے کی تربیت کرتے ہیں اسے بناتے سنوارتے ہیں ۔ضمنی اشیاء میں اچھی خوراک ، رہن سہن اور بہت کچھ بھی قابل ذکر ہیں لیکن بنیادی طور پر اوّل الذکر حضرات ہی ہوتے ہیں۔

ہم اور اقوام عالم سب ہی ایک تاریخ رکھتے ہیں انسانوں کی بھی اور اشیاء کی بھی تاریخ ایک وسیع موضوع ہے، گویا اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو ہرگزرتا ہوا لمحہ ایک تاریخ مرتب کر رہا ہے لیکن اہمیت کے لحاظ سے ہم قریب گزرے ہوئے وقت کی تاریخ بیان نہیں کرتے کیونکہ وہ ہمیں ازبر ہوتی ہے البتہ ماضی بعید کے وقت کو اوراق پر درج کرلیتے ہیں کسی کتابی شکل میں۔ اگرچہ خود تاریخ بھی اکثر زمانوں میں متنازعہ رہی ہے لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر مقدمہ ابنِ خلدون ان بہترین کتابوں میں سے ایک ہے جو اس موضوع پر تحریر ہوئیں۔

میں تاریخ پر ایک مختصر سی تمہید کے بعد پھر اپنے موضوع پر آتا ہوں کہ تاریخ بھی اقوام کی جداگانہ ہوتی ہے ہر قوم کے اپنے ہیروز ،اپنے ولن ہوتے ہیں اسی طرح ہماری تاریخ کی اپنی شخصیات ہیں جن میں عظیم لوگ بھی ہیں اور ذہین بھی۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت میں اپنے ماضی کی رفعت اور ظلمت پر مشتمل سارے واقعات انھیں سنانے ہوں گے ،یہ بتانا ہوگا کہ ہم کون تھے کون رہے ہیں اورآیندہ ہمیں کیا بننا چاہیے ؟

بات یہ ہے کہ جب ایک فرد پر کام ہوگا تو ایک معاشرہ وجود میں آئے گا اور وہ معاشرہ وہی ہوگاجو وہ فرد ہوگا۔ تاریخ کے قدیم صفحات کو کھنگالنے کی شاید ضرورت بھی نہیں ہے ہم ہندوستان کی تاریخ کے ان کرداروں کا بھی جائزہ لے لیں جو ہمارے آسمان کے درخشاں ستاروں کی مانند چمکتے ہیں تب بھی ہماری آیندہ نسل کے لیے کافی رہیں گے۔ مثلاً ٹیپو سلطان،حیدر علی،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا ابوالکلام آزاد،جنرل بخت خان،اورنگ زیب عالمگیر ،قائدِ اعظم ،علامہ اقبال اور بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کے کردار پر روشنی ڈالی جائے تو آج بھی وہ صدی خود کو دہرا سکتی ہے آج بھی اسلام کرداروں میں زندہ ہوسکتا ہے۔

آج کے مایوس شب و روز دن بہ دن بڑھتی ہوئی انارکی دین کی غلط تشریحات اور اس پر اس حد تک اصرار کہ دوسرے کو کافر ہی قرار دے دیں ،رشوت کو اللہ کے انعام کا نام دیا جانا ! ظلم اور بربریت کو داعش کا نام دیکر مسلمانوں اور دیگر انسانوں کا بہیمانہ قتل عام کیا جانا، یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟ ہم اس قدر ذہنی بے راہ روی کا شکارکیسے ہوگئے ؟ کیونکہ ہم ایک بچے کو تعلیم تو اچھی دلوادیتے ہیں لیکن اسے اچھی تربیت بھی برابر کی درکار ہوتی ہے۔

میں ایک مرتبہ اپنی فیملی کے ہمراہ سفر کر رہا تھا تو میں نے اپنی پسند کا ایک گانا جو نوے کی دہائی کا رہا ہوگا playکیا تو میرے بچے ہنسنے لگے اور انھوں نے سوال کیا کہ'' ابو یہ گانے کب ایجاد ہوئے تھے؟'' میں نے کہا ''کچھ وقت پہلے اور یہ عمدہ گیت ہیں۔ ان کی شاعری پر غور کیجیے'' لیکن بچے ہنستے رہے اورکچھ دیر کے بعد بور ہوتے دکھائی دیے۔


میں بڑا حیران ہوا اور میں نے انھیں موقع دیتے ہوئے کہا کہ '' چلیں آپ اپنی پسند کے songs لگالیں ہم انھیں سن لیتے ہیں'' تو وہ بہت خوش ہوئے جیسے بڑی مصیبت سے جان چھوٹ گئی ہو اور انھوں نے اپنی پسند کے songsلگالیے میں نے بڑی توجہ سے ان گانوں کو سنا تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا غالباًکوئی صاحب کہ رہے تھے ۔'' ادھر کیوں بیٹھا ہے اِدھر آ ،آ میری سائیکل پر بیٹھ جا ،آج تیرا کیا موڈ ہے،موسم بھی اچھا ہے لیکن دل وہی پرانا ہے'' اسی طرح کے مصرعے باقی بھی تھے ۔

میں سمجھا شاید ابھی گانا شرو ع ہی نہیں ہوا تو میں نے بچوں سے پوچھا کہ'' گانا کب شروع ہوگا'' انھوں نے ہنستے ہوئے اور جھومتے ہوئے مجھے بتایا کہ'' گانا ہی تو چل رہا ہے ''اور ایسی نظروں سے میری جانب دیکھا جیسے میں فراعینِ مصر کے زمانے کی کوئی ممی ہوں ۔بہرحال میں سمجھ گیا کہ مجھ سے کہاں غلطی ہوئی اور خاموش رہا کہ کسی موقع پر اصلاح کروں گا ۔

ماضی اور اس سے جڑے واقعات فنونِ لطیفہ،ادب تاریخی کردارایسی شخصیت سازی ہے جس کا اگلی نسل کو منتقل کرنا ہم پر فرض ہے کیونکہ ہمارا اپنا ایک سماج ہے ،ثقافت ہے بہادری و شجاعت ہے ہمیں یہ ورثہ آگے پہنچانا ہے۔

ہمیں اپنی شناخت ہمیشہ درکار ہوگی ورنہ آج ہمارا اپنا کوئی لباس نہیں ،کلچر نہیں ہم اپنی زبان میں بات کرنا بھی باعثِ شرمندگی تصور کرتے ہیں حالانکہ انگریزی ایک زبان ہی ہے جیسے اور زبانیں ہیں لیکن آج ہمارے معاشرے میں جسے انگلش بولنی نہیں آتی اسے کم و بیش جاہل مانا جاتا ہے خواہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو بس انگلش بولنا جانتا ہو ہم اسے تعلیم کی سند دے دیتے ہیں اور کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ انگلش میں بات نہ کرسکتا ہو تو اسے جھٹ سے جاہل قرار دے دیا جاتا ہے یہ کیسی طرزِ معاشرت ہے ،کیسی غلامی ہے بظاہر جسکا کوئی طوق نظر نہیں آتا لیکن وہ ہمارے گلوں میں پڑا ہے۔

نتیجہ کار یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا کہ ملک کے ہر صاحبِ حیثیت کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ یورپ و امریکا میں ہے سیاستدانوں سے لے کر صنعتکاروں تک سب علاج معالجے کے لیے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے ملک سے باہر کی دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ملک تو انھیں بس لوٹ کا مال لگتا ہے۔

عوام کو بیوقوف بنانے کا ایک خطہ عظیم میں نے اس لیے کہا کہ یہاں کہ لوگ بھی بیوقوف بنتے ہوئے نہیں تھکتے، برس ہابرس گزر گئے لیکن عوام اسی حوصلے سے آج بھی بیوقوف بنتے ہیں۔ ابھی کچھ مدت بعد الیکشن ہوں گے دیکھ لیجیے گا یہ بھائی لوگ مہنگائی سے کتنے پریشان ہیں؟ پھر کسی بہروپیئے کے نعرے اچھل اچھل کر لگارہے ہوں گے کسی کو شیر ،بلے،بلی،بے بی ،اماں ،بھانجی بناکر رو رو کر ووٹ دے رہے ہوں گے ۔پچھلا سب بھول جائیں گے سارے دکھ ،غم بھوک ،فاقے سب کچھ ۔

اور یہ سب اسی لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنی درخشاں تاریخ سے ناواقف ہیں ہم ''شیر کی ایک دن کی زندگی'' کے بجائے گیدڑ کی سو سالہ زندگی جینا چاہتے ہیں ۔ روپ بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا کبھی لبرل ہیں کبھی کمیونسٹ کبھی سوشلسٹ کبھی آزاد خیال تو کبھی کچھ ۔ یاد رہے کہ اگر حضورﷺ جنگِ بدر،احد،حنین ،خندق،خیبر نہ لڑتے ،مسلمانوں کے لیے مخصوص وضع قطع نہ طے کرتے ،انھیں انبیاء ؑ کے واقعات نہ سناتے تو آج ہم نہ ہوتے زمین پر ابلیس ہوتا یا رقصِ ابلیس۔
Load Next Story