سوشلسٹ فکر سندھ کے دو سپوت
انصاف بر سماج کی آزادی، پاکستان کھپے کے نعرے سے نہیں بلکہ نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں ملے گی۔
یہ نوے کے عشرے کے اس دور کا ذکر ہے جہاں آمرانہ ضیائی اقتدار کے خاتمے کے بعد کا بے یقینی کا چلن اپنی تمامتر حشر سامانیوں کے ساتھ جاری تھا،ہر سو زندگی کے مفاہیم پرتنگ نظری کی چادر چڑھائی جارہی تھی۔
تحریر و تقریر کے سوتوں کو جبریہ بند کرنے کا کام جاری تھا،ایسے گھٹن کے ماحول میں سندھ دھرتی کے خیرپور کا منصور صدائے حق کی آواز بلند کرنے میں مگن تھا،کمیونسٹ تربیت اور نظریئے کا ''منصور میرانی'' نام کا یہ پرچارک حسن ناصر اور نذیر عباسی کے مشن پر کاربند خیرپور کی ریاست میں علم و شعور کے دیپ جلانے میں جتا ہوا تھا۔
پیر جو گوٹھ کے گاؤں غلام علی میں پیدا ہونے والے غلام قادر میرانی کو کیا معلوم تھا کہ اس کا نظریاتی اور سیاسی شعور اسے زندگی گذارنے کی جانب مائل کردے گا،نظریاتی کمیونسٹ تربیت کے دوران اسے منصور میرانی ہونا پڑا اور اس طرح اس نے اپنے خاندانی نہیں بلکہ سیاسی و نظریاتی نام سے پہچان بنائی،کمیونسٹ تربیت میں علی مطاہر جعفری اور لالہ شاہ محمد درانی کی بدولت وہ عوام کے حقوق کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہا،قید کی صعوبتیں جھیلیں تو اپنی علمی لگن کی بدولت صحافت کے خار زار کی وہ تیز دھار بنا جس نے صحافت کی پابندیوں کے تمام ریاستی خاروں کو کاٹ ڈالا اور خیرپور میں اپنی سیاسی اور صحافتی جدوجہد سے ایک معتبر حوالہ بنا۔
سچل سر مست کی سرزمین خیرپور میں کمیونسٹ فکر کے پھیلاؤ میں سرمست منصور میرانی اور ڈاکٹر تنویر عباسی خیرپور میں علم و ادب اور سیاست پر فکر مند رہتے تھے،سماج کو فکری آزادی خاطر ہی سچل سرمست اکیڈمی کا قیام لایا گیا تھا،فکر بکھیرنے کے کسی بھی ذریعے کو منصور میرانی ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا،اسی بنا اس نے نوے کی دہائی میں سچل کانفرنس کا انعقاد کروایا،یوں کراچی سے میرے ساتھ جانے والوں میں زاہدہ حنا اور رؤف نظامانی میرے ہم رکاب ہوئے،بس پھر کیا تھا متحرک سا منصور میرانی اپنی صحافتی ذمے داریوں کے باوجود ہمارے رہنے سہنے کے انتظام اور تواضع میں جت گیا۔
گیسٹ ہاؤس میں رات گئے تھکن اتارنے کے سامان کے ساتھ علم و ادب،راگ ساز کی محافل سجیں،منصور میرانی نے راگی جوڑے، سرد رات کو آواز اور ساز سے مہمیز کیا اور سروں کے نشے کو دوبالا کرنے میں بدمست ہونے کا مکمل بندوبست اور خیال...مگر پھر دوسری صبح منصور میرانی ڈی ایس ایف کے اسد عابدی سمیت تازہ دم کانفرنس کی کامیابی کے لیے جت جاتا،منصور کی صحافت کا سفر سندھی صحافت سے شروع ہوکر آخری دم تک انگریزی صحافت سے جڑا رہا۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم اس کے بیٹے جاوید میرانی کی وکالت کے زمانے میں خیرپور گئے تو واھ کے کنارے واقع منصور کے گھر اس سے جب ملے تو منصور اس دم بھی کمیونسٹ نظریئے کی سچائی کے ساتھ پر عزم تھا،اسی شعور کی بنیاد پر منصور نے اپنے گھر کی بیٹیوں کے علم میں ''کمیون'' بنایا تاکہ ہر فرد شعوری انداز سے زندگی برتنے کا عادی بنے اور سیاسی و سماجی طور سے معاشرے کا اہم کردار ہو،اور منصور میرانی کے سیاسی و علمی شعور کی روشنی پھیلانے میں منصور کی بیٹیاں اور بیٹے آج بھی اس دھرتی کا مان ہیں،منصور میرانی کی فکر کو مارنا ہی بس ریاست سے نہ ہوسکا۔
بارہ برس کی عمر میں ایک آزاد اور انسانی برابری کے روشن خیال سماج کی جستجو میں ہجرت کرنے والے سندھ کے سپوت بیرسٹر صبغت اللہ قادری بھی پاکستان کے جبریہ بیانیے سے مایوس ہوکر عدم کو ہو لیے،آزاد وطن اور انصاف بر مبنی سماج کا خواب سجائے صبغت اللہ قادری جب کراچی آئے تو اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد استحصال سے پاک نکتہ نظر کی وکالت کرنے والے کمیونسٹ نظریئے ہی کو آخر وقت تک سچ اور حق جانا،صبغت اللہ قادری کی بنیادی سیاسی تربیت کمیونسٹ نکتہ نظر کے تحت ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن DSF کے پلیٹ فارم سے ہوئی،1956 کے زمانے میں جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کے سیکریٹری بننے کے بعد طلبہ کی سیاست میں عملی کام کیا۔
صبغت اللہ قادری کی نظریاتی سیاسی تربیت میں ڈاکٹر سرور،ڈاکٹر ادیب،اور شیر افضل کا بنیادی کردار رہا،طلبہ یونین کی آزاد حیثیت کو ریاستی جبر سے دبانے کے مجرمانہ خیال کے سامنے جب صبغت اللہ قادری سینہ سپر ہوئے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا ان کا مقدر بنا دیا گیا،صبغت اللہ کی حرکی صلاحیتوں کو روکنے کی تمام ریاستی کوششیں جب ناکام ہو گئیں تو ایوبی جبر نے انھیں کراچی یونیورسٹی کے میتھ ڈپارٹمنٹ چھوڑنے پر مجبور کیا۔
صبغت اللہ نے علم سے رشتہ جوڑنے کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا،حیدرآباد کے قیام میں صبغت اللہ جلد ہی سیاسی اور سماجی جڑت کے عمل میں متحرک ہوگئے اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ایوبی مارشل لا کے خلاف جمہوری تحریکوں کو منظم کیا،جنرل ایوب کو طلبہ کی یہ نظریاتی سیاسی جدوجہد ایک آنکھ نہ بھائی تو اس آمر نے صبغت اللہ کی حیات پر عرصہ تنگ کر دیا،اس بنا صبغت اللہ اپنی نظریاتی سیاسی بقا کی سلامتی خاطر مجبور ہو کر لندن سدھارے اور لندن میں معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے لندن کے معروف باشعور سیاسی بیرسٹر کے طور پر جانے گئے،مگر صبغت اللہ ملکی حالات اور سیاست سے کبھی نہ بے خبر رہے اور نہ کبھی وطن اور دوستوں کو سیاسی ابتلا و مصائب میں تنہا چھوڑا،وہ بیرسٹر ہونے کے باوجود لندن سے سیاسی و جمہوری تحریکوں میں اپنا نظریاتی اور شعوری حصہ ڈالتے رہے۔
پاکستان میں نظریاتی سوشلسٹ فکر کی سیاست میں زین زیدی اور باقر مہدی نے صبغت اللہ کو دوستوں سے جوڑنے اور سیاسی منڈلی قائم کرنے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا،صبغت اللہ قادری نے وطن میں سیاسی اتھل پتھل اور انارکی کا ہمیشہ مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ صبغت اللہ قادری جب اپنی کتاب ''بکھری یادیں اور باتیں'' کی تقریب رونمائی کے لیے 2018 میں جب وطن آئے تو انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب کی تقریب میں کہا کہ''میری خواہش تھی کہ جس کراچی سے میں نے کمیونسٹ سیاست کا آغاز کیا اسی کراچی کو میں اپنی جدوجہد کا ماضی دوں اور یاد بھی کروں۔''
انھوں نے واضح کیا کہ انصاف بر سماج کی آزادی، پاکستان کھپے کے نعرے سے نہیں بلکہ نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں ملے گی،وہ گویا تھے کہ ہم سب دوستوں نے نہ کبھی جمہوریت کے خلاف سمجھوتہ کیا اور نہ ہی کسی بھی آمر یا مارشل لاء کے جبر کو قبول کیا،وہ تقریب میں پر عزم انداز سے کہہ رہے تھے کہ کراچی کا جمہوری چہرہ اور جمہوری کلچر ہی وطن کی اصل آزادی کا نشان ہوگا جو افسوس کے ساتھ آمرانہ حکومتوں نے مسخ کر دیا ہے۔
صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ جب تک اس صنعتی شہر کے طلبہ مزدور، صحافی اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے مشترکہ جدوجہد کو نہیں جوڑیں گے،اس وقت تک کراچی کا جمہوری کردار اور ملک کا جمہوری نظام ایک سوالیہ نشان بنا رہے گا،ان کا خیال تھا کہ کراچی کے جمہوری اور روشن خیال چہرے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سے مفاد پرست اقتداری گروہ کا خاتمہ ہو اور دوبارہ اس شہر میں منظم نظریاتی و سوشلسٹ تحریک کو منظم کیا جائے تاکہ کراچی کی کشادہ دلی اور سیاسی روشن خیال سوچ سے زمانہ واقف ہو سکے۔
قادری صاحب نے انصاف بر مبنی سماج کے قیام میں ''نظریاتی پارٹی'' کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مختلف گروپس کو ایک پلٹ فارم پر لانے کی ضرورت پر زور بھی دیا تھا۔آج کی نا ہموار اور مفاد پرستانہ سیاست سے الگ ہوکر نظریاتی تربیت کی فراہمی ہی صبغت اللہ قادری اور منصور میرانی کا وہ خواب ہے جو نئی نسل سے نظریاتی و سیاسی جدوجہد کا متقاضی ہے۔
تحریر و تقریر کے سوتوں کو جبریہ بند کرنے کا کام جاری تھا،ایسے گھٹن کے ماحول میں سندھ دھرتی کے خیرپور کا منصور صدائے حق کی آواز بلند کرنے میں مگن تھا،کمیونسٹ تربیت اور نظریئے کا ''منصور میرانی'' نام کا یہ پرچارک حسن ناصر اور نذیر عباسی کے مشن پر کاربند خیرپور کی ریاست میں علم و شعور کے دیپ جلانے میں جتا ہوا تھا۔
پیر جو گوٹھ کے گاؤں غلام علی میں پیدا ہونے والے غلام قادر میرانی کو کیا معلوم تھا کہ اس کا نظریاتی اور سیاسی شعور اسے زندگی گذارنے کی جانب مائل کردے گا،نظریاتی کمیونسٹ تربیت کے دوران اسے منصور میرانی ہونا پڑا اور اس طرح اس نے اپنے خاندانی نہیں بلکہ سیاسی و نظریاتی نام سے پہچان بنائی،کمیونسٹ تربیت میں علی مطاہر جعفری اور لالہ شاہ محمد درانی کی بدولت وہ عوام کے حقوق کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہا،قید کی صعوبتیں جھیلیں تو اپنی علمی لگن کی بدولت صحافت کے خار زار کی وہ تیز دھار بنا جس نے صحافت کی پابندیوں کے تمام ریاستی خاروں کو کاٹ ڈالا اور خیرپور میں اپنی سیاسی اور صحافتی جدوجہد سے ایک معتبر حوالہ بنا۔
سچل سر مست کی سرزمین خیرپور میں کمیونسٹ فکر کے پھیلاؤ میں سرمست منصور میرانی اور ڈاکٹر تنویر عباسی خیرپور میں علم و ادب اور سیاست پر فکر مند رہتے تھے،سماج کو فکری آزادی خاطر ہی سچل سرمست اکیڈمی کا قیام لایا گیا تھا،فکر بکھیرنے کے کسی بھی ذریعے کو منصور میرانی ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا،اسی بنا اس نے نوے کی دہائی میں سچل کانفرنس کا انعقاد کروایا،یوں کراچی سے میرے ساتھ جانے والوں میں زاہدہ حنا اور رؤف نظامانی میرے ہم رکاب ہوئے،بس پھر کیا تھا متحرک سا منصور میرانی اپنی صحافتی ذمے داریوں کے باوجود ہمارے رہنے سہنے کے انتظام اور تواضع میں جت گیا۔
گیسٹ ہاؤس میں رات گئے تھکن اتارنے کے سامان کے ساتھ علم و ادب،راگ ساز کی محافل سجیں،منصور میرانی نے راگی جوڑے، سرد رات کو آواز اور ساز سے مہمیز کیا اور سروں کے نشے کو دوبالا کرنے میں بدمست ہونے کا مکمل بندوبست اور خیال...مگر پھر دوسری صبح منصور میرانی ڈی ایس ایف کے اسد عابدی سمیت تازہ دم کانفرنس کی کامیابی کے لیے جت جاتا،منصور کی صحافت کا سفر سندھی صحافت سے شروع ہوکر آخری دم تک انگریزی صحافت سے جڑا رہا۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم اس کے بیٹے جاوید میرانی کی وکالت کے زمانے میں خیرپور گئے تو واھ کے کنارے واقع منصور کے گھر اس سے جب ملے تو منصور اس دم بھی کمیونسٹ نظریئے کی سچائی کے ساتھ پر عزم تھا،اسی شعور کی بنیاد پر منصور نے اپنے گھر کی بیٹیوں کے علم میں ''کمیون'' بنایا تاکہ ہر فرد شعوری انداز سے زندگی برتنے کا عادی بنے اور سیاسی و سماجی طور سے معاشرے کا اہم کردار ہو،اور منصور میرانی کے سیاسی و علمی شعور کی روشنی پھیلانے میں منصور کی بیٹیاں اور بیٹے آج بھی اس دھرتی کا مان ہیں،منصور میرانی کی فکر کو مارنا ہی بس ریاست سے نہ ہوسکا۔
بارہ برس کی عمر میں ایک آزاد اور انسانی برابری کے روشن خیال سماج کی جستجو میں ہجرت کرنے والے سندھ کے سپوت بیرسٹر صبغت اللہ قادری بھی پاکستان کے جبریہ بیانیے سے مایوس ہوکر عدم کو ہو لیے،آزاد وطن اور انصاف بر مبنی سماج کا خواب سجائے صبغت اللہ قادری جب کراچی آئے تو اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد استحصال سے پاک نکتہ نظر کی وکالت کرنے والے کمیونسٹ نظریئے ہی کو آخر وقت تک سچ اور حق جانا،صبغت اللہ قادری کی بنیادی سیاسی تربیت کمیونسٹ نکتہ نظر کے تحت ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن DSF کے پلیٹ فارم سے ہوئی،1956 کے زمانے میں جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کے سیکریٹری بننے کے بعد طلبہ کی سیاست میں عملی کام کیا۔
صبغت اللہ قادری کی نظریاتی سیاسی تربیت میں ڈاکٹر سرور،ڈاکٹر ادیب،اور شیر افضل کا بنیادی کردار رہا،طلبہ یونین کی آزاد حیثیت کو ریاستی جبر سے دبانے کے مجرمانہ خیال کے سامنے جب صبغت اللہ قادری سینہ سپر ہوئے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا ان کا مقدر بنا دیا گیا،صبغت اللہ کی حرکی صلاحیتوں کو روکنے کی تمام ریاستی کوششیں جب ناکام ہو گئیں تو ایوبی جبر نے انھیں کراچی یونیورسٹی کے میتھ ڈپارٹمنٹ چھوڑنے پر مجبور کیا۔
صبغت اللہ نے علم سے رشتہ جوڑنے کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا،حیدرآباد کے قیام میں صبغت اللہ جلد ہی سیاسی اور سماجی جڑت کے عمل میں متحرک ہوگئے اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ایوبی مارشل لا کے خلاف جمہوری تحریکوں کو منظم کیا،جنرل ایوب کو طلبہ کی یہ نظریاتی سیاسی جدوجہد ایک آنکھ نہ بھائی تو اس آمر نے صبغت اللہ کی حیات پر عرصہ تنگ کر دیا،اس بنا صبغت اللہ اپنی نظریاتی سیاسی بقا کی سلامتی خاطر مجبور ہو کر لندن سدھارے اور لندن میں معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے لندن کے معروف باشعور سیاسی بیرسٹر کے طور پر جانے گئے،مگر صبغت اللہ ملکی حالات اور سیاست سے کبھی نہ بے خبر رہے اور نہ کبھی وطن اور دوستوں کو سیاسی ابتلا و مصائب میں تنہا چھوڑا،وہ بیرسٹر ہونے کے باوجود لندن سے سیاسی و جمہوری تحریکوں میں اپنا نظریاتی اور شعوری حصہ ڈالتے رہے۔
پاکستان میں نظریاتی سوشلسٹ فکر کی سیاست میں زین زیدی اور باقر مہدی نے صبغت اللہ کو دوستوں سے جوڑنے اور سیاسی منڈلی قائم کرنے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا،صبغت اللہ قادری نے وطن میں سیاسی اتھل پتھل اور انارکی کا ہمیشہ مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ صبغت اللہ قادری جب اپنی کتاب ''بکھری یادیں اور باتیں'' کی تقریب رونمائی کے لیے 2018 میں جب وطن آئے تو انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب کی تقریب میں کہا کہ''میری خواہش تھی کہ جس کراچی سے میں نے کمیونسٹ سیاست کا آغاز کیا اسی کراچی کو میں اپنی جدوجہد کا ماضی دوں اور یاد بھی کروں۔''
انھوں نے واضح کیا کہ انصاف بر سماج کی آزادی، پاکستان کھپے کے نعرے سے نہیں بلکہ نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں ملے گی،وہ گویا تھے کہ ہم سب دوستوں نے نہ کبھی جمہوریت کے خلاف سمجھوتہ کیا اور نہ ہی کسی بھی آمر یا مارشل لاء کے جبر کو قبول کیا،وہ تقریب میں پر عزم انداز سے کہہ رہے تھے کہ کراچی کا جمہوری چہرہ اور جمہوری کلچر ہی وطن کی اصل آزادی کا نشان ہوگا جو افسوس کے ساتھ آمرانہ حکومتوں نے مسخ کر دیا ہے۔
صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ جب تک اس صنعتی شہر کے طلبہ مزدور، صحافی اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے مشترکہ جدوجہد کو نہیں جوڑیں گے،اس وقت تک کراچی کا جمہوری کردار اور ملک کا جمہوری نظام ایک سوالیہ نشان بنا رہے گا،ان کا خیال تھا کہ کراچی کے جمہوری اور روشن خیال چہرے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سے مفاد پرست اقتداری گروہ کا خاتمہ ہو اور دوبارہ اس شہر میں منظم نظریاتی و سوشلسٹ تحریک کو منظم کیا جائے تاکہ کراچی کی کشادہ دلی اور سیاسی روشن خیال سوچ سے زمانہ واقف ہو سکے۔
قادری صاحب نے انصاف بر مبنی سماج کے قیام میں ''نظریاتی پارٹی'' کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مختلف گروپس کو ایک پلٹ فارم پر لانے کی ضرورت پر زور بھی دیا تھا۔آج کی نا ہموار اور مفاد پرستانہ سیاست سے الگ ہوکر نظریاتی تربیت کی فراہمی ہی صبغت اللہ قادری اور منصور میرانی کا وہ خواب ہے جو نئی نسل سے نظریاتی و سیاسی جدوجہد کا متقاضی ہے۔