ڈینگی گھریلو مچھر خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں
مچھر سے کوئی بھی محفوظ نہیں، حکومت اس کے تدارک کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے
کورونا وائرس کے بعد اس وقت ملک کو ڈینگی کے چیلنج کا سامنا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ بیشتر مریضوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔
اس وقت ڈینگی کی کیا صورتحال ہے اور حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اس کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین صحت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب )
ڈینگی جیسے مسائل پر قابو پانے کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے مگر شہریوں کے تعاون کے بغیر اس پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ڈینگی کے حوالے آگاہی اور روک تھام میں علماء، اساتذہ، وکلاء، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کا کردار انتہائی اہم ہے، جس طرح سب نے مل کر کورونا وباء پر قابو پایا اسی طرح ہمیں ڈینگی پر بھی قابو پانا ہے۔
ڈینگی جان لیوا مرض ہے ، اس سے بچاؤ کا واحد حل احتیاط ہے لہٰذا شہری پورے بازو والے کپڑے پہنیں، مچھر بھگاؤ لوشن کا استعمال کریں، گھر یا کسی بھی مقام پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اس مچھر سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ کورونا کے چیلنج سے نمٹنے کی طرف توجہ ہونے سے ڈینگی کے لاروا تلف کرنے میں تاخیر ہوئی جو نہیں ہونا چاہیے تھا، ڈینگی بھی انتہائی اہم مسئلہ ہے، اس پر وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی رائے دی ہے کہ دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ ڈینگی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے متعلقہ اداروں اور حکومت کو ملٹی ٹاسکنگ کرنا ہوگی۔
پوری عوام ڈینگی کی سٹیک ہولڈر ہے لہٰذا سب کو اپنے اور دوسروں کیلئے ڈینگی کی روک تھام پر کام کرنا ہوگا اور تمام احتیاطی تدابیر اپنانا ہونگی۔ پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اگر ہماری خواتین ڈینگی کے خاتمے کا تہیہ کرلیں تو پھر حکومت کوئی اقدام کرے یا نہ کرے، ہم اس پر قابو پالیں گے۔ ہر خاتون کو اپنا گھر ڈینگی سے پاک کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو احتیاطی تدابیر سکھانا ہونگی۔ حکومت ڈینگی کے تدارک کیلئے کام کر رہی ہے تاہم اگر کہیںمسئلہ ہے تو ہیلپ لائن نمبر 1033 پر اطلاع کریں، یہ صدقہ جاریہ ہے، اس سے نہ صرف لوگ خود محفوظ ہونگے بلکہ پورا معاشرہ محفوظ ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز )
ڈینگی کے بنیادی طور پر چار وائرسز ہیں، ڈینگی 1، 2،3،4۔ جو وائرس ایک انسان کو دوسرے انسان سے یا جانور سے انسان کو لگتا ہے وہ ویکٹر کے ذریعے لگتا ہے اور یہ زنانہ مچھر کے ذریعے ہوتا ہے جس کا نام Aedes aegypti ہے۔ یہ مچھر اپنی خوراک کی تلاش میں صبح سویرے یا مغرب کے وقت باہر نکلتی ہے، اس کی خوراک انسانی خون ہے، اگر کسی انسان کے خون میں یہ وائرس موجود ہوگا تو یہ اس مچھر میں چلا جائے گا، جب وہ انڈے دے گی تو یہ وائرس اسکی اگلی نسل میں منتقل ہوجائے گا۔
ڈینگی ڈومیسٹک مچھر ہے اور یہ گھر کے اندر کی بیماری ہے،ڈینگی مچھر پانی میں ہزاروں کی تعداد میں انڈے دیتی ہے جن کی افزائش کیلئے ایک چمچ پانی کافی ہے لہٰذا اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر احتیاط ضروری ہے۔جب یہ مچھر پیدا ہوتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کا بہترین حل احتیاط ہے۔ گملا، فریج کے نیچے کی ٹرے، واٹر کولر یا کسی بھی جگہ پانی کھڑا ہے تو مچھر کی نشونما ہوسکتی ہے، ان جگہوں کو خشک رکھیں۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لہٰذا اگر اہم اپنا نصف ایمان مکمل کرلیں تو ڈینگی سمیت بہت ساری بیماریوں سے بچ جائیں گے۔
ڈینگی اس وقت 130 ممالک میں موجود ہے،ا ن میں زیادہ تر ممالک وہ ہیں جہاں برسات یا نمی زیادہ ہوتی ہے جن میں سنگاپور، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سری لنکا، برازیل وغیرہ شامل ہیں۔ ڈینگی کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ 13 ڈگری سے کم یا 34 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت ہوجائے تو ڈینگی مچھر کی افزائش نہیں ہوتی، جب موسم گرمی سے سردی یا سرد ی سے گرمی کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو یہ وقت ڈینگی مچھر کیلئے انتہائی موزوں ہوتا ہے لہٰذا اگر اس دوران پہلے سے اگر صفائی ستھرائی اور جگہ خشک رکھی جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ڈینگی کے علاج کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر مریض میں ڈینگی کی بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے تو یہ جان لیوا نہیں ہوتا۔ ڈینگی کے چار وائرسز میں سے ایک قسم ایسی ہے جس سے لائف ٹائم امیونٹی مل جاتی ہے جبکہ مختصر وقت کیلئے چاروں اقسام میں ہی امیونٹی مل جاتی ہے۔ اگر دوسری مرتبہ چاروں میں سے کوئی اور اقسام کا ڈینگی ہوا تو وہ ہوسکتا ہے۔ عام طور پر50 فیصد لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ انہیں ڈینگی ہوا ہے۔ 40 فیصد لوگوں کو ڈینگی فیور ہوتا ہے اور وہ بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
یونانی زبان میں ڈینگی کا لفظی معانی ہڈیوں کا ٹوٹنا ہے،اس میں درد کی صورت میں اسپرین وغیرہ نہ لیں۔ 5سے6 فیصد مریضوں میں ڈینگی پیچیدہ ہوتا ہے جسے 'ڈینگی ہیمرجک فیور یا 'ڈینگی شاک سنڈروم' کہتے ہیں۔ اس میں مریض کی خون کی نالیوں میں سے پانی رسنا شروع اور ہڈیوں کے اندر خون گاڑھا ہونا جاتا ہے۔
ہڈیوں سے نکلنے والا پانی پیٹ اور پھیپھڑوں میں جمع ہوجاتا ہے لیکن 48 گھنٹے میں یا مرض ختم ہونے کے بعد واپس نالیوں میں جانا شروع ہوجاتا ہے۔ ان اوقات میں ہمیں مریض کو خشک رکھنا ہے، اسے ڈرپ نہیں لگانی کیونکہ جب سارا فلیوڈ واپس آئے گا تو یہ دل اور پھیپھڑوں کیلئے ٹھیک نہیں ہے، پانی ہر جگہ اکٹھا ہونا شروع ہوجائے گا جس سے نقصان زیادہ ہوگا۔ اگر ڈینگی کے مریض کا درست علاج ہو تو اس میں شرح اموات صفر ہے لہٰذا ہمیں ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل سٹاف کو تربیت دینا ہوگی اور لوگوں کو شعور دینا ہوگا کہ مستند ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
اگر ڈینگی بخار ہے تو آرام کریں، غیر ضروری ادویات نہ لیں، اپنی خوراک کا خیال رکھیں، ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔ ڈینگی کی صورت میں قے آئے ، پیٹ میں درد ہو، اچانک پلیٹ لیٹس گر جائیں یعنی 2 لاکھ سے 20 ہزار پر آجائیں، خون گاڑھا ہوجائے تو مریض کو ڈینگی ہمیرجک فیور ہے ، اسے فوری طور پر ہسپتال داخل کرانا چاہیے۔ ایسے مریض کا بلڈ پریشر کم ہوسکتا ہے، اس کے گردے، جگر، پھیپھڑے، دل، دماغ و دیگر اعضاء ناکارہ ہوسکتے ہیں۔ ایسے مریض کو آئی سی یو میں رکھا جائے اور اس کا مکمل علاج کیا جائے۔
ڈینگی کی ویکسین آچکی ہے مگر پاکستان میں نہیں آئی۔ ڈینگی کی مختلف ویکسین ہیں مگر اتنی کامیاب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈینگی کی چار اقسام ہیں اور کوئی بھی ویکسین چاروں اقسام کیلئے موثر نہیں ہے۔ ڈینگی کا حل احتیاطی تدابیر ہیں۔ جوہڑ، ٹوٹی گلیاں، سڑکیں ٹھیک کر دی جائیں، فوارے، جھیل وغیرہ کوموسم کے حساب سے خشک کر دیا جائے۔ اگر خشک نہیں کر سکتے تو وہاں مچھلیوں کی ایسی اقسام چھوڑ دی جائیں جو ڈینگی کا لاروا کھا جاتی ہیں۔ شہری اپنے گھروں اور ارد گرد کہیں بھی پانی کھڑا نہ ہونے دیں اور ڈینگی کے افزائش کے لیے ممکنہ جگہوں کو کم سے کم کریں۔
پروفیسر جاوید چودھری
(نمائندہ سول سوسائٹی )
کورونا وائرس ،ڈینگی یا کوئی اور وباء ہو،حکومت اس کے تدارک کے لیے اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ جب تک عوام ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں اور سول سوسائٹی کردار ادا نہ کرے تب تک ایسے مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ڈینگی کا تعلق صفائی اور احتیاط سے ہے۔ اس بیماری کا تعلق سب سے ہے، سب ہی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اس کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
لہٰذا صحافی، وکلاء، تاجر، علماء، طلبہ سمیت پوری سول سوسائٹی کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ مساجد کا پلیٹ فارم ڈینگی سے آگاہی اور لوگوں کو صفائی ستھرائی کی ترغیب دینے کیلئے انتہائی اہم اور موثر ثابت ہوسکتا ہے لہٰذاعلماء کرام لوگوں کو ڈینگی کے حوالے سے آگاہی دیں۔
اس سے ڈینگی پر قابو پانے میں بہت مدد ملے گی۔ ڈینگی کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ درست ہے کہ لاروا تلف کرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات میں تاخیر ہوئی، اب ڈینگی مچھر پیدا ہوچکا ہے جس کا واحد حل احتیاطی تدابیر ہیں۔ حکومت ڈینگی پر قابو پانے اور اس کے علاج معالجے کے حوالے سے جو سہولیات دے رہی ہے، اس سے بہتر سہولیات نہیں دی جاسکتی۔ پنجاب کے 70 فیصد ڈینگی کے کیسز لاہور سے ہے لہٰذا ایکسپو سینٹر لاہور میں حکومت کی جانب سے 280 بیڈز پر مشتمل ڈینگی فیلڈ ہسپتال قائم کیا گیاہے جو بہترین ہے۔
اس کے علاوہ سرکاری سطح پر ڈینگی کا ٹیسٹ مفت جبکہ پرائیویٹ شعبے میں 90 روپے کا ہے جو بہت بڑی سہولت ہے۔ بخار کی صورت میں فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے، ڈینگی کا شبہ ہو تو فیلڈ ہسپتال جائیں، فوری ٹیسٹ کروائیں ورنہ یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ گھروں، گلیوں، پارکس و دیگر جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے علاقے کو محفوظ بنائیں۔تمام شہری مچھر دانی، مچھر مار کوائل، مچھر بھگاؤ لوشن و دیگر احتیاطی تدابیراختیار کریں۔
اس وقت ڈینگی کی کیا صورتحال ہے اور حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اس کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین صحت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب )
ڈینگی جیسے مسائل پر قابو پانے کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے مگر شہریوں کے تعاون کے بغیر اس پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ڈینگی کے حوالے آگاہی اور روک تھام میں علماء، اساتذہ، وکلاء، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کا کردار انتہائی اہم ہے، جس طرح سب نے مل کر کورونا وباء پر قابو پایا اسی طرح ہمیں ڈینگی پر بھی قابو پانا ہے۔
ڈینگی جان لیوا مرض ہے ، اس سے بچاؤ کا واحد حل احتیاط ہے لہٰذا شہری پورے بازو والے کپڑے پہنیں، مچھر بھگاؤ لوشن کا استعمال کریں، گھر یا کسی بھی مقام پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اس مچھر سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ کورونا کے چیلنج سے نمٹنے کی طرف توجہ ہونے سے ڈینگی کے لاروا تلف کرنے میں تاخیر ہوئی جو نہیں ہونا چاہیے تھا، ڈینگی بھی انتہائی اہم مسئلہ ہے، اس پر وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی رائے دی ہے کہ دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ ڈینگی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے متعلقہ اداروں اور حکومت کو ملٹی ٹاسکنگ کرنا ہوگی۔
پوری عوام ڈینگی کی سٹیک ہولڈر ہے لہٰذا سب کو اپنے اور دوسروں کیلئے ڈینگی کی روک تھام پر کام کرنا ہوگا اور تمام احتیاطی تدابیر اپنانا ہونگی۔ پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اگر ہماری خواتین ڈینگی کے خاتمے کا تہیہ کرلیں تو پھر حکومت کوئی اقدام کرے یا نہ کرے، ہم اس پر قابو پالیں گے۔ ہر خاتون کو اپنا گھر ڈینگی سے پاک کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو احتیاطی تدابیر سکھانا ہونگی۔ حکومت ڈینگی کے تدارک کیلئے کام کر رہی ہے تاہم اگر کہیںمسئلہ ہے تو ہیلپ لائن نمبر 1033 پر اطلاع کریں، یہ صدقہ جاریہ ہے، اس سے نہ صرف لوگ خود محفوظ ہونگے بلکہ پورا معاشرہ محفوظ ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز )
ڈینگی کے بنیادی طور پر چار وائرسز ہیں، ڈینگی 1، 2،3،4۔ جو وائرس ایک انسان کو دوسرے انسان سے یا جانور سے انسان کو لگتا ہے وہ ویکٹر کے ذریعے لگتا ہے اور یہ زنانہ مچھر کے ذریعے ہوتا ہے جس کا نام Aedes aegypti ہے۔ یہ مچھر اپنی خوراک کی تلاش میں صبح سویرے یا مغرب کے وقت باہر نکلتی ہے، اس کی خوراک انسانی خون ہے، اگر کسی انسان کے خون میں یہ وائرس موجود ہوگا تو یہ اس مچھر میں چلا جائے گا، جب وہ انڈے دے گی تو یہ وائرس اسکی اگلی نسل میں منتقل ہوجائے گا۔
ڈینگی ڈومیسٹک مچھر ہے اور یہ گھر کے اندر کی بیماری ہے،ڈینگی مچھر پانی میں ہزاروں کی تعداد میں انڈے دیتی ہے جن کی افزائش کیلئے ایک چمچ پانی کافی ہے لہٰذا اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر احتیاط ضروری ہے۔جب یہ مچھر پیدا ہوتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کا بہترین حل احتیاط ہے۔ گملا، فریج کے نیچے کی ٹرے، واٹر کولر یا کسی بھی جگہ پانی کھڑا ہے تو مچھر کی نشونما ہوسکتی ہے، ان جگہوں کو خشک رکھیں۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لہٰذا اگر اہم اپنا نصف ایمان مکمل کرلیں تو ڈینگی سمیت بہت ساری بیماریوں سے بچ جائیں گے۔
ڈینگی اس وقت 130 ممالک میں موجود ہے،ا ن میں زیادہ تر ممالک وہ ہیں جہاں برسات یا نمی زیادہ ہوتی ہے جن میں سنگاپور، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سری لنکا، برازیل وغیرہ شامل ہیں۔ ڈینگی کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ 13 ڈگری سے کم یا 34 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت ہوجائے تو ڈینگی مچھر کی افزائش نہیں ہوتی، جب موسم گرمی سے سردی یا سرد ی سے گرمی کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو یہ وقت ڈینگی مچھر کیلئے انتہائی موزوں ہوتا ہے لہٰذا اگر اس دوران پہلے سے اگر صفائی ستھرائی اور جگہ خشک رکھی جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ڈینگی کے علاج کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر مریض میں ڈینگی کی بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے تو یہ جان لیوا نہیں ہوتا۔ ڈینگی کے چار وائرسز میں سے ایک قسم ایسی ہے جس سے لائف ٹائم امیونٹی مل جاتی ہے جبکہ مختصر وقت کیلئے چاروں اقسام میں ہی امیونٹی مل جاتی ہے۔ اگر دوسری مرتبہ چاروں میں سے کوئی اور اقسام کا ڈینگی ہوا تو وہ ہوسکتا ہے۔ عام طور پر50 فیصد لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ انہیں ڈینگی ہوا ہے۔ 40 فیصد لوگوں کو ڈینگی فیور ہوتا ہے اور وہ بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
یونانی زبان میں ڈینگی کا لفظی معانی ہڈیوں کا ٹوٹنا ہے،اس میں درد کی صورت میں اسپرین وغیرہ نہ لیں۔ 5سے6 فیصد مریضوں میں ڈینگی پیچیدہ ہوتا ہے جسے 'ڈینگی ہیمرجک فیور یا 'ڈینگی شاک سنڈروم' کہتے ہیں۔ اس میں مریض کی خون کی نالیوں میں سے پانی رسنا شروع اور ہڈیوں کے اندر خون گاڑھا ہونا جاتا ہے۔
ہڈیوں سے نکلنے والا پانی پیٹ اور پھیپھڑوں میں جمع ہوجاتا ہے لیکن 48 گھنٹے میں یا مرض ختم ہونے کے بعد واپس نالیوں میں جانا شروع ہوجاتا ہے۔ ان اوقات میں ہمیں مریض کو خشک رکھنا ہے، اسے ڈرپ نہیں لگانی کیونکہ جب سارا فلیوڈ واپس آئے گا تو یہ دل اور پھیپھڑوں کیلئے ٹھیک نہیں ہے، پانی ہر جگہ اکٹھا ہونا شروع ہوجائے گا جس سے نقصان زیادہ ہوگا۔ اگر ڈینگی کے مریض کا درست علاج ہو تو اس میں شرح اموات صفر ہے لہٰذا ہمیں ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل سٹاف کو تربیت دینا ہوگی اور لوگوں کو شعور دینا ہوگا کہ مستند ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
اگر ڈینگی بخار ہے تو آرام کریں، غیر ضروری ادویات نہ لیں، اپنی خوراک کا خیال رکھیں، ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں۔ ڈینگی کی صورت میں قے آئے ، پیٹ میں درد ہو، اچانک پلیٹ لیٹس گر جائیں یعنی 2 لاکھ سے 20 ہزار پر آجائیں، خون گاڑھا ہوجائے تو مریض کو ڈینگی ہمیرجک فیور ہے ، اسے فوری طور پر ہسپتال داخل کرانا چاہیے۔ ایسے مریض کا بلڈ پریشر کم ہوسکتا ہے، اس کے گردے، جگر، پھیپھڑے، دل، دماغ و دیگر اعضاء ناکارہ ہوسکتے ہیں۔ ایسے مریض کو آئی سی یو میں رکھا جائے اور اس کا مکمل علاج کیا جائے۔
ڈینگی کی ویکسین آچکی ہے مگر پاکستان میں نہیں آئی۔ ڈینگی کی مختلف ویکسین ہیں مگر اتنی کامیاب نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈینگی کی چار اقسام ہیں اور کوئی بھی ویکسین چاروں اقسام کیلئے موثر نہیں ہے۔ ڈینگی کا حل احتیاطی تدابیر ہیں۔ جوہڑ، ٹوٹی گلیاں، سڑکیں ٹھیک کر دی جائیں، فوارے، جھیل وغیرہ کوموسم کے حساب سے خشک کر دیا جائے۔ اگر خشک نہیں کر سکتے تو وہاں مچھلیوں کی ایسی اقسام چھوڑ دی جائیں جو ڈینگی کا لاروا کھا جاتی ہیں۔ شہری اپنے گھروں اور ارد گرد کہیں بھی پانی کھڑا نہ ہونے دیں اور ڈینگی کے افزائش کے لیے ممکنہ جگہوں کو کم سے کم کریں۔
پروفیسر جاوید چودھری
(نمائندہ سول سوسائٹی )
کورونا وائرس ،ڈینگی یا کوئی اور وباء ہو،حکومت اس کے تدارک کے لیے اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ جب تک عوام ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں اور سول سوسائٹی کردار ادا نہ کرے تب تک ایسے مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ڈینگی کا تعلق صفائی اور احتیاط سے ہے۔ اس بیماری کا تعلق سب سے ہے، سب ہی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اس کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
لہٰذا صحافی، وکلاء، تاجر، علماء، طلبہ سمیت پوری سول سوسائٹی کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ مساجد کا پلیٹ فارم ڈینگی سے آگاہی اور لوگوں کو صفائی ستھرائی کی ترغیب دینے کیلئے انتہائی اہم اور موثر ثابت ہوسکتا ہے لہٰذاعلماء کرام لوگوں کو ڈینگی کے حوالے سے آگاہی دیں۔
اس سے ڈینگی پر قابو پانے میں بہت مدد ملے گی۔ ڈینگی کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ درست ہے کہ لاروا تلف کرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات میں تاخیر ہوئی، اب ڈینگی مچھر پیدا ہوچکا ہے جس کا واحد حل احتیاطی تدابیر ہیں۔ حکومت ڈینگی پر قابو پانے اور اس کے علاج معالجے کے حوالے سے جو سہولیات دے رہی ہے، اس سے بہتر سہولیات نہیں دی جاسکتی۔ پنجاب کے 70 فیصد ڈینگی کے کیسز لاہور سے ہے لہٰذا ایکسپو سینٹر لاہور میں حکومت کی جانب سے 280 بیڈز پر مشتمل ڈینگی فیلڈ ہسپتال قائم کیا گیاہے جو بہترین ہے۔
اس کے علاوہ سرکاری سطح پر ڈینگی کا ٹیسٹ مفت جبکہ پرائیویٹ شعبے میں 90 روپے کا ہے جو بہت بڑی سہولت ہے۔ بخار کی صورت میں فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے، ڈینگی کا شبہ ہو تو فیلڈ ہسپتال جائیں، فوری ٹیسٹ کروائیں ورنہ یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ گھروں، گلیوں، پارکس و دیگر جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے علاقے کو محفوظ بنائیں۔تمام شہری مچھر دانی، مچھر مار کوائل، مچھر بھگاؤ لوشن و دیگر احتیاطی تدابیراختیار کریں۔