ایف آئی اے میں 2114 پوسٹیں خالی ہونے کا انکشاف
رحمن ملک کو 7 بار بھرتیوں پر پابندی اٹھانے کیلیے لکھا مگر جواب نہیں ملا، ظفراللہ
ایف آئی اے میں ایک چوتھائی پوسٹیں خالی ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کو دستیاب دستاویزات کے مطابق ادارے کے مختلف شعبوں میں 2114 نشستیں خالی ہیں جوکہ کل ملازمین کا 25.5 فیصد بنتا ہے۔
2009 اور 2010 میں وزارت داخلہ کی طرف سے منظور شدہ پوسٹوں کی تعداد 8262 ہے جبکہ 6148 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ امیگریشن ونگ میں 2798 منظور شدہ پوسٹیں ہیں جبکہ 2065 ملازمین کام کررہے ہیں اس طرح 733 نشستیں خالی پڑی ہیں۔ جنرل اسٹاف میں 3687 منظور شدہ پوسٹوں کے برعکس2774 ملازمین کام کررہے ہیں۔ امیگریشن ونگ کو ان دنوں قائم مقام ڈی جی غالب بندیشہ چلا رہے ہیں، اس کے منسٹریل سٹاف میں 188 اہلکاروں کی کمی ہے جبکہ 288 جنرل پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ رپورٹ غالب بندیشہ نے بطور ایڈیشنل ڈی جی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر تیار کی تھی مگر گزشتہ روز غالب بندیشہ نے رپورٹ پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ وزیر داخلہ کی ہدایت پر ڈیپوٹیشن پر آئے 59 افسروںکو واپس بھیج دیا گیا ہے اور 45 افسروں کو اہم ذمے داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کچھ سینئر افسروں نے بتایا کہ کچھ سینئر افسر 'دہائیوں' سے ایف آئی اے میں تعینات ہیں۔
ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر وزیر داخلہ ادارے کی بحالی چاہتے ہیں تو روٹیشن پالیسی پر عملدرآمد کرانا ہوگا، ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے خالد قریشی مارچ1997 سے ایف آئی اے میں کام کر رہے ہیں۔ خالد قریشی کو 1997 میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ 18 میں پوسٹ کیا گیا اور اسی سال انھیں گریڈ 19 میں ترقی دے دی گئی، 2006 میں وہ گریڈ 20 اور گزشتہ سال گریڈ 21 میں ترقی پاگئے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے ظفراللہ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ایف آئی اے کو ایک پروفیشنل ادارہ بنانا ہوگا اور مطلوبہ نتائج کیلئے نوجوان قابل افسروں کو تعینات کرنا ہوگا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ میں نے اپنے دور میں بھرتیوں پر پابندی اٹھانے کیلیے 7 بار وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو لکھا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک اور سابق ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال نے کہا ہے کہ ادارے کی بحالی کیلئے روٹیشن پالیسی پر عمل کرنا ہوگا، اسٹاف کی کمی خطرناک صورتحال ہے، بہتر نتائج کیلئے بڑی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔
2009 اور 2010 میں وزارت داخلہ کی طرف سے منظور شدہ پوسٹوں کی تعداد 8262 ہے جبکہ 6148 ملازمین کام کر رہے ہیں۔ امیگریشن ونگ میں 2798 منظور شدہ پوسٹیں ہیں جبکہ 2065 ملازمین کام کررہے ہیں اس طرح 733 نشستیں خالی پڑی ہیں۔ جنرل اسٹاف میں 3687 منظور شدہ پوسٹوں کے برعکس2774 ملازمین کام کررہے ہیں۔ امیگریشن ونگ کو ان دنوں قائم مقام ڈی جی غالب بندیشہ چلا رہے ہیں، اس کے منسٹریل سٹاف میں 188 اہلکاروں کی کمی ہے جبکہ 288 جنرل پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ رپورٹ غالب بندیشہ نے بطور ایڈیشنل ڈی جی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر تیار کی تھی مگر گزشتہ روز غالب بندیشہ نے رپورٹ پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ وزیر داخلہ کی ہدایت پر ڈیپوٹیشن پر آئے 59 افسروںکو واپس بھیج دیا گیا ہے اور 45 افسروں کو اہم ذمے داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کچھ سینئر افسروں نے بتایا کہ کچھ سینئر افسر 'دہائیوں' سے ایف آئی اے میں تعینات ہیں۔
ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر وزیر داخلہ ادارے کی بحالی چاہتے ہیں تو روٹیشن پالیسی پر عملدرآمد کرانا ہوگا، ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے خالد قریشی مارچ1997 سے ایف آئی اے میں کام کر رہے ہیں۔ خالد قریشی کو 1997 میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ 18 میں پوسٹ کیا گیا اور اسی سال انھیں گریڈ 19 میں ترقی دے دی گئی، 2006 میں وہ گریڈ 20 اور گزشتہ سال گریڈ 21 میں ترقی پاگئے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے ظفراللہ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ایف آئی اے کو ایک پروفیشنل ادارہ بنانا ہوگا اور مطلوبہ نتائج کیلئے نوجوان قابل افسروں کو تعینات کرنا ہوگا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ میں نے اپنے دور میں بھرتیوں پر پابندی اٹھانے کیلیے 7 بار وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو لکھا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک اور سابق ڈی جی ایف آئی اے ملک اقبال نے کہا ہے کہ ادارے کی بحالی کیلئے روٹیشن پالیسی پر عمل کرنا ہوگا، اسٹاف کی کمی خطرناک صورتحال ہے، بہتر نتائج کیلئے بڑی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔