نااہلیت کی کوئی حد بھی ہے
حکومتی رہنماؤں نے خود وزیر اعظم کو متنازعہ بنادیا۔
مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ تحریک لبیک کا فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ نہیں تھا، وزرا نے جھوٹ بولا۔ مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن حامد رضا نے بھی کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ کس نے کہا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ ٹی ایل پی کا تھا۔ ہماری کوشش تھی کہ خون خرابہ نہ ہو، ہم تو حکومت کو کنونس کرنے گئے تھے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرے، کیونکہ مظاہرین نے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
معاہدے کے بعد کراچی پہنچنے پر مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب نے واضح کیا کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کیا ہی نہیں گیا، وزراء نے اس سلسلے میں جھوٹ بولا۔ حکومت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ خود انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، یہ پہلے جیسا نہیں ہوگا کہ صبح ہو اور شام کو اسے ماننے سے انکار کردیا جائے۔ ہمارے مذاکرات حکمت اور دانشمندی کی فتح ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ مفتی منیب کے مطابق سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ ہی نہیں تھا تو پھر وزیر اعظم کو کس نے بتا دیا تھا؟ معاملات سموتھ چل رہے تھے اور سعد رضوی کی رہائی کے عدالتی احکامات جاری ہو چکے تھے تو حکومت انھیں رہا کردیتی اور رہائی سے قبل وہاں جاکر ان سے بات کرلی جاتی مگر حکومت کو اس وقت پتا چلتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے آپ سب کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکومت کو سب سے بات کرنی چاہیے، یہ نہ کریں کہ جو حکومتی گردن پر انگوٹھا رکھے تب ہی اس سے بات کی جائے۔ جب پانی سر سے گزر گیا اور قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں، لوگوں کا کاروبار متاثر اور بہت بڑا مالی نقصان ہو گیا حکومت کو اس قسم کے معاملات پہلے دیکھنے چاہیے تھے تو یہ نوبت نہ آتی۔
سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ احتجاج تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہوتا ہے لیکن جب جماعتیں سڑکوں پر آجاتی ہیں تو پھر معاملات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ خندقیں کھود کر اور رکاوٹیں ڈال کر حالات خود حکومت نے خراب کیے۔ دونوں طرف کا جانی نقصان ہوا۔ اگر گزشتہ معاہدوں پر عمل ہو جاتا تو یہ نوبت نہ آتی اور کوئی کالعدم جماعت یا کوئی بھی ایسی شخصیت جس پر پابندی ہو اب ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنی طاقت استعمال کرکے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔تحریک لبیک نے چھ سالوں میں سات دھرنے دیے ان کے مطالبات کا حکومت کو تو پتا تھا۔
اس لیے عید میلاد النبی سے قبل حکومت کو اس سلسلے میں کچھ کر لینا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا اور حکومت کی نااہلی کی انتہا یہاں تک پہنچ گئی کہ جس پر دہشت گردی، بھارت اور دیگر ملکوں سے فنڈنگ کے الزامات وزرا لگا رہے تھے اسی جماعت کے رہنماؤں کو وزیر اعظم کو بنی گالا بلانا پڑا۔ اس سلسلے میں قائم کی گئی بارہ رکنی کمیٹی سے بالا بالا ایک اور مذاکراتی کمیٹی راتوں رات مفتی منیب کی سربراہی میں ظاہر ہوئی۔
روزانہ ٹی وی پر پریس کانفرنس کرنے والے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کی غیر موجودگی میں معاہدہ طے پاگیا اور جن حکومتی عہدیداروں کا ایسے معاملات سے تعلق نہیں ہوتا وہ مفتی منیب کی اچانک ہونے والی پریس کانفرنس میں سامنے آئے اور حکومت کی بجائے مفتی منیب کے لکھے ہوئے معاہدے نے اچانک معاملات سنبھال لیے اور حکومت منہ دیکھتی رہ گئی۔بارہ روز تک حکومت اس کوشش میں لگی رہی کہ لاہور سے وزیر آباد آ کر دھرنا دینے والے ہزاروں مظاہرین کو دریائے جہلم کا پل کراس نہ کرنے دیا جائے۔
اس غیر جمہوری اقدام کی کوشش کرنے والی حکومت کے وزرا یہ بھول گئے کہ 2014 میں جب انھوں نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تھا تو اس وقت کی (ن) لیگی حکومت نے ان کے راستے روکنے کے لیے سڑکوں پر خندقیں نہیں کھودی تھیں۔ (ن) لیگی حکومت نے وہ کچھ نہیں کیا تھا جو آج کی حکومت نے کر دکھایا اور منہ کی کھا کر ثابت کردیا کہ نااہلیت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
حکومتی خندقیں کھدی رہ گئیں، قومی شاہراہ پر ٹریفک بند، قریبی شہروں میں نظام زندگی درہم برہم۔ نااہلوں کی حکومت کو پتا نہ چلا اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے دلچسپی لینے سے معاہدہ ہوگیا اور حکومت کی نااہلی مزید عیاں ہوگئی۔
حکومتی رہنماؤں نے خود وزیر اعظم کو متنازعہ بنادیا۔ حکومتی نااہلی کہ وہ بات جس کا فسانے میں ذکر نہ تھا وہ وزرا اپنے وزیر اعظم کو بتاتے رہے کہ مظاہرین فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی مفتی منیب نے تردید کردی مگر وزیر اعظم نے غلط باتیں پھیلانے والے اپنے وزیروں سے باز پرس نہیں کی۔
معاہدے کے بعد کراچی پہنچنے پر مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب نے واضح کیا کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کیا ہی نہیں گیا، وزراء نے اس سلسلے میں جھوٹ بولا۔ حکومت کے ساتھ ہونے والا معاہدہ خود انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، یہ پہلے جیسا نہیں ہوگا کہ صبح ہو اور شام کو اسے ماننے سے انکار کردیا جائے۔ ہمارے مذاکرات حکمت اور دانشمندی کی فتح ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ مفتی منیب کے مطابق سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ ہی نہیں تھا تو پھر وزیر اعظم کو کس نے بتا دیا تھا؟ معاملات سموتھ چل رہے تھے اور سعد رضوی کی رہائی کے عدالتی احکامات جاری ہو چکے تھے تو حکومت انھیں رہا کردیتی اور رہائی سے قبل وہاں جاکر ان سے بات کرلی جاتی مگر حکومت کو اس وقت پتا چلتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے آپ سب کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکومت کو سب سے بات کرنی چاہیے، یہ نہ کریں کہ جو حکومتی گردن پر انگوٹھا رکھے تب ہی اس سے بات کی جائے۔ جب پانی سر سے گزر گیا اور قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں، لوگوں کا کاروبار متاثر اور بہت بڑا مالی نقصان ہو گیا حکومت کو اس قسم کے معاملات پہلے دیکھنے چاہیے تھے تو یہ نوبت نہ آتی۔
سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ احتجاج تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہوتا ہے لیکن جب جماعتیں سڑکوں پر آجاتی ہیں تو پھر معاملات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ خندقیں کھود کر اور رکاوٹیں ڈال کر حالات خود حکومت نے خراب کیے۔ دونوں طرف کا جانی نقصان ہوا۔ اگر گزشتہ معاہدوں پر عمل ہو جاتا تو یہ نوبت نہ آتی اور کوئی کالعدم جماعت یا کوئی بھی ایسی شخصیت جس پر پابندی ہو اب ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنی طاقت استعمال کرکے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔تحریک لبیک نے چھ سالوں میں سات دھرنے دیے ان کے مطالبات کا حکومت کو تو پتا تھا۔
اس لیے عید میلاد النبی سے قبل حکومت کو اس سلسلے میں کچھ کر لینا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا اور حکومت کی نااہلی کی انتہا یہاں تک پہنچ گئی کہ جس پر دہشت گردی، بھارت اور دیگر ملکوں سے فنڈنگ کے الزامات وزرا لگا رہے تھے اسی جماعت کے رہنماؤں کو وزیر اعظم کو بنی گالا بلانا پڑا۔ اس سلسلے میں قائم کی گئی بارہ رکنی کمیٹی سے بالا بالا ایک اور مذاکراتی کمیٹی راتوں رات مفتی منیب کی سربراہی میں ظاہر ہوئی۔
روزانہ ٹی وی پر پریس کانفرنس کرنے والے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کی غیر موجودگی میں معاہدہ طے پاگیا اور جن حکومتی عہدیداروں کا ایسے معاملات سے تعلق نہیں ہوتا وہ مفتی منیب کی اچانک ہونے والی پریس کانفرنس میں سامنے آئے اور حکومت کی بجائے مفتی منیب کے لکھے ہوئے معاہدے نے اچانک معاملات سنبھال لیے اور حکومت منہ دیکھتی رہ گئی۔بارہ روز تک حکومت اس کوشش میں لگی رہی کہ لاہور سے وزیر آباد آ کر دھرنا دینے والے ہزاروں مظاہرین کو دریائے جہلم کا پل کراس نہ کرنے دیا جائے۔
اس غیر جمہوری اقدام کی کوشش کرنے والی حکومت کے وزرا یہ بھول گئے کہ 2014 میں جب انھوں نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تھا تو اس وقت کی (ن) لیگی حکومت نے ان کے راستے روکنے کے لیے سڑکوں پر خندقیں نہیں کھودی تھیں۔ (ن) لیگی حکومت نے وہ کچھ نہیں کیا تھا جو آج کی حکومت نے کر دکھایا اور منہ کی کھا کر ثابت کردیا کہ نااہلیت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
حکومتی خندقیں کھدی رہ گئیں، قومی شاہراہ پر ٹریفک بند، قریبی شہروں میں نظام زندگی درہم برہم۔ نااہلوں کی حکومت کو پتا نہ چلا اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے دلچسپی لینے سے معاہدہ ہوگیا اور حکومت کی نااہلی مزید عیاں ہوگئی۔
حکومتی رہنماؤں نے خود وزیر اعظم کو متنازعہ بنادیا۔ حکومتی نااہلی کہ وہ بات جس کا فسانے میں ذکر نہ تھا وہ وزرا اپنے وزیر اعظم کو بتاتے رہے کہ مظاہرین فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی مفتی منیب نے تردید کردی مگر وزیر اعظم نے غلط باتیں پھیلانے والے اپنے وزیروں سے باز پرس نہیں کی۔