اسلام کا نظام تجارت
کوئی ملک قانون شکن اور بااثر سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالے بغیر چھوٹے تاجروں اور عوام کو تحفّظ فراہم نہیں کرسکتا
زمانہ قبل از اسلام مکہ میں عقیق و عکاظ جیسے مشہور بازاروں میں تجارتی نمائشیں لگتی تھیں۔
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ بھی اس نمائش میں اپنے بیس اونٹ لائے، جن میں سے ایک اونٹ معمولی لنگڑا تھا جسے ہر کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے غلام کو ہدایات فرمائیں کہ مجھے ضروری کام پڑگیا ہے تو اگر کوئی اس اونٹ کا خریدار آئے تو اسے اونٹ کا عیب ضرور بتانا اور قیمت بھی نصف وصول کرنا۔ جب آپؐ واپس آئے تو پتا چلا کہ غلام نے اونٹ کو فروخت تو کردیا ہے لیکن خریدار کو اونٹ کا عیب بتانا بھول گیا اور قیمت بھی پوری لے بیٹھا ہے۔ آپ ﷺ کو بہت رنج ہوا۔ آپؐ نے فوراً اسے ساتھ لیا اور خریدار کی تلاش میں نکلے۔
خریدار چوں کہ یمن کی طرف سے آئے تھے، تو ایک دن ایک رات کے مسلسل سفر کے بعد ان کا قافلہ ملا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ان میں ایک اونٹ لنگڑا ہے تم یا تو وہ اونٹ واپس کردو یا اپنی آدھی قیمت واپس لے لو۔ تو ان کی خوشی سے آپؐ نے وہ اونٹ لے کر قیمت واپس کردی۔ اس امانت و دیانت کو دیکھ کر آپؐ کی نبوت پر وہ فوراً اسلام لے آئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاجرانہ زندگی کا یہ وہ حسین پہلو ہے جو تاجروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ اکثر تاجروں کے لیے انتہائی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہم شرعی حکم کی وجہ سے اپنی چیز میں نقص بتا کر اپنا نقصان کیسے کریں، جب کہ خریدار کو عیب کا پتا ہی نہ ہو۔ اس کے حل کے لیے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایمان کے کمال اور آخرت کے محاسبے پر زور دیا اور اپنے عمل سے مال کی اہمیت کو گھٹایا۔
ایک یہودی جس سے آپؐ نے کچھ قرض لیا تھا وہ آکر سختی سے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگا۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے اسے روکنا چاہا، آپؐ نے منع فرما دیا کہ صاحب حق کو کہنے کا حق حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہؓ واپس آکر کہنے لگے: یارسول اﷲ ﷺ! اس کے اونٹ جیسا اونٹ تو نہیں مل رہا اس سے اچھا مل رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہی اسے خرید کر دے دو اور فرمایا: ''تم میں سے بہترین وہی ہے جو ادائی میں اچھا ہو۔''
کوئی ملک قانون شکن اور بااثر سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالے بغیر چھوٹے تاجروں اور عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا۔ اس کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ واقعہ مطالعہ فرمائیے۔ قبیلہ ارش کے ایک شخص نے ابوجہل کے ہاتھ ایک اونٹ بیچا لیکن ابوجہل قیمت دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ اس مظلوم شخص نے مکے کے سب شرفاء سے اس بابت بار بار دہائی دی۔ مگر کوئی ابوجہل سے اس کا حق دلانے کی جرأت نہ کرسکا۔ ان دنوں ابوجہل اسلام دشمنی میں اپنے عروج پر بھی تھا۔
کسی نے اس نے کہا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے جاکر کہو، وہ تجھے رقم دلا دیں گے۔ وہ آپ ﷺ کے پاس چلا آیا۔ آپ ﷺ اسے لے کر ابوجہل کے پاس پہنچے۔ ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس کا چہرہ سفید اور رنگ فق ہوگیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: اس کا حق ادا کرو۔ ابوجہل نے فورا رقم دے دی۔ بعد میں ابوجہل سے لوگوں نے اس کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) کی آواز سن کر مجھ پر ناقابل بیان رعب طاری ہوگیا تھا۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ مظلوم کو اس کا حق دلانے میں بااثر سرمایہ کاروں سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی حق تلفی اپنے عروج پر ہے۔ وطن عزیز میں اس خوف ناک صورت حال کا حل سیرت نبویؐ میں تلاش کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بازاروں کا چکر لگاتے، ناپ تول کے پیمانوں کی تحقیق کرتے اور تاجروں کے معاملات کو بہ غور دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ ایک تاجر کے گندم کے ڈھیر کے پاس سے گزرے، اس میں ہاتھ ڈالا تو اندر سے وہ گیلی نکلی۔ آپ ﷺ پوچھا یہ کیا ہے۔۔۔۔ ؟ اس نے کہا بارش کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: گیلی گندم اوپر رکھو تاکہ خریدار کو پتا چلے۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جس نے دھوکا اور فریب سے کام لیا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ دو لوگوں کو وزن کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ''تولو اور جھکتا ہو تولو۔''
تو یہ ہے چیکنگ اور فوری احکامات دینے کا مؤثر، منظم اور مربوط نظام جس کی بہ دولت ایک ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکتا ہے۔ غور کیجیے اگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خود بازاروں میں نکل کر چیکنگ کو عار سمجھتے اور گھر بیٹھے صرف رپورٹ لے لیتے تو معاشرہ، ملک اور ادارے کبھی نہ سدھرتے۔
آج غیر مسلم اقوام تجارت و معیشت میں اسلام کے زرّیں اصولوں کو اپنا کر دنیا پر راج کر رہی ہیں، جب کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان اصولوں کو فراموش کرنے کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔
تاجروں کو چاہیے کہ وہ اسوۂ رسول کریمؐ پر عمل کرتے ہوئے تجارت کریں۔ ملاوٹ، دھوکا دہی، دجل و فریب، وعدہ خلافی، ناپ تول میں کمی اور جعلی اشیاء کی خرید و فروخت سے مکمل اجتناب برتیں۔
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ بھی اس نمائش میں اپنے بیس اونٹ لائے، جن میں سے ایک اونٹ معمولی لنگڑا تھا جسے ہر کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے غلام کو ہدایات فرمائیں کہ مجھے ضروری کام پڑگیا ہے تو اگر کوئی اس اونٹ کا خریدار آئے تو اسے اونٹ کا عیب ضرور بتانا اور قیمت بھی نصف وصول کرنا۔ جب آپؐ واپس آئے تو پتا چلا کہ غلام نے اونٹ کو فروخت تو کردیا ہے لیکن خریدار کو اونٹ کا عیب بتانا بھول گیا اور قیمت بھی پوری لے بیٹھا ہے۔ آپ ﷺ کو بہت رنج ہوا۔ آپؐ نے فوراً اسے ساتھ لیا اور خریدار کی تلاش میں نکلے۔
خریدار چوں کہ یمن کی طرف سے آئے تھے، تو ایک دن ایک رات کے مسلسل سفر کے بعد ان کا قافلہ ملا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ان میں ایک اونٹ لنگڑا ہے تم یا تو وہ اونٹ واپس کردو یا اپنی آدھی قیمت واپس لے لو۔ تو ان کی خوشی سے آپؐ نے وہ اونٹ لے کر قیمت واپس کردی۔ اس امانت و دیانت کو دیکھ کر آپؐ کی نبوت پر وہ فوراً اسلام لے آئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاجرانہ زندگی کا یہ وہ حسین پہلو ہے جو تاجروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔ اکثر تاجروں کے لیے انتہائی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہم شرعی حکم کی وجہ سے اپنی چیز میں نقص بتا کر اپنا نقصان کیسے کریں، جب کہ خریدار کو عیب کا پتا ہی نہ ہو۔ اس کے حل کے لیے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایمان کے کمال اور آخرت کے محاسبے پر زور دیا اور اپنے عمل سے مال کی اہمیت کو گھٹایا۔
ایک یہودی جس سے آپؐ نے کچھ قرض لیا تھا وہ آکر سختی سے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگا۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے اسے روکنا چاہا، آپؐ نے منع فرما دیا کہ صاحب حق کو کہنے کا حق حاصل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہؓ واپس آکر کہنے لگے: یارسول اﷲ ﷺ! اس کے اونٹ جیسا اونٹ تو نہیں مل رہا اس سے اچھا مل رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہی اسے خرید کر دے دو اور فرمایا: ''تم میں سے بہترین وہی ہے جو ادائی میں اچھا ہو۔''
کوئی ملک قانون شکن اور بااثر سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالے بغیر چھوٹے تاجروں اور عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا۔ اس کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ واقعہ مطالعہ فرمائیے۔ قبیلہ ارش کے ایک شخص نے ابوجہل کے ہاتھ ایک اونٹ بیچا لیکن ابوجہل قیمت دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ اس مظلوم شخص نے مکے کے سب شرفاء سے اس بابت بار بار دہائی دی۔ مگر کوئی ابوجہل سے اس کا حق دلانے کی جرأت نہ کرسکا۔ ان دنوں ابوجہل اسلام دشمنی میں اپنے عروج پر بھی تھا۔
کسی نے اس نے کہا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے جاکر کہو، وہ تجھے رقم دلا دیں گے۔ وہ آپ ﷺ کے پاس چلا آیا۔ آپ ﷺ اسے لے کر ابوجہل کے پاس پہنچے۔ ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس کا چہرہ سفید اور رنگ فق ہوگیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: اس کا حق ادا کرو۔ ابوجہل نے فورا رقم دے دی۔ بعد میں ابوجہل سے لوگوں نے اس کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) کی آواز سن کر مجھ پر ناقابل بیان رعب طاری ہوگیا تھا۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ مظلوم کو اس کا حق دلانے میں بااثر سرمایہ کاروں سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی حق تلفی اپنے عروج پر ہے۔ وطن عزیز میں اس خوف ناک صورت حال کا حل سیرت نبویؐ میں تلاش کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ بازاروں کا چکر لگاتے، ناپ تول کے پیمانوں کی تحقیق کرتے اور تاجروں کے معاملات کو بہ غور دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ ایک تاجر کے گندم کے ڈھیر کے پاس سے گزرے، اس میں ہاتھ ڈالا تو اندر سے وہ گیلی نکلی۔ آپ ﷺ پوچھا یہ کیا ہے۔۔۔۔ ؟ اس نے کہا بارش کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: گیلی گندم اوپر رکھو تاکہ خریدار کو پتا چلے۔ پھر فرمایا: یاد رکھو! جس نے دھوکا اور فریب سے کام لیا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ دو لوگوں کو وزن کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ''تولو اور جھکتا ہو تولو۔''
تو یہ ہے چیکنگ اور فوری احکامات دینے کا مؤثر، منظم اور مربوط نظام جس کی بہ دولت ایک ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکتا ہے۔ غور کیجیے اگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خود بازاروں میں نکل کر چیکنگ کو عار سمجھتے اور گھر بیٹھے صرف رپورٹ لے لیتے تو معاشرہ، ملک اور ادارے کبھی نہ سدھرتے۔
آج غیر مسلم اقوام تجارت و معیشت میں اسلام کے زرّیں اصولوں کو اپنا کر دنیا پر راج کر رہی ہیں، جب کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان اصولوں کو فراموش کرنے کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔
تاجروں کو چاہیے کہ وہ اسوۂ رسول کریمؐ پر عمل کرتے ہوئے تجارت کریں۔ ملاوٹ، دھوکا دہی، دجل و فریب، وعدہ خلافی، ناپ تول میں کمی اور جعلی اشیاء کی خرید و فروخت سے مکمل اجتناب برتیں۔