بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
میرات علیؓ کرم اللہ وجھہ الکریم
مصنف: صوفی شوکت رضا، قیمت:700 روپے، صفحات:310
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور سلطانی محلہ کبیر سٹریٹ ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
صوفی صاحب تصوف کے موضوعات پر علم کے خزانے لٹائے جا رہے ہیں، ان کا قلم ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آتا ، یوں لگتا ہے جیسے ان کی یہ صلاحیت عطا یعنی کس کی بخشی ہوئی ہے۔ کسی بزرگ کا فیض ہے جو ان کے ذریعے جاری ہے ۔ ورنہ تصوف کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے علم کے بڑے بڑے سرخیل سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔
اس دفعہ صوفی صاحب نے مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم کی شخصیت کے چند پہلو بیان کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم دنیا اسلام کی واحد شخصیت ہیں جن کا شمار خلفائے راشدین میں بھی ہوتا ہے اور بارہ ائمہ کرام میں بھی ہوتا ہے۔
مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم کے بارے میں صاحب لولاک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا '' میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے''۔ گویا علوم نبوت کے خزانوں سے روحانی و جسمانی طور پر فیض یاب ہونے کے لئے مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے آستانے پر حاضری دینا ہو گی ۔ اسی دروازے سے گزر کر علم کے شہر میں داخل ہوا جا سکتا ہے ۔ تصوف کے تمام سلسلے سوائے ایک کے، مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم سے فیض یاب ہوئے ہیں، اور آپؓ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے فیض یاب ہوئے بلکہ آپ ؓ نے پرورش ہی محبوب خداﷺ کی گود میں پائی، حتیٰ کہ آپؓ کا نام مبارک ''علی ؓ'' بھی خاتم الانبیاءﷺ نے ہی رکھا۔
مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے مناقب اتنے زیادہ ہیں کہ شمار کرنے پر آئیں تو کتابوں کی کتابیں بھر جائیں ۔ صوفی صاحب نے مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم کی سیرت فکری اور فلسفیانہ انداز میں بیان کی ہے ۔ کتاب کو اٹھارہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، ایک باب مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی منقبت پر مشتمل ہے ۔ تصوف کے جویا افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
کالم اور مضامین
مصنف: احسان فیصل کنجاہی، قیمت : 550روپے، صفحات:408
ناشر:کامرانیاں پبلیکیشنز ، کنجاہ ، ضلع گجرات (03016223244)
سادگی سے اپنی بات کہہ دینا اور بات بھی ایسی جو دل کو لگے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ احسان فیصل کنجاہی کی تحریر بھی کچھ ایسی ہی ہے انھوں نے اپنے کالموں اور مضامین میں جو انداز اپنایا ہے وہ الگ سا دکھائی دیتا ہے ، کہیں تو ان کا انداز کہانی کار کا سا ہے تو کہیں وہ قاری کو بلا واسطہ مخاطت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس سب میں سب سے اہم بات ان کی تحریر کی سادگی ہے اسی لئے ان کی بات دل کو لگتی ہے ۔ کتاب میں 1994ء سے لے کر 2021 ء تک کے کالم اور مضامین شامل کئے گئے ہیں ، جو مختلف اخبارات اور رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔
گجرات کے قصبے کنجاہ کی مٹی ادب کے حوالے سے بڑی زرخیز ہے ، فارسی مثنوی نیرنگ عشق کے مصنف غنیمت کنجاہی اور پنجابی ادب کے استاد پروفیسر شریف کنجاہی کے مزارات بھی اسی قصبے میں واقع ہیں ۔ یہ ان ہستیوں کا فیض ہی ہے جو اب بھی یہاں سے ادب کی آبیاری ہو رہی ہے۔ آخر میں حواشی بھی دیئے گئے ہیں ۔
ریل کی جادو نگری
چند روز قبل ایک منفرد کتاب '' ریل کی جادو نگری'' موصول ہوئی۔کتاب کے سر ورق پر پہلی نظر پڑتے ہی ہمیں اپنے بچپن کے ریل گاڑی سے جڑے تمام واقعات یاد آنے لگے۔ ہارون آباد ریلوے اسٹیشن کی پر رونق بلڈنگ ، آتے جاتے ریل انجن کی سیٹیاں اور ڈبوں کے ساتھ لٹک کر سفر کرنا ۔ جناب سعید جاوید کو رب کریم نے اس ملکہ سے مالامال کیا ہے کہ آپ واقعات کی منظر کشی اس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری اس میں ڈوب جاتا ہے۔''
ریل کی جادو نگری میں مصنف نے ریل گاڑی سے متعلق تاریخی، تکنیکی، تخلیقی، عوامی، محکمانہ، دفتری اور ملکی و غیر ملکی لحاظ سے مختلف پہلوؤں کو اس قدر دلکش انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری معلومات کے خزانے سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں بچھا ریل پٹڑیوں کا جال، دوسرے ممالک سے بذریعہ ریل گاڑی روابط اور آمد ورفت اور ان کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ریل ٹریک کی بد حالی کی کمال نقشہ کشی کی گئی ہے ۔ دوران سفر پیش آنے والے حادثات کی وجوہات اور سد باب کے بارے میں چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔
مصنف نے تحریر پرکشش بنانے کے لیے اپنے آپ پر بیتے واقعات کو ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ شعر وادب کے رسیا قارئین کی دلچسپی کے لیے بھی گاہے گاہے موقع کی مناسبت سے بر محل اشعار کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے ۔
ہماری نئی نسل بہت سی روایات کی طرح ریل گاڑی کے سفر اور اس کے لطف سے بھی دور ہے ۔ اس لئے یہ کتاب نئی نسل کو نہ صرف ریل گاڑی کی چیخ چنگاڑ ، چھک چھکا چھک سے روشناس کرائے گی بلکہ ریل گاڑی سے جڑے زندگی کے بے شمار واقعات سے بھی آگاہی دے گی ۔ آپ کو ریل گاڑی کی اقسام ، مسافروں کا طرز عمل، اسٹیشنوں کی صورتحال، ریل کے عملے کی کار گزاریاں، ریل انجن سے متعلق معلومات اور اس سے جڑی ہوئی سہولیات کا تفصیلی تذکرہ بھی ملے گا ۔ کتاب ' بک ہوم' ، مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے ۔کتاب منگوانے کے لیے 042.37231518 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔( تبصرہ نگار : حکیم نیاز احمد ڈیال)
تین ناول
شکیل احمد چوہان فلم انڈسٹری سے وابستہ فکشن نگار ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے دو معروف فلم ڈائریکٹرز کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا اور برٹش ڈائریکٹر مائیکل ہڈسن کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا ۔ خود بھی کچھ شارٹ فلمز اور ویڈیو سانگز ڈائریکٹ کر چکے ہیں ۔
''مجروح'' ان کا نیا ناول ہے، جس میں انہوں نے فلم کے اسکرپٹ کو ناول کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ جیسا کہ مصنف نے لکھا ہے کہ ناول پر فلم بنانے کی روایت تو رہی ہے، جس نے کئی شاہکار فلموں کو جنم دیا ہے، لیکن فلمی سکرپٹ کو ناول کا روپ شاید ہی پہلے دیا گیا ہو ۔ کہانی کا genre، انتقام یا revenge ہے۔ ڈرامہ نگار اویس احمد پیش لفظ میں لکھتے ہیں، ''کہانی nonlinear انداز میں narrate کی گئی ہے جس سے مرکزی کردار بتدریج کھلتے اور دلچسپی آخر تک قائم رہتی ہے ۔ جہاں تک کہانی کے کرداروں کا ذکر ہے تو ہر کردار اپنی الگ صفات اور خصوصیات کے ساتھ الگ کھڑا نظر آتا ہے ۔
Protagonist ''سرمد نواب'' کے حوالے سے یہ بات اچھی ہے کہ یہ کردار بلیک یا وائیٹ نہیں ہے بلکہ انسانی خصلت کے مطابق grey بھی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے مرکزی کردار ''منشا مزاری'' کے حوالے سے تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ شاید اس کردار کی مزید پرتیں کھولی جا سکتی تھیں ۔ کہانی کی pace بھی فلمی انداز میں آگے بڑھتی ہے، شاید ہی کہیں drag یا بوجھل پن کی شکایت ہو۔'' 256 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے درج ہے۔
''زیرک زن'' میں تین کہانیاں ''زیرک زن'' ، ''مارخور'' اور ''ہم قدم'' شامل ہیں، جن کے مرکزی کردار تین خواتین ہی ہیں۔ مصنف کے بقول، انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سی دانا اور زیرک خواتین کو دیکھا ہے، جن سے متاثر ہوتے ہوئے اس کتاب کے کرداروں نے جنم لیا ۔ تیسرے ناول ''من کے محلے میں''، مصنف نے اپنی ایک مختصر کہانی کو بڑے کینوس پہ پیش کر کے ناول کی صورت دی ہے۔ یہ تینوں ناول م پبلی کیشن، جوہر ٹائون، لاہور سے شائع ہوئے ہیں ۔
دو بہنیں (ناول)
ہر انسان کو زندگی کرنے کے لئے فکر معاش در پیش ہوتی ہے اور اس دنیا میں بسنے والوں کی غالب اکثریت اُن معاشی سرگرمیوں کے ذریعے روزی کے حصول میں مصروفِ کار نظر آتی ہے جو اُن کے مزاج سے موافقت نہیں رکھتیں۔ اسی لئے بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ سوچ بچار کرنے والے لوگوں میں ہمیں اپنے پیشے سے ہٹ کر مختلف رجحانات کی آبیاری کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ فطری میلان کی پیروی انسان کو حقیقی خوشی اور مکمل آسودگی سے ہمکنار کرتی ہے جو درحقیقت انسانی روح کو صحت مند رکھنے کے لئے لازم ہے۔ زیر نظر کتاب کے مصنف منظر الحق بھی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں۔ جنہیں اپنے پیشے اور اپنے شوق ، ہر دو محاذوں پر شاندار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سرجن ڈاکٹر ہیں اور اپنے کام میں ہمیشہ نیک نامی کمائی۔ لکھنا ان کا شوق ہے اور تخلیق ادب میں شاعری، خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری اور ناول نگاری میں بھی اپنے قلم کے کمالات کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان کے زیر نظر ناول '' دو بہنیں'' پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز صحافی خالد ارشاد صوفی لکھتے ہیں:
'' ڈاکٹرشیخ منظر الحق پیشے کی اعتبار سے ڈاکٹر(سرجن) ہیں لیکن اردو سے محبت کی بنیا د پر خود کو جراح کہتے اور لکھتے ہیں۔ان کا تعلق دہلی کے مسلم گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا شیخ محمد شجاع الحق کو مسلم لیگ دہلی کے صدر اور والد شیخ محمد ظہور الحق کو تحریک پاکستان کا نوجوان کارکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔قیام پاکستان کے موقع پر ان کا گھرانہ کراچی منتقل ہو گیا۔
منظر الحق کراچی میں پیدا ہوئے اسی شہر سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی۔سرجری میں سپیشلائزیشن کے لئے برطانیہ چلے گئے اب گزشتہ چالیس برس سے وہیں مقیم ہیں مگر ان کے دل میں پاکستان اور اردو سے محبت کا چراغ روشن ہے جس کی لو ایک دن بھی مدہم نہیں ہوئی۔ذوق مطالعہ تو اوائل جوانی ہی سے تھا مگر چند سال پہلے لکھنے کی طرف مائل ہوئے تو دوناول ''لازوال محبت '' اور ''دو بہنیں'' تخلیق کئے اس کے علاوہ چند افسانے بھی لکھے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں، بحرہ روم، بیت المقدس، یورپی ممالک، جزائر غرب الہند، فلوریڈا اور انڈونیشیا کے سفر نامے بھی قلمبند کئے۔ تمام سفر ناموں کی کُتب زیر طبع ہیں ناول ''لازوال محبت'' اور افسانوی مجموعہ بھی جلد شائع ہو جائیں گے۔
منظر الحق کاا سلوب کلاسک اردو اور مشرقی تہذیب میں گندھا ہوا ہے جو قاری کو اس زبان اور تہذیب سے آشناکرتا ہے جس کے نقش مٹتے جا رہے ہیں ان کی تحریر میں لفظوں کا استعمال اور جملوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ پڑھتے ہوئے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی رومان سے روشناس ہو رہا ہو''۔
خالص اردو کے لبادے میں مشرقی تہذیب کا عکس لئے یہ ناول ''دو بہنیں'' آپ کے مطالعے اور لائبریری میں خوبصورت اضافہ ثابت ہوگا۔ ان کی تحریر کا سب اہم وصف اس کا مکمل طور پر اُردو زبان میں ہونا ہے۔ آج جبکہ انگریزی کی آمیزش تقریر و تحریر میں وجہ اعتبار کا درجہ حاصل کر چکی ہے، یہ اُن چیزوں کے نام بھی اُردو میں لکھتے ہیں جو اپنی ایجاد کے اعتبار سے بدیسی نام ہی سے لکھی جاتی ہیں خواہ انہیں اس مقصد کے لئے خود نام تجویز کیوں نہ کرنا پڑے۔ زیر نظر ناول ہماری اپنی تہذیب و ثقافت میں گُندھی ہوئی کہانی ہے اور اس میں ان کے پُرکھوں کی جنم بھومی دہلی کی مسلم تہذیب و ثقافت جیتی جاگتی، سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ اُردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ ناول ضرور پرھنا چاہیے۔
ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس ناول کو علم و عرفان پبلیشرز، لاہور نے شائع کیا، پیشکش کا انداز شاندار ہے، قیمت پانچ سو روپئے ہے۔
مزید ' سب رنگ کہانیاں'
بیسویں صدی میں اردو کہانیاں کے عنوان سے جب تاریخ لکھی جائے گی تو ' سب رنگ برادری ' کا تذکرہ بھی ضرور اور نہایت تفصیل سے لکھا جائے گا ۔70 ء کی دہائی میں جنم لینے والی اس برادری کو دنیا بھر کے عظیم ادیبوں کی لکھی وہ کہانیاں پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا جنھیں مختلف لوگ ترجمہ کرتے تھے لیکن اس کے بعد جب جناب شکیل عادل زادہ ان تراجم کی نوک پلک درست کرتے تو کہانی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتا تھا ۔ ایسے لگتا کہ غیرملکی مصنفین نے اردو ہی میں لکھی تھیں ۔ یہ کہانیاں ہر پڑھنے والے پر عجب جادو کر دیتی تھیں ۔ اس کی گواہی طرح دار ادیب ، مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی بھی دیتے ہیں ، کیونکہ یہی کیفیت ان پر بھی طاری ہوئی تھی ۔ لکھتے ہیں:
''سب رنگ اور اس کے ایڈیٹر کی شہرت میں نے بہت سنی تھی مگر ڈائجسٹوں کے خلاف اس پروپیگنڈے کے سبب کہ یہ مافوق الفطرت کرداروں پر مبنی کہانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں، ایسی سستی کہانیاں جو قارئین کو اعلیٰ ادب سے محروم رکھنے کا باعث بنتی ہیں، میں ان سے دور ہی رہا ۔ لیکن جب ایک روز میں نے '' سب رنگ '' کا ایک تازہ شمارہ ممتاز شاعر اور دانش ور شہزاد احمد کے ہاتھوں میں دیکھا اور انھیں اس جریدے کے لئے رطب اللسان پایا تو اتنی معتبر گواہی کے بعد میں نے بھی اگلے روز اس کا وہ تازہ شمارہ خریدا اور ایک ہی دن میں سارا پڑھ ڈال ا۔ میں حیران بلکہ پریشان ہی ہو گیا کہ اتنا اعلیٰ درجے کا عالمی ادب میں نے کہیں اس طرح یک جا نہیں دیکھا تھا ۔ بس اس کے بعد میرا شمار بھی '' سب رنگ '' کے '' نشئیوں '' میں ہونے لگا ۔ تازہ شمارہ آنے تک جسم ٹوٹتا رہتا تھا اور جب یہ اس کی ادبی غذا لیے میسر آتا تو روح کی گہرائیوں تک مجھے سکون سا محسوس ہوتا تھا ۔''
یہ عطاء الحق قاسمی جیسے گواہان ہی نے ' سب رنگ برادری ' کو لاکھوں نہیں کروڑوں قاریوں کا مجموعہ بنا دیا ۔ سینتیس ، اڑتیس برس تک ڈائجسٹ شائع ہوتا رہا ۔ پھر اس کا اپنا ہی بلند معیار اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ، اور آج تک رکاوٹ ہٹ نہ سکی ۔ شکیل عادل زادہ نے قسم کھا لی کہ وہ اُسی معیار کا ڈائجسٹ نکالیں گے ورنہ نہیں نکالیں گے۔
اب ' سب رنگ برادری ' اس کو ترستی ہے، اس کے لوگ پہلے کی پڑھی ہوئی کہانیاں تلاش کر کے بار بار پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ تلاش بسیار آسان نہیں ہوتی۔ انہی کہانیوں کے رسیا قابل، باصلاحیت نوجوان حسن رضا گوندل نے کہانیاں جمع کرنے اور 'بک کارنر' جہلم کے شاہد برادران نے شائع کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ۔ یوں سب رنگ برادری پر ایک بڑا احسان کر دیا ۔
اس وقت میرے سامنے '' سب رنگ کہانیاں '' کا دوسرا اور تیسرا حصہ ہے۔ ان دونوں حصوں میں بھی دنیا بھر سے بہترین افسانوی ادب پیش کیا گیا ہے ۔ ٹالسٹائی ، چیخوف ، پشکن ، کافکا ، ذاں پال سارتر ، موپاساں ، اوہنری ، اگاتھا کرسٹی ، ایڈگرایلن پو، سمرسٹ مام ، ارتھر کانن ڈائل ، ایچ جی ویلز ، ارنسٹ ہیمنگوے ، جیک لنڈن ، آلڈس بکسلے ، رابرٹ لوئی اسٹیونسن ، مارک گرین ، ولیم سانسم ، ایچ ایچ منرو ، جیمز تھربر ، رولڈ ڈل ، جیفری آرچر ، رے براڈ بری ، ہنری سلیسر ، سی بی گلفورڈ ، آرٹ بک والڈ ، ڈورتھی پارکر ، ہائزخ بوئل ، رابرٹ آرتھر ، مارس لیبلانک ، شولوخوف ، پی رومانوف ،
نجیب محفوظ ، یوسف ادریس، عزیز نیسن ، رشاد نوری ، غلام حسین ساعدی ، نشی مورا ، ڈیمن رنیان ، اسٹیو اوڈانیل ، یوئس پیٹرو آربرٹر ، جل برینر ، برائس والٹن ، پولی پوڈسوسکی ، فریڈرک نیبل ، آرتھر گورڈن، تائو کم بائی ، ایم اسپیگل ، میری گیلاٹی ، کورنل وولرچ ، رابرٹ شیکلے اور ہائنس رشے جیسے عظیم ادیبوں کی ناقابل فراموش تحریریں ان میں شامل ہیں ۔ جیسا کہ سابقہ سطور میں بھی تذکرہ ہو چکا کہ بک کارنر ، جہلم ( واٹس ایپ نمبر :03144440882 ) نے ' سب رنگ کہانیاں' نہایت دیدہ زیب سرورق ، بہترین کاغذ اور مجلد صورت میں شائع کیں ، ہر حصے کی قیمت 900 روپے ہے۔
مصنف: صوفی شوکت رضا، قیمت:700 روپے، صفحات:310
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور سلطانی محلہ کبیر سٹریٹ ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
صوفی صاحب تصوف کے موضوعات پر علم کے خزانے لٹائے جا رہے ہیں، ان کا قلم ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آتا ، یوں لگتا ہے جیسے ان کی یہ صلاحیت عطا یعنی کس کی بخشی ہوئی ہے۔ کسی بزرگ کا فیض ہے جو ان کے ذریعے جاری ہے ۔ ورنہ تصوف کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے علم کے بڑے بڑے سرخیل سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔
اس دفعہ صوفی صاحب نے مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم کی شخصیت کے چند پہلو بیان کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم دنیا اسلام کی واحد شخصیت ہیں جن کا شمار خلفائے راشدین میں بھی ہوتا ہے اور بارہ ائمہ کرام میں بھی ہوتا ہے۔
مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم کے بارے میں صاحب لولاک حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا '' میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے''۔ گویا علوم نبوت کے خزانوں سے روحانی و جسمانی طور پر فیض یاب ہونے کے لئے مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے آستانے پر حاضری دینا ہو گی ۔ اسی دروازے سے گزر کر علم کے شہر میں داخل ہوا جا سکتا ہے ۔ تصوف کے تمام سلسلے سوائے ایک کے، مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم سے فیض یاب ہوئے ہیں، اور آپؓ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے فیض یاب ہوئے بلکہ آپ ؓ نے پرورش ہی محبوب خداﷺ کی گود میں پائی، حتیٰ کہ آپؓ کا نام مبارک ''علی ؓ'' بھی خاتم الانبیاءﷺ نے ہی رکھا۔
مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے مناقب اتنے زیادہ ہیں کہ شمار کرنے پر آئیں تو کتابوں کی کتابیں بھر جائیں ۔ صوفی صاحب نے مولاعلی کرم اللہ وجھہ الکریم کی سیرت فکری اور فلسفیانہ انداز میں بیان کی ہے ۔ کتاب کو اٹھارہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، ایک باب مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی منقبت پر مشتمل ہے ۔ تصوف کے جویا افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
کالم اور مضامین
مصنف: احسان فیصل کنجاہی، قیمت : 550روپے، صفحات:408
ناشر:کامرانیاں پبلیکیشنز ، کنجاہ ، ضلع گجرات (03016223244)
سادگی سے اپنی بات کہہ دینا اور بات بھی ایسی جو دل کو لگے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ احسان فیصل کنجاہی کی تحریر بھی کچھ ایسی ہی ہے انھوں نے اپنے کالموں اور مضامین میں جو انداز اپنایا ہے وہ الگ سا دکھائی دیتا ہے ، کہیں تو ان کا انداز کہانی کار کا سا ہے تو کہیں وہ قاری کو بلا واسطہ مخاطت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس سب میں سب سے اہم بات ان کی تحریر کی سادگی ہے اسی لئے ان کی بات دل کو لگتی ہے ۔ کتاب میں 1994ء سے لے کر 2021 ء تک کے کالم اور مضامین شامل کئے گئے ہیں ، جو مختلف اخبارات اور رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔
گجرات کے قصبے کنجاہ کی مٹی ادب کے حوالے سے بڑی زرخیز ہے ، فارسی مثنوی نیرنگ عشق کے مصنف غنیمت کنجاہی اور پنجابی ادب کے استاد پروفیسر شریف کنجاہی کے مزارات بھی اسی قصبے میں واقع ہیں ۔ یہ ان ہستیوں کا فیض ہی ہے جو اب بھی یہاں سے ادب کی آبیاری ہو رہی ہے۔ آخر میں حواشی بھی دیئے گئے ہیں ۔
ریل کی جادو نگری
چند روز قبل ایک منفرد کتاب '' ریل کی جادو نگری'' موصول ہوئی۔کتاب کے سر ورق پر پہلی نظر پڑتے ہی ہمیں اپنے بچپن کے ریل گاڑی سے جڑے تمام واقعات یاد آنے لگے۔ ہارون آباد ریلوے اسٹیشن کی پر رونق بلڈنگ ، آتے جاتے ریل انجن کی سیٹیاں اور ڈبوں کے ساتھ لٹک کر سفر کرنا ۔ جناب سعید جاوید کو رب کریم نے اس ملکہ سے مالامال کیا ہے کہ آپ واقعات کی منظر کشی اس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری اس میں ڈوب جاتا ہے۔''
ریل کی جادو نگری میں مصنف نے ریل گاڑی سے متعلق تاریخی، تکنیکی، تخلیقی، عوامی، محکمانہ، دفتری اور ملکی و غیر ملکی لحاظ سے مختلف پہلوؤں کو اس قدر دلکش انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری معلومات کے خزانے سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں بچھا ریل پٹڑیوں کا جال، دوسرے ممالک سے بذریعہ ریل گاڑی روابط اور آمد ورفت اور ان کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ریل ٹریک کی بد حالی کی کمال نقشہ کشی کی گئی ہے ۔ دوران سفر پیش آنے والے حادثات کی وجوہات اور سد باب کے بارے میں چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔
مصنف نے تحریر پرکشش بنانے کے لیے اپنے آپ پر بیتے واقعات کو ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ شعر وادب کے رسیا قارئین کی دلچسپی کے لیے بھی گاہے گاہے موقع کی مناسبت سے بر محل اشعار کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے ۔
ہماری نئی نسل بہت سی روایات کی طرح ریل گاڑی کے سفر اور اس کے لطف سے بھی دور ہے ۔ اس لئے یہ کتاب نئی نسل کو نہ صرف ریل گاڑی کی چیخ چنگاڑ ، چھک چھکا چھک سے روشناس کرائے گی بلکہ ریل گاڑی سے جڑے زندگی کے بے شمار واقعات سے بھی آگاہی دے گی ۔ آپ کو ریل گاڑی کی اقسام ، مسافروں کا طرز عمل، اسٹیشنوں کی صورتحال، ریل کے عملے کی کار گزاریاں، ریل انجن سے متعلق معلومات اور اس سے جڑی ہوئی سہولیات کا تفصیلی تذکرہ بھی ملے گا ۔ کتاب ' بک ہوم' ، مزنگ روڈ لاہور نے شائع کی ہے ۔کتاب منگوانے کے لیے 042.37231518 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔( تبصرہ نگار : حکیم نیاز احمد ڈیال)
تین ناول
شکیل احمد چوہان فلم انڈسٹری سے وابستہ فکشن نگار ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے دو معروف فلم ڈائریکٹرز کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا اور برٹش ڈائریکٹر مائیکل ہڈسن کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا ۔ خود بھی کچھ شارٹ فلمز اور ویڈیو سانگز ڈائریکٹ کر چکے ہیں ۔
''مجروح'' ان کا نیا ناول ہے، جس میں انہوں نے فلم کے اسکرپٹ کو ناول کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ جیسا کہ مصنف نے لکھا ہے کہ ناول پر فلم بنانے کی روایت تو رہی ہے، جس نے کئی شاہکار فلموں کو جنم دیا ہے، لیکن فلمی سکرپٹ کو ناول کا روپ شاید ہی پہلے دیا گیا ہو ۔ کہانی کا genre، انتقام یا revenge ہے۔ ڈرامہ نگار اویس احمد پیش لفظ میں لکھتے ہیں، ''کہانی nonlinear انداز میں narrate کی گئی ہے جس سے مرکزی کردار بتدریج کھلتے اور دلچسپی آخر تک قائم رہتی ہے ۔ جہاں تک کہانی کے کرداروں کا ذکر ہے تو ہر کردار اپنی الگ صفات اور خصوصیات کے ساتھ الگ کھڑا نظر آتا ہے ۔
Protagonist ''سرمد نواب'' کے حوالے سے یہ بات اچھی ہے کہ یہ کردار بلیک یا وائیٹ نہیں ہے بلکہ انسانی خصلت کے مطابق grey بھی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے مرکزی کردار ''منشا مزاری'' کے حوالے سے تشنگی محسوس ہوتی ہے کہ شاید اس کردار کی مزید پرتیں کھولی جا سکتی تھیں ۔ کہانی کی pace بھی فلمی انداز میں آگے بڑھتی ہے، شاید ہی کہیں drag یا بوجھل پن کی شکایت ہو۔'' 256 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے درج ہے۔
''زیرک زن'' میں تین کہانیاں ''زیرک زن'' ، ''مارخور'' اور ''ہم قدم'' شامل ہیں، جن کے مرکزی کردار تین خواتین ہی ہیں۔ مصنف کے بقول، انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سی دانا اور زیرک خواتین کو دیکھا ہے، جن سے متاثر ہوتے ہوئے اس کتاب کے کرداروں نے جنم لیا ۔ تیسرے ناول ''من کے محلے میں''، مصنف نے اپنی ایک مختصر کہانی کو بڑے کینوس پہ پیش کر کے ناول کی صورت دی ہے۔ یہ تینوں ناول م پبلی کیشن، جوہر ٹائون، لاہور سے شائع ہوئے ہیں ۔
دو بہنیں (ناول)
ہر انسان کو زندگی کرنے کے لئے فکر معاش در پیش ہوتی ہے اور اس دنیا میں بسنے والوں کی غالب اکثریت اُن معاشی سرگرمیوں کے ذریعے روزی کے حصول میں مصروفِ کار نظر آتی ہے جو اُن کے مزاج سے موافقت نہیں رکھتیں۔ اسی لئے بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ سوچ بچار کرنے والے لوگوں میں ہمیں اپنے پیشے سے ہٹ کر مختلف رجحانات کی آبیاری کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ فطری میلان کی پیروی انسان کو حقیقی خوشی اور مکمل آسودگی سے ہمکنار کرتی ہے جو درحقیقت انسانی روح کو صحت مند رکھنے کے لئے لازم ہے۔ زیر نظر کتاب کے مصنف منظر الحق بھی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں۔ جنہیں اپنے پیشے اور اپنے شوق ، ہر دو محاذوں پر شاندار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سرجن ڈاکٹر ہیں اور اپنے کام میں ہمیشہ نیک نامی کمائی۔ لکھنا ان کا شوق ہے اور تخلیق ادب میں شاعری، خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری اور ناول نگاری میں بھی اپنے قلم کے کمالات کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان کے زیر نظر ناول '' دو بہنیں'' پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز صحافی خالد ارشاد صوفی لکھتے ہیں:
'' ڈاکٹرشیخ منظر الحق پیشے کی اعتبار سے ڈاکٹر(سرجن) ہیں لیکن اردو سے محبت کی بنیا د پر خود کو جراح کہتے اور لکھتے ہیں۔ان کا تعلق دہلی کے مسلم گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا شیخ محمد شجاع الحق کو مسلم لیگ دہلی کے صدر اور والد شیخ محمد ظہور الحق کو تحریک پاکستان کا نوجوان کارکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔قیام پاکستان کے موقع پر ان کا گھرانہ کراچی منتقل ہو گیا۔
منظر الحق کراچی میں پیدا ہوئے اسی شہر سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی۔سرجری میں سپیشلائزیشن کے لئے برطانیہ چلے گئے اب گزشتہ چالیس برس سے وہیں مقیم ہیں مگر ان کے دل میں پاکستان اور اردو سے محبت کا چراغ روشن ہے جس کی لو ایک دن بھی مدہم نہیں ہوئی۔ذوق مطالعہ تو اوائل جوانی ہی سے تھا مگر چند سال پہلے لکھنے کی طرف مائل ہوئے تو دوناول ''لازوال محبت '' اور ''دو بہنیں'' تخلیق کئے اس کے علاوہ چند افسانے بھی لکھے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں، بحرہ روم، بیت المقدس، یورپی ممالک، جزائر غرب الہند، فلوریڈا اور انڈونیشیا کے سفر نامے بھی قلمبند کئے۔ تمام سفر ناموں کی کُتب زیر طبع ہیں ناول ''لازوال محبت'' اور افسانوی مجموعہ بھی جلد شائع ہو جائیں گے۔
منظر الحق کاا سلوب کلاسک اردو اور مشرقی تہذیب میں گندھا ہوا ہے جو قاری کو اس زبان اور تہذیب سے آشناکرتا ہے جس کے نقش مٹتے جا رہے ہیں ان کی تحریر میں لفظوں کا استعمال اور جملوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ پڑھتے ہوئے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی رومان سے روشناس ہو رہا ہو''۔
خالص اردو کے لبادے میں مشرقی تہذیب کا عکس لئے یہ ناول ''دو بہنیں'' آپ کے مطالعے اور لائبریری میں خوبصورت اضافہ ثابت ہوگا۔ ان کی تحریر کا سب اہم وصف اس کا مکمل طور پر اُردو زبان میں ہونا ہے۔ آج جبکہ انگریزی کی آمیزش تقریر و تحریر میں وجہ اعتبار کا درجہ حاصل کر چکی ہے، یہ اُن چیزوں کے نام بھی اُردو میں لکھتے ہیں جو اپنی ایجاد کے اعتبار سے بدیسی نام ہی سے لکھی جاتی ہیں خواہ انہیں اس مقصد کے لئے خود نام تجویز کیوں نہ کرنا پڑے۔ زیر نظر ناول ہماری اپنی تہذیب و ثقافت میں گُندھی ہوئی کہانی ہے اور اس میں ان کے پُرکھوں کی جنم بھومی دہلی کی مسلم تہذیب و ثقافت جیتی جاگتی، سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ اُردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ ناول ضرور پرھنا چاہیے۔
ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس ناول کو علم و عرفان پبلیشرز، لاہور نے شائع کیا، پیشکش کا انداز شاندار ہے، قیمت پانچ سو روپئے ہے۔
مزید ' سب رنگ کہانیاں'
بیسویں صدی میں اردو کہانیاں کے عنوان سے جب تاریخ لکھی جائے گی تو ' سب رنگ برادری ' کا تذکرہ بھی ضرور اور نہایت تفصیل سے لکھا جائے گا ۔70 ء کی دہائی میں جنم لینے والی اس برادری کو دنیا بھر کے عظیم ادیبوں کی لکھی وہ کہانیاں پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا جنھیں مختلف لوگ ترجمہ کرتے تھے لیکن اس کے بعد جب جناب شکیل عادل زادہ ان تراجم کی نوک پلک درست کرتے تو کہانی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتا تھا ۔ ایسے لگتا کہ غیرملکی مصنفین نے اردو ہی میں لکھی تھیں ۔ یہ کہانیاں ہر پڑھنے والے پر عجب جادو کر دیتی تھیں ۔ اس کی گواہی طرح دار ادیب ، مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی بھی دیتے ہیں ، کیونکہ یہی کیفیت ان پر بھی طاری ہوئی تھی ۔ لکھتے ہیں:
''سب رنگ اور اس کے ایڈیٹر کی شہرت میں نے بہت سنی تھی مگر ڈائجسٹوں کے خلاف اس پروپیگنڈے کے سبب کہ یہ مافوق الفطرت کرداروں پر مبنی کہانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں، ایسی سستی کہانیاں جو قارئین کو اعلیٰ ادب سے محروم رکھنے کا باعث بنتی ہیں، میں ان سے دور ہی رہا ۔ لیکن جب ایک روز میں نے '' سب رنگ '' کا ایک تازہ شمارہ ممتاز شاعر اور دانش ور شہزاد احمد کے ہاتھوں میں دیکھا اور انھیں اس جریدے کے لئے رطب اللسان پایا تو اتنی معتبر گواہی کے بعد میں نے بھی اگلے روز اس کا وہ تازہ شمارہ خریدا اور ایک ہی دن میں سارا پڑھ ڈال ا۔ میں حیران بلکہ پریشان ہی ہو گیا کہ اتنا اعلیٰ درجے کا عالمی ادب میں نے کہیں اس طرح یک جا نہیں دیکھا تھا ۔ بس اس کے بعد میرا شمار بھی '' سب رنگ '' کے '' نشئیوں '' میں ہونے لگا ۔ تازہ شمارہ آنے تک جسم ٹوٹتا رہتا تھا اور جب یہ اس کی ادبی غذا لیے میسر آتا تو روح کی گہرائیوں تک مجھے سکون سا محسوس ہوتا تھا ۔''
یہ عطاء الحق قاسمی جیسے گواہان ہی نے ' سب رنگ برادری ' کو لاکھوں نہیں کروڑوں قاریوں کا مجموعہ بنا دیا ۔ سینتیس ، اڑتیس برس تک ڈائجسٹ شائع ہوتا رہا ۔ پھر اس کا اپنا ہی بلند معیار اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ، اور آج تک رکاوٹ ہٹ نہ سکی ۔ شکیل عادل زادہ نے قسم کھا لی کہ وہ اُسی معیار کا ڈائجسٹ نکالیں گے ورنہ نہیں نکالیں گے۔
اب ' سب رنگ برادری ' اس کو ترستی ہے، اس کے لوگ پہلے کی پڑھی ہوئی کہانیاں تلاش کر کے بار بار پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ تلاش بسیار آسان نہیں ہوتی۔ انہی کہانیوں کے رسیا قابل، باصلاحیت نوجوان حسن رضا گوندل نے کہانیاں جمع کرنے اور 'بک کارنر' جہلم کے شاہد برادران نے شائع کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ۔ یوں سب رنگ برادری پر ایک بڑا احسان کر دیا ۔
اس وقت میرے سامنے '' سب رنگ کہانیاں '' کا دوسرا اور تیسرا حصہ ہے۔ ان دونوں حصوں میں بھی دنیا بھر سے بہترین افسانوی ادب پیش کیا گیا ہے ۔ ٹالسٹائی ، چیخوف ، پشکن ، کافکا ، ذاں پال سارتر ، موپاساں ، اوہنری ، اگاتھا کرسٹی ، ایڈگرایلن پو، سمرسٹ مام ، ارتھر کانن ڈائل ، ایچ جی ویلز ، ارنسٹ ہیمنگوے ، جیک لنڈن ، آلڈس بکسلے ، رابرٹ لوئی اسٹیونسن ، مارک گرین ، ولیم سانسم ، ایچ ایچ منرو ، جیمز تھربر ، رولڈ ڈل ، جیفری آرچر ، رے براڈ بری ، ہنری سلیسر ، سی بی گلفورڈ ، آرٹ بک والڈ ، ڈورتھی پارکر ، ہائزخ بوئل ، رابرٹ آرتھر ، مارس لیبلانک ، شولوخوف ، پی رومانوف ،
نجیب محفوظ ، یوسف ادریس، عزیز نیسن ، رشاد نوری ، غلام حسین ساعدی ، نشی مورا ، ڈیمن رنیان ، اسٹیو اوڈانیل ، یوئس پیٹرو آربرٹر ، جل برینر ، برائس والٹن ، پولی پوڈسوسکی ، فریڈرک نیبل ، آرتھر گورڈن، تائو کم بائی ، ایم اسپیگل ، میری گیلاٹی ، کورنل وولرچ ، رابرٹ شیکلے اور ہائنس رشے جیسے عظیم ادیبوں کی ناقابل فراموش تحریریں ان میں شامل ہیں ۔ جیسا کہ سابقہ سطور میں بھی تذکرہ ہو چکا کہ بک کارنر ، جہلم ( واٹس ایپ نمبر :03144440882 ) نے ' سب رنگ کہانیاں' نہایت دیدہ زیب سرورق ، بہترین کاغذ اور مجلد صورت میں شائع کیں ، ہر حصے کی قیمت 900 روپے ہے۔