آخری حل کمیونزم ہی ہے
بی جے پی نے مودی کو ان ارکان پارلیمنٹ پر مسلط کر دیا ہے جن کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے۔۔۔
کانگریس نے اپریل مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے انتخابی مہم شروع کرنے میں دیر کر دی، اب تک، جب کہ انتخابات میں صرف دو مہینے باقی ہیں، پارٹی مکمل جمود کا شکار تھی تاآنکہ پانچ ریاستی اسمبلیوں میں سے چار میں شکست نے اس کی آنکھیں نہ کھول دیں۔ میڈیا میں ہونے والے مختلف تجزیوں میں 2014ء کے عام انتخابات میں کانگریس کی جیت کو خارج از امکان قرار دیا گیا۔ پیش گوئی یہ ہے کہ کانگریس 100 نشستیں بھی بمشکل ہی حاصل کر پائے گی۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے، جنھیں انتخابی حکمت عملی کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے، ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں نہایت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ انھوں نے انھی فرسودہ فرمودات کا اعادہ کیا جن کو کانگریس نے ایک مدت سے سر پر اٹھا رکھا ہے۔
راہول نے 1984ء کے قتل عام پر ہونے والی متنازعہ بحث کا بلا ضرورت حوالہ دیا۔ اس کی بعض حالیہ تقریروں سے ایسے لگتا ہے جیسے انھوں نے عام آدمی پارٹی کی کتاب سے ایک ورقہ پھاڑ لیا ہے اور مختلف لب و لہجے کے ساتھ اسی کو دہرائے چلے جا رہے ہیں گویا وہ جمہوری ریاست میں سب کا اشتراک و شمولیت چاہتے ہیں۔ اب ان کے پاس پولنگ کے حوالے سے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ویسے تو بصورت دیگر بھی وہ کانگریس کی ڈولتی کشتی کو پار لگانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ پہلے یو پی اور بہار میں کانگریس کو شکست ہوئی اور اب حال ہی میں مدھیہ پردیش' راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ساتھ دہلی میں بھی وہ شکست سے دوچار ہو گئی۔ لیکن اس ناکامی کی تمام تر ذمے داری راہول گاندھی پر عائد کرنا انصاف نہیں۔ بلکہ اصل قصور کانگریس کی قیادت میں قائم مرکزی حکومت کی ناقص کارکردگی کا ہے۔ اگرچہ ملک کی غربت' بے روز گاری' اور امیر غریب کے مابین فرق کو کم کرنے کے لیے دس سال کا عرصہ بہت کافی ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ جو کہ ایک جانے مانے ماہر اقتصادیات ہیں لیکن وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان بھی ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کی مہارت اقتصادی معاملات کے بجائے سیاسی جوڑ توڑ میں نمایاں ہے۔ تاریخ اگر ہمدردی کا مظاہرہ کرے تو منموہن کو ایک کمزور انتخابی امیدوار قرار دے سکتی ہے۔ منموہن پر جس قسم کے اعتراضات عاید کیے گئے ہیں انھیں چاہیے تھا کہ وہ احتجاج کے طور پر سیاست ہی چھوڑ دیے لیکن انھوں نے ایک بار بھی مستعفی ہونے کا ذکر نہیں کیا۔
اصل طاقت ''10 جنپتھ'' میں مرتکز ہے۔ جہاں پر کہ سونیا گاندھی اوران کا بیٹا رہتا ہے۔ سونیا 2009ء میں کانگریس کی حکومت دوسری مدت میں بڑی آسانی وزیر اعظم بن سکتی تھیں لیکن وہ اپنے غیر ملکی ہونے کے تنازعے کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتی تھیں۔ مزید برآں وہ چاہتی تھیں کہ اب یہ منصب راہول گاندھی سنبھالے۔ غالباً سونیا اسے جانشینی کا آسان سا معاملہ سمجھ رہی تھیں۔ راہول گاندھی کو پارٹی کی نوجوان قیادت کے لیے تیار کیا گیا جو کہ اس کا مثبت پہلو تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ جو کانگریس کو درپیش ہے وہ ان مالیاتی بدعنوانیوں کی صفائی پیش کرنے کا ہے جو اس کے دور حکومت میں ہوئیں۔ دولت مشترکہ کے کھیلوں میں بدعنوانی نمایاں طور پر کھٹک رہی تھی۔ موبائل فونز کے حوالے سے ''2 جی سپیکٹرم'' اور کوئلے کے بلاکوں کی الاٹمنٹ بڑے بڑے سکینڈل ہیں۔ وزیراعظم کندھے جھٹک کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھیں ان تمام معاملات کا پتہ نہیں تھا کیونکہ ان سارے ٹھیکوں کی منظوریاں پی ایم آفس نے ہی دی تھیں۔ اب کانگریس والے بعد از وقت اپنی صفائیاں پیش کرنا شروع ہو گئے ہیں لیکن وہ بدعنوانی پر مبنی سودوں اور حکمرانی کے نقائص کی کیا توجیہہ پیش کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ راہول گاندھی ایک نیا چہرہ ہے جو کہ پارٹی کے تمام معاملات میں با اختیار ہے۔ اور اس کے بارے میں اس اعلان نے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کا نامزد امیدوار ہو گا، اس کی پوزیشن کو مضبوط کر دیا تھا۔ تاہم انتخابی امیدواروں کے منتخب ہونے سے قبل ہی اپنے پارلیمانی لیڈر کے نام کا اعلان کرنا غیر جمہوری طرز عمل ہے۔
دوسری طرف بی جے پی نے بھی گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے لیے پہلے ہی براہ راست نامزد کر دیاہے۔ جو بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس نے زور ڈال کر مودی کو نامزد کرایا ہے۔ اس کی جو بھی مجبوریاں ہوں مگر بی جے پی نے مودی کو ان ارکان پارلیمنٹ پر مسلط کر دیا ہے جن کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے۔ اب ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں۔ غالباً بی جے پی کی ہائی کمان یہ سمجھتی ہے کہ مودی کی نامزدگی سے پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں گی۔ ممکن ہے ان کا یہ اندازہ درست نکلے تاہم اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ جس انداز سے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی نامزدگی کی گئی ہے وہ آمریت کا طریق کار ہے۔ یہ درست ہے کہ جنوبی ہند میں بھی مودی کے جلسے بہت پر ہجوم ہوئے ہیں جہاں پر کہ بی جے پی کا کچھ زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے۔ ہندی بولنے والی ریاستوں میں مودی کی مقبولیت حیرت انگیز تھی تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اس نے وقت سے بہت پہلے ہی دوڑ شروع کر دی ہے۔ تاہم جب مودی نے دوسری مرتبہ اس ریاست کا دورہ کیا تو جلسہ گاہ میں خال خال لوگ ہی تھے۔ وہ منہ سے تو تعمیر و ترقی کے نعرے لگاتا ہے لیکن ان نعروں کی آڑ میں وہ اپنے 'ہندتوا' کے منصوبے کو چھپانا چاہتا ہے۔ مودی اور راہول کی گزشتہ چھ تقاریر کا تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ دونوں ملک کی یک جہتی کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ دونوں بدعنوانی کے خلاف تقاریر کرتے ہیں جب کہ انھیں اس بات کا قطعاً کوئی احساس نہیں کہ اس کا ان کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا جن کا یقین ہے کہ دونوںہی اپنی اپنی پارٹی کی کرپشن کو چھپا رہے ہیں۔ دونوں میں یہ تفاوت نہیں کہ وہ سیکولر ازم کو مانتے ہیں یا نہیں۔
مودی تو اس معاملے پر بحث ہی نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ ملکی تعمیر و ترقی سب کے لیے ہو گی۔ دوسری طرف راہول گاندھی سیکولر ازم کا پرچار کرتا ہے۔ مودی سردار پٹیل کے گن گاتا ہے اور راہول گاندھی جواہر لال نہرو اور مسز اندرا گاندھی کو بڑھاوا دیتا ہے تا کہ اقتدار اسی خاندان میں رہے۔ اگر بدعنوانی کے معاملے میں راہول سنجیدہ ہوتا تووہ کوئی نہ کوئی سکینڈل وزیراعظم کے پاس بھی لے کر جاتا۔ جہاں تک پٹیل کا تعلق ہے وہ ایک مضبوط شخصیت کا حامل تھا لیکن اس کا تاثر ایک مسلم دشمن لیڈر کا ہے۔ مودی نے احمد آباد میں سردار پٹیل کا ایک مجسمہ نصب کروا دیا ہے لیکن اس طرح اس نے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ نہرو اور پٹیل دونوں مہاتما گاندھی کے نائبین تھے اور اس زمانے کی تصویروں سے یہ دونوں ہی مہاتما کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔ آخر مہاتما نے نہرو کو اپنا جانشین کیوں مقرر کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہرو نے اپنے آپ کو ایک قومی اور بین الاقوامی شخصیت کے طور پر پیش کیا تھا۔
قوم میں سیکولر ازم کا بیج مہاتما نے بویا تھا جب کہ نہرو نے کبھی اس راستے سے انحراف نہیں کیا۔ سردار پٹیل نے تقسیم کے وقت ہونے والی ہجرت کے دوران یہ کھل کر کہا تھا کہ جتنے ہندو پاکستان سے نکالے جائیں گے اتنے ہی مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنیوالے انتخابات میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کی تمنا بھی پوری ہو جائے۔ بالفرض بی جے پی اپنے طور پر 200 نشستیں حاصل کر لیتی ہے تب بھی اس کو حتمی اکثریت کے لیے مزید 72نشستوں کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت جن پارٹیوں سے مدد طلب کی جائے گی ان کے لیے مودی کے بجائے کوئی زیادہ قابل قبول شخص کو آگے لانا ضروری ہوگا۔ وفاقی محاذ پر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نمایاں ہیں ان کی اصل اہمیت کا اندازہ عام انتخابات کے موقع پر ہی ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
راہول نے 1984ء کے قتل عام پر ہونے والی متنازعہ بحث کا بلا ضرورت حوالہ دیا۔ اس کی بعض حالیہ تقریروں سے ایسے لگتا ہے جیسے انھوں نے عام آدمی پارٹی کی کتاب سے ایک ورقہ پھاڑ لیا ہے اور مختلف لب و لہجے کے ساتھ اسی کو دہرائے چلے جا رہے ہیں گویا وہ جمہوری ریاست میں سب کا اشتراک و شمولیت چاہتے ہیں۔ اب ان کے پاس پولنگ کے حوالے سے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ ویسے تو بصورت دیگر بھی وہ کانگریس کی ڈولتی کشتی کو پار لگانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ پہلے یو پی اور بہار میں کانگریس کو شکست ہوئی اور اب حال ہی میں مدھیہ پردیش' راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ساتھ دہلی میں بھی وہ شکست سے دوچار ہو گئی۔ لیکن اس ناکامی کی تمام تر ذمے داری راہول گاندھی پر عائد کرنا انصاف نہیں۔ بلکہ اصل قصور کانگریس کی قیادت میں قائم مرکزی حکومت کی ناقص کارکردگی کا ہے۔ اگرچہ ملک کی غربت' بے روز گاری' اور امیر غریب کے مابین فرق کو کم کرنے کے لیے دس سال کا عرصہ بہت کافی ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ جو کہ ایک جانے مانے ماہر اقتصادیات ہیں لیکن وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان بھی ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کی مہارت اقتصادی معاملات کے بجائے سیاسی جوڑ توڑ میں نمایاں ہے۔ تاریخ اگر ہمدردی کا مظاہرہ کرے تو منموہن کو ایک کمزور انتخابی امیدوار قرار دے سکتی ہے۔ منموہن پر جس قسم کے اعتراضات عاید کیے گئے ہیں انھیں چاہیے تھا کہ وہ احتجاج کے طور پر سیاست ہی چھوڑ دیے لیکن انھوں نے ایک بار بھی مستعفی ہونے کا ذکر نہیں کیا۔
اصل طاقت ''10 جنپتھ'' میں مرتکز ہے۔ جہاں پر کہ سونیا گاندھی اوران کا بیٹا رہتا ہے۔ سونیا 2009ء میں کانگریس کی حکومت دوسری مدت میں بڑی آسانی وزیر اعظم بن سکتی تھیں لیکن وہ اپنے غیر ملکی ہونے کے تنازعے کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتی تھیں۔ مزید برآں وہ چاہتی تھیں کہ اب یہ منصب راہول گاندھی سنبھالے۔ غالباً سونیا اسے جانشینی کا آسان سا معاملہ سمجھ رہی تھیں۔ راہول گاندھی کو پارٹی کی نوجوان قیادت کے لیے تیار کیا گیا جو کہ اس کا مثبت پہلو تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ جو کانگریس کو درپیش ہے وہ ان مالیاتی بدعنوانیوں کی صفائی پیش کرنے کا ہے جو اس کے دور حکومت میں ہوئیں۔ دولت مشترکہ کے کھیلوں میں بدعنوانی نمایاں طور پر کھٹک رہی تھی۔ موبائل فونز کے حوالے سے ''2 جی سپیکٹرم'' اور کوئلے کے بلاکوں کی الاٹمنٹ بڑے بڑے سکینڈل ہیں۔ وزیراعظم کندھے جھٹک کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھیں ان تمام معاملات کا پتہ نہیں تھا کیونکہ ان سارے ٹھیکوں کی منظوریاں پی ایم آفس نے ہی دی تھیں۔ اب کانگریس والے بعد از وقت اپنی صفائیاں پیش کرنا شروع ہو گئے ہیں لیکن وہ بدعنوانی پر مبنی سودوں اور حکمرانی کے نقائص کی کیا توجیہہ پیش کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ راہول گاندھی ایک نیا چہرہ ہے جو کہ پارٹی کے تمام معاملات میں با اختیار ہے۔ اور اس کے بارے میں اس اعلان نے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کا نامزد امیدوار ہو گا، اس کی پوزیشن کو مضبوط کر دیا تھا۔ تاہم انتخابی امیدواروں کے منتخب ہونے سے قبل ہی اپنے پارلیمانی لیڈر کے نام کا اعلان کرنا غیر جمہوری طرز عمل ہے۔
دوسری طرف بی جے پی نے بھی گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے لیے پہلے ہی براہ راست نامزد کر دیاہے۔ جو بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس نے زور ڈال کر مودی کو نامزد کرایا ہے۔ اس کی جو بھی مجبوریاں ہوں مگر بی جے پی نے مودی کو ان ارکان پارلیمنٹ پر مسلط کر دیا ہے جن کا انتخاب ہونا ابھی باقی ہے۔ اب ان کے پاس اور کوئی متبادل نہیں۔ غالباً بی جے پی کی ہائی کمان یہ سمجھتی ہے کہ مودی کی نامزدگی سے پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں گی۔ ممکن ہے ان کا یہ اندازہ درست نکلے تاہم اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ جس انداز سے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی نامزدگی کی گئی ہے وہ آمریت کا طریق کار ہے۔ یہ درست ہے کہ جنوبی ہند میں بھی مودی کے جلسے بہت پر ہجوم ہوئے ہیں جہاں پر کہ بی جے پی کا کچھ زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے۔ ہندی بولنے والی ریاستوں میں مودی کی مقبولیت حیرت انگیز تھی تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اس نے وقت سے بہت پہلے ہی دوڑ شروع کر دی ہے۔ تاہم جب مودی نے دوسری مرتبہ اس ریاست کا دورہ کیا تو جلسہ گاہ میں خال خال لوگ ہی تھے۔ وہ منہ سے تو تعمیر و ترقی کے نعرے لگاتا ہے لیکن ان نعروں کی آڑ میں وہ اپنے 'ہندتوا' کے منصوبے کو چھپانا چاہتا ہے۔ مودی اور راہول کی گزشتہ چھ تقاریر کا تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ دونوں ملک کی یک جہتی کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ دونوں بدعنوانی کے خلاف تقاریر کرتے ہیں جب کہ انھیں اس بات کا قطعاً کوئی احساس نہیں کہ اس کا ان کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا جن کا یقین ہے کہ دونوںہی اپنی اپنی پارٹی کی کرپشن کو چھپا رہے ہیں۔ دونوں میں یہ تفاوت نہیں کہ وہ سیکولر ازم کو مانتے ہیں یا نہیں۔
مودی تو اس معاملے پر بحث ہی نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ ملکی تعمیر و ترقی سب کے لیے ہو گی۔ دوسری طرف راہول گاندھی سیکولر ازم کا پرچار کرتا ہے۔ مودی سردار پٹیل کے گن گاتا ہے اور راہول گاندھی جواہر لال نہرو اور مسز اندرا گاندھی کو بڑھاوا دیتا ہے تا کہ اقتدار اسی خاندان میں رہے۔ اگر بدعنوانی کے معاملے میں راہول سنجیدہ ہوتا تووہ کوئی نہ کوئی سکینڈل وزیراعظم کے پاس بھی لے کر جاتا۔ جہاں تک پٹیل کا تعلق ہے وہ ایک مضبوط شخصیت کا حامل تھا لیکن اس کا تاثر ایک مسلم دشمن لیڈر کا ہے۔ مودی نے احمد آباد میں سردار پٹیل کا ایک مجسمہ نصب کروا دیا ہے لیکن اس طرح اس نے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ نہرو اور پٹیل دونوں مہاتما گاندھی کے نائبین تھے اور اس زمانے کی تصویروں سے یہ دونوں ہی مہاتما کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔ آخر مہاتما نے نہرو کو اپنا جانشین کیوں مقرر کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہرو نے اپنے آپ کو ایک قومی اور بین الاقوامی شخصیت کے طور پر پیش کیا تھا۔
قوم میں سیکولر ازم کا بیج مہاتما نے بویا تھا جب کہ نہرو نے کبھی اس راستے سے انحراف نہیں کیا۔ سردار پٹیل نے تقسیم کے وقت ہونے والی ہجرت کے دوران یہ کھل کر کہا تھا کہ جتنے ہندو پاکستان سے نکالے جائیں گے اتنے ہی مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنیوالے انتخابات میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کی تمنا بھی پوری ہو جائے۔ بالفرض بی جے پی اپنے طور پر 200 نشستیں حاصل کر لیتی ہے تب بھی اس کو حتمی اکثریت کے لیے مزید 72نشستوں کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت جن پارٹیوں سے مدد طلب کی جائے گی ان کے لیے مودی کے بجائے کوئی زیادہ قابل قبول شخص کو آگے لانا ضروری ہوگا۔ وفاقی محاذ پر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نمایاں ہیں ان کی اصل اہمیت کا اندازہ عام انتخابات کے موقع پر ہی ہو گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)