دلکش اور حسین تاریخ ساز لمحات
دو بڑے سیاسی قائدین کی جانب سے محبت و اخوت کا ناقابلِ یقین مظاہرہ دوسرے سیاستدانوں کیلئے بھی مشعلِ راہ بن سکتا ہے
آنکھیں یہ منظر دیکھ کر یقیناً حیرت زدہ رہ گئیں جب میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری صوبہ سندھ میں تھرکول پروجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر ایک ساتھ قوم کے سامنے جلوہ افروز ہوئے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کا یہ رویہ اور انداز ساری قوم کے لیے باعثِ مسرت اور شادمانی ہے کہ اب سے کچھ عرصہ قبل کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو لوگ ہمہ وقت تصادم اور محاذآرائی پر تیار اور آمادہ رہتے ہوں اور ایک دوسرے کے اِس قدر دشمن ہوں کہ کوئی دن لعن و طعن اور الزام تراشی کے بغیر نہ گزرتا ہو، آج اپنی تمام دشمنی اور اختلافات کو خیر باد کہتے ہوئے دوستی اور یاری میں اتنے قریب آجائیں کہ کسی قومی منصوبے کے افتتاح کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر حاضر ہوجائیں۔ یہ ہماری جمہوریت کے اس خواب کی پہلی حسین تعبیر ہے جسے دیکھنے کے لیے قوم کی آنکھیں عرصہ دراز سے ترسا کرتی تھیں۔ 90 کی دہائی سے لے کر آج تک مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ محاذآرائی اور مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی ہی اپنائے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا کرتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جمہوریت کے تسلسل، ملک کی ترقی و خوشحالی اور مضبوطی کی خاطر ہمارے ان سیاستدانوں کو اب یہ خیال ہونے لگا ہے کہ بلاوجہ کی دشمنی اور باہم رنجش و عناد کی بدولت وہ صرف اپنا اور قوم کا نقصان ہی کرتے آئے ہیں۔ ان کی اس باہم دشمنی اور محاذآرائی کا فائدہ کسی تیسرے فریق ہی کو جاتا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے سابقہ ادوار سے کوئی مثبت سبق سیکھ ہی لیا کہ بلاوجہ ایک دوسرے کو لعن و طعن اور دشنام طرازی سے انھیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اپنے مخالفوں کے خلاف بلاوجہ کی قانونی اورعدالتی کارروائیوں کی گرفت میں لانے کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ مقدمات میں قیمتی وقت اور کثیر سرمائے کے ضیاع کے بعد بھی نتیجہ لاحاصل۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیاں بے شک ہوتی رہیں لیکن ثابت کچھ بھی نہ ہو سکا، استغاثہ عدلیہ کو مطمئن کرنے میں بری طرح ناکام رہا مگر ہاں فریقوں کے دلوں میں باہم رنجشیں اور بداعتمادیاں بڑھتی رہیں۔ دنیا ہم پر ہنستی رہی، جمہوریت رسوا ہوتی رہی اور ملک و قوم مسلسل تباہی اور تنزلی سے ہمکنار ہوتے رہے۔
2013 کے انتخابات ہمارے لیے کم ازکم اس لحاظ سے نیک شگون ثابت ہو رہے ہیں کہ حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں انتہائی بالغ نظری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے متحد اور یکجا ہو چکے ہیں۔ سب سے پہلے اس کا مظاہرہ کراچی کے حالات سدھارنے کے لیے وفاق اور سندھ کے مابین کی جانے والی مشترکہ کوششوں کی صورت میں سامنے آیا۔ کراچی شہر کو ایک بار پھر سے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے صوبائی معاملات میں دخل اندازی کیے بغیر جس خوبصورت طریقے سے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا وہ بھی اس سے پہلے کی جانے والی تمام کوششوں سے مختلف اور بالکل نیا اور انہونا تھا۔ باعث اطمینان بات یہ ہے کہ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس کارخیر میں مکمل ساتھ نبھاتے ہوئے اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور غیر ضروری مخالفت سے مکمل اجتناب کیا۔ پھر جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تجویز اپوزیشن کے سامنے رکھی گئی تو یہاں بھی حزب اختلاف کی جانب سے انتہائی بردباری، اعلیٰ سوچ اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ہر فیصلے میں بھرپور ساتھ نبھانے کا اعادہ کیا گیا۔ اور اب یہ تیسرا موقع ہے جہاں حکمراں اور اپوزیشن نے ملک اور اٹھارہ کروڑ عوام کے روشن مستقبل کے لیے تھرکول منصوبے کو ایک ساتھ مل کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اس موقع پر اخوت اور بھائی چارگی کا مظاہرہ کسی تاریخی تبدیلی سے کم نہیں ہے۔ یکم فروری سے صوبہ سندھ میں سندھی ثقافت فیسٹیول کا آغاز ہوچکا ہے اور بلاول بھٹو کو اس فیسٹیول کو دلکش اور خوبصورت بنانے کی اہم ذمے داری سونپی گئی ہے، جسے وہ پنجاب کو اپنے ساتھ ملا کر پوری کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے مریم نواز کو بھی خصوصی دعوت نامہ ارسال کردیا ہے۔
دونوں بڑے سیاسی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے نیک خیالات اور محبت و اخوت کا ناقابلِ یقین مظاہرہ دوسرے سیاستدانوں کے لیے بھی سبق آموز اور مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ نیا انداز سیاست شاید کچھ لوگوں کو نہ بھاتا ہو، خاص کر وہ لوگ جو ان دونوں کی محاذ آرائی کا بلاواسطہ فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے تھے یقینا ناامید اور مایوس ہوئے ہوں گے، کچھ لوگ اسے مک مکا کہیں گے اور کچھ اسے مفاد پرستوں کا اتحاد لیکن یہ ہم سب کے لیے انتہائی مسرت اور شادمانی کا لمحہ ہے کہ اپوزیشن نے ملک کے حکمرانوں کے لیے جس خلوص اور محبت سے ساتھ نبھانے کا اعلان کیا ہے وہ کسی بڑے انقلاب سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح میاں صاحب نے بھی اپنے مخالفوں کے لیے سابقہ ادوار سے بالکل مختلف جن نئے رویوں اور حسن سلوک کو اپنایا ہے وہ بھی کسی معجزے سے قطعی کم نہیں۔ جمہوریت کے تسلسل نے کم از کم ہمیں آج یہ دن تو دکھایا ہے کہ آنکھیں جس دن کے انتظار میں عرصہ دراز سے منتظر اور بے چین تھیں وہ اب ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی قائدین کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں نہ دہرانے کا یہ عزم پیہم ہماری قوم کے لیے یقیناً خوش آئند اور باعث مسرت ہے کہ ہم اب اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک کی تعمیر کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ قائدین کا عزم نو اگر خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اب ہمیں ترقی کی منازل طے کرنے سے نہیں روک سکتی۔ حکمرانوں سمیت سارے سیاستدانوں کا ملک کی خوشحالی کے ایجنڈے پر یک ذہن اور اکٹھا ہوجانا ہمارے ان عالمی بدخواہوں کے لیے بھی یقیناً مایوس کن ہوگا جو ہماری قومی ترقی کی راہ میں مختلف طریقوں سے رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں۔ جو کبھی تھرکول منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عالمی ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور کبھی ایران کے ساتھ گیس معاہدے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی فیصلوں کی عدم پیروی۔ دوستی اور یاری کے نام پر ہمیشہ ہماری تباہی کے منصوبے بنانے والوں نے 9 الیون کے بعد خود کو تو محفوظ کرلیا لیکن ہمیں نہ تھمنے والی دہشت گردی کے سپرد کرکے ہمارے دس بارہ سال برباد کردیے۔ ہمارے جمہوری اداروں اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی اور سیاسی قائدین کی بالغ نظری اور یک جہتی یقیناً نہ صرف ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہوگی بلکہ ان عالمی دوست نما دشمنوں کے مکروہ عزائم اور ارادوں کی پامالی کا باعث بنے گی۔
اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جمہوریت کے تسلسل، ملک کی ترقی و خوشحالی اور مضبوطی کی خاطر ہمارے ان سیاستدانوں کو اب یہ خیال ہونے لگا ہے کہ بلاوجہ کی دشمنی اور باہم رنجش و عناد کی بدولت وہ صرف اپنا اور قوم کا نقصان ہی کرتے آئے ہیں۔ ان کی اس باہم دشمنی اور محاذآرائی کا فائدہ کسی تیسرے فریق ہی کو جاتا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے سابقہ ادوار سے کوئی مثبت سبق سیکھ ہی لیا کہ بلاوجہ ایک دوسرے کو لعن و طعن اور دشنام طرازی سے انھیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اپنے مخالفوں کے خلاف بلاوجہ کی قانونی اورعدالتی کارروائیوں کی گرفت میں لانے کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ مقدمات میں قیمتی وقت اور کثیر سرمائے کے ضیاع کے بعد بھی نتیجہ لاحاصل۔ کرپشن اور مالی بدعنوانیاں بے شک ہوتی رہیں لیکن ثابت کچھ بھی نہ ہو سکا، استغاثہ عدلیہ کو مطمئن کرنے میں بری طرح ناکام رہا مگر ہاں فریقوں کے دلوں میں باہم رنجشیں اور بداعتمادیاں بڑھتی رہیں۔ دنیا ہم پر ہنستی رہی، جمہوریت رسوا ہوتی رہی اور ملک و قوم مسلسل تباہی اور تنزلی سے ہمکنار ہوتے رہے۔
2013 کے انتخابات ہمارے لیے کم ازکم اس لحاظ سے نیک شگون ثابت ہو رہے ہیں کہ حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں انتہائی بالغ نظری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے متحد اور یکجا ہو چکے ہیں۔ سب سے پہلے اس کا مظاہرہ کراچی کے حالات سدھارنے کے لیے وفاق اور سندھ کے مابین کی جانے والی مشترکہ کوششوں کی صورت میں سامنے آیا۔ کراچی شہر کو ایک بار پھر سے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے صوبائی معاملات میں دخل اندازی کیے بغیر جس خوبصورت طریقے سے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا وہ بھی اس سے پہلے کی جانے والی تمام کوششوں سے مختلف اور بالکل نیا اور انہونا تھا۔ باعث اطمینان بات یہ ہے کہ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس کارخیر میں مکمل ساتھ نبھاتے ہوئے اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور غیر ضروری مخالفت سے مکمل اجتناب کیا۔ پھر جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تجویز اپوزیشن کے سامنے رکھی گئی تو یہاں بھی حزب اختلاف کی جانب سے انتہائی بردباری، اعلیٰ سوچ اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ہر فیصلے میں بھرپور ساتھ نبھانے کا اعادہ کیا گیا۔ اور اب یہ تیسرا موقع ہے جہاں حکمراں اور اپوزیشن نے ملک اور اٹھارہ کروڑ عوام کے روشن مستقبل کے لیے تھرکول منصوبے کو ایک ساتھ مل کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اس موقع پر اخوت اور بھائی چارگی کا مظاہرہ کسی تاریخی تبدیلی سے کم نہیں ہے۔ یکم فروری سے صوبہ سندھ میں سندھی ثقافت فیسٹیول کا آغاز ہوچکا ہے اور بلاول بھٹو کو اس فیسٹیول کو دلکش اور خوبصورت بنانے کی اہم ذمے داری سونپی گئی ہے، جسے وہ پنجاب کو اپنے ساتھ ملا کر پوری کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے مریم نواز کو بھی خصوصی دعوت نامہ ارسال کردیا ہے۔
دونوں بڑے سیاسی قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے نیک خیالات اور محبت و اخوت کا ناقابلِ یقین مظاہرہ دوسرے سیاستدانوں کے لیے بھی سبق آموز اور مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ نیا انداز سیاست شاید کچھ لوگوں کو نہ بھاتا ہو، خاص کر وہ لوگ جو ان دونوں کی محاذ آرائی کا بلاواسطہ فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے تھے یقینا ناامید اور مایوس ہوئے ہوں گے، کچھ لوگ اسے مک مکا کہیں گے اور کچھ اسے مفاد پرستوں کا اتحاد لیکن یہ ہم سب کے لیے انتہائی مسرت اور شادمانی کا لمحہ ہے کہ اپوزیشن نے ملک کے حکمرانوں کے لیے جس خلوص اور محبت سے ساتھ نبھانے کا اعلان کیا ہے وہ کسی بڑے انقلاب سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح میاں صاحب نے بھی اپنے مخالفوں کے لیے سابقہ ادوار سے بالکل مختلف جن نئے رویوں اور حسن سلوک کو اپنایا ہے وہ بھی کسی معجزے سے قطعی کم نہیں۔ جمہوریت کے تسلسل نے کم از کم ہمیں آج یہ دن تو دکھایا ہے کہ آنکھیں جس دن کے انتظار میں عرصہ دراز سے منتظر اور بے چین تھیں وہ اب ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی قائدین کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں نہ دہرانے کا یہ عزم پیہم ہماری قوم کے لیے یقیناً خوش آئند اور باعث مسرت ہے کہ ہم اب اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک کی تعمیر کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ قائدین کا عزم نو اگر خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اب ہمیں ترقی کی منازل طے کرنے سے نہیں روک سکتی۔ حکمرانوں سمیت سارے سیاستدانوں کا ملک کی خوشحالی کے ایجنڈے پر یک ذہن اور اکٹھا ہوجانا ہمارے ان عالمی بدخواہوں کے لیے بھی یقیناً مایوس کن ہوگا جو ہماری قومی ترقی کی راہ میں مختلف طریقوں سے رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں۔ جو کبھی تھرکول منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عالمی ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور کبھی ایران کے ساتھ گیس معاہدے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی فیصلوں کی عدم پیروی۔ دوستی اور یاری کے نام پر ہمیشہ ہماری تباہی کے منصوبے بنانے والوں نے 9 الیون کے بعد خود کو تو محفوظ کرلیا لیکن ہمیں نہ تھمنے والی دہشت گردی کے سپرد کرکے ہمارے دس بارہ سال برباد کردیے۔ ہمارے جمہوری اداروں اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی اور سیاسی قائدین کی بالغ نظری اور یک جہتی یقیناً نہ صرف ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہوگی بلکہ ان عالمی دوست نما دشمنوں کے مکروہ عزائم اور ارادوں کی پامالی کا باعث بنے گی۔