چھّٹے کے پلاٹ
کلرکوں نے ان پلاٹوں کو چھّٹے کے پلاٹوں کا نام دے رکھا تھا۔
سن 1970 کا ذکر ہے میری تعیناتی راولپنڈی میں تھی اور جنرل الیکشن کے دن قریب تھے۔ ہم تین دوست ایک ریستوران میں چائے پی کر قریبی فُٹ پاتھ پر ٹہلنے لگے۔ الیکشن پر میری ڈیوٹی بھی تھی۔
الیکشن کا ذکر ہوا تو ایک دوست نے کہا کیا خیال ہے ذوالفقار علی بھٹو جیت جائیں گے؟ دوسرے دوست نے میری طرف دیکھ کر رائے لی۔ میں نے کہا الیکشن کروا کے دیکھ لیتے ہیں۔ انھوں نے میری بات کو مذاق میں لیا اور ہنسے ۔ میں نے ایک راہگیر کو سلام کر کے روکا اور پوچھا جناب! الیکشن کون جیتے گا؟ اس نے ہنس کر جواب دیا بھٹو جیتے گا اور کون۔ اس کے جانے کے بعد میں نے ایک سائیکل سوار کو اشارے سے سلام کر کے روکا اور سوال دُہرایا۔ اس نے ہم تینوں کو غور سے دیکھ کر کہا میرا ووٹ تو بھٹو کے لیے ہو گا۔ وہ سائیکل پر بیٹھا اور چل دیا۔
ابھی ہم وہیں کھڑے تھے کہ ایک بھکاری قسم کا آدمی جاتے ہوئے ہمارے پاس رک گیا۔ میں نے چند سکے اسے پکڑائے اور پوچھا الیکشن آ رہا ہے ووٹ دو گے؟ اس نے میری بات کو مذاق کے انداز میں لیا لیکن پھر بولا کہ بھٹو نے ہم فقیروں کو روٹی دینے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ میں کسی کو بھوکا ، ننگا نہیں رہنے دوں گا اور ہر کسی کو روزگار بھی دوں گا۔
میں نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا اور کہا لو جی ! الیکشن تو میں نے شام پڑنے سے پہلے فٹ پاتھ پر کھڑ ے کھڑے ہی کرا دیا ہے۔ آیندہ ہفتے مجھے دس پولنگ اسٹیشنوں پر لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے کا چارج دیا گیا ہے۔ اب میں دس پولنگ اسٹیشنوں کی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر الیکشن کا احوال بتائوں گا۔
الیکشن شروع ہوا تو میں ایک لیڈیز پولنگ اسٹیشن پر گیا اور اس کے اندر گھومتے ہوئے ایک بیحد بوڑھی عورت کو بیلٹ پیپر کو دوہرا کر کے اور اس کو ایک اور تہہ دے کر بیلٹ باکس میں ڈالتے دیکھا لیکن اس بزرگ خاتون سے بیلٹ پیپر کی تہیں صحیح فولڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ باکس کیSlit میں سے اندر نہیں جا رہا تھا۔ خاتون نے بیلٹ پیپر کھول لیااور دوبارہ تہیں فولڈ کر کے باکس میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اسے اپنے کانپتے ہاتھوں کی وجہ سے پھر دشواری پیش آ رہی تھی۔ میں نے ذرا قریب جا کر کہا بی بی میں بیلٹ پیپر تہہ کرنے میں آپ کی مدد کروں؟
اس نے غصے سے میری طرف دیکھ کر کہا '' ہتھ نہ لائیں میرے ووٹ نوں ''۔ یہ جنرل یحییٰ خاں کے دور والے الیکشن کا ذکر ہے۔ لیکن کافی عرصہ کے بعد ایک قطعی مختلف مشاہدے کا ذکر بھی ہو جائے تب میں ریٹرننگ افسر کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں الیکشن کے دن علاقہ کے پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کرتے ہوئے ایک مردانہ پولنگ اسٹیشن کے اندر گیا تو دیکھا کہ پولنگ افسر قالین پر بیٹھے ایک شخص کا انگوٹھا پکڑے اس کو ایک بار انک پیڈ پر اور پھر ووٹر لسٹ پر مسلسل ووٹروں کے صفحوں پر اس کے انگوٹھے لگائے جا رہا ہے۔ میں اس کے سر پر کھڑا تھا لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟
اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا تمہیں نظر نہیں آ رہا ؟ تب میں نے کچھ فاصلے پر کھڑے تھانیدار سے کہا ادھر آئو اور ان صاحب کو ہتھکڑی لگا دو۔ ملکی الیکشنوں کا ذکر کرنے کے بعد میرے قلم نے اس موضوع سے جان چھڑانی چاہی تو میرا ایک دوست ملاقات کے لیے ڈھیروں اخبار پکڑے میرے ہاں چائے پینے آ گیا۔ اسے بٹھا کر میں نے اس سے پوچھا یہ دس پندرہ کلو اخبار اٹھائے آئے ہو کیا کنگال ہو گئے ہو کہ ردّی بیچنے جا رہے ہو۔
اس نے ہنس کر جواب دیا یہ بات تمہیں بھی مضحکہ خیز لگے گی لیکن میری ایک عادت رہی ہے کہ ہر روز اخبار پڑھ کر دیکھتا ہوں کہ اس میں کوئی یادگار خبر پائوں تو اس کو دائرہ لگا کر وہ اخبار محفوظ کر لیتا ہوں۔ میری یہ عادت بھٹو صاحب کی UNOمیں پہلی تقریر سن کر شروع ہوئی تھی۔ اس نے ایک اخبار کا صفحہ پڑھ کر کہا کہ بریگیڈیئر قیوم نے نواز شریف کو گورنر جیلانی سے ملوا کر صوبائی وزیر بنوا دیا اور کئی قلمدان دلوائے۔
پھر میاں نواز شریف صاحب وزیراعلیٰ بنے تو میاں صاحبLDAکے چیئرمین بھی تھے جس میں ضرورت مندوں کو کم Reserve price یعنی کم قیمت پر پلاٹ دینے کا اختیار ہوتا ہے موقع دیکھ کر امیر ترین لوگ خود کو غریب ترین ظاہر کر کے سستا پلاٹ الاٹ کروا لیتے رہے اور اسے مہنگابیچ کر کمائی کا ذریعہ بنا لیتے۔ اس طرح کروڑ پتی بے شمار لوگوں نے خود کو غریب ظاہر کر کے بیشمار پلاٹ حاصل کیے۔ کلرکوں نے ان پلاٹوں کو چھّٹے کے پلاٹوں کا نام دے رکھا تھا۔ اسی طرح جیسے کسان بیجوں کی مٹھی بھر کرچھٹّے سے بیج بوتے ہیں۔
الیکشن کا ذکر ہوا تو ایک دوست نے کہا کیا خیال ہے ذوالفقار علی بھٹو جیت جائیں گے؟ دوسرے دوست نے میری طرف دیکھ کر رائے لی۔ میں نے کہا الیکشن کروا کے دیکھ لیتے ہیں۔ انھوں نے میری بات کو مذاق میں لیا اور ہنسے ۔ میں نے ایک راہگیر کو سلام کر کے روکا اور پوچھا جناب! الیکشن کون جیتے گا؟ اس نے ہنس کر جواب دیا بھٹو جیتے گا اور کون۔ اس کے جانے کے بعد میں نے ایک سائیکل سوار کو اشارے سے سلام کر کے روکا اور سوال دُہرایا۔ اس نے ہم تینوں کو غور سے دیکھ کر کہا میرا ووٹ تو بھٹو کے لیے ہو گا۔ وہ سائیکل پر بیٹھا اور چل دیا۔
ابھی ہم وہیں کھڑے تھے کہ ایک بھکاری قسم کا آدمی جاتے ہوئے ہمارے پاس رک گیا۔ میں نے چند سکے اسے پکڑائے اور پوچھا الیکشن آ رہا ہے ووٹ دو گے؟ اس نے میری بات کو مذاق کے انداز میں لیا لیکن پھر بولا کہ بھٹو نے ہم فقیروں کو روٹی دینے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ میں کسی کو بھوکا ، ننگا نہیں رہنے دوں گا اور ہر کسی کو روزگار بھی دوں گا۔
میں نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا اور کہا لو جی ! الیکشن تو میں نے شام پڑنے سے پہلے فٹ پاتھ پر کھڑ ے کھڑے ہی کرا دیا ہے۔ آیندہ ہفتے مجھے دس پولنگ اسٹیشنوں پر لاء اینڈ آرڈر کنٹرول کرنے کا چارج دیا گیا ہے۔ اب میں دس پولنگ اسٹیشنوں کی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر الیکشن کا احوال بتائوں گا۔
الیکشن شروع ہوا تو میں ایک لیڈیز پولنگ اسٹیشن پر گیا اور اس کے اندر گھومتے ہوئے ایک بیحد بوڑھی عورت کو بیلٹ پیپر کو دوہرا کر کے اور اس کو ایک اور تہہ دے کر بیلٹ باکس میں ڈالتے دیکھا لیکن اس بزرگ خاتون سے بیلٹ پیپر کی تہیں صحیح فولڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ باکس کیSlit میں سے اندر نہیں جا رہا تھا۔ خاتون نے بیلٹ پیپر کھول لیااور دوبارہ تہیں فولڈ کر کے باکس میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اسے اپنے کانپتے ہاتھوں کی وجہ سے پھر دشواری پیش آ رہی تھی۔ میں نے ذرا قریب جا کر کہا بی بی میں بیلٹ پیپر تہہ کرنے میں آپ کی مدد کروں؟
اس نے غصے سے میری طرف دیکھ کر کہا '' ہتھ نہ لائیں میرے ووٹ نوں ''۔ یہ جنرل یحییٰ خاں کے دور والے الیکشن کا ذکر ہے۔ لیکن کافی عرصہ کے بعد ایک قطعی مختلف مشاہدے کا ذکر بھی ہو جائے تب میں ریٹرننگ افسر کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں الیکشن کے دن علاقہ کے پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کرتے ہوئے ایک مردانہ پولنگ اسٹیشن کے اندر گیا تو دیکھا کہ پولنگ افسر قالین پر بیٹھے ایک شخص کا انگوٹھا پکڑے اس کو ایک بار انک پیڈ پر اور پھر ووٹر لسٹ پر مسلسل ووٹروں کے صفحوں پر اس کے انگوٹھے لگائے جا رہا ہے۔ میں اس کے سر پر کھڑا تھا لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟
اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا تمہیں نظر نہیں آ رہا ؟ تب میں نے کچھ فاصلے پر کھڑے تھانیدار سے کہا ادھر آئو اور ان صاحب کو ہتھکڑی لگا دو۔ ملکی الیکشنوں کا ذکر کرنے کے بعد میرے قلم نے اس موضوع سے جان چھڑانی چاہی تو میرا ایک دوست ملاقات کے لیے ڈھیروں اخبار پکڑے میرے ہاں چائے پینے آ گیا۔ اسے بٹھا کر میں نے اس سے پوچھا یہ دس پندرہ کلو اخبار اٹھائے آئے ہو کیا کنگال ہو گئے ہو کہ ردّی بیچنے جا رہے ہو۔
اس نے ہنس کر جواب دیا یہ بات تمہیں بھی مضحکہ خیز لگے گی لیکن میری ایک عادت رہی ہے کہ ہر روز اخبار پڑھ کر دیکھتا ہوں کہ اس میں کوئی یادگار خبر پائوں تو اس کو دائرہ لگا کر وہ اخبار محفوظ کر لیتا ہوں۔ میری یہ عادت بھٹو صاحب کی UNOمیں پہلی تقریر سن کر شروع ہوئی تھی۔ اس نے ایک اخبار کا صفحہ پڑھ کر کہا کہ بریگیڈیئر قیوم نے نواز شریف کو گورنر جیلانی سے ملوا کر صوبائی وزیر بنوا دیا اور کئی قلمدان دلوائے۔
پھر میاں نواز شریف صاحب وزیراعلیٰ بنے تو میاں صاحبLDAکے چیئرمین بھی تھے جس میں ضرورت مندوں کو کم Reserve price یعنی کم قیمت پر پلاٹ دینے کا اختیار ہوتا ہے موقع دیکھ کر امیر ترین لوگ خود کو غریب ترین ظاہر کر کے سستا پلاٹ الاٹ کروا لیتے رہے اور اسے مہنگابیچ کر کمائی کا ذریعہ بنا لیتے۔ اس طرح کروڑ پتی بے شمار لوگوں نے خود کو غریب ظاہر کر کے بیشمار پلاٹ حاصل کیے۔ کلرکوں نے ان پلاٹوں کو چھّٹے کے پلاٹوں کا نام دے رکھا تھا۔ اسی طرح جیسے کسان بیجوں کی مٹھی بھر کرچھٹّے سے بیج بوتے ہیں۔