مجھے دھکا کس نے دیا

منطق یہ کہتی ہے کارگل آپریشن کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی جس میں وقت کی پابندی تھی۔۔۔

انتقام کبھی پرامن انجام کو نہیں بلکہ جنم درجنم انتقام کو جنم دیتا ہے۔ خاندان تباہ ہوجاتے ہیں قبیلے تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں، قومیں خانہ جنگی کا شکار ہوجاتی ہیں اور جو بچتی ہیں ان کی اوقات دوکوڑی کی رہ جاتی ہے کیونکہ انتقام اندھا ہوتا ہے۔ فیصلے مشاورت سے نہیں وسوسوں اور مخمصوں سے انجام پاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کارگل ایڈونچر کیس کے بعد کبھی طیارہ اغوا کیس تو کبھی طیارہ سازش کیس، سزاؤں کی معافیاں تو جلاوطنی کے معاہدے، آج کل سنگین غداری کیس آخر کیوں؟

ایک بزرگ ہر برائی کا الزام شیطان پر لگا کر اس کو برا بھلا کہنے کے عادی تھے۔ ایک دن شیطان کو طیش آگیا اور وہ بزرگ کو بہلا پھسلا کر مٹھائی کی دکان پر لے گیا اور جلیبی کی چاشنی میں انگلی ڈبو کر چاشنی دیوار پر لگادی اور دکان سے ذرا ہٹ کر بزرگ کے ساتھ معصوم صورت بناکر کھڑا ہوگیا۔ چاشنی پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔ آمنے سامنے سے دو چھپکلیاں آئیں مکھیوں کا شکار کرنے بیک وقت لپکیں اور ٹکرا کر شیرے کے کڑھاؤ میں گریں، جس پر حلوائی کی پالتو بلی جھپٹی اور کڑاہی اوندھا دی۔ اس وقت سڑک پر سے محلے کا بدمعاش اپنے شکاری کتے کی زنجیر تھامے گزر رہا تھا کتے نے زنجیر چھڑا کر بلی پر حملہ کردیا اور دکان میں سجی ہوئی قسم قسم کی مٹھائی کی تھالیاں گرادیں اور مٹھائیاں سڑک پر پھیل گئیں۔ حلوائی غصے سے پاگل ہوگیا اور کفگیر سے کتے کا سر پھاڑ دیا یہ دیکھ کر محلے کا بدمعاش آپے سے باہر ہوگیا اور حلوائی کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ شیطان نے بزرگوار سے پوچھا ''حضور! حلوائی کو کس نے قتل کیا؟ میں نے تو دیوار پہ ''چاشنی'' لگائی تھی اور وہ بھی انگلی سے '' پھر غائب ہوگیا۔

پہلے ایک سرسری نظر پس منظر پر ڈالتے ہیں۔ 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے۔ اکھنڈ بھارت کے حامی ہوتے ہوئے مینار پاکستان پر حاضری دی، کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کی رٹ چھوڑ کر کشمیر پر مذاکرات کے مسئلے کے حل کے قریب پہنچنے کی خوش خبریاں بھی ملیں۔ ایسے میں کارگل کا ایڈونچر (جو نومبر 1998 میں ہوچکا تھا) کا بھانڈا پھوٹا۔ بھارتی وزیر اعظم کو یہ کہنے کا موقعہ ملا کہ مجھے دعوت دے کر پاکستان بلایا گیا اور پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا۔ اور ناراض ہوکر چلے گئے (گویا دیوار پر ''چاشنی'' لگادی)۔ دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی وہ ڈیفنس میں آگیا۔ بھارت نے اس بات کو بہت اچھالا کہ پاکستانی ادارے کارگل جیسے ایڈونچر سے اپنے منتخب اور ہیوی مینڈیٹ وزیر اعظم کو اطلاع دینا تک ضروری نہیں سمجھتے۔ بھلا بھارتی وزیر اعظم کو کیسے پتہ چلتا جب کہ ان کی عسکری قیادت کو ہی پتہ نہیں تھا۔

اس سے پہلے ایک قابل ذکر واقعہ ہوچکا تھا۔ جہانگیر کرامت کے ایک متنازعہ بیان پر میاں نواز شریف نے ان سے باز پرس کی تھی۔ جہانگیر کرامت نے استعفیٰ لکھ دیا جو فوراً قبول کرلیا گیا۔1999 کو اچانک میاں نواز شریف نے آرمی چیف پرویز مشرف کو جب وہ سری لنکا کے دورے سے واپس آرہے تھے فضا میں By Air برطرف کردیا اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو چیف آف آرمی اسٹاف بنادیا۔ حکومت نے پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے روکنا چاہا۔ یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔ اس کے بعد نواز شریف معزول ہوئے اور پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو ۔ کسی صحافی کے سوال کے جواب میں پوچھا ''پہلے یہ بتاؤ مجھے دھکا کس نے دیا؟'' اس کے بعد طیارہ سازش کیس چلا سزا ہوئی، سعودی مداخلت پر معافی ہوئی۔ میاں نواز شریف 10 سال کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔


چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے ساتھ وہی کلاسیکی غلطی دہرائی۔ چیف جسٹس پر دباؤ ڈال کر استعفیٰ لینے کی کوشش کی نتیجتاً چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ان کے حلق میں اٹک گئے۔ وردی اتارنا پڑی۔ پھر زرداری صدر منتخب ہوئے اور صدر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ایوان سے رخصت کیا گیا پھر وہ ملک سے رخصت ہوگئے۔

پچھلی کامیاب جمہوری حکومت میں کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی اور لوڈشیڈنگ سے بوکھلائے ہوئے عوام جمہوری حکومت کو چڑانے، آئینہ دکھانے، اپنے دل کا بخار اتارنے کے لیے پرویز مشرف کے دور کو باآواز بلند یاد کرنے لگے جوں ہی پرویز مشرف کے کان میں بھنک پڑی انھوں نے لبیک کہا اور چلے آئے۔ نواز شریف تو معاف کرکے الگ ہوگئے لیکن پرویز مشرف عدالتی شکنجے میں آگئے ۔ ان کے ملکی اور غیر ملکی دوست چاہتے ہیں کہ ان کو ٹرائل سے بچا کر ملک سے باہر نکال لے جائیں۔ دوسری لابی چاہتی ہے بھلے سنگین غداری کے بجائے ''آئین شکنی'' کے تحت مقدمہ چلے سزا ہو۔ پرویز مشرف معافی کی درخواست دیں اور نواز شریف معاف کریں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کارگل آپریشن ایک کامیاب آپریشن تھا یا جمہوری حکومت کے خلاف سازش؟ کارگل آپریشن بلاشبہ ایک کامیاب آپریشن تھا کیونکہ یہ پاکستان کی شرارت نہیں تھی بلکہ بھارت کی ہو بہو ایسی شرارت کا جواب تھا جو اس نے پاکستانی علاقے سیاچن گلیشیر (برف کے تودے) پر کی تھی۔ جس پر سابق صدر ضیا الحق نے کہا تھا وہاں سال بھر برف رہتی ہے گھاس تک نہیں اگتی ہے۔ جس سے بھارتی فوج اتنی مطمئن ہوگئی کہ کارگل ان کے ہاتھ سے نکل گیا 5 مہینے تک پتہ ہی نہیں چلا۔ جب بھارتی آرمی چیف مطمئن تھے تو بھارتی وزیراعظم کو کیسے پتہ چلتا؟ البتہ ان کو اس بات کا بڑا دکھ ہوا کہ پاکستانی وزیراعظم کو ان کے اداروں نے اس مہم سے دور رکھا۔

منطق یہ کہتی ہے کارگل آپریشن کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی جس میں وقت کی پابندی تھی (نومبر سے اپریل) جب کہ بھارتی وزیر اعظم کے پاکستانی دورے کا شیڈول بھارت میں طے ہوا جس میں وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ سازش کے تحت بھارتی وزیراعظم کو کارگل آپریشن کے چھرے کی رینج میں آنا تھا تاکہ ان کی پیٹھ میں گھونپا جائے تاکہ جمہوری حکومت کے خلاف کامیاب سازش مکمل ہو، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوتا جب کارگل آپریشن اور واجپائی کے دورے کا شیڈول ترتیب دینا بھی مشرف کی ڈیوٹی ہوتی جو ناممکن تھا۔کیونکہ پاکستان اور بھارت دنیا کے دو نرالے پڑوسی ہیں جو مل کے رہ نہیں سکتے اور علیحدہ ہو نہیں سکتے۔ جیسے ''ٹام اینڈ جیری''۔

فرض کیجیے کہ واجپائی کو اپنے وقت پر کارگل آپریشن کی خبر مل گئی لیکن انھوں نے اس کو ہش ہش کردیا۔ وزرائے اعظم جب بین الاقوامی فورم میں بات چیت کے لیے ملتے ہیں تو اپنے ملک کے دورے کی دعوت ضرور دیتے رہتے ہیں۔ اگر دورے کا مقصد کشمیر کے مسئلہ مذاکرات ہوں تو پاکستان ویسے ہی فرش راہ ہو جاتا ہے۔ سازش کے تحت واجپائی دوستی بس میں تشریف لائے۔ مینار پاکستان پر حاضری دی۔ کشمیر پر مذاکرات شروع ہوئے۔ گرین سگنل پر بھارت میں کارگل آپریشن کا بھانڈا پھوڑ دیا گیا اور واجپائی یہ کہتے ہوئے روانہ ہوگئے '' مجھے دعوت پر بلاکر میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا''۔ پاکستان اخلاقی دباؤ میں آگیا اور اپنی صفائیاں پیش کرنے پر جٹ گیا۔

اگر اب بھی سمجھ میں نہیں آیا تو اس پر دوسرے زاویے سے نظر ڈالتے ہیں۔ فرض کریں کارگل سازش کا انکشاف ہوتے وقت واجپائی ٹمبکٹو کے دورے پر ہوتے۔ بھارت چلاتا پاکستان نے کارگل پر ناجائز قبضہ کرلیا، پاکستان حلق پھاڑکر چیختا، فرمائش تو بھارت کی تھی۔ پاکستانی علاقہ سیاچن (برف کے تودے) پر قبضہ کرکے۔ اس وقت بھارتی فوج کی سپلائی لائن پر بیٹھے ہیں۔ غذا کی نالی پر انگوٹھا ہے۔ اپنے فوجیوں کو پیغام دو ''گولے گنڈے'' کھائیں۔
Load Next Story