کورونا سے معاشی بدحالی کا شکار عوام کو مہنگائی نے زندہ درگور کردیا
متوسط طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا، وفاقی حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کررہی ہے۔
دنیا گزشتہ دو برسوں سے عالمی وبا کورونا کی لپیٹ میں ہے،کورونا سے جہاں لاتعداد لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، وہی لاتعداد لوگ کورونا وبا سے متاثر ہوئے۔
اس وبا نے لوگوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر دیا، لوگ معاشی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اس وبا کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا۔ معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے عوام شدید بدحالی کا شکار ہوگئی۔
رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی ہے، پاکستان اس وقت مہنگائی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، ڈالر کی اونچی اڑان ، عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے ، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل درآمد نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ اشیا کی قیمتوں کو ایسے پر لگ گئے ہیں جیسے کوئی جنگی طیارہ اونچی اڑان بھرتا ہے۔ آٹا ، دالیں ، چینی ، چاول ، گھی ، تیل ، گوشت ، سبزیاں ، دودھ ، مصالحہ جات اور ادویات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے، مہنگائی کے اس طوفان پر وفاقی حکمران جماعت تحریک انصاف اور سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں جبکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے ذمے دار ادارے خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ایکسپریس نے سندھ میں مہنگائی کی حالیہ لہر کے حوالے سے حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں سے '' ایکسپریس فورم میں تفصیلی اظہار خیال کیا جس تفصیل قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
سعید غنی (صوبائی وزیر اطلاعات و صدر پیپلزپارٹی سندھ)
سلیکٹڈ حکمران تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے لیکن تبدیلی تو نظر نہیں آئی البتہ عوام کی زندگی مہنگائی کے سبب تبدیل ہوگئی ، جو پہلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے وفاقی حکومت پر مافیاز کا کنٹرول ہے، آٹا مافیا ، چینی مافیا ، پٹرول مافیا ، ادویات مافیا سب کا تعلق کسی نہ کسی طورتحریک انصاف سے ہے۔
اس حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے وزیر خزانہ نہیں ملتا اسی لیے ان کی معاشی پالیسیاں ناکام ہیں، پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر معاشی فیصلے کر رہی ہے، پارلیمان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آئی ایم ایف سے کن شرائط پر قرضہ لیا جا رہا ہے، ہر 15 دن میں عوام پر پٹرول بم گرایا جاتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے، ڈالر بے لگام ہو گیا ہے، جب ڈالر بڑھتا ہے تو چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھتی ہیں، اس حکومت کی کوئی زرعی پالیسی نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں چینی کا بحران ہے جس کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔
آٹا ، دال ، چینی اور دیگر اشیائے خورو نوش کے حوالے سے وفاق کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پالیسی طے کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہے کہ وہ سندھ کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے۔ وزیر اعلی سندھ نے ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اشیاکی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کریں اور جو لوگ ناجائز منافع وصول کر رہے ہیں ۔
ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ہمارے دور حکومت میں کسانوں کو مراعات دی گئیں ، جس کی وجہ سے کئی طرح کی فصلوں میں ہم خود کفیل ہوء، ہ بجلی ، گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھ رہی ہے۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی دے ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے ، ڈالر کی اڑان کو روکا جائے، پارلیمان کی مدد سے معاشی پالیسی طے کی جائے،سندھ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم صرف تبدیلی کے نعرے نہ لگائے بلکہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے۔ پنجاب سے ایک ماہ میں 66 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا غائب ہو جانا بھی سوالیہ نشان ہے، جو پی ٹی آئی کے اے ٹی ایم ہیں ، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
محمد حسین (ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سندھ اسمبلی ایم کیو ایم پاکستان)
ملک میں دو اقسام کی مہنگائی ہے، ایک مہنگائی وفاقی حکومت کی پیدا کردہ ہے اور دوسری مہنگائی کی ذمے دار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہے، ملک میں اس وقت بجلی ، گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیںاسکی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور ناجائز منافع خوری بھی ہے، مہنگائی کو کنٹرول کرنا محکمہ پرائس کنٹرول اور کمشنری نظام کا ہے لیکن یہ تمام ادارے غیر فعال ہیں،کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اپنے دفتروں سے نکلتے ہی نہیں، افسران اپنے عہدوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
اس وقت آٹا 80 ، چینی 140 سے 150 روپے کلو مل رہی ہے، دودھ ، گوشت ، سبزیوں ، پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے، ہر علاقے میں مہنگائی کا تناسب الگ الگ ہے جس کی جتنی مرضی ہوتی ہے ، وہ اپنی مرضی کی قیمت چیزوں کو فروخت کر رہا ہے۔ اگر آپ پیدل گوشت خریدنے جائیں گے تو ٹھیے پر 650 روپے فی کلو ، دکان سے لیں گے تو 750 سے 800 روپے کلو اور کار میں بیٹھ کرکسی بڑی سپر مارکیٹ یا دکان سے خریدیں گے تو 900 سے 1 ہزار روپے کلو گوشت ملے گا، یہ منافع خوری کی انتہا ہے۔
منافع خور اس وقت بے لگام ہو گئے ہیں انھیں روکنے والا کوئی نہیں، اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سخت ہیں اور انھیں قرضہ لینے میں مشکلات ہیں تو وہ متبادل راستے تلاش کرے، ایم کیو ایم پاکستان وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے لیکن وفاقی حکومت معاشی پالیسیوں پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیتی، وفاق کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کا بوجھ ہم نہیں اٹھا سکتے، ایم کیو ایم مڈل کلاس کی جماعت ہے، ہم عوام کی تکالیف سے آگاہ ہیں، قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اسمبلی اور ہر فورم پر اس معاملے پر آواز بلند کریں گے۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ حکومت کو فعال ہونا ہو گا۔ وفاقی اور سندھ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ عوام کو براہ راست سبسڈی دینے کے بجائے اشیائے خورونوش پر ریلیف پیکیج دیں، غریب افراد کے لیے راشن کارڈ جاری کیا جائے،پٹرول مصنوعات کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی دی جائے۔
خرم شیر زمان (رکن سندھ اسمبلی و صدر کراچی ڈویژن تحریک انصاف)
سندھ میں مہنگائی کی ذمے دار پیپلز پارٹی ہے۔ صوبے میں منافع خوری عروج پر ہے،اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والا پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ غیر فعال ہے، مہنگائی روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مہنگائی روکنا وفاقی نہیں سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔
عالمی بینک کے مطابق 2021 ء میں پاکستان کی معیشت بحال ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کی بہترین معاشی پالیسی کے سبب شرح نمو بہتری کی جانب گامزن ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر سے عوام پریشان ہیں، وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس کا احساس ہے۔ اسی لیے انھوں نے منافع خوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔
وزیرا عظم نے غریبوں کے لیے ایک بڑا سبسڈی پیکیج دیا ہے کورونا وباکی وجہ سے پوری دنیا معاشی طور پر بحران کا شکار ہوئی ہے اس کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی مرتب ہوئے۔ سندھ میں آٹا ، دالیں ، چینی ، دودھ اور دیگر اشیاکی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے، اس معاملے پر پی ٹی آئی ہر سطح پر آواز بلند کرے گی، سندھ میں ہر طرف کرپشن کا راج ہے۔
کراچی ہو یا صوبے کا کوئی بھی ضلع وہاں ترقیاتی کام نظر نہیں آتے، پیپلز پارٹی کا کام صرف تنقید کرنا ہے۔ پی ٹی آئی پر تنقید کرنے سے پہلے پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت کی کارکردگی کا بھی جائزہ لے۔
نصرت سحر عباسی (رکن سندھ اسمبلی مسلم لیگ فنکشنل)
حالیہ مہنگائی کی ذمے دار وفاقی اور سندھ حکومت ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لہٰذا اب مہنگائی کو کنٹرول کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، ڈالر کی قدر بڑھ جانا اور دیگر وجوہات کی بناپر مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ایک عام آدمی کا حکومتی معاشی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ یہ چاہتا ہے کہ اسے سستا آٹا ، تیل ، گھی اور دیگر اشیا ملیں۔ اس وقت متوسط طبقہ ہو یا غریب ہر انسان مہنگائی سے پریشان ہے۔
مہنگائی کی حالیہلہر میں اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھی ہیں، منافع خور ہر چیز پر اپنے من مانے نرخ وصول کر رہے ہیں، انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے ماتحت پرائس کنٹرول اور کمشنری نظام تباہی کا شکار ہے وزیر اعلی سندھ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ وزیر اعظم قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں، عوام کو سستا آتا ، تیل ، گھی ، دالیں ، ادویات اور دیگر ضرورت کی اشیا پر سبسڈی دی جائیں۔
حافظ نعیم الرحمن (امیر جماعت اسلامی کراچی)
مہنگائی کی حالیہ لہر سے عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں اور اس صورتحال کی ذمے داری سندھ اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے مہنگائی سے غریب مزید غر یب ہو گیا ہے، لوگوں کی قوت خرید ختم ہو گئی ، کبھی آٹے کا بحران ، کبھی چینی کا بحران ، کبھی پٹرول کا بحران ، کبھی ادویات کا بحران ، اس حکومت میں صرف بحران ہی بحران ہیں۔
راتوں رات پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، پٹرول اور چینی کے بعد بجلی کا بم گرا دیاگیا ہے، ہمارے حکمران دیگر ممالک سے مہنگی اشیاکا موازنہ کرتے ہیں لیکن ضروریات زندگی کا موازنہ نہیں کرتے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی اندھا دھند مہنگائی اور اس پر حکمرانوں کی ڈھٹائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اپوزیشن کا ایجنڈا مہنگائی اور بے روزگاری نہیں بلکہ اپنے مسائل کو حل کرانا ہے جبکہ سندھ حکومت منافع خوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
جماعت اسلامی عوامی مسائل کا مقدمہ سڑکوں پر لڑ رہی ہے اور ہم مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مہنگائی کم کریں ، پیکیج کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق نہ کریں، قیمتوں کو کماور منافع خوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
مولانا راشد محمود سومرو (جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اسلام سندھ)
تبدیلی سرکار نے عوام پر مہنگائی مسلط کر دی ہے سندھ سمیت پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے، آٹا ، دالیں ،چینی ، پٹرول سب مافیاز اس حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، آج لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے، سندھ حکومت بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اگر لوگوں کو سستا آٹا یا دیگر اشیائے ضروریہ نہیں ملیں گی تو وہ اپنا پیٹ کس طرح بھریں گے ، سلیکٹڈ حکومت کی رخصتی کا وقت اب قریب آ گیا ہے، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ عوام کو اس تبدیلی سرکار سے نجات دلائے گی۔
ہماری جدوجہد منزل کے قریب ہے، وفاقی اور سندھ حکومتیں ہوش کے ناخن لیں، مہنگائی کو کنٹرول کریں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بے بس ہو کر احتجاج شروع کر دیں اور یہ احتجاج حکومت کو گھر بھیجنے کا سبب بن جائے، وزیر اعظم مہنگائی کے موازنے پر مثالیں دینا بند کریں۔
علی اکبر گجر (مرکزی رہنما مسلم لیگ (ن))
سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اپوزیشن کا احتساب کرنے پر لگے ہوئے ہیں، جھوٹے مقدمات کے اندراج کے باوجود اپوزیشن کو کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ آج پاکستان مہنگائی کی بدترین صورت حال سے دوچا رہے، ڈالر ہوا میں اڑ رہا ہے، روپے کی قدر گر رہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں راتوں رات بڑھا دی جاتی ہیں، ہر طرف مہنگائی کا راج ہے۔
کبھی عوام کو آٹا نہیں ملتا ، کبھی چینی غائب ہو جاتی ہے ، کبھی بجلی غائب اور اب گیس کا بحران سر پر ہے، عوام کو جب کھانے کی چیزیں نہیں ملیں گی تو پھر صورت حال احتجاج کی طرف جاتی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیاں ہیں، سندھ حکومت بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ وفاق کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے پارلیمان اور صوبوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں۔
شبیر احمد قائم خانی (مرکزی وائس چیئرمین پاک سرزمین پارٹی)
وفاق اور سندھ حکومتوں کے ارد گرد مافیاز کے لوگ بیٹھے ہیں، یہ اتنے مضبوط لوگ ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرنا ان حکومتوں کے بس کا کام نہیں آٹا ، دالیں ، چاول ، تیل ، گھی ، ادویات اور زندگی کی دوسری اشیائے ضرورت کی قیمتیں جب بڑھیں گی تو اس سے عام آدمی متاثر ہوگا، مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہور ہا ہے، مزدوروں کی اور ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہی ہیں۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، آٹا ، چینی اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ایس پی ہر فورم پر مہنگائی کے کلاف احتجاج کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
عتیق میر (صدرکراچی تاجر اتحاد)
مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ناجائز منافع خوری ہے، جس شخص کی جو مرضی ہوتی ہے ، وہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو بڑھا دیتا ہے۔ سندھ میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور ان پر نظر رکھنے کا نظام غیر فعال ہو گیا ہے، حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تاجر بھی بہت پریشان ہیں۔جو افراد یا تاجر ناجائز منافع خوری کر رہے ہیں ، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، حکومت اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور ان پر سبسڈی دی جائے۔
اس وبا نے لوگوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر دیا، لوگ معاشی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اس وبا کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا۔ معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے عوام شدید بدحالی کا شکار ہوگئی۔
رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی ہے، پاکستان اس وقت مہنگائی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، ڈالر کی اونچی اڑان ، عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے ، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل درآمد نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ اشیا کی قیمتوں کو ایسے پر لگ گئے ہیں جیسے کوئی جنگی طیارہ اونچی اڑان بھرتا ہے۔ آٹا ، دالیں ، چینی ، چاول ، گھی ، تیل ، گوشت ، سبزیاں ، دودھ ، مصالحہ جات اور ادویات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے، مہنگائی کے اس طوفان پر وفاقی حکمران جماعت تحریک انصاف اور سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں جبکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے ذمے دار ادارے خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ایکسپریس نے سندھ میں مہنگائی کی حالیہ لہر کے حوالے سے حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں سے '' ایکسپریس فورم میں تفصیلی اظہار خیال کیا جس تفصیل قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
سعید غنی (صوبائی وزیر اطلاعات و صدر پیپلزپارٹی سندھ)
سلیکٹڈ حکمران تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے لیکن تبدیلی تو نظر نہیں آئی البتہ عوام کی زندگی مہنگائی کے سبب تبدیل ہوگئی ، جو پہلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے وفاقی حکومت پر مافیاز کا کنٹرول ہے، آٹا مافیا ، چینی مافیا ، پٹرول مافیا ، ادویات مافیا سب کا تعلق کسی نہ کسی طورتحریک انصاف سے ہے۔
اس حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے وزیر خزانہ نہیں ملتا اسی لیے ان کی معاشی پالیسیاں ناکام ہیں، پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر معاشی فیصلے کر رہی ہے، پارلیمان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آئی ایم ایف سے کن شرائط پر قرضہ لیا جا رہا ہے، ہر 15 دن میں عوام پر پٹرول بم گرایا جاتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے، ڈالر بے لگام ہو گیا ہے، جب ڈالر بڑھتا ہے تو چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھتی ہیں، اس حکومت کی کوئی زرعی پالیسی نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں چینی کا بحران ہے جس کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔
آٹا ، دال ، چینی اور دیگر اشیائے خورو نوش کے حوالے سے وفاق کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پالیسی طے کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہے کہ وہ سندھ کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے۔ وزیر اعلی سندھ نے ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اشیاکی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کریں اور جو لوگ ناجائز منافع وصول کر رہے ہیں ۔
ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ہمارے دور حکومت میں کسانوں کو مراعات دی گئیں ، جس کی وجہ سے کئی طرح کی فصلوں میں ہم خود کفیل ہوء، ہ بجلی ، گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھ رہی ہے۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی دے ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے ، ڈالر کی اڑان کو روکا جائے، پارلیمان کی مدد سے معاشی پالیسی طے کی جائے،سندھ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم صرف تبدیلی کے نعرے نہ لگائے بلکہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے۔ پنجاب سے ایک ماہ میں 66 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا غائب ہو جانا بھی سوالیہ نشان ہے، جو پی ٹی آئی کے اے ٹی ایم ہیں ، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
محمد حسین (ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سندھ اسمبلی ایم کیو ایم پاکستان)
ملک میں دو اقسام کی مہنگائی ہے، ایک مہنگائی وفاقی حکومت کی پیدا کردہ ہے اور دوسری مہنگائی کی ذمے دار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہے، ملک میں اس وقت بجلی ، گیس اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیںاسکی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور ناجائز منافع خوری بھی ہے، مہنگائی کو کنٹرول کرنا محکمہ پرائس کنٹرول اور کمشنری نظام کا ہے لیکن یہ تمام ادارے غیر فعال ہیں،کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اپنے دفتروں سے نکلتے ہی نہیں، افسران اپنے عہدوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
اس وقت آٹا 80 ، چینی 140 سے 150 روپے کلو مل رہی ہے، دودھ ، گوشت ، سبزیوں ، پھلوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے، ہر علاقے میں مہنگائی کا تناسب الگ الگ ہے جس کی جتنی مرضی ہوتی ہے ، وہ اپنی مرضی کی قیمت چیزوں کو فروخت کر رہا ہے۔ اگر آپ پیدل گوشت خریدنے جائیں گے تو ٹھیے پر 650 روپے فی کلو ، دکان سے لیں گے تو 750 سے 800 روپے کلو اور کار میں بیٹھ کرکسی بڑی سپر مارکیٹ یا دکان سے خریدیں گے تو 900 سے 1 ہزار روپے کلو گوشت ملے گا، یہ منافع خوری کی انتہا ہے۔
منافع خور اس وقت بے لگام ہو گئے ہیں انھیں روکنے والا کوئی نہیں، اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سخت ہیں اور انھیں قرضہ لینے میں مشکلات ہیں تو وہ متبادل راستے تلاش کرے، ایم کیو ایم پاکستان وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے لیکن وفاقی حکومت معاشی پالیسیوں پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیتی، وفاق کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کا بوجھ ہم نہیں اٹھا سکتے، ایم کیو ایم مڈل کلاس کی جماعت ہے، ہم عوام کی تکالیف سے آگاہ ہیں، قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اسمبلی اور ہر فورم پر اس معاملے پر آواز بلند کریں گے۔
مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ حکومت کو فعال ہونا ہو گا۔ وفاقی اور سندھ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ عوام کو براہ راست سبسڈی دینے کے بجائے اشیائے خورونوش پر ریلیف پیکیج دیں، غریب افراد کے لیے راشن کارڈ جاری کیا جائے،پٹرول مصنوعات کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی دی جائے۔
خرم شیر زمان (رکن سندھ اسمبلی و صدر کراچی ڈویژن تحریک انصاف)
سندھ میں مہنگائی کی ذمے دار پیپلز پارٹی ہے۔ صوبے میں منافع خوری عروج پر ہے،اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والا پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ غیر فعال ہے، مہنگائی روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ مہنگائی روکنا وفاقی نہیں سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔
عالمی بینک کے مطابق 2021 ء میں پاکستان کی معیشت بحال ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کی بہترین معاشی پالیسی کے سبب شرح نمو بہتری کی جانب گامزن ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر سے عوام پریشان ہیں، وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس کا احساس ہے۔ اسی لیے انھوں نے منافع خوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔
وزیرا عظم نے غریبوں کے لیے ایک بڑا سبسڈی پیکیج دیا ہے کورونا وباکی وجہ سے پوری دنیا معاشی طور پر بحران کا شکار ہوئی ہے اس کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی مرتب ہوئے۔ سندھ میں آٹا ، دالیں ، چینی ، دودھ اور دیگر اشیاکی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے، اس معاملے پر پی ٹی آئی ہر سطح پر آواز بلند کرے گی، سندھ میں ہر طرف کرپشن کا راج ہے۔
کراچی ہو یا صوبے کا کوئی بھی ضلع وہاں ترقیاتی کام نظر نہیں آتے، پیپلز پارٹی کا کام صرف تنقید کرنا ہے۔ پی ٹی آئی پر تنقید کرنے سے پہلے پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت کی کارکردگی کا بھی جائزہ لے۔
نصرت سحر عباسی (رکن سندھ اسمبلی مسلم لیگ فنکشنل)
حالیہ مہنگائی کی ذمے دار وفاقی اور سندھ حکومت ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لہٰذا اب مہنگائی کو کنٹرول کرنا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، ڈالر کی قدر بڑھ جانا اور دیگر وجوہات کی بناپر مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ایک عام آدمی کا حکومتی معاشی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ یہ چاہتا ہے کہ اسے سستا آٹا ، تیل ، گھی اور دیگر اشیا ملیں۔ اس وقت متوسط طبقہ ہو یا غریب ہر انسان مہنگائی سے پریشان ہے۔
مہنگائی کی حالیہلہر میں اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھی ہیں، منافع خور ہر چیز پر اپنے من مانے نرخ وصول کر رہے ہیں، انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے ماتحت پرائس کنٹرول اور کمشنری نظام تباہی کا شکار ہے وزیر اعلی سندھ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ وزیر اعظم قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں، عوام کو سستا آتا ، تیل ، گھی ، دالیں ، ادویات اور دیگر ضرورت کی اشیا پر سبسڈی دی جائیں۔
حافظ نعیم الرحمن (امیر جماعت اسلامی کراچی)
مہنگائی کی حالیہ لہر سے عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں اور اس صورتحال کی ذمے داری سندھ اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے مہنگائی سے غریب مزید غر یب ہو گیا ہے، لوگوں کی قوت خرید ختم ہو گئی ، کبھی آٹے کا بحران ، کبھی چینی کا بحران ، کبھی پٹرول کا بحران ، کبھی ادویات کا بحران ، اس حکومت میں صرف بحران ہی بحران ہیں۔
راتوں رات پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، پٹرول اور چینی کے بعد بجلی کا بم گرا دیاگیا ہے، ہمارے حکمران دیگر ممالک سے مہنگی اشیاکا موازنہ کرتے ہیں لیکن ضروریات زندگی کا موازنہ نہیں کرتے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی اندھا دھند مہنگائی اور اس پر حکمرانوں کی ڈھٹائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اپوزیشن کا ایجنڈا مہنگائی اور بے روزگاری نہیں بلکہ اپنے مسائل کو حل کرانا ہے جبکہ سندھ حکومت منافع خوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
جماعت اسلامی عوامی مسائل کا مقدمہ سڑکوں پر لڑ رہی ہے اور ہم مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مہنگائی کم کریں ، پیکیج کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق نہ کریں، قیمتوں کو کماور منافع خوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
مولانا راشد محمود سومرو (جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اسلام سندھ)
تبدیلی سرکار نے عوام پر مہنگائی مسلط کر دی ہے سندھ سمیت پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے، آٹا ، دالیں ،چینی ، پٹرول سب مافیاز اس حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، آج لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے، سندھ حکومت بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اگر لوگوں کو سستا آٹا یا دیگر اشیائے ضروریہ نہیں ملیں گی تو وہ اپنا پیٹ کس طرح بھریں گے ، سلیکٹڈ حکومت کی رخصتی کا وقت اب قریب آ گیا ہے، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ عوام کو اس تبدیلی سرکار سے نجات دلائے گی۔
ہماری جدوجہد منزل کے قریب ہے، وفاقی اور سندھ حکومتیں ہوش کے ناخن لیں، مہنگائی کو کنٹرول کریں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام بے بس ہو کر احتجاج شروع کر دیں اور یہ احتجاج حکومت کو گھر بھیجنے کا سبب بن جائے، وزیر اعظم مہنگائی کے موازنے پر مثالیں دینا بند کریں۔
علی اکبر گجر (مرکزی رہنما مسلم لیگ (ن))
سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اپوزیشن کا احتساب کرنے پر لگے ہوئے ہیں، جھوٹے مقدمات کے اندراج کے باوجود اپوزیشن کو کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ آج پاکستان مہنگائی کی بدترین صورت حال سے دوچا رہے، ڈالر ہوا میں اڑ رہا ہے، روپے کی قدر گر رہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں راتوں رات بڑھا دی جاتی ہیں، ہر طرف مہنگائی کا راج ہے۔
کبھی عوام کو آٹا نہیں ملتا ، کبھی چینی غائب ہو جاتی ہے ، کبھی بجلی غائب اور اب گیس کا بحران سر پر ہے، عوام کو جب کھانے کی چیزیں نہیں ملیں گی تو پھر صورت حال احتجاج کی طرف جاتی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیاں ہیں، سندھ حکومت بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ وفاق کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے پارلیمان اور صوبوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں۔
شبیر احمد قائم خانی (مرکزی وائس چیئرمین پاک سرزمین پارٹی)
وفاق اور سندھ حکومتوں کے ارد گرد مافیاز کے لوگ بیٹھے ہیں، یہ اتنے مضبوط لوگ ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرنا ان حکومتوں کے بس کا کام نہیں آٹا ، دالیں ، چاول ، تیل ، گھی ، ادویات اور زندگی کی دوسری اشیائے ضرورت کی قیمتیں جب بڑھیں گی تو اس سے عام آدمی متاثر ہوگا، مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہور ہا ہے، مزدوروں کی اور ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہی ہیں۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، آٹا ، چینی اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ایس پی ہر فورم پر مہنگائی کے کلاف احتجاج کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
عتیق میر (صدرکراچی تاجر اتحاد)
مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ناجائز منافع خوری ہے، جس شخص کی جو مرضی ہوتی ہے ، وہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو بڑھا دیتا ہے۔ سندھ میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور ان پر نظر رکھنے کا نظام غیر فعال ہو گیا ہے، حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تاجر بھی بہت پریشان ہیں۔جو افراد یا تاجر ناجائز منافع خوری کر رہے ہیں ، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، حکومت اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور ان پر سبسڈی دی جائے۔