وادی چنار میں گزرے دن
شور مچاتا پانی پہاڑ سے نیچے آرہا تھا اور سنگ ریزوں پر گرتے ہوئے جل ترنگ بجا رہا تھا
سنگلاخ پہاڑ کی نوکیلی چٹانوں پر ہماری جیپ اچھلتی کودتی سست روی سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک چٹان سے ٹکرا کر رک گئی۔ تند مزاج ڈرائیور نے ایکسیلیٹر پر زور دیا۔ جیپ کا انجن غرایا لیکن اگلے پہیوں نے اس بلند چٹان پر چڑھنے سے انکار کردیا۔
اچانک پچھلے پہیے گھومے اور جیپ ترچھی ہوکر پھسلتی ہوئی اس تنگ پگڈنڈی کے کنارے پر آکر ٹک گئی۔ کنارے سے کچھ پتھر نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں جاگرے جو منہ کھولے سب کچھ نگلنے کےلیے بے تاب تھی۔ نیچے بہتا تند و تیز دریا راستے میں آتی ہر چیز کو ساتھ بہا لے جانے پر تلا تھا۔ میری جان گویا اچھل کر حلق میں آگئی۔ اس تنگ راستے پر آگے اور پیچھے آنے جانے والی ساری جیپیں رک گئیں اور مسافر خوف زدہ انداز میں ہمیں دیکھنے لگے۔
1962 کے پرانے لیکن طاقتور ماڈل کی جیپ کی پچھلی نشست پر میرے ساتھ بیٹھا مسافر فوراً چھلانگ لگا کر باہر کودا اور کونے میں پہاڑ سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے پیچھے میں بھی جیپ سے کودنے لگا لیکن مقامی کشمیری ڈرائیور نے مجھے روک دیا کہ ان راستوں پر ہمارا روز کا آنا جانا ہے۔ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں۔
اتنے میں کچھ لوگوں نے جیپ کے پچھلے ٹائر کے نیچے پتھر پھنسائے۔ ڈرائیور نے سگریٹ کا زوردار کش لیا اور ایک بار پھر ایکسیلیٹر دبایا لیکن ساتھ ہی کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹیئرنگ کچھ اس انداز میں دائیں بائیں گھمایا کہ اگلے پہیے اٹھے اور جیپ ایک جست لگاکر چٹان عبور کرگئی۔ میں نے دل میں سوچا کہ صحیح سلامت اس سفر سے واپس لوٹنے کے بعد شکرانے کے نفل ضرور پڑھوں گا۔
میں اس وقت آزاد کشمیر کی رتی گلی کی جھیل کی جانب عازم سفر تھا۔ ایک تو اس جھیل تک پہنچنے والا راستہ نہایت ہی دشوار گزار ہے۔ اوپر سے ہمیں ایسا جنونی ڈرائیور ملا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے کرنے پر تلا تھا۔
جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ اور برف باری کی وجہ سے وہ راستہ ایک کچی پگڈنڈی کی مانند تھا اور کسی خاردار پل کی مانند نوکیلی چٹانوں سے پُر تھا۔ اس راستے میں اتنے زیادہ جھٹکے لگے کہ ہمارے سارے کس بل نکل گئے۔ کبھی دائیں گرتے تو کبھی بائیں۔ کتنی ہی بار سر اچانک جیپ میں لگی لوہے کی راڈ سے جا ٹکرایا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اتنا دشوار سفر نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ رتی گلی جس قدر حسین و جمیل جھیل ہے اس تک پہنچنے کی صعوبتیں اس قابل ہیں کہ انہیں برداشت کیا جاسکے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
رتی گلی کے دشوار گزار اور کٹھن راستے کی مشکلیں کاٹتے ہوئے سوچا کہ واپس اس راستے پر اب کبھی قدم نہیں رکھوں گا لیکن چوٹی پر پہنچنے کے بعد اس کے حسن کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا اور کبھی نہ آنے کا ارادہ بدل گیا۔
ستمبر کی ایک رات دیر گئے ہم مری ایکسپریس وے پر اسلام آباد سے کشمیر کی طرف عازم سفر تھے۔ کوئی 3 بجے کا وقت ہوگا۔ چہار سو ہو کا عالم تھا اور لوگ اپنے گھروں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ سڑکوں پر اِکا دُکا ٹریفک نظر آرہی تھی۔ ہماری گاڑی کی طاقتور ہیڈلائٹس اندھیرے کی دبیز چادر کو چیرتی چلی جارہی تھیں۔ ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب نشیب میں گھنا جنگل تھا۔ مری پہنچے ہی تھے کہ ایک موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی ایک جانب زیادہ جھک گئی۔ تڑاخ کی آواز آئی اور زور پڑنے سے پچھلے پہیے کی ایک کمانی چٹخ گئی۔ ڈرائیور اور ہمارا گائیڈ پریشان ہوکر نیچے اترے۔ باہم مشورے کے بعد انہوں نے اصل راستے کو چھوڑ کر ایک شارٹ کٹ کا انتخاب کیا۔
ڈرائیور نے ایک تنگ راستے کی جانب گاڑی موڑی۔ سامنے کچھ دور بادلوں میں وقفے وقفے سے بجلی چمکتی تو کچھ دیر کےلیے منظر روشن ہوتا اور ایک لمحے بعد پھر تاریکی میں ڈوب جاتا۔ بلندی پر پہنچنے کے بعد ہم بادلوں میں سے گزرنے لگے تو آس پاس دھند چھاگئی، جسے گاڑی کی ہیڈلائٹس چیرنے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔
زندگی میں پہلی بار وہ منظر دیکھا۔ جنگل میں سے سوروں کا ایک خاندان نکلا اور ایک مکان کی باڑ میں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنے میں بارش بھی شروع ہوگئی۔ وہ خوف زدہ کرنے والی رات تھی۔ ہم پریشان کہ اس پہر گاڑی خراب ہوگئی تو رات کہاں گزاریں گے۔ لیکن سفر جاری رہا اور راستے میں بورڈز پر کئی نئی نئی جگہوں کے نام پڑھے۔ اندر ہی اندر مختلف محلوں سے ہوتے ہوئے آگے مظفرآباد کی طرف بڑھنے لگے۔
صبح کی سپیدی نمودار ہونے لگی اور ہم آزاد کشمیر کے علاقے کوہالہ میں داخل ہوگئے۔ پہلا پڑاؤ باغ تھا جہاں فجر کی نماز مسجد میں ادا کی۔ پہاڑ سے آنے والے یخ پانی سے وضو کیا تو سفر کی ساری تکان گویا دور ہوگئی۔ سڑک کنارے سادہ سی مسجد بنی تھی، آس پاس خوبصورت منظر تھا۔ نیچے بہتے دریا کا رنگ گدلا تھا جیسے اس میں مٹی گھلی ہو۔ اگر ہم آگے نہ بھی بڑھتے اور وہیں پہاڑ پر جنگل میں بنے کسی مکان میں ڈیرہ ڈال کر اپنا ٹور وہیں پورا کرلیتے تب بھی کوئی برا سودا نہ تھا۔ دن بھر جنگل گھومتے، چشموں کا پانی پیتے اور دریائے جہلم کے کنارے بیٹھے رہو۔ لیکن ہماری منزل کوہالہ سے کوسوں دور لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کا آخری گاؤں تاؤ بٹ تھا۔ جس کا جب سے چرچا سنا تھا تب سے دل میں اس سفر کا ارادہ کرلیا تھا اور پھر 2 سال کی دعاؤں کے بعد اللہ نے ہمیں تاؤبٹ کی سیر کرادی۔
کوہالہ سے روانہ ہوئے اور صبح سویرے مظفرآباد جا پہنچے۔ خوابیدہ سا شہر اس وقت بیدار ہورہا تھا۔ سرخ انار جیسے لال لال گال والے کشمیری بچے اسکول جاتے پیارے لگے۔ سڑک صاف ستھری اور پختہ ہے، جس پر باآسانی گاڑی فراٹے بھرتی سفر کرتی ہے۔ راستے میں گہرے موڑ آتے ہیں، کبھی ہم دائیں جھکتے تو کبھی بائیں گرتے، پیٹ خالی تھا وگرنہ ایسے پرپیچ رستوں پر جی متلانے لگتا ہے۔
بل کھاتے راستوں سے گزرتے گزرتے گاڑی ایک گہرے موڑ پر جاکر رک گئی۔ وہاں قدرت کا ایک حسین شاہکار ہمارا استقبال کررہا تھا۔ کشمیر کا بلند ترین آبشار دھانی واٹر فال۔ شور مچاتا پانی پہاڑ سے نیچے آرہا اور سنگ ریزوں پر گرتے ہوئے جل ترنگ بجا رہا تھا۔ یہ دنیا کی کسی بھی موسیقی سے زیادہ خوبصورت آواز تھی۔ قدرت نے انسان کے لطف کےلیے حلال چیزیں بنائی ہیں، لیکن انسان موسیقی سن کر گناہ کماتا اور حرام کام کرتا ہے اور فطری حسن کو چھوڑ دیتا ہے۔ دھانی آبشار کے پاس تازگی اور فرحت بخش ماحول تھا۔ دل میں خیال آیا کہ یونہی آبشار کے نیچے بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے، آنکھیں بند کرکے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجائیں۔ جیسے کوئی جوگی یا دیوانہ جو من ہی من میں اپنے محبوب کے خیالوں میں کھویا بیٹھا ہو۔
دھانی واٹرفال سے آگے روانہ ہوئے اور پاکستانی و چینی انجینئرز و مزدوروں کا تراشیدہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ دیکھا جو پورے آزاد کشمیر کی بجلی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ پاکستان کا پہلا بجلی گھر ہے جو زیرِ زمین ہے۔ اس منصوبے کو پہاڑ کھود کر اندر سرنگ میں بنایا گیا ہے اور اس سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔
کشمیر کے دل فریب نظاروں کو دیکھتے اور دریائے نیلم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کیرن سیکٹر پہنچ گئے۔ پہاڑ کے اس پار بھارتی جھنڈا ترنگا لہرا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر دل کو تکلیف ہوئی۔ اس دریا میں نہ جانے کتنے ہی معصوم کشمیری نوجوانوں کے خون کی سرخی گھلی تھی جنہوں نے آزادی کی اس کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ دریائے نیلم آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان عارضی سرحد کھینچ رہا تھا جسے خونی لکیر بھی کہتے ہیں۔ بھارت کے کشمیر پر قبضے کو 70 سال زائد عرصہ ہوگیا۔ مقبوضہ کشمیر کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ فوجی موجودگی والے خطوں میں ہوتا ہے۔ 7 لاکھ بھارتی فوجی اس سوا کروڑ آبادی والے علاقے پر مسلط ہیں۔ اس عرصے میں بھارت نے کشمیریوں کو محکوم بنانے کےلیے ہر حربہ آزمایا۔ بے تحاشا مظالم ڈھائے، ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا۔ خواتین کی آبروریزی کی۔ ظلم کے باوجود کشمیریوں کے جوش آزادی میں کمی نہ آئی تو انہیں رام کرنے کےلیے ہر طرح کا لالچ دیا گیا۔ پرکشش مالی مراعات دیں، لیکن کشمیری نوجوانوں نے آج تک بھارت کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔
سخت سردی میں چنار کے جنگلوں میں کشمیری مجاہدین آج بھی اپنے گرم لہو سے شمع آزادی کو فروزاں کیے ہوئے ہیں۔ جبکہ بھارت اقوام متحدہ کی استصواب رائے کی قرارداد پر عمل درآمد سے انکاری ہے۔ جبکہ منافق و دوغلی عالمی برادری اس ظلم پر خاموش تماشائی ہے۔
کیرن میں دریا کے اس پار کچھ کشمیری خواتین اپنے کھیتوں میں کام کرتی نظر آئیں تو دل سے بے اختیار اپنے مسلمان بھائیوں کےلیے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی آزادی کی نعمت عطا کرے اور ایک دن ہم پل عبور کرکے ڈل جھیل کی کشتی میں سیر کریں۔
کیرن میں ہم دریا کنارے بنے ایک ہوٹل میں رکے اور ناشتہ کیا۔ دریا کنارے لگی باڑ پر آزاد کشمیر کا سبز اور پیلا جھنڈا آزادی کی فضا میں ہوا کے دوش پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ شوریدہ دریائے نیلم راستے میں آتی چٹانوں سے سر پٹکتا ہوا دنیا کے ہنگاموں سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن بہہ رہا تھا۔ لیکن گلوبل وارمنگ نے اس کی روانی کو بھی متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ پہلے سے بہت زیادہ سکڑ چکا ہے۔ ہم نے دریا کے پانی سے منہ پر چھپاکے مارے، تازہ دم ہوئے اور وہیں جھنڈ میں ایک کٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ کر پہاڑ پر جنگل کی ہریالی سے اپنی آنکھوں کو تراوٹ دینے لگے، جو کراچی میں کمپیوٹر اور موبائل فونز کی اسکرینز پر جمے رہتے رہتے کچھ سوج سی گئی اور تھک چکی ہیں۔
میں اپنی فیملی کے ہمراہ ایک ٹریول گروپ کے ساتھ کشمیر کا سفر کررہا تھا۔ 22 افراد کے گروپ میں سے 17، 18 افراد تو صرف رتی گلی کا سفر کرکے دو روز میں واپس روانہ ہوگئے جبکہ ہم مزید آگے تاؤ بٹ تک گئے۔ ٹور میں اچھے لوگوں کا ساتھ رہا۔ شیخوپورہ کے ہنس مکھ خوش مزاج نعیم بھائی اور ان کا خاموش طبع بھتیجا مجاہد، جسے گھڑسواری میں مہارت تھی۔ مجاہد کو پاکستان سے بھی بڑی محبت تھی۔ اپنے ساتھ وہ قومی پرچم لایا تھا جس کے ساتھ اس نے جگہ جگہ تصاویر کھنچوائیں۔ تیسرے لاہور کے انجم بھائی تھے۔ ان سب ہمراہیوں کے ساتھ اچھا سفر گزرا۔
ناشتے کے بعد ہم کیرن سے دواریاں پہنچے، جہاں سے جیپوں میں رتی گلی کا سفر کرنا تھا۔ مسلسل ڈیڑھ گھنٹے تک چڑھائی کے بعد رتی گلی کا بیس کیمپ آیا۔ راستہ بہت دشوار گزار ہے، برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ سے یہ راستہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ اسے راستہ کیا کہیں، بس چٹانوں سے بھری ہوئی ایک پگڈنڈی سی ہے۔ بیس کیمپ پر بہت ٹھنڈ تھی۔ وہاں سے آگے جیپ نہیں جاتی اور جھیل تک گھوڑے پر یا پیدل جانا پڑتا ہے۔ بیس کیمپ سے جھیل تک بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے۔ سرسبز پہاڑی ڈھلانوں پر گھوڑے چرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں چرواہا بیل اور گائیوں کا ریوڑ ہنکا لے جارہا ہوتا ہے۔ مقامی کشمیری مرد و خواتین اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ گرمیوں میں وہ جھیل کے قریب بنے پتھروں اور لکڑیوں سے بنے گھروں میں رہتے ہیں، سردیوں میں پہاڑوں سے نیچے اتر آتے ہیں اور وادی میں رہتے ہیں۔
میں نے گھوڑے پر جھیل پہنچنے کو ترجیح دی۔ انسانوں اور گھوڑوں کے چلنے سے پہاڑ پر پتلی پتلی پگڈنڈیاں بن گئی تھیں۔ گھوڑے نے پہاڑ پر پتلی سی بمشکل ایک فٹ کی پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا، بائیں جانب گہری کھائی تھی جسے دیکھ کر ہول آتا ہے۔ وہ راستہ اتنا پتلا تھا کہ اس پر ایک فرد بھی بمشکل چل سکے۔ ذرا سا پاؤں پھسلا اور انسان لڑھکتے ہوئے نیچے جاگرے۔
پہاڑی ڈھلانوں پر جابجا رنگین اودے نیلے پیلے گلابی خوشنما پھول کھلے ہیں۔ جھیل کا پانی گہرے نیلے رنگ کا ہے۔ جھیل پیالے کی مانند ہے جس کے کنارے پر گویا دودھ کی ملائی جیسی سفید برف جمی ہو۔ الغرض رتی گلی کی جھیل کو دیکھ کر جنت ارضی کا گماں ہوتا ہے۔ سخت ٹھنڈ کے باعث وہاں زیادہ ٹھہرنا مشکل ہوگیا اور کچھ دیر میں واپسی کی راہ لی۔ پورے کشمیر میں سب سے زیادہ رش رتی گلی میں ہی دیکھا۔ ہزاروں سیاح، جن میں بچے، نوجوان، بوڑھے سبھی شامل تھے جوق در جوق سیر کو آرہے تھے جیسی یاتری کسی مقدس مقام کی زیارت کو آتے ہیں۔
انسانوں کے ہجوم کی وجہ سے وہاں آلودگی بھی بڑھی ہے اور کچرا پھیلا ہے جس سے رتی گلی کے قدرتی حسن کو نقصان پہنچا ہے۔ اور صرف رتی گلی ہی کیا ہر جگہ جہاں بھی ہمارے سیاح جاتے ہیں وہاں کچرا پھیلاتے ہیں اور قدرتی حسن کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
جھیل سے واپسی کا سفر نسبتاً آسان تھا۔ کیونکہ اترائی تھی، تاہم قدرے خطرناک بھی تھا اور سنبھل سنبھل کر اترنا تھا۔ بیس کیمپ واپس پہنچے۔ جیپ میں دواریاں آئے اور یہاں سے شاردہ کی راہ لی۔ اور عشا تک وہاں پہنچ بھی گئے۔ دریا کنارے بنے ایک ہوٹل میں ہمارا قیام تھا۔ بریانی کے نام پر ہوٹل والے نے پھیکا سا پلاؤ کھلایا اور وہیں کنارے پر رکھی بینچز پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ تھی اور موسم خوشگوار تھا۔ سفر کی شدید تھکان تھی۔ کمرے میں گئے اور بستر پر پڑتے ہی گہری نیند جو سوئے ہیں تو پھر صبح دروازہ دھڑدھڑانے پر ہی آنکھ کھلی۔
شاردہ کی صبح اور سورج کی روپہلی کرنوں نے کسی الہڑ دوشیزہ کی طرح ہمارا استقبال کیا۔ باہر چمکیلی دھوپ سے جسم کو گرمایا اور توانائی ملی۔ آج ایک اور طویل سفر 'تاؤبٹ' درپیش تھا۔ ہوٹل کے باہر پرانے ماڈل کی سیاہ رنگ کی جیپ ہمیں لے جانے کےلیے تیار کھڑی تھی۔ تاؤبٹ کشمیر میں پاکستان کی حدود میں آخری گاؤں ہے جسے ماڈل ولیج کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد پھر مقبوضہ کشمیر شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں پر پاک فوج اور بھارت کی فوجی چوکیاں بنی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اکثر اوقات سیزفائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شاردہ سمیت ایل او سی پر کئی علاقوں میں شہری آبادی پر گولہ باری اور فائرنگ کی جاتی ہے جس کی زد میں آکر اب تک سیکڑوں کشمیری اور پاک فوج کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف پاک فوج کےلیے جوابی کارروائی کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کی فائرنگ سے اس پار کشمیری مسلمان آبادی کا ہی جانی نقصان ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
تاؤ بٹ کا راستہ رتی گلی سے بہتر تھا۔ راستے میں ایسے خوش نما مناظر دیکھے جیسے دیوار پر کوئی خوبصورت سینری آویزاں ہو۔ بہت ہی خوبصورت مناظر تھے۔ راستے میں ایک جگہ جیپ دریا میں سے گزری۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام راستے میں دریا کے ایک طرف آزاد اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہے، بلکہ ایسا چند جگہ ہی ہے۔ زیادہ تر مقامات پر دریا کے دونوں طرف آزاد کشمیر ہی ہے اور پہاڑوں جنگلوں کو عبور کرکے ان کے پیچھے مقبوضہ کشمیر آتا ہے۔
دریا پر لکڑی کے جھولتے کمزور پل بنے ہیں جنہیں ایک وقت میں ایک شخص کو پار کرنے کی ہدایات ہیں۔
راستے میں ایک منظر دیکھ کر ہم دم بخود رہ گئے۔ ایک جگہ دریا پر رسہ بندھا تھا۔ ہوا میں معلق ایک عورت دونوں ہاتھوں سے اس رسے سے لٹکی ہوئی آہستہ آہستہ دریا پار کررہی تھی جیسے فوجی کرتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک کام تھا جسے شہری مرد بھی کرتے ہوئے گھبرائیں۔ بعض جگہ خواتین پہاڑی ڈھلانوں پر گھاس کاٹ رہی تھیں اور انہیں اپنی کمر پر بندھے گٹھے میں جمع کرتی جارہی تھیں۔ یہ گھاس گھروں کو گرم رکھنے اور دیگر استعمال میں کام آتی ہے۔ راستے میں کشمیر کی مقامی ناشپاتی خرید کر کھائی جو بہت شیریں اور لذیذ تھی۔ کالے رنگ کی بیریز جیسا ایک پھل بھی کھایا جو سائز میں گوندنی جتنا اور ذائقے میں کھٹا میٹھا تھا۔
تاؤ بٹ میں لکڑی کے بنے ایک خوبصورت ہوٹل میں ٹھہرے۔ کھڑکی کھولیں تو خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آف سیزن میں ان ہوٹلوں کا کرایہ کنٹرول میں ہوتا ہے اور 2 ہزار روپے میں کمرہ مل جاتا ہے لیکن سیزن میں ان کا کرایہ 10 ہزار روپے تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کمرے میں سامان رکھنے کے بعد تاؤبٹ کی سیر کو نکلے۔ ٹراؤٹ فش کا فارم بھی دیکھا۔ ایک سرسبز و شاداب مقام پہنچے جہاں سے آگے جانا منع تھا۔ کچھ آگے پاک فوج کی چوکیاں اور پھر آگے مقبوضہ کشمیر شروع ہوجاتا ہے۔ ایک پہاڑ پر پاک فوج تو سامنے دوسرے پہاڑ پر دشمن کی چوکیاں ہیں۔
وادی میں سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے جگہ جگہ روک کر شناختی دستاویزات چیک کی جاتی ہیں۔ کشمیر میں صرف مقامی موبائل فون کمپنی سوکول کی سم چلتی ہے اور کوئی دوسری کمپنی کی سم کام نہیں کرتی۔ سوکول کی سم باآسانی دکانوں پر مل جاتی ہے اور ایکٹیویٹ بھی ہوجاتی ہے۔ یہ ٹیلی کام سروس بنیادی طور پر فوج کے اندرونی رابطوں کےلیے بنائی گئی تھی جسے میں بعد کمرشلائز کرکے عوام کےلیے کھول دیا گیا۔ اب سنا ہے کہ دیگر ٹیلی کام کمپنیوں کو بھی کام کی اجازت دی جارہی ہے۔
کشمیر میں سفر کےلیے فجر کے بعد علی الصبح کا وقت سب سے بہتر ہے۔ کیونکہ وہاں جگہ جگہ بلاسٹنگ ہوتی اور بارود سے پہاڑوں کو کاٹا جاتا ہے، جس کی وجہ سے روڈ بند ہوجاتا ہے۔ یہ کام صبح 9 بجے سے شروع ہوجاتا ہے۔ اگر بلاسٹنگ میں آپ پھنس گئے تو راستہ کھلنے میں کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ اللہ کا کرم تاؤ بٹ جاتے ہوئے ہم بلاسٹنگ میں پھنسنے سے بال بال بچ گئے۔ ہم نے گزرتے وقت راستے میں بارود بچھاتے ہوئے دیکھا۔ ہمارے گزرنے کے کچھ ہی دیر میں بلاسٹنگ شروع ہوگئی۔ ہم شام کو تاؤبٹ پہنچے۔ ہم سے پیچھے آنے والی گاڑیاں بلاسٹنگ میں پھنس گئی تھیں، نتیجتاً وہ رات گئے تاؤبٹ پہنچیں۔ اس سے آپ صبح جلدی سفر کے فائدے کا اندازہ لگالیجئے۔
تاؤبٹ کے ہوٹل والوں نے انتہائی لذیذ کڑاہی بناکر کھلائی جس کے آگے کراچی کی چکن کڑاہی بھی ماند لگنے لگی۔ رات کو بون فائر کیا، سخت سردی میں کھلے آسمان تلے سلگتے انگاروں پر ہاتھ تاپنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ سخت سردی تھی، میں اور میرے ہم سفر تاؤبٹ میں ہوٹل کے لان میں رکھی چوبی بینچز پر بیٹھے تھے، بیچ میں آگ کا الاؤ روشن تھا۔ جلتی خشک لکڑی چٹختی آوازوں کے ساتھ سلگتے انگاروں میں بدل رہی تھی۔ رات بھیگنے لگی تو ساتھ ہی سردی بھی بڑھ گئی۔ خواب ناک ماحول تھا۔ آس پاس اندھیرا تھا جس میں ہوٹل رنگین قمقموں سے بقعہ نور بنا تھا۔ کمرے کا رخ کیا اور لمبی تان کر سوگئے۔ رات گئے سیاح لڑکوں کا ایک گروپ ہوٹل پہنچا اور انہوں نے لان میں باربی کیو اور خوب ہلہ گلہ کیا۔
پانی بہت یخ تھا جس سے وضو کرنے میں مشکل ہوئی۔ تکنیکی فالٹ کی وجہ سے بجلی گئی ہوئی تھی۔ رات کو جب ہوٹل کا جنریٹر بند ہوا تو اس قدر گھپ اندھیرا چھاگیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ میں نے سوچا کہ کراچی والوں کو کشمیر میں بھی لوڈشیڈنگ مل گئی۔
نہ جانے رات کے کس پہر اچانک دھماکا ہوا جس کی بازگشت تاؤبٹ کی خاموشی اور سناٹے کو چیرتی چلی گئی۔ لوگ سوتے سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ خیال آنے لگے بھارت نے دوبارہ فائرنگ تو شروع نہیں کردی۔ پتہ چلا کہ باربی کیو کی مہک رات کے اس پہر دور تک پھیل گئی تھی، جسے سونگھتے سونگھتے ایک بڑا سا کتا ہوٹل میں گھس آیا تھا، جسے مالک نے فائر کرکے بھگادیا۔
صبح حسب توقع خوشگوار تھی۔ اذانوں کی آواز سے آنکھ کھلی۔ کھڑکی سے باہر بہت ہی دلفریب مناظر ہمارے منتظر تھے۔ آج ہماری منزل اڑنگ کیل تھی۔
کشمیر گھومنے پھرنے کےلیے لوکل ٹرانسپورٹ بھی استعمال کی جاسکتی ہے، پرائیوٹ کار بک ہوسکتی ہے یا کسی ٹور گروپ کے ساتھ بھی سفر کیا جاسکتا ہے۔ پہلے اور دوسرے آپشن میں آپ کو سارے انتظامات خود کرنے ہوں گے۔ مثلاً ہوٹل کی بکنگ، کھانے پینے کا انتظام اور سامان اٹھانے کا کام۔ لیکن آپ مرضی سے گھومیں پھریں گے اور جہاں اور جتنا چاہیں وہاں قیام کریں گے۔ ٹور گروپس میں آپ قیام، طعام اور ٹرانسپورٹ کے انتظام سے بے فکر ہوجاتے ہیں لیکن ان کے شیڈول کے پابند ہوتے ہیں اور اپنی مرضی نہیں چلاسکتے بلکہ پہلے سے بتائے گئے ٹائم ٹیبل پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
خود سے کشمیر جانا چاہیں تو اپنے شہر سے مظفرآباد پہنچیں۔ وہاں سے کشمیر کے تمام علاقوں شاردہ، تاؤبٹ، کیل، راولا کوٹ تمام جگہوں کےلیے کوسٹر چلتی ہے، جس پر سفر کیا جاسکتا ہے۔ رتی گلی جیسی جگہوں کےلیے جیپ جاتی ہے جو بکثرت موجود ہیں اور باآسانی بکنگ ہوجاتی ہے۔ بس سیزن میں ہر چیز کے ریٹ دگنے تگنے ہوجاتے ہیں جبکہ آف سیزن میں جانے کا یہ فائدہ ہے کہ ریٹ نارمل ہوتے ہیں اور رش بھی کم ہوتا ہے۔
اگلے روز ہم نے تاؤبٹ سے واپسی کا قصد کیا اور اڑنگ کیل پہنچے۔ جہاں ہزاروں فٹ کی بلندی پر ڈولی میں بیٹھ کر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک پہنچنا تھا۔ راستے میں بلندی سے نیچے خوبصورت لینڈ اسکیپ لمحوں میں گزر جاتا ہے۔ نیچے دیکھ کر کمزور دل والوں کو ہول آتا۔
یہ ڈولی بھی کیا تھی، ایک ڈبہ تھا جسے تنے ہوئے آہنی رسے پر کسی مشین، شاید گاڑی کا انجن لگاکر چلایا جارہا تھا۔ ڈولی میں بیٹھ کر ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے دوسرے پہاڑ پر جا اترے۔ جہاں اڑنگ کیل کا جنگل اور پہاڑ ہمارا منتظر تھا، جسے ہم نے سر کرنا تھا۔ ہم نے ٹریکنگ شروع کی۔ ضعیف شہری تو ایک طرف نوجوان شہریوں کا بھی پہاڑ پر چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اوپر پہنچتا تو کسی کو آدھا گھنٹا لگتا۔ مقامی لوگ تو ہرن کی طرح قلانچیں بھرتے ہوئے تیزی سے اوپر جارہے تھے۔
جو لوگ ڈولی میں نہ جانا چاہیں ان کے پاس نیچے جنگل سے جانے کا آپشن بھی ہے لیکن وہ مشکل اور طویل راستہ ہے۔ پہلے پہاڑ سے نیچے اتریں اور پل سے دریا عبور کریں۔ پھر دوبارہ دوسرے پہاڑ پر چڑھ کر اس مقام تک پہنچو جہاں ڈولی اتارتی ہے اور پھر وہاں سے مزید ٹریکنگ کرو۔ دوسرا راستہ زیادہ مہم جو لوگوں کےلیے تھا جو جنگل کو مزید ایکسپلور کرنا چاہتے ہوں۔ مقامی دکانوں پر ٹریکنگ کےلیے لاٹھیاں کرائے پر مل جاتی ہیں۔ آف سیزن کے باوجود اڑنگ کیل میں سیاحوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ سیزن تو میں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔
اڑنگ کیل جاتے ہوئے ساتھ پانی کی بوتل اور بسکٹ کے سوا کچھ نہ رکھیں ورنہ سامان کے ساتھ اوپر چلنا مشکل ہوجائے گا۔ اگرچہ وہاں سامان لے جانے اور بچوں کو بھی اٹھانے کےلیے قلی موجود ہوتے ہیں۔ ڈولی میں بیٹھنے کےلیے ہمیں بمشکل 20 منٹ انتظار کرنا پڑا، وگرنہ سیزن میں باری آنے میں دو گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔
اڑنگ کیل میں پہاڑ چڑھ کر چوٹی پر پہنچے تو ایک خوبصورت سرسبز و شاداب باغ نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ اوپر بہت ہی حسین وادی تھی۔ وہاں ہوٹل بھی ہیں جہاں آپ قیام کرسکتے ہیں۔ آگے جاکر ایک چھوٹا سا گاؤں آتا ہے۔ کھیت کھلیان ہیں۔ پھر ایک بہت ہی خوبصورت جنگل آتا ہے۔ ایک چشمہ بھی بہہ رہا ہے اور مزید آگے پہاڑ ہے۔ چلتے چلتے میں تھک کر رک گیا لیکن اڑنگ کیل کی صرف ایک جھلک ہی دیکھ سکا۔ پورا اڑنگ کیل دیکھنے کےلیے شاید ایک ہفتہ بھی ناکافی ہے، جب کہ ہمارے پاس چند گھنٹے ہی تھے۔ میرے لیے موازنہ کرنا مشکل ہوگیا کہ اڑنگ کیل زیادہ خوبصورت ہے یا تاؤبٹ۔ مجھے اڑنگ کیل کی خوبصورتی نے مسحور کردیا، جبکہ میرے ہم سفروں کو تاؤبٹ بھاگیا۔ بہرحال کشمیر پورا ہی جنت نظیر ہے اور جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ ایک دن ظلم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوگا۔ آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ بھارتی قبضے کا خاتمہ ہوگا اور کشمیری بھی آزادی کی فضا میں سانس لیں گے۔
اڑنگ کیل اس سفر میں ہمارا آخری پڑاؤ تھا جہاں سے ہم نے واپسی کی راہ لی۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو بھارتی ظلم و ستم سے نجات دلائے اور انہیں آزادی کی نعمت نصیب کرے۔ آزاد کشمیر میں مقامی لوگوں سے گفت و شنید کا موقع ملا تو وہاں 2 طرح کی سوچ دیکھی۔
1۔ بیشتر کشمیری پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
2۔ دوسرے خودمختار کشمیر کے حامی ہیں، جو چاہتے ہیں کہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر دونوں مل کر پاکستان اور بھارت سے الگ ایک علیحدہ آزاد خودمختار ریاست بن جائیں۔ ان لوگوں کی سوچ کو میں نے سطحی پایا۔ یہ لوگ ملکی حالات، غربت کو کشمیری خودمختاری کا جواز بناتے ہیں۔
ملک کے حالات، بڑھتی مہنگائی، بدامنی سے ہر صوبے اور شہر کا شہری پریشان ہے جو دراصل برسہابرس کی کرپشن اور نااہلی کا نتیجہ ہے لیکن اس نفرت کا نشانہ حکومت وقت ہوتی ہے، ملک اور ریاست نہیں۔ اسٹیبشلمنٹ سے کوئی کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو، لیکن اس سے ناراضی اور ملکی حالات سے پریشان ہوکر ملک دشمنی پر اترنا، وطن کے خلاف باتیں کرنا تو کسی احمق کا ہی کام ہوگا۔
خودمختار کشمیر کے حامی بھی حالات کا رونا رو کر پاکستان پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے دلائل بہت سطحی اور بودے تھے۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ مشرقی پاکستان کی طرح بھارت نے آزاد کشمیر میں بھی انتشار پھیلانے اور پاکستان کے خلاف لوگوں کو اکسانے کی پوری کوشش کی ہے۔
حال ہی میں کشمیر کی اسمبلی کے الیکشن ہوئے جس کی مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک عجیب بات کہی کہ میں کشمیر میں 2 ریفرنڈم کراؤں گا۔ پہلے ریفرنڈم میں کشمیری فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد میری حکومت دوسرا ریفرنڈم کروائے گی جس میں کشمیر کے لوگوں کو ہم کہیں گے کہ آپ فیصلہ کریں کہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد، خودمختار ہونا چاہتے ہیں۔ میری رائے میں عمران خان نے محض انتخابی مہم میں ووٹ لینے کےلیے ایسی انتہائی خطرناک بات کہی ہے جو آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
بہرکیف کشمیر کا حل نکالنا ضروری ہے کہ یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک سلگتی ہوئی راکھ ہے جو خدانخواستہ کبھی بھی خطے کے امن کو پریشان کرسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اچانک پچھلے پہیے گھومے اور جیپ ترچھی ہوکر پھسلتی ہوئی اس تنگ پگڈنڈی کے کنارے پر آکر ٹک گئی۔ کنارے سے کچھ پتھر نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں جاگرے جو منہ کھولے سب کچھ نگلنے کےلیے بے تاب تھی۔ نیچے بہتا تند و تیز دریا راستے میں آتی ہر چیز کو ساتھ بہا لے جانے پر تلا تھا۔ میری جان گویا اچھل کر حلق میں آگئی۔ اس تنگ راستے پر آگے اور پیچھے آنے جانے والی ساری جیپیں رک گئیں اور مسافر خوف زدہ انداز میں ہمیں دیکھنے لگے۔
1962 کے پرانے لیکن طاقتور ماڈل کی جیپ کی پچھلی نشست پر میرے ساتھ بیٹھا مسافر فوراً چھلانگ لگا کر باہر کودا اور کونے میں پہاڑ سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے پیچھے میں بھی جیپ سے کودنے لگا لیکن مقامی کشمیری ڈرائیور نے مجھے روک دیا کہ ان راستوں پر ہمارا روز کا آنا جانا ہے۔ گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں۔
اتنے میں کچھ لوگوں نے جیپ کے پچھلے ٹائر کے نیچے پتھر پھنسائے۔ ڈرائیور نے سگریٹ کا زوردار کش لیا اور ایک بار پھر ایکسیلیٹر دبایا لیکن ساتھ ہی کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹیئرنگ کچھ اس انداز میں دائیں بائیں گھمایا کہ اگلے پہیے اٹھے اور جیپ ایک جست لگاکر چٹان عبور کرگئی۔ میں نے دل میں سوچا کہ صحیح سلامت اس سفر سے واپس لوٹنے کے بعد شکرانے کے نفل ضرور پڑھوں گا۔
میں اس وقت آزاد کشمیر کی رتی گلی کی جھیل کی جانب عازم سفر تھا۔ ایک تو اس جھیل تک پہنچنے والا راستہ نہایت ہی دشوار گزار ہے۔ اوپر سے ہمیں ایسا جنونی ڈرائیور ملا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے کرنے پر تلا تھا۔
جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ اور برف باری کی وجہ سے وہ راستہ ایک کچی پگڈنڈی کی مانند تھا اور کسی خاردار پل کی مانند نوکیلی چٹانوں سے پُر تھا۔ اس راستے میں اتنے زیادہ جھٹکے لگے کہ ہمارے سارے کس بل نکل گئے۔ کبھی دائیں گرتے تو کبھی بائیں۔ کتنی ہی بار سر اچانک جیپ میں لگی لوہے کی راڈ سے جا ٹکرایا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اتنا دشوار سفر نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ رتی گلی جس قدر حسین و جمیل جھیل ہے اس تک پہنچنے کی صعوبتیں اس قابل ہیں کہ انہیں برداشت کیا جاسکے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
رتی گلی کے دشوار گزار اور کٹھن راستے کی مشکلیں کاٹتے ہوئے سوچا کہ واپس اس راستے پر اب کبھی قدم نہیں رکھوں گا لیکن چوٹی پر پہنچنے کے بعد اس کے حسن کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا اور کبھی نہ آنے کا ارادہ بدل گیا۔
ستمبر کی ایک رات دیر گئے ہم مری ایکسپریس وے پر اسلام آباد سے کشمیر کی طرف عازم سفر تھے۔ کوئی 3 بجے کا وقت ہوگا۔ چہار سو ہو کا عالم تھا اور لوگ اپنے گھروں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ سڑکوں پر اِکا دُکا ٹریفک نظر آرہی تھی۔ ہماری گاڑی کی طاقتور ہیڈلائٹس اندھیرے کی دبیز چادر کو چیرتی چلی جارہی تھیں۔ ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب نشیب میں گھنا جنگل تھا۔ مری پہنچے ہی تھے کہ ایک موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی ایک جانب زیادہ جھک گئی۔ تڑاخ کی آواز آئی اور زور پڑنے سے پچھلے پہیے کی ایک کمانی چٹخ گئی۔ ڈرائیور اور ہمارا گائیڈ پریشان ہوکر نیچے اترے۔ باہم مشورے کے بعد انہوں نے اصل راستے کو چھوڑ کر ایک شارٹ کٹ کا انتخاب کیا۔
ڈرائیور نے ایک تنگ راستے کی جانب گاڑی موڑی۔ سامنے کچھ دور بادلوں میں وقفے وقفے سے بجلی چمکتی تو کچھ دیر کےلیے منظر روشن ہوتا اور ایک لمحے بعد پھر تاریکی میں ڈوب جاتا۔ بلندی پر پہنچنے کے بعد ہم بادلوں میں سے گزرنے لگے تو آس پاس دھند چھاگئی، جسے گاڑی کی ہیڈلائٹس چیرنے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔
زندگی میں پہلی بار وہ منظر دیکھا۔ جنگل میں سے سوروں کا ایک خاندان نکلا اور ایک مکان کی باڑ میں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنے میں بارش بھی شروع ہوگئی۔ وہ خوف زدہ کرنے والی رات تھی۔ ہم پریشان کہ اس پہر گاڑی خراب ہوگئی تو رات کہاں گزاریں گے۔ لیکن سفر جاری رہا اور راستے میں بورڈز پر کئی نئی نئی جگہوں کے نام پڑھے۔ اندر ہی اندر مختلف محلوں سے ہوتے ہوئے آگے مظفرآباد کی طرف بڑھنے لگے۔
صبح کی سپیدی نمودار ہونے لگی اور ہم آزاد کشمیر کے علاقے کوہالہ میں داخل ہوگئے۔ پہلا پڑاؤ باغ تھا جہاں فجر کی نماز مسجد میں ادا کی۔ پہاڑ سے آنے والے یخ پانی سے وضو کیا تو سفر کی ساری تکان گویا دور ہوگئی۔ سڑک کنارے سادہ سی مسجد بنی تھی، آس پاس خوبصورت منظر تھا۔ نیچے بہتے دریا کا رنگ گدلا تھا جیسے اس میں مٹی گھلی ہو۔ اگر ہم آگے نہ بھی بڑھتے اور وہیں پہاڑ پر جنگل میں بنے کسی مکان میں ڈیرہ ڈال کر اپنا ٹور وہیں پورا کرلیتے تب بھی کوئی برا سودا نہ تھا۔ دن بھر جنگل گھومتے، چشموں کا پانی پیتے اور دریائے جہلم کے کنارے بیٹھے رہو۔ لیکن ہماری منزل کوہالہ سے کوسوں دور لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کا آخری گاؤں تاؤ بٹ تھا۔ جس کا جب سے چرچا سنا تھا تب سے دل میں اس سفر کا ارادہ کرلیا تھا اور پھر 2 سال کی دعاؤں کے بعد اللہ نے ہمیں تاؤبٹ کی سیر کرادی۔
کوہالہ سے روانہ ہوئے اور صبح سویرے مظفرآباد جا پہنچے۔ خوابیدہ سا شہر اس وقت بیدار ہورہا تھا۔ سرخ انار جیسے لال لال گال والے کشمیری بچے اسکول جاتے پیارے لگے۔ سڑک صاف ستھری اور پختہ ہے، جس پر باآسانی گاڑی فراٹے بھرتی سفر کرتی ہے۔ راستے میں گہرے موڑ آتے ہیں، کبھی ہم دائیں جھکتے تو کبھی بائیں گرتے، پیٹ خالی تھا وگرنہ ایسے پرپیچ رستوں پر جی متلانے لگتا ہے۔
بل کھاتے راستوں سے گزرتے گزرتے گاڑی ایک گہرے موڑ پر جاکر رک گئی۔ وہاں قدرت کا ایک حسین شاہکار ہمارا استقبال کررہا تھا۔ کشمیر کا بلند ترین آبشار دھانی واٹر فال۔ شور مچاتا پانی پہاڑ سے نیچے آرہا اور سنگ ریزوں پر گرتے ہوئے جل ترنگ بجا رہا تھا۔ یہ دنیا کی کسی بھی موسیقی سے زیادہ خوبصورت آواز تھی۔ قدرت نے انسان کے لطف کےلیے حلال چیزیں بنائی ہیں، لیکن انسان موسیقی سن کر گناہ کماتا اور حرام کام کرتا ہے اور فطری حسن کو چھوڑ دیتا ہے۔ دھانی آبشار کے پاس تازگی اور فرحت بخش ماحول تھا۔ دل میں خیال آیا کہ یونہی آبشار کے نیچے بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے، آنکھیں بند کرکے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجائیں۔ جیسے کوئی جوگی یا دیوانہ جو من ہی من میں اپنے محبوب کے خیالوں میں کھویا بیٹھا ہو۔
دھانی واٹرفال سے آگے روانہ ہوئے اور پاکستانی و چینی انجینئرز و مزدوروں کا تراشیدہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ دیکھا جو پورے آزاد کشمیر کی بجلی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ پاکستان کا پہلا بجلی گھر ہے جو زیرِ زمین ہے۔ اس منصوبے کو پہاڑ کھود کر اندر سرنگ میں بنایا گیا ہے اور اس سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔
کشمیر کے دل فریب نظاروں کو دیکھتے اور دریائے نیلم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کیرن سیکٹر پہنچ گئے۔ پہاڑ کے اس پار بھارتی جھنڈا ترنگا لہرا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر دل کو تکلیف ہوئی۔ اس دریا میں نہ جانے کتنے ہی معصوم کشمیری نوجوانوں کے خون کی سرخی گھلی تھی جنہوں نے آزادی کی اس کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ دریائے نیلم آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان عارضی سرحد کھینچ رہا تھا جسے خونی لکیر بھی کہتے ہیں۔ بھارت کے کشمیر پر قبضے کو 70 سال زائد عرصہ ہوگیا۔ مقبوضہ کشمیر کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ فوجی موجودگی والے خطوں میں ہوتا ہے۔ 7 لاکھ بھارتی فوجی اس سوا کروڑ آبادی والے علاقے پر مسلط ہیں۔ اس عرصے میں بھارت نے کشمیریوں کو محکوم بنانے کےلیے ہر حربہ آزمایا۔ بے تحاشا مظالم ڈھائے، ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا۔ خواتین کی آبروریزی کی۔ ظلم کے باوجود کشمیریوں کے جوش آزادی میں کمی نہ آئی تو انہیں رام کرنے کےلیے ہر طرح کا لالچ دیا گیا۔ پرکشش مالی مراعات دیں، لیکن کشمیری نوجوانوں نے آج تک بھارت کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔
سخت سردی میں چنار کے جنگلوں میں کشمیری مجاہدین آج بھی اپنے گرم لہو سے شمع آزادی کو فروزاں کیے ہوئے ہیں۔ جبکہ بھارت اقوام متحدہ کی استصواب رائے کی قرارداد پر عمل درآمد سے انکاری ہے۔ جبکہ منافق و دوغلی عالمی برادری اس ظلم پر خاموش تماشائی ہے۔
کیرن میں دریا کے اس پار کچھ کشمیری خواتین اپنے کھیتوں میں کام کرتی نظر آئیں تو دل سے بے اختیار اپنے مسلمان بھائیوں کےلیے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی آزادی کی نعمت عطا کرے اور ایک دن ہم پل عبور کرکے ڈل جھیل کی کشتی میں سیر کریں۔
کیرن میں ہم دریا کنارے بنے ایک ہوٹل میں رکے اور ناشتہ کیا۔ دریا کنارے لگی باڑ پر آزاد کشمیر کا سبز اور پیلا جھنڈا آزادی کی فضا میں ہوا کے دوش پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ شوریدہ دریائے نیلم راستے میں آتی چٹانوں سے سر پٹکتا ہوا دنیا کے ہنگاموں سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن بہہ رہا تھا۔ لیکن گلوبل وارمنگ نے اس کی روانی کو بھی متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ پہلے سے بہت زیادہ سکڑ چکا ہے۔ ہم نے دریا کے پانی سے منہ پر چھپاکے مارے، تازہ دم ہوئے اور وہیں جھنڈ میں ایک کٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ کر پہاڑ پر جنگل کی ہریالی سے اپنی آنکھوں کو تراوٹ دینے لگے، جو کراچی میں کمپیوٹر اور موبائل فونز کی اسکرینز پر جمے رہتے رہتے کچھ سوج سی گئی اور تھک چکی ہیں۔
میں اپنی فیملی کے ہمراہ ایک ٹریول گروپ کے ساتھ کشمیر کا سفر کررہا تھا۔ 22 افراد کے گروپ میں سے 17، 18 افراد تو صرف رتی گلی کا سفر کرکے دو روز میں واپس روانہ ہوگئے جبکہ ہم مزید آگے تاؤ بٹ تک گئے۔ ٹور میں اچھے لوگوں کا ساتھ رہا۔ شیخوپورہ کے ہنس مکھ خوش مزاج نعیم بھائی اور ان کا خاموش طبع بھتیجا مجاہد، جسے گھڑسواری میں مہارت تھی۔ مجاہد کو پاکستان سے بھی بڑی محبت تھی۔ اپنے ساتھ وہ قومی پرچم لایا تھا جس کے ساتھ اس نے جگہ جگہ تصاویر کھنچوائیں۔ تیسرے لاہور کے انجم بھائی تھے۔ ان سب ہمراہیوں کے ساتھ اچھا سفر گزرا۔
ناشتے کے بعد ہم کیرن سے دواریاں پہنچے، جہاں سے جیپوں میں رتی گلی کا سفر کرنا تھا۔ مسلسل ڈیڑھ گھنٹے تک چڑھائی کے بعد رتی گلی کا بیس کیمپ آیا۔ راستہ بہت دشوار گزار ہے، برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ سے یہ راستہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ اسے راستہ کیا کہیں، بس چٹانوں سے بھری ہوئی ایک پگڈنڈی سی ہے۔ بیس کیمپ پر بہت ٹھنڈ تھی۔ وہاں سے آگے جیپ نہیں جاتی اور جھیل تک گھوڑے پر یا پیدل جانا پڑتا ہے۔ بیس کیمپ سے جھیل تک بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے۔ سرسبز پہاڑی ڈھلانوں پر گھوڑے چرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں چرواہا بیل اور گائیوں کا ریوڑ ہنکا لے جارہا ہوتا ہے۔ مقامی کشمیری مرد و خواتین اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ گرمیوں میں وہ جھیل کے قریب بنے پتھروں اور لکڑیوں سے بنے گھروں میں رہتے ہیں، سردیوں میں پہاڑوں سے نیچے اتر آتے ہیں اور وادی میں رہتے ہیں۔
میں نے گھوڑے پر جھیل پہنچنے کو ترجیح دی۔ انسانوں اور گھوڑوں کے چلنے سے پہاڑ پر پتلی پتلی پگڈنڈیاں بن گئی تھیں۔ گھوڑے نے پہاڑ پر پتلی سی بمشکل ایک فٹ کی پگڈنڈی پر چلنا شروع کیا، بائیں جانب گہری کھائی تھی جسے دیکھ کر ہول آتا ہے۔ وہ راستہ اتنا پتلا تھا کہ اس پر ایک فرد بھی بمشکل چل سکے۔ ذرا سا پاؤں پھسلا اور انسان لڑھکتے ہوئے نیچے جاگرے۔
پہاڑی ڈھلانوں پر جابجا رنگین اودے نیلے پیلے گلابی خوشنما پھول کھلے ہیں۔ جھیل کا پانی گہرے نیلے رنگ کا ہے۔ جھیل پیالے کی مانند ہے جس کے کنارے پر گویا دودھ کی ملائی جیسی سفید برف جمی ہو۔ الغرض رتی گلی کی جھیل کو دیکھ کر جنت ارضی کا گماں ہوتا ہے۔ سخت ٹھنڈ کے باعث وہاں زیادہ ٹھہرنا مشکل ہوگیا اور کچھ دیر میں واپسی کی راہ لی۔ پورے کشمیر میں سب سے زیادہ رش رتی گلی میں ہی دیکھا۔ ہزاروں سیاح، جن میں بچے، نوجوان، بوڑھے سبھی شامل تھے جوق در جوق سیر کو آرہے تھے جیسی یاتری کسی مقدس مقام کی زیارت کو آتے ہیں۔
انسانوں کے ہجوم کی وجہ سے وہاں آلودگی بھی بڑھی ہے اور کچرا پھیلا ہے جس سے رتی گلی کے قدرتی حسن کو نقصان پہنچا ہے۔ اور صرف رتی گلی ہی کیا ہر جگہ جہاں بھی ہمارے سیاح جاتے ہیں وہاں کچرا پھیلاتے ہیں اور قدرتی حسن کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
جھیل سے واپسی کا سفر نسبتاً آسان تھا۔ کیونکہ اترائی تھی، تاہم قدرے خطرناک بھی تھا اور سنبھل سنبھل کر اترنا تھا۔ بیس کیمپ واپس پہنچے۔ جیپ میں دواریاں آئے اور یہاں سے شاردہ کی راہ لی۔ اور عشا تک وہاں پہنچ بھی گئے۔ دریا کنارے بنے ایک ہوٹل میں ہمارا قیام تھا۔ بریانی کے نام پر ہوٹل والے نے پھیکا سا پلاؤ کھلایا اور وہیں کنارے پر رکھی بینچز پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈ تھی اور موسم خوشگوار تھا۔ سفر کی شدید تھکان تھی۔ کمرے میں گئے اور بستر پر پڑتے ہی گہری نیند جو سوئے ہیں تو پھر صبح دروازہ دھڑدھڑانے پر ہی آنکھ کھلی۔
شاردہ کی صبح اور سورج کی روپہلی کرنوں نے کسی الہڑ دوشیزہ کی طرح ہمارا استقبال کیا۔ باہر چمکیلی دھوپ سے جسم کو گرمایا اور توانائی ملی۔ آج ایک اور طویل سفر 'تاؤبٹ' درپیش تھا۔ ہوٹل کے باہر پرانے ماڈل کی سیاہ رنگ کی جیپ ہمیں لے جانے کےلیے تیار کھڑی تھی۔ تاؤبٹ کشمیر میں پاکستان کی حدود میں آخری گاؤں ہے جسے ماڈل ولیج کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد پھر مقبوضہ کشمیر شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں پر پاک فوج اور بھارت کی فوجی چوکیاں بنی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اکثر اوقات سیزفائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شاردہ سمیت ایل او سی پر کئی علاقوں میں شہری آبادی پر گولہ باری اور فائرنگ کی جاتی ہے جس کی زد میں آکر اب تک سیکڑوں کشمیری اور پاک فوج کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف پاک فوج کےلیے جوابی کارروائی کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کی فائرنگ سے اس پار کشمیری مسلمان آبادی کا ہی جانی نقصان ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
تاؤ بٹ کا راستہ رتی گلی سے بہتر تھا۔ راستے میں ایسے خوش نما مناظر دیکھے جیسے دیوار پر کوئی خوبصورت سینری آویزاں ہو۔ بہت ہی خوبصورت مناظر تھے۔ راستے میں ایک جگہ جیپ دریا میں سے گزری۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام راستے میں دریا کے ایک طرف آزاد اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہے، بلکہ ایسا چند جگہ ہی ہے۔ زیادہ تر مقامات پر دریا کے دونوں طرف آزاد کشمیر ہی ہے اور پہاڑوں جنگلوں کو عبور کرکے ان کے پیچھے مقبوضہ کشمیر آتا ہے۔
دریا پر لکڑی کے جھولتے کمزور پل بنے ہیں جنہیں ایک وقت میں ایک شخص کو پار کرنے کی ہدایات ہیں۔
راستے میں ایک منظر دیکھ کر ہم دم بخود رہ گئے۔ ایک جگہ دریا پر رسہ بندھا تھا۔ ہوا میں معلق ایک عورت دونوں ہاتھوں سے اس رسے سے لٹکی ہوئی آہستہ آہستہ دریا پار کررہی تھی جیسے فوجی کرتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک کام تھا جسے شہری مرد بھی کرتے ہوئے گھبرائیں۔ بعض جگہ خواتین پہاڑی ڈھلانوں پر گھاس کاٹ رہی تھیں اور انہیں اپنی کمر پر بندھے گٹھے میں جمع کرتی جارہی تھیں۔ یہ گھاس گھروں کو گرم رکھنے اور دیگر استعمال میں کام آتی ہے۔ راستے میں کشمیر کی مقامی ناشپاتی خرید کر کھائی جو بہت شیریں اور لذیذ تھی۔ کالے رنگ کی بیریز جیسا ایک پھل بھی کھایا جو سائز میں گوندنی جتنا اور ذائقے میں کھٹا میٹھا تھا۔
تاؤ بٹ میں لکڑی کے بنے ایک خوبصورت ہوٹل میں ٹھہرے۔ کھڑکی کھولیں تو خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آف سیزن میں ان ہوٹلوں کا کرایہ کنٹرول میں ہوتا ہے اور 2 ہزار روپے میں کمرہ مل جاتا ہے لیکن سیزن میں ان کا کرایہ 10 ہزار روپے تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کمرے میں سامان رکھنے کے بعد تاؤبٹ کی سیر کو نکلے۔ ٹراؤٹ فش کا فارم بھی دیکھا۔ ایک سرسبز و شاداب مقام پہنچے جہاں سے آگے جانا منع تھا۔ کچھ آگے پاک فوج کی چوکیاں اور پھر آگے مقبوضہ کشمیر شروع ہوجاتا ہے۔ ایک پہاڑ پر پاک فوج تو سامنے دوسرے پہاڑ پر دشمن کی چوکیاں ہیں۔
وادی میں سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے جگہ جگہ روک کر شناختی دستاویزات چیک کی جاتی ہیں۔ کشمیر میں صرف مقامی موبائل فون کمپنی سوکول کی سم چلتی ہے اور کوئی دوسری کمپنی کی سم کام نہیں کرتی۔ سوکول کی سم باآسانی دکانوں پر مل جاتی ہے اور ایکٹیویٹ بھی ہوجاتی ہے۔ یہ ٹیلی کام سروس بنیادی طور پر فوج کے اندرونی رابطوں کےلیے بنائی گئی تھی جسے میں بعد کمرشلائز کرکے عوام کےلیے کھول دیا گیا۔ اب سنا ہے کہ دیگر ٹیلی کام کمپنیوں کو بھی کام کی اجازت دی جارہی ہے۔
کشمیر میں سفر کےلیے فجر کے بعد علی الصبح کا وقت سب سے بہتر ہے۔ کیونکہ وہاں جگہ جگہ بلاسٹنگ ہوتی اور بارود سے پہاڑوں کو کاٹا جاتا ہے، جس کی وجہ سے روڈ بند ہوجاتا ہے۔ یہ کام صبح 9 بجے سے شروع ہوجاتا ہے۔ اگر بلاسٹنگ میں آپ پھنس گئے تو راستہ کھلنے میں کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ اللہ کا کرم تاؤ بٹ جاتے ہوئے ہم بلاسٹنگ میں پھنسنے سے بال بال بچ گئے۔ ہم نے گزرتے وقت راستے میں بارود بچھاتے ہوئے دیکھا۔ ہمارے گزرنے کے کچھ ہی دیر میں بلاسٹنگ شروع ہوگئی۔ ہم شام کو تاؤبٹ پہنچے۔ ہم سے پیچھے آنے والی گاڑیاں بلاسٹنگ میں پھنس گئی تھیں، نتیجتاً وہ رات گئے تاؤبٹ پہنچیں۔ اس سے آپ صبح جلدی سفر کے فائدے کا اندازہ لگالیجئے۔
تاؤبٹ کے ہوٹل والوں نے انتہائی لذیذ کڑاہی بناکر کھلائی جس کے آگے کراچی کی چکن کڑاہی بھی ماند لگنے لگی۔ رات کو بون فائر کیا، سخت سردی میں کھلے آسمان تلے سلگتے انگاروں پر ہاتھ تاپنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ سخت سردی تھی، میں اور میرے ہم سفر تاؤبٹ میں ہوٹل کے لان میں رکھی چوبی بینچز پر بیٹھے تھے، بیچ میں آگ کا الاؤ روشن تھا۔ جلتی خشک لکڑی چٹختی آوازوں کے ساتھ سلگتے انگاروں میں بدل رہی تھی۔ رات بھیگنے لگی تو ساتھ ہی سردی بھی بڑھ گئی۔ خواب ناک ماحول تھا۔ آس پاس اندھیرا تھا جس میں ہوٹل رنگین قمقموں سے بقعہ نور بنا تھا۔ کمرے کا رخ کیا اور لمبی تان کر سوگئے۔ رات گئے سیاح لڑکوں کا ایک گروپ ہوٹل پہنچا اور انہوں نے لان میں باربی کیو اور خوب ہلہ گلہ کیا۔
پانی بہت یخ تھا جس سے وضو کرنے میں مشکل ہوئی۔ تکنیکی فالٹ کی وجہ سے بجلی گئی ہوئی تھی۔ رات کو جب ہوٹل کا جنریٹر بند ہوا تو اس قدر گھپ اندھیرا چھاگیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ میں نے سوچا کہ کراچی والوں کو کشمیر میں بھی لوڈشیڈنگ مل گئی۔
نہ جانے رات کے کس پہر اچانک دھماکا ہوا جس کی بازگشت تاؤبٹ کی خاموشی اور سناٹے کو چیرتی چلی گئی۔ لوگ سوتے سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ خیال آنے لگے بھارت نے دوبارہ فائرنگ تو شروع نہیں کردی۔ پتہ چلا کہ باربی کیو کی مہک رات کے اس پہر دور تک پھیل گئی تھی، جسے سونگھتے سونگھتے ایک بڑا سا کتا ہوٹل میں گھس آیا تھا، جسے مالک نے فائر کرکے بھگادیا۔
صبح حسب توقع خوشگوار تھی۔ اذانوں کی آواز سے آنکھ کھلی۔ کھڑکی سے باہر بہت ہی دلفریب مناظر ہمارے منتظر تھے۔ آج ہماری منزل اڑنگ کیل تھی۔
کشمیر گھومنے پھرنے کےلیے لوکل ٹرانسپورٹ بھی استعمال کی جاسکتی ہے، پرائیوٹ کار بک ہوسکتی ہے یا کسی ٹور گروپ کے ساتھ بھی سفر کیا جاسکتا ہے۔ پہلے اور دوسرے آپشن میں آپ کو سارے انتظامات خود کرنے ہوں گے۔ مثلاً ہوٹل کی بکنگ، کھانے پینے کا انتظام اور سامان اٹھانے کا کام۔ لیکن آپ مرضی سے گھومیں پھریں گے اور جہاں اور جتنا چاہیں وہاں قیام کریں گے۔ ٹور گروپس میں آپ قیام، طعام اور ٹرانسپورٹ کے انتظام سے بے فکر ہوجاتے ہیں لیکن ان کے شیڈول کے پابند ہوتے ہیں اور اپنی مرضی نہیں چلاسکتے بلکہ پہلے سے بتائے گئے ٹائم ٹیبل پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
خود سے کشمیر جانا چاہیں تو اپنے شہر سے مظفرآباد پہنچیں۔ وہاں سے کشمیر کے تمام علاقوں شاردہ، تاؤبٹ، کیل، راولا کوٹ تمام جگہوں کےلیے کوسٹر چلتی ہے، جس پر سفر کیا جاسکتا ہے۔ رتی گلی جیسی جگہوں کےلیے جیپ جاتی ہے جو بکثرت موجود ہیں اور باآسانی بکنگ ہوجاتی ہے۔ بس سیزن میں ہر چیز کے ریٹ دگنے تگنے ہوجاتے ہیں جبکہ آف سیزن میں جانے کا یہ فائدہ ہے کہ ریٹ نارمل ہوتے ہیں اور رش بھی کم ہوتا ہے۔
اگلے روز ہم نے تاؤبٹ سے واپسی کا قصد کیا اور اڑنگ کیل پہنچے۔ جہاں ہزاروں فٹ کی بلندی پر ڈولی میں بیٹھ کر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک پہنچنا تھا۔ راستے میں بلندی سے نیچے خوبصورت لینڈ اسکیپ لمحوں میں گزر جاتا ہے۔ نیچے دیکھ کر کمزور دل والوں کو ہول آتا۔
یہ ڈولی بھی کیا تھی، ایک ڈبہ تھا جسے تنے ہوئے آہنی رسے پر کسی مشین، شاید گاڑی کا انجن لگاکر چلایا جارہا تھا۔ ڈولی میں بیٹھ کر ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے دوسرے پہاڑ پر جا اترے۔ جہاں اڑنگ کیل کا جنگل اور پہاڑ ہمارا منتظر تھا، جسے ہم نے سر کرنا تھا۔ ہم نے ٹریکنگ شروع کی۔ ضعیف شہری تو ایک طرف نوجوان شہریوں کا بھی پہاڑ پر چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اوپر پہنچتا تو کسی کو آدھا گھنٹا لگتا۔ مقامی لوگ تو ہرن کی طرح قلانچیں بھرتے ہوئے تیزی سے اوپر جارہے تھے۔
جو لوگ ڈولی میں نہ جانا چاہیں ان کے پاس نیچے جنگل سے جانے کا آپشن بھی ہے لیکن وہ مشکل اور طویل راستہ ہے۔ پہلے پہاڑ سے نیچے اتریں اور پل سے دریا عبور کریں۔ پھر دوبارہ دوسرے پہاڑ پر چڑھ کر اس مقام تک پہنچو جہاں ڈولی اتارتی ہے اور پھر وہاں سے مزید ٹریکنگ کرو۔ دوسرا راستہ زیادہ مہم جو لوگوں کےلیے تھا جو جنگل کو مزید ایکسپلور کرنا چاہتے ہوں۔ مقامی دکانوں پر ٹریکنگ کےلیے لاٹھیاں کرائے پر مل جاتی ہیں۔ آف سیزن کے باوجود اڑنگ کیل میں سیاحوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ سیزن تو میں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔
اڑنگ کیل جاتے ہوئے ساتھ پانی کی بوتل اور بسکٹ کے سوا کچھ نہ رکھیں ورنہ سامان کے ساتھ اوپر چلنا مشکل ہوجائے گا۔ اگرچہ وہاں سامان لے جانے اور بچوں کو بھی اٹھانے کےلیے قلی موجود ہوتے ہیں۔ ڈولی میں بیٹھنے کےلیے ہمیں بمشکل 20 منٹ انتظار کرنا پڑا، وگرنہ سیزن میں باری آنے میں دو گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔
اڑنگ کیل میں پہاڑ چڑھ کر چوٹی پر پہنچے تو ایک خوبصورت سرسبز و شاداب باغ نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ اوپر بہت ہی حسین وادی تھی۔ وہاں ہوٹل بھی ہیں جہاں آپ قیام کرسکتے ہیں۔ آگے جاکر ایک چھوٹا سا گاؤں آتا ہے۔ کھیت کھلیان ہیں۔ پھر ایک بہت ہی خوبصورت جنگل آتا ہے۔ ایک چشمہ بھی بہہ رہا ہے اور مزید آگے پہاڑ ہے۔ چلتے چلتے میں تھک کر رک گیا لیکن اڑنگ کیل کی صرف ایک جھلک ہی دیکھ سکا۔ پورا اڑنگ کیل دیکھنے کےلیے شاید ایک ہفتہ بھی ناکافی ہے، جب کہ ہمارے پاس چند گھنٹے ہی تھے۔ میرے لیے موازنہ کرنا مشکل ہوگیا کہ اڑنگ کیل زیادہ خوبصورت ہے یا تاؤبٹ۔ مجھے اڑنگ کیل کی خوبصورتی نے مسحور کردیا، جبکہ میرے ہم سفروں کو تاؤبٹ بھاگیا۔ بہرحال کشمیر پورا ہی جنت نظیر ہے اور جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ ایک دن ظلم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوگا۔ آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ بھارتی قبضے کا خاتمہ ہوگا اور کشمیری بھی آزادی کی فضا میں سانس لیں گے۔
اڑنگ کیل اس سفر میں ہمارا آخری پڑاؤ تھا جہاں سے ہم نے واپسی کی راہ لی۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو بھارتی ظلم و ستم سے نجات دلائے اور انہیں آزادی کی نعمت نصیب کرے۔ آزاد کشمیر میں مقامی لوگوں سے گفت و شنید کا موقع ملا تو وہاں 2 طرح کی سوچ دیکھی۔
1۔ بیشتر کشمیری پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
2۔ دوسرے خودمختار کشمیر کے حامی ہیں، جو چاہتے ہیں کہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر دونوں مل کر پاکستان اور بھارت سے الگ ایک علیحدہ آزاد خودمختار ریاست بن جائیں۔ ان لوگوں کی سوچ کو میں نے سطحی پایا۔ یہ لوگ ملکی حالات، غربت کو کشمیری خودمختاری کا جواز بناتے ہیں۔
ملک کے حالات، بڑھتی مہنگائی، بدامنی سے ہر صوبے اور شہر کا شہری پریشان ہے جو دراصل برسہابرس کی کرپشن اور نااہلی کا نتیجہ ہے لیکن اس نفرت کا نشانہ حکومت وقت ہوتی ہے، ملک اور ریاست نہیں۔ اسٹیبشلمنٹ سے کوئی کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو، لیکن اس سے ناراضی اور ملکی حالات سے پریشان ہوکر ملک دشمنی پر اترنا، وطن کے خلاف باتیں کرنا تو کسی احمق کا ہی کام ہوگا۔
خودمختار کشمیر کے حامی بھی حالات کا رونا رو کر پاکستان پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے دلائل بہت سطحی اور بودے تھے۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ مشرقی پاکستان کی طرح بھارت نے آزاد کشمیر میں بھی انتشار پھیلانے اور پاکستان کے خلاف لوگوں کو اکسانے کی پوری کوشش کی ہے۔
حال ہی میں کشمیر کی اسمبلی کے الیکشن ہوئے جس کی مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک عجیب بات کہی کہ میں کشمیر میں 2 ریفرنڈم کراؤں گا۔ پہلے ریفرنڈم میں کشمیری فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد میری حکومت دوسرا ریفرنڈم کروائے گی جس میں کشمیر کے لوگوں کو ہم کہیں گے کہ آپ فیصلہ کریں کہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد، خودمختار ہونا چاہتے ہیں۔ میری رائے میں عمران خان نے محض انتخابی مہم میں ووٹ لینے کےلیے ایسی انتہائی خطرناک بات کہی ہے جو آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
بہرکیف کشمیر کا حل نکالنا ضروری ہے کہ یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک سلگتی ہوئی راکھ ہے جو خدانخواستہ کبھی بھی خطے کے امن کو پریشان کرسکتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔