شکریہ عمران خان
کھیل کے آغازسے قبل کپتان نے جووعدے کیے تھے اوریقین دہانیاں کرائیں وہ پوری ہوتی نظرنہ آئیں توعوام کوتشویش لاحق ہوگئی۔
ہمارے ارباب اختیار بابائے قوم قائد اعظم اور ان کے اقوال زریں کا اپنی تقریروں اور خطابات میں بار بار حوالہ دیتے ہیں لیکن ان کے قول اور فعل میں کھلا تضاد سب کے سامنے ہے۔ مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی اس مملکت کی جو تصویر بنائی تھی اس کا بھی عمل سے دور پرے کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ بابائے قوم کی رحلت کے بعد صرف مزار قائد کی تعمیر کے سوائے اورکچھ بھی نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم کہ ان کی تصویر والی کرنسی کو چور بازاری ، ذخیرہ اندوزی ، بدعنوانی اور رشوت خوری اور منی لانڈرنگ کے لیے دھڑلے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بابائے قوم نے جس وطن عزیز کے قیام کے لیے اپنی صحت اور زندگی وقف کردی تھی اور فلاحی اسلامی ریاست کا جو تصور پیش کیا تھا ، اس کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ قائد اعظم کے اقوال اور نظریات سے مجرمانہ تغافل کے اس طرز عمل پر ان کی روح تڑپتی ہوگی۔
بابائے قوم کی وفات کے بعد ان کے دست راست اور مخلص جانشین نے ملک و قوم کے لیے اپنی شہادت کا جو نذرانہ پیش کیا ، اسے بھی فراموش کردیا گیا۔ جس مملکت کے قیام کی خاطر برصغیر کے لاکھوں عوام نے اپنے بسے بسائے گھر بار چھوڑ کر اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لٹا کر اس ملک کو آباد کیا تھا ، وہ بھی محض ایک قصہ پارینہ ہے۔
ہوا سے اتنی محبت کہ ہم نے بے سوچے
گھروں سے رکھ دیے لاکر چراغ صحرا میں
نئے وطن کی محبت سے سرشار لوگوں نے آگ و خون کا دریا عبورکیا۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بے دریغ قربانیوں کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے اس وطن عزیز کو اس کے معماروں کے داغ مفارقت دینے کے بعد اسے ہائی جیکروں نے ہائی جیک کر لیا اور اس کے سادہ لوح عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور اس کے وسائل اور سرمایہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس میں غیر جمہوری طالع آزما ہی نہیں بلکہ سویلین بھی برابر کے شریک ہیں۔ بس ایک گیم آف میوزیکل چیئرز شروع ہوگیا جو برسہا برس سے لیبل کی تبدیلیوں کے ساتھ آج تک جاری ہے۔
کبھی آمرانہ، کبھی بنیادی جمہوریت کے نام سے تو کبھی اسلامی آمریت اور کبھی عوامی جمہوریت کے نام سے، حکمرانوں کی تبدیلی کے ساتھ نعرے بھی بدلتے رہے۔ کبھی نظام اسلام کا نعرہ اور کبھی روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ اور بالآخر تبدیلی کا نعرہ۔ سابق حکمرانوں سے اکتائے ہوئے پاکستان کے بھولے بھالے عوام نے اس مرتبہ تبدیلی کو خوش آمدید کہا اور اپنے ووٹ اس نئی سیاسی جماعت کی جھولی میں ڈال دیے جس کے نام میں انصاف کا لفظ شامل تھا اور جس کا قائد ایک نامورکھلاڑی تھا۔
عوام نے کھلاڑی کی کارکردگی پر بھروسہ کیا۔ کھیل کے آغاز سے قبل کپتان نے جو وعدے کیے تھے اور یقین دہانیاں کرائی تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہ آئیں تو عوام کو تشویش لاحق ہو گئی، تب انھیں باور کرایا گیا کہ ابھی کھیل کا آغاز ہے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
ایک انگریزی محاورےcharity begins at homeکے مطابق سب سے بڑی تبدیلی خود خان صاحب کی ازدواجی زندگی میں رونما ہوئی پھر رفتہ رفتہ بعد دیگر تبدیلیاں شروع ہوئیں جن میں چار وزرائے خزانہ کی تبدیلی سب سے زیادہ قابل ذکر ہے مگر اس کے باوجود نتیجہ صفر ہے۔ خان صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ ہوگا سو یہ بھی ہوگیا ہے، جی سے مراد گیس(Gas)، ڈی سے مراد ڈیزل (Diesel) اور پی سے مراد پیٹرول (Petrol) ہے۔ قیمتوں میں بے لگام اضافہ اس کا جیتا جاگتا اورکھلا ثبوت ہے۔ خان صاحب نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی مبینہ لوٹ مار کی رقوم بھی واپس لائیں گے جو اب تک وائلڈ گوز چیز
(wild goose chase) کوشش رائیگاں اور سعی لاحاصل کی صورت میں جاری ہیں اور جس پر مرزا غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
خان صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اگر سابق حکمرانوں کی لوٹ مارکی رقوم واپس وطن عزیز کے خزانہ میں آجائیں تو کنگال عوام مالا مال اور خوشحال ہو جائیں گے اور سرکاری خزانہ ، قارون کا خزانہ بن جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ ہمیں نہ تو خان صاحب کی نیت پر کوئی شک ہے اور نہ ان کے ارادوں پر کوئی شبہ ہے۔ ان کا دامن بھی بے داغ ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ بیچارے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور عالم یہ ہے کہ بقول اکبر الہ آبادی:
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں
افسوس یہ ہے کہ انھیں شہنشاہ اکبر جیسے وزیر اور مشیر میسر نہیں آسکے۔ خان صاحب نے عام انتخابات کے موقعے پر برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کو یہ تاثر بھی دیا تھا کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد مہنگائی کا خاتمہ اور سستائی کا نیا دور شروع ہوجائے گا جسے نیا پاکستان سے تعبیر کیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انھوں نے ایک موقعہ پر پبلک کے سامنے گراں قیمت یوٹیلیٹی بل بھی پھاڑ کر پھینک دیے تھے اور کشکول توڑ دینے اور آئی ایم ایف کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹانے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر عوام آج جو کچھ دیکھ رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عوام الناس روزوشب بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بری طرح پریشان ہیں۔ ان کے لیے جسم و روح کا رشتہ بحال رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے اور ان کے لبوں پر صرف یہی ہے کہ:۔
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
قفل ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ شکر ہے کہ یہ خبر خان صاحب کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور انھوں نے قوم سے خطاب فرمایا۔ انھوں نے عوام کو تسلیاں بھی دیں اور تلقین بھی کی کہ وہ صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور گھبرائیں نہیں کہ بقول غالب :
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
چلتے چلتے آل پاکستان تانگہ ایسوسی ایشن کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے مستقبل کی صورت حال سے متعلق یہ اظہار تشکر بھی کہ '' شکریہ عمران خان'' ۔ اس کالم کا اختتام کرتے ہوئے میرے کانوں میں وہ الفاظ گونج رہے ہیں جو موجودہ وزیر اعظم نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زبان مبارک سے ادا کیے تھے۔ انھوں نے حکومت وقت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا '' لائینیں آپ دیکھ لیں پھر سرچارج لگا دیا ہے۔ سر چارج پیٹرول پر بھی لگا دیا ہے ، بجلی پر بھی لگا دیا ہے۔
نہ پانی ہے ، نہ بجلی ہے ،نہ گیس ہے، نہ روزگار ہے مہنگائی ویسے ہی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے، ہر دن کبھی بجلی اوپر کبھی پیٹرول۔ لوگ پس گئے ہیں بیچارے! اسّی فیصد ٹیکس ہے ڈیزل پر۔جو ٹیکس اکٹھا نہیں ہوا اس کے لیے عوام پر لگا دیا ٹیکس۔ یہ جو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں یہ عوام دیں گے بیچاری! ہم بجلی اور گیس پر ٹیکس کم کریں گے۔ میں آپ کو پیسے اکٹھے کرکے دکھاؤں گا۔ ہم یہ بجلی، گیس اور ڈیزل مہنگا نہیں کریں گے کیونکہ یہ عام آدمی پر چلا جاتا ہے۔''
تلخ حقیقت یہ ہے کہ بابائے قوم کی رحلت کے بعد صرف مزار قائد کی تعمیر کے سوائے اورکچھ بھی نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم کہ ان کی تصویر والی کرنسی کو چور بازاری ، ذخیرہ اندوزی ، بدعنوانی اور رشوت خوری اور منی لانڈرنگ کے لیے دھڑلے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بابائے قوم نے جس وطن عزیز کے قیام کے لیے اپنی صحت اور زندگی وقف کردی تھی اور فلاحی اسلامی ریاست کا جو تصور پیش کیا تھا ، اس کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ قائد اعظم کے اقوال اور نظریات سے مجرمانہ تغافل کے اس طرز عمل پر ان کی روح تڑپتی ہوگی۔
بابائے قوم کی وفات کے بعد ان کے دست راست اور مخلص جانشین نے ملک و قوم کے لیے اپنی شہادت کا جو نذرانہ پیش کیا ، اسے بھی فراموش کردیا گیا۔ جس مملکت کے قیام کی خاطر برصغیر کے لاکھوں عوام نے اپنے بسے بسائے گھر بار چھوڑ کر اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لٹا کر اس ملک کو آباد کیا تھا ، وہ بھی محض ایک قصہ پارینہ ہے۔
ہوا سے اتنی محبت کہ ہم نے بے سوچے
گھروں سے رکھ دیے لاکر چراغ صحرا میں
نئے وطن کی محبت سے سرشار لوگوں نے آگ و خون کا دریا عبورکیا۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بے دریغ قربانیوں کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے اس وطن عزیز کو اس کے معماروں کے داغ مفارقت دینے کے بعد اسے ہائی جیکروں نے ہائی جیک کر لیا اور اس کے سادہ لوح عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور اس کے وسائل اور سرمایہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس میں غیر جمہوری طالع آزما ہی نہیں بلکہ سویلین بھی برابر کے شریک ہیں۔ بس ایک گیم آف میوزیکل چیئرز شروع ہوگیا جو برسہا برس سے لیبل کی تبدیلیوں کے ساتھ آج تک جاری ہے۔
کبھی آمرانہ، کبھی بنیادی جمہوریت کے نام سے تو کبھی اسلامی آمریت اور کبھی عوامی جمہوریت کے نام سے، حکمرانوں کی تبدیلی کے ساتھ نعرے بھی بدلتے رہے۔ کبھی نظام اسلام کا نعرہ اور کبھی روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ اور بالآخر تبدیلی کا نعرہ۔ سابق حکمرانوں سے اکتائے ہوئے پاکستان کے بھولے بھالے عوام نے اس مرتبہ تبدیلی کو خوش آمدید کہا اور اپنے ووٹ اس نئی سیاسی جماعت کی جھولی میں ڈال دیے جس کے نام میں انصاف کا لفظ شامل تھا اور جس کا قائد ایک نامورکھلاڑی تھا۔
عوام نے کھلاڑی کی کارکردگی پر بھروسہ کیا۔ کھیل کے آغاز سے قبل کپتان نے جو وعدے کیے تھے اور یقین دہانیاں کرائی تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہ آئیں تو عوام کو تشویش لاحق ہو گئی، تب انھیں باور کرایا گیا کہ ابھی کھیل کا آغاز ہے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
ایک انگریزی محاورےcharity begins at homeکے مطابق سب سے بڑی تبدیلی خود خان صاحب کی ازدواجی زندگی میں رونما ہوئی پھر رفتہ رفتہ بعد دیگر تبدیلیاں شروع ہوئیں جن میں چار وزرائے خزانہ کی تبدیلی سب سے زیادہ قابل ذکر ہے مگر اس کے باوجود نتیجہ صفر ہے۔ خان صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ ہوگا سو یہ بھی ہوگیا ہے، جی سے مراد گیس(Gas)، ڈی سے مراد ڈیزل (Diesel) اور پی سے مراد پیٹرول (Petrol) ہے۔ قیمتوں میں بے لگام اضافہ اس کا جیتا جاگتا اورکھلا ثبوت ہے۔ خان صاحب نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی مبینہ لوٹ مار کی رقوم بھی واپس لائیں گے جو اب تک وائلڈ گوز چیز
(wild goose chase) کوشش رائیگاں اور سعی لاحاصل کی صورت میں جاری ہیں اور جس پر مرزا غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
خان صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اگر سابق حکمرانوں کی لوٹ مارکی رقوم واپس وطن عزیز کے خزانہ میں آجائیں تو کنگال عوام مالا مال اور خوشحال ہو جائیں گے اور سرکاری خزانہ ، قارون کا خزانہ بن جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ ہمیں نہ تو خان صاحب کی نیت پر کوئی شک ہے اور نہ ان کے ارادوں پر کوئی شبہ ہے۔ ان کا دامن بھی بے داغ ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ بیچارے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور عالم یہ ہے کہ بقول اکبر الہ آبادی:
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں
افسوس یہ ہے کہ انھیں شہنشاہ اکبر جیسے وزیر اور مشیر میسر نہیں آسکے۔ خان صاحب نے عام انتخابات کے موقعے پر برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کو یہ تاثر بھی دیا تھا کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد مہنگائی کا خاتمہ اور سستائی کا نیا دور شروع ہوجائے گا جسے نیا پاکستان سے تعبیر کیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انھوں نے ایک موقعہ پر پبلک کے سامنے گراں قیمت یوٹیلیٹی بل بھی پھاڑ کر پھینک دیے تھے اور کشکول توڑ دینے اور آئی ایم ایف کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹانے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر عوام آج جو کچھ دیکھ رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عوام الناس روزوشب بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بری طرح پریشان ہیں۔ ان کے لیے جسم و روح کا رشتہ بحال رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے اور ان کے لبوں پر صرف یہی ہے کہ:۔
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
قفل ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ شکر ہے کہ یہ خبر خان صاحب کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور انھوں نے قوم سے خطاب فرمایا۔ انھوں نے عوام کو تسلیاں بھی دیں اور تلقین بھی کی کہ وہ صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور گھبرائیں نہیں کہ بقول غالب :
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
چلتے چلتے آل پاکستان تانگہ ایسوسی ایشن کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے مستقبل کی صورت حال سے متعلق یہ اظہار تشکر بھی کہ '' شکریہ عمران خان'' ۔ اس کالم کا اختتام کرتے ہوئے میرے کانوں میں وہ الفاظ گونج رہے ہیں جو موجودہ وزیر اعظم نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زبان مبارک سے ادا کیے تھے۔ انھوں نے حکومت وقت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا '' لائینیں آپ دیکھ لیں پھر سرچارج لگا دیا ہے۔ سر چارج پیٹرول پر بھی لگا دیا ہے ، بجلی پر بھی لگا دیا ہے۔
نہ پانی ہے ، نہ بجلی ہے ،نہ گیس ہے، نہ روزگار ہے مہنگائی ویسے ہی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے، ہر دن کبھی بجلی اوپر کبھی پیٹرول۔ لوگ پس گئے ہیں بیچارے! اسّی فیصد ٹیکس ہے ڈیزل پر۔جو ٹیکس اکٹھا نہیں ہوا اس کے لیے عوام پر لگا دیا ٹیکس۔ یہ جو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں یہ عوام دیں گے بیچاری! ہم بجلی اور گیس پر ٹیکس کم کریں گے۔ میں آپ کو پیسے اکٹھے کرکے دکھاؤں گا۔ ہم یہ بجلی، گیس اور ڈیزل مہنگا نہیں کریں گے کیونکہ یہ عام آدمی پر چلا جاتا ہے۔''