حکومت اپوزیشن اور عوام

حکومتی لوگوں کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے ہی نہیں اور اپوزیشن کے تمام رہنما عوام سے زیادہ امیر ہیں۔

m_saeedarain@hotmail.com

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے سوا تین سال بعد 120 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے وہ 6 ماہ کے لیے ہے ، جس سے دو کروڑ خاندانوں کے مستفید ہونے اور ملک میں مہنگائی میں اضافہ صرف نو فیصد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

حکومتی ریلیف پیکیج کو اپوزیشن نے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دے کر مسترد کردیا ہے اور عوام ملک میں مہنگائی کا مزید بڑھتا ہوا طوفان دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کی روایتی تقریرکو درست سمجھیں یا اپوزیشن کی تنقید پر یقین کریں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی میں 50 فیصد اور پاکستان میں صرف نو فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم غلط دعوؤں کے ساتھ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ ان کے بتائے گئے مہنگے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں عوام کی آمدنی کتنی ہے۔

وزیر اعظم بھارت میں پٹرول دو سو روپے لیٹر ہونے کا دعویٰ پاکستانی میں کر رہے ہیں جب کہ بھارتی روپیہ پاکستانی روپے سے ڈبل سے بھی زائد ویلیو رکھتا ہے اور بھارتی وزیر اعظم نے دیوالی پر پٹرول اور ڈیزل 15 روپے لیٹر سستا کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ ہمارے وزیر اعظم ہر 15 دن بعد پٹرول مہنگا کرکے مہنگائی مزید بڑھاتے ہیں اور نام نہاد ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے پٹرول مزید مہنگا کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پٹرول ، بجلی ، گیس اور ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار وزیر اعظم کو قرار دیتے تھے اور خود وزیر اعظم بن کر انھوں نے سابق حکمرانوں کو کرپٹ اور مہنگائی عالمی سطح پر بڑھنے کو جواز بنا کر کہہ دیا کہ وہ مہنگائی کے ذمے دار نہیں۔ دو بڑے خاندان اپنی لوٹی ہوئی دولت میں سے آدھی واپس کردیں تو اشیائے خور و نوش کی قیمتیں 50 فیصد کم کردوں گا۔

اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور رہنما جو دعوے کرتے تھے وہ تو انھیں یاد نہیں اور سوا تین سال بعد بھی انھیں سابق حکمرانوں کی وہ مبینہ کرپشن یاد ہے جسے وہ کہیں ثابت نہیں کرسکے ہیں جب کہ حکومتی ارکان اسمبلی اور اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ آج ملک میں کرپشن ماضی سے بڑھ گئی ہے جو ایماندارکو نظر نہیں آ رہی۔


تبدیلی حکومت نے ملک کو ترقی دی نہ کوئی میگا منصوبہ ملک کو دیا اور صرف جھوٹے دعوے کیے۔ ملک کی معیشت تباہ کردی اور ملک میں مہنگائی و بے روزگاری بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا اور احتساب کے جس نعرے پر یہ حکومت لائی گئی تھی۔ اس احتساب کا تو یہ حال ہے کہ قومی خزانے میں صرف ساڑھے چھ ارب روپے جمع کرائے گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک مہنگائی کی وجہ روپے کی ناقدری نہیں مان رہا اور مشیر خزانہ مہنگائی مزید بڑھنے کا بیان دے رہے ہیں اور حکومت مہنگائی پر کنٹرول میں مکمل ناکامی کے بعد اپنی کوئی غلطی نہیں مان رہی اور صرف اپوزیشن پر برسنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ملک کی اپوزیشن بھی اپنے سیاسی مفاد اور نا اہلی میں حکومت سے کم نہیں۔ 38 ماہ گزرنے کے بعد اپوزیشن کو ملک میں مہنگائی کا احساس ہوا اور اس نے دو ہفتوں کے لیے مہنگائی کے خلاف مظاہرے شروع کیے مگر حکومتی حلیفوں نے خاموشی برقرار رکھی۔ حکومت سے باہر ہر پارٹی نے مہنگائی پر احتجاج کیا اور مہنگائی کم کرنے کی تجاویز دینے کے بجائے صرف حکومت پر تنقید کے گولے برسائے اور حکومتی نااہلی کا رونا رو کر اپنی سیاست چمکائی۔

اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں کا یہ کہنا تو واقعی درست تھا کہ ان کی حکومتوں میں کبھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی تھی ، جتنی تبدیلی حکومت نے سوا تین سال میں کرکے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور یہ مہنگائی صرف حکومت کی اپنی نااہلی کے باعث بڑھی ہے جس پر اپوزیشن کا فرض اولین صرف حکومت کے خلاف احتجاج کرنا تھا جو اس نے اکتوبر میں کرکے اپنی ذمے داری پوری کردی ہے۔

حکومت کا کام مہنگائی و بے روزگاری بڑھانا اور اپوزیشن کا کام صرف اس سلسلے میں احتجاج کرنا تھا جو دونوں نے خیر سے کرلیا اور مزید کریں گی اور دونوں کے اقدامات کی سزا صرف اور صرف عوام بھگت رہے ہیں۔

حکومتی لوگوں کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے ہی نہیں اور اپوزیشن کے تمام رہنما عوام سے زیادہ امیر ہیں کیونکہ وہ تمام ماضی کی حکومتوں میں شامل رہے ہیں اور ان کے لیے مہنگائی صرف اپنی سیاست چمکانے تک محدود ہے اور حکومت اور اپوزیشن یہ دونوں ہی مہنگائی سے متاثر نہیں بلکہ صرف عوام حکومت کی طرف سے بڑھائی جانے والی سے مسلسل نہ صرف متاثر ہو رہے ہیں بلکہ بہت سوں کو فاقوں کا سامنا ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری نے عوام میں غربت یہاں تک بڑھا دی ہے کہ ان کے پاس حکومت کو دینے کے لیے بددعائیں باقی رہ گئی ہیں۔

عوام میں وزیر اعظم کو جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ میڈیا نہیں صرف سوشل میڈیا سنوا رہا ہے۔ عوام میں مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر آنے کا وقت ہے نہ سکت وہ مزید پریشانی میں پڑنا نہیں چاہ رہے جس سے فائدہ اٹھا کر حکومت مہنگائی بڑھانے اور اپوزیشن سیاست چمکانے میں مصروف ہے۔
Load Next Story