اصل چیلنج مہنگائی پر قابو پانا ہے
ایک جمہوری حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ عوام کو ضرورت زندگی کی اشیا سستے داموں مہیا کریں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔
ISLAMABAD:
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن شروع دن سے حکومت کی ہر محاذ پر مخالفت کر رہی ہے،حکومت گرانے کی باتیں کرتی ہے لیکن پانچ سال بعد جب کارکردگی کا گراف سامنے آئے گا تو اپوزیشن کی دکانیں بند ہوجائیں گی۔
جہلم میں ایک دو رویہ شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے مزید کہا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت میں بھی کمی آئی ہے، مہنگائی کا سیلاب باہر سے آ رہا ہے، تین ماہ میں تیل کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں اور مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، لوگوں کی مشکلات کا علم ہے،اعتماد رکھیں مشکلات سے نکالیں گے، عام آدمی کے لیے بڑا پیکیج لا رہے ہیں۔ آبادی بڑھ رہی ہے، ملک کو پانی کی ضرورت ہے، اناج کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہمیں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔
وزیراعظم کے خیالات صائب ہیں، بلاشبہ وہ مہنگائی کے مسئلہ پر قابو پانے کے خواہش مند ہیں، اس تناظر میں وہ حکومتی سطح کے متعدد اجلاسوں اور عوامی فورم پر تقاریر میں متعدد بار بڑی درد مندی سے اپنے خیالات، جذبات اور احساس کا ذکر کرچکے ہیں، کیونکہ انھیں عوام کی تکلیف کا احساس ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب جہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں سماجی اور نفسیاتی مسائل اور جرائم کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
روزمرہ استعمال کی اشیاء جن میں آٹا، دالیں، چینی وغیرہ شامل ہیں لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث نہ صرف ملکی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے بلکہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ اب تو تاجر اور صنعت کار برادری بھی صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح عوام کا مسئلہ صرف مہنگائی ہے اسی طرح حکومت کا مسئلہ صرف مہنگائی تھا اور مہنگائی ہی ہے۔
چینی کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا، گوکہ اب اس کی قیمت میں کمی آئی ہے ، لیکن جس مافیا نے مصنوعی مہنگائی کے ذریعے اربوں روپے صرف چند دنوں میں کمائے ،اس کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافے نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے سے عام آدمی پر براہ راست بوجھ پڑا ہے، ایک طالب علم، مزدور، یا کوئی بھی نوکری پیشہ روزانہ کی بنیاد پر جب اپنے گھر سے دو، دو بسیں یا چنگ چی بدل کر اپنے مقررہ مقام پر پہنچتا ہے تو یکطرفہ کرائے کی مد میں کم ازکم ستر یا اسی روپے یا بعض اوقات سو روپے اداکرنے پر مجبور ہوتا ہے، روزانہ کا دوطرفہ عام پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے کا حساب لگائیں تو روزانہ ڈیڑھ سو سے دو سو روپے صرف اس مد میں خرچ ہورہے ہیں۔
ایک ایسا ملک جس میں ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ پندرہ یا بیس ہزار روپے ہے،اس کی معاشی مشکلات کو قلم بند کرنا آسان عمل نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں مختصر مدت میں دو بار اضافہ کیا گیا ہے۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا اثر اب ہر چیز کی قیمت پر پڑرہا ہے۔
مہینے میں اگر دوبار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مہنگی ہوں تو اشیاء کی قیمتوں میں بھی دوبار اضافہ ہوتا ہے، یہ ایک دوسرے سے پیوست عمل ہے مشکل صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اب تو کوئی دن ایسا نہیںگزرتا کہ کسی چیز کے بحران، قلت اور قیمتوں میں اضافہ کی اطلاع نہیں آتی، مہنگائی میں اضافہ ہی مسئلہ نہیں بیروزگاری اور کاروبار کی خرابی کے تباہ کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔
دوسری جانب مشیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ڈیل کے لیے پرامید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیشگی اقدامات کے مطالبے پر کام کررہے ہیں، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ پورا کرچکے، ٹیکس استثنیٰ کے خاتمہ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق بلز کے مسودے کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔
بصداحترام عرض ہے کہ مشیر خزانہ عوام کو آئی ایم ایف سے معاہدے کی لاکھ خوشخبری سنانے کی بات دہراتے رہیں، اس ممکنہ معاہدے کے نتیجے میں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور مہنگائی کو پر لگ جائیں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مزید بوجھ ڈالنے سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ عوام کی اکثریت اب دو وقت کی روٹی کی محتاج ہوچکی ہے، اچھا خاصا کمانے والے اور کاروباری طبقہ کے پاس اب پیٹ پوجا کا سامان نہیں رہا۔
مالیاتی مشیر کے پاس سوائے آئی ایم ایف سے خوشخبری ملنے کا مژدہ دینے کے اور کوئی بات عوام کے مفاد کی نہیں۔ حالات روز بروز سنگین ہوتے جارہے ہیں، حکومت نے اس کا احساس نہ کیا اور عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریز نہ کیا تو بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوں گے جو حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں بہتری کا امکان ہے؟افسوس کہ اِس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں بہتری کا امکان تبھی ہوسکتا ہے جب مہنگائی میں کمی لانے کے لیے ٹھوس فیصلے اور نتیجہ خیز اقدامات اُٹھائے جائیں یہاں تو حالات ایسے ہیں کہ وزراء میں حریفوں کے خلاف تندوتیز بیانات کے سوا کوئی خوبی نہیں اور سبھی عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے ہوائی قلعے تعمیر کرنے اور جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے میں یکتا ہیں جہاں ایسا طرزعمل اور ایسی غیر سنجیدگی ہو وہاں مہنگائی کم ہونے کے امکانات کی بات حقائق کے منافی ہوگی، ہمیشہ کی طرح حکومت کا کہنا ہے کہ مصنوعی مہنگائی اپوزیشن کی سازش لیکن حکومت جتنا مرضی کہے کہ مہنگائی مصنوعی ہے۔
عام آدمی صرف یہ جانتا ہے کہ مہنگائی کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اسے روک سکنے کی طاقت صرف حکومت کے پاس ہے۔اپوزیشن کو ایک طرف رکھ کر حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مہنگائی جہاں معاشرے میں ناہمواریوں کو جنم دے رہی، وہیں اس کے باعث پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی نے عوام کو ہی مشکل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر گھر کی صورتحال یہ ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین کے لیے زیادہ مشکلات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ اکثر کم آمدنی اور مہنگائی میں انھیں ہی گھر چلانا ہوتا ہے۔
عام آدمی کو یہ بتانا پڑے گا کہ جہاں مہنگائی کو قابو نہ کر سکنے کی ذمے دار حکو مت ہے وہیں مصنوعی مہنگائی پیداکرنے والے عناصر بھی موجود ہیں اور اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنی حکومت۔ عام لوگ حکومت سے یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ آخر ان کی مشکلات میں کمی کے لیے کون سی قانون سازی کی جا رہی ہے۔
غریب تو مرنے والا ہے، غریب تو ختم ہونے والا ہے، جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہ نچلے درجے پر آ گئے ہیں اور جو پہلے ہی سے نچلے طبقے کے شہریوں کے طور پر زندگی گزار رہے تھے، ان کا تو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس طرح اپنا گزارا کر رہے ہیں۔ یہ سب کس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی وجہ سے ہو رہا ہے، جس نے عام آدمی کو نظر اندازکر دیا ہے جب کہ اپوزیشن اسی امر کا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہے۔
ان حالات میں عوام کو اقتدار کے ایوانوں میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری اختیارات کی جنگ سے بھلا کوئی مطلب ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ عوام کا مسئلہ صرف مہنگائی اور گھر کا نظام ہے۔ حکومت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے کمپنیوں یا افراد کے گٹھ جوڑ کو کارٹلائزیشن کہا جاتا ہے ان کا یہ کارٹل بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے دنیا بھر میں حکومتیں اس کارٹل کو توڑنے کے لیے قوانین بناتی ہیں ۔پاکستان میں بھی اس پر مسابقتی کمیشن کا ادارہ موجود ہے لیکن وہ کارٹل مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔
حکومت جب تک ذاتی مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کے ذرائع آمدن پہلے ہی کورونا وائرس کے منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر نچلا طبقہ ہے جو کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے، مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، جن کو کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی کوئی قانون سازی عمل میں آئی۔
ایک جمہوری حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ عوام کو ضرورت زندگی کی اشیا سستے داموں مہیا کریں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے، کھانے پینے کی اشیا سے لے کر الیکٹرونکس و الیکٹریکل مصنوعات تک مہنگی ہوگئی ہیں، پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ بھی مہنگائی کا سبب بنتی ہے، اس لیے ایسے معاشی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جن سے روپے کی ساکھ مضبوط ہو سکے، اس کے علاوہ ملک میں کرپشن بھی اقتصادی مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، حکومت اسے کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر جلد قابو پالیا جائے گا کیونکہ جب تک معاشرہ کرپشن فری نہیں ہوتا، تب تک کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن شروع دن سے حکومت کی ہر محاذ پر مخالفت کر رہی ہے،حکومت گرانے کی باتیں کرتی ہے لیکن پانچ سال بعد جب کارکردگی کا گراف سامنے آئے گا تو اپوزیشن کی دکانیں بند ہوجائیں گی۔
جہلم میں ایک دو رویہ شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے مزید کہا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت میں بھی کمی آئی ہے، مہنگائی کا سیلاب باہر سے آ رہا ہے، تین ماہ میں تیل کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں اور مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، لوگوں کی مشکلات کا علم ہے،اعتماد رکھیں مشکلات سے نکالیں گے، عام آدمی کے لیے بڑا پیکیج لا رہے ہیں۔ آبادی بڑھ رہی ہے، ملک کو پانی کی ضرورت ہے، اناج کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہمیں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔
وزیراعظم کے خیالات صائب ہیں، بلاشبہ وہ مہنگائی کے مسئلہ پر قابو پانے کے خواہش مند ہیں، اس تناظر میں وہ حکومتی سطح کے متعدد اجلاسوں اور عوامی فورم پر تقاریر میں متعدد بار بڑی درد مندی سے اپنے خیالات، جذبات اور احساس کا ذکر کرچکے ہیں، کیونکہ انھیں عوام کی تکلیف کا احساس ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب جہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں سماجی اور نفسیاتی مسائل اور جرائم کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
روزمرہ استعمال کی اشیاء جن میں آٹا، دالیں، چینی وغیرہ شامل ہیں لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث نہ صرف ملکی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے بلکہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ اب تو تاجر اور صنعت کار برادری بھی صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح عوام کا مسئلہ صرف مہنگائی ہے اسی طرح حکومت کا مسئلہ صرف مہنگائی تھا اور مہنگائی ہی ہے۔
چینی کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا، گوکہ اب اس کی قیمت میں کمی آئی ہے ، لیکن جس مافیا نے مصنوعی مہنگائی کے ذریعے اربوں روپے صرف چند دنوں میں کمائے ،اس کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافے نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے سے عام آدمی پر براہ راست بوجھ پڑا ہے، ایک طالب علم، مزدور، یا کوئی بھی نوکری پیشہ روزانہ کی بنیاد پر جب اپنے گھر سے دو، دو بسیں یا چنگ چی بدل کر اپنے مقررہ مقام پر پہنچتا ہے تو یکطرفہ کرائے کی مد میں کم ازکم ستر یا اسی روپے یا بعض اوقات سو روپے اداکرنے پر مجبور ہوتا ہے، روزانہ کا دوطرفہ عام پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے کا حساب لگائیں تو روزانہ ڈیڑھ سو سے دو سو روپے صرف اس مد میں خرچ ہورہے ہیں۔
ایک ایسا ملک جس میں ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ پندرہ یا بیس ہزار روپے ہے،اس کی معاشی مشکلات کو قلم بند کرنا آسان عمل نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں مختصر مدت میں دو بار اضافہ کیا گیا ہے۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا اثر اب ہر چیز کی قیمت پر پڑرہا ہے۔
مہینے میں اگر دوبار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مہنگی ہوں تو اشیاء کی قیمتوں میں بھی دوبار اضافہ ہوتا ہے، یہ ایک دوسرے سے پیوست عمل ہے مشکل صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اب تو کوئی دن ایسا نہیںگزرتا کہ کسی چیز کے بحران، قلت اور قیمتوں میں اضافہ کی اطلاع نہیں آتی، مہنگائی میں اضافہ ہی مسئلہ نہیں بیروزگاری اور کاروبار کی خرابی کے تباہ کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔
دوسری جانب مشیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ڈیل کے لیے پرامید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیشگی اقدامات کے مطالبے پر کام کررہے ہیں، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ پورا کرچکے، ٹیکس استثنیٰ کے خاتمہ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق بلز کے مسودے کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔
بصداحترام عرض ہے کہ مشیر خزانہ عوام کو آئی ایم ایف سے معاہدے کی لاکھ خوشخبری سنانے کی بات دہراتے رہیں، اس ممکنہ معاہدے کے نتیجے میں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور مہنگائی کو پر لگ جائیں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مزید بوجھ ڈالنے سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ عوام کی اکثریت اب دو وقت کی روٹی کی محتاج ہوچکی ہے، اچھا خاصا کمانے والے اور کاروباری طبقہ کے پاس اب پیٹ پوجا کا سامان نہیں رہا۔
مالیاتی مشیر کے پاس سوائے آئی ایم ایف سے خوشخبری ملنے کا مژدہ دینے کے اور کوئی بات عوام کے مفاد کی نہیں۔ حالات روز بروز سنگین ہوتے جارہے ہیں، حکومت نے اس کا احساس نہ کیا اور عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریز نہ کیا تو بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوں گے جو حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں بہتری کا امکان ہے؟افسوس کہ اِس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں بہتری کا امکان تبھی ہوسکتا ہے جب مہنگائی میں کمی لانے کے لیے ٹھوس فیصلے اور نتیجہ خیز اقدامات اُٹھائے جائیں یہاں تو حالات ایسے ہیں کہ وزراء میں حریفوں کے خلاف تندوتیز بیانات کے سوا کوئی خوبی نہیں اور سبھی عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے ہوائی قلعے تعمیر کرنے اور جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے میں یکتا ہیں جہاں ایسا طرزعمل اور ایسی غیر سنجیدگی ہو وہاں مہنگائی کم ہونے کے امکانات کی بات حقائق کے منافی ہوگی، ہمیشہ کی طرح حکومت کا کہنا ہے کہ مصنوعی مہنگائی اپوزیشن کی سازش لیکن حکومت جتنا مرضی کہے کہ مہنگائی مصنوعی ہے۔
عام آدمی صرف یہ جانتا ہے کہ مہنگائی کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اسے روک سکنے کی طاقت صرف حکومت کے پاس ہے۔اپوزیشن کو ایک طرف رکھ کر حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مہنگائی جہاں معاشرے میں ناہمواریوں کو جنم دے رہی، وہیں اس کے باعث پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی نے عوام کو ہی مشکل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر گھر کی صورتحال یہ ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین کے لیے زیادہ مشکلات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ اکثر کم آمدنی اور مہنگائی میں انھیں ہی گھر چلانا ہوتا ہے۔
عام آدمی کو یہ بتانا پڑے گا کہ جہاں مہنگائی کو قابو نہ کر سکنے کی ذمے دار حکو مت ہے وہیں مصنوعی مہنگائی پیداکرنے والے عناصر بھی موجود ہیں اور اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنی حکومت۔ عام لوگ حکومت سے یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ آخر ان کی مشکلات میں کمی کے لیے کون سی قانون سازی کی جا رہی ہے۔
غریب تو مرنے والا ہے، غریب تو ختم ہونے والا ہے، جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہ نچلے درجے پر آ گئے ہیں اور جو پہلے ہی سے نچلے طبقے کے شہریوں کے طور پر زندگی گزار رہے تھے، ان کا تو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس طرح اپنا گزارا کر رہے ہیں۔ یہ سب کس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی وجہ سے ہو رہا ہے، جس نے عام آدمی کو نظر اندازکر دیا ہے جب کہ اپوزیشن اسی امر کا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہے۔
ان حالات میں عوام کو اقتدار کے ایوانوں میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری اختیارات کی جنگ سے بھلا کوئی مطلب ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ عوام کا مسئلہ صرف مہنگائی اور گھر کا نظام ہے۔ حکومت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے کمپنیوں یا افراد کے گٹھ جوڑ کو کارٹلائزیشن کہا جاتا ہے ان کا یہ کارٹل بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے دنیا بھر میں حکومتیں اس کارٹل کو توڑنے کے لیے قوانین بناتی ہیں ۔پاکستان میں بھی اس پر مسابقتی کمیشن کا ادارہ موجود ہے لیکن وہ کارٹل مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔
حکومت جب تک ذاتی مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کے ذرائع آمدن پہلے ہی کورونا وائرس کے منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر نچلا طبقہ ہے جو کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے، مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، جن کو کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی کوئی قانون سازی عمل میں آئی۔
ایک جمہوری حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ عوام کو ضرورت زندگی کی اشیا سستے داموں مہیا کریں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے، کھانے پینے کی اشیا سے لے کر الیکٹرونکس و الیکٹریکل مصنوعات تک مہنگی ہوگئی ہیں، پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ بھی مہنگائی کا سبب بنتی ہے، اس لیے ایسے معاشی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جن سے روپے کی ساکھ مضبوط ہو سکے، اس کے علاوہ ملک میں کرپشن بھی اقتصادی مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، حکومت اسے کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر جلد قابو پالیا جائے گا کیونکہ جب تک معاشرہ کرپشن فری نہیں ہوتا، تب تک کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔