قانون سازی کا عمل مستحسن مگر…
حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ ، الیکشن کمیشن کو ایک انتہائی باوقار آئینی ادارے طور پر قبول کرنے کے لیے دل بڑا کریں
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک بڑی قانون سازی عمل میں آئی ہے، حکومت کامیاب ہوئی ہے جب کہ اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، گزشتہ روز الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سمیت 33بلز منظورکر لیے گئے، اپوزیشن کی جانب سے چیلنج کرنے پر ووٹنگ کرائی گئی۔ تحریک کے حق میں 221 اور مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں اس کو اپنی ایک بڑی کامیابی اور جیت قرار دے رہی ہیں ، جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس سارے عمل پر تنقید اور احتجاج کررہی ہیں۔ انتخابی اصلاحات کا عمل جمہوریت کے استحکام کا باعث بنتا ہے ، لہٰذا اگر بلز کثرت رائے سے منظور ہوئے ہیں توکلی طور پر ان کی مخالفت بھی نہیں کی جاسکتی یا رد نہیں کیا جاسکتا ، البتہ قانون سازی میں جو سقم یا متنازعہ پہلو ہیں ، ان کی نشاندہی کرکے اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے ، تاکہ تنازع طول نہ پکڑے اور ملک میں جمہوریت کا عمل چلتا رہے۔
پہلے ہم اس بنیادی نقطے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا صرف الیکٹرانک ووٹ مشین کے استعمال سے پورا انتخابی عمل شفاف ہوجائے گا اور ہر ایک فرد یا سیاسی جماعت پولنگ کے عمل اور ووٹوں کی گنتی کے عمل سے مطمئن ہو جائے گی ، جیسا کہ حکومت کے وزراء بیان کررہے ہیں ۔ کیا صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال سارے انتخابی عمل کو جادوئی طور پر غیرجانبدار اور شفاف بنادے گا۔
یہ وہ سوالات ہیں جو ملک کے فہمیدہ حلقوں میں زیر بحث ہیں، بعض حلقوں کی رائے ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی،انتظامی اور تقرو تبادلوں کے مکمل اختیارات نہیں مل جاتے ، مسئلہ جوں کا توں رہے گا اور عام انتخابات کے عمل پر سوالیہ نشان لگتے جائیں گے ، اختلافات ، احتجاج کی فضا برقرار رہے گی۔
بھارت کی مثال لیجیے وہاں کا الیکشن کمیشن پوری طرح با اختیار ہے ، اور وہ مسلسل سات دہائیوں سے کامیابی اور تندہی سے انتخابات منعقد کراتا چلا آ رہا ہے ، جب کہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کے ہاتھ ، پاؤں آئینی ترمیم اور صدارتی آرڈینس کے ذریعے باندھ دیے جاتے ہیں ۔ بھلے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ایک بہتر آپشن ہو لیکن اس کے استعمال پر تمام اسٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا ضروری ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے ای وی ایم کے استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 37نکات تحریری شکل میں پارلیمانی امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں۔ بعض حلقے تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر انتخابی اصلاحات لانا چاہ رہی ہے جو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی اس کو متنازع بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل اور اس پر اعتراضات کو اگر ماہرین کی ٹیم کے سامنے رکھ کر ان کی رائے عوام کے سامنے رکھا جاتا تو کم از کم یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ تکنیکی طور پر اس کے کیا فوائد و نقصانات ہیں اور یہ کس حد تک قابل اعتماد نظام ہے۔ اس میں وہ خامیاں جس کا تذکرہ ہو رہا ہے، قابل اصلاح ہیں یا نہیں، اعتراضات درست ہیں یا غلط، اس بارے میں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے جس میں اس امر کا تعین مشکل ہے کہ کس کا موقف کس حد تک درست ہے اور کس کاکتنا غلط ہے۔
جہاں تک حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان اس حوالے سے عدم اتفاق کا معاملہ ہے، ہمارے ہاں کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اتفاق رائے سے کوئی معاملہ طے ہو ، سوائے ان معاملات کے جہاں قومی ادارے اس کی کوشش نہ کریں۔ الیکٹرانک ووٹنگ کو اگر سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے تکنیکی پہلوؤں پر بات کی جائے تو یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے ، بصورت دیگر یہ اونٹ کھڑا ہی رہے گا اور اس کی کوئی کل بھی سیدھی نظر نہیں آئے گی۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اس معاملے پر اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب واپسی ناممکن لگتی ہے جب کہ حکومت اور الیکشن کمیشن بھی مد مقابل ہیں۔ بجائے اس کے کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات کا تکنیکی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے اور حزب اختلاف کو قائل کیا جاتا، لیکن حکومت نے سادہ اکثریت سے بل منظور کرا کے اپنی من مانی کی ہے ۔
جس طرح ملکی سیاست میں تلخی بڑھتی جارہی ہے اور سیاسی اختلافات ذاتی اختلافات میں تبدیل ہو رہے ہیں، تو ایسے حالات میں متفقہ انتخابی اصلاحات لے کر آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حکومتی وزراء کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے، اس کا احسن طریقہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کا نکتہ وار جواب دے دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا، ایساکرنے سے الزام تراشی سے بچا جاسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ مشین کے ذریعے ووٹر کی شناخت خفیہ نہیں رہے گی، اور نہ یہ بات خفیہ رہے گی کہ ووٹر نے ووٹ کس امیدوار کو دیا، اب اس کا جواب تو یہ ہونا چاہیے کہ کس طرح اس امر کا اہتمام کیا جائے گا کہ دونوں باتیں خفیہ رہ سکیں۔ اس کا یہ جواب تو نہیں بنتا کہ یہ مشین جعلی بیلٹ پیپر والوں کے لیے بری خبر ہے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن کے دوسرے اعتراضات کا بھی جواب ملنا چاہیے۔ قومی اداروں کو متنازعہ بنانے کا عمل خطرناک ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان تک اس سے محفوظ نہیں، سیاستدانوں تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ اداروں کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور یہی ذمے داری اداروں کی بھی ہے کہ وہ اپنے آئینی اور قانونی منیڈیٹ کی حد کراس نہ کریں، اسی میں آئینی اداروں کا احترام پوشیدہ ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں لیکن ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنے اور ملک میں عوام کی رائے کے مطابق حکومت قائم ہو جس پر انگلی اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔
اداروں کو ذاتی اور جماعتی مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کے بجائے حقیقی معنوں میں قومی مقاصد اور ملکی آئین کے تابع کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی نیتوں کی تطہیر کرنا ہو گی۔ الیکشن کمیشن کی ورکنگ کو محض انتخابی ذمے داری نہیں بلکہ انتظامی ذمے داری کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن میں بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل بیوروکریٹس کے ہاتھ دینا ضروری ہے کیونکہ انتخاب منعقدکرانا عدالتی نہیں انتظامی کام ہے۔ بھارت میں بھی سابق اعلیٰ افسران کو الیکشن کرانے کے لیے ذمے داری سونپی جاتی ہے اور یہی اس کے ارکان کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں الیکشن کمیشن کے پاس کلی اختیارات نہیں ہوتے، ڈپٹی کمشنر ، پولیس ، رینجرز سب حکومتی مشینری کے ماتحت ہوتے ہیں ، پولنگ اسٹیشن کے باہر جو کچھ ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار نہیںچلتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دھاندلی شکایات تواتر سے اور وسیع پیمانے پر سامنے آتی ہیں ، کیونکہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن انتظامی اختیارات سے محروم ادارہ ہے جب کہ حکومتی انتظامی ادارے طاقتور ہیں، جس پر حکومت بلاشبہ اثر انداز ہوتی ہے ، اگر واقعی ہم ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو بااختیار بنا ضروری ہے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیے کہ ایک ہی دن میں قومی اور صوبائی الیکشن کرانا ،بڑا انتظامی چیلنج ہے۔
بہتر یہ ہے کہ مرحلہ وار پولنگ کرائی جائے۔ الیکشن کمیشن کو آزادانہ کام کا موقع دے کر جمہوریت پر عوام، سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے ، بصورت دیگر آج الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کی بات ہو رہی ہے تو کل کلاں پورے نظام کو ہی بدلنے کی آوازیں بلند ہو سکتی ہیں۔
حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ ، الیکشن کمیشن کو ایک انتہائی باوقار آئینی ادارے طور پر قبول کرنے کے لیے دل بڑا کریں، اسی راستے سے الیکشن کمیشن کی توقیر بڑھ سکتی ہے اور جمہوریت کا پودا مفادات کے گملوں سے نکل کر زمین میں جڑیں پوست کرکے تناور درخت بن سکے گا۔+
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں اس کو اپنی ایک بڑی کامیابی اور جیت قرار دے رہی ہیں ، جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس سارے عمل پر تنقید اور احتجاج کررہی ہیں۔ انتخابی اصلاحات کا عمل جمہوریت کے استحکام کا باعث بنتا ہے ، لہٰذا اگر بلز کثرت رائے سے منظور ہوئے ہیں توکلی طور پر ان کی مخالفت بھی نہیں کی جاسکتی یا رد نہیں کیا جاسکتا ، البتہ قانون سازی میں جو سقم یا متنازعہ پہلو ہیں ، ان کی نشاندہی کرکے اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے ، تاکہ تنازع طول نہ پکڑے اور ملک میں جمہوریت کا عمل چلتا رہے۔
پہلے ہم اس بنیادی نقطے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا صرف الیکٹرانک ووٹ مشین کے استعمال سے پورا انتخابی عمل شفاف ہوجائے گا اور ہر ایک فرد یا سیاسی جماعت پولنگ کے عمل اور ووٹوں کی گنتی کے عمل سے مطمئن ہو جائے گی ، جیسا کہ حکومت کے وزراء بیان کررہے ہیں ۔ کیا صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال سارے انتخابی عمل کو جادوئی طور پر غیرجانبدار اور شفاف بنادے گا۔
یہ وہ سوالات ہیں جو ملک کے فہمیدہ حلقوں میں زیر بحث ہیں، بعض حلقوں کی رائے ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی،انتظامی اور تقرو تبادلوں کے مکمل اختیارات نہیں مل جاتے ، مسئلہ جوں کا توں رہے گا اور عام انتخابات کے عمل پر سوالیہ نشان لگتے جائیں گے ، اختلافات ، احتجاج کی فضا برقرار رہے گی۔
بھارت کی مثال لیجیے وہاں کا الیکشن کمیشن پوری طرح با اختیار ہے ، اور وہ مسلسل سات دہائیوں سے کامیابی اور تندہی سے انتخابات منعقد کراتا چلا آ رہا ہے ، جب کہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کے ہاتھ ، پاؤں آئینی ترمیم اور صدارتی آرڈینس کے ذریعے باندھ دیے جاتے ہیں ۔ بھلے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ایک بہتر آپشن ہو لیکن اس کے استعمال پر تمام اسٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا ضروری ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے ای وی ایم کے استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 37نکات تحریری شکل میں پارلیمانی امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں۔ بعض حلقے تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر انتخابی اصلاحات لانا چاہ رہی ہے جو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی اس کو متنازع بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل اور اس پر اعتراضات کو اگر ماہرین کی ٹیم کے سامنے رکھ کر ان کی رائے عوام کے سامنے رکھا جاتا تو کم از کم یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ تکنیکی طور پر اس کے کیا فوائد و نقصانات ہیں اور یہ کس حد تک قابل اعتماد نظام ہے۔ اس میں وہ خامیاں جس کا تذکرہ ہو رہا ہے، قابل اصلاح ہیں یا نہیں، اعتراضات درست ہیں یا غلط، اس بارے میں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے جس میں اس امر کا تعین مشکل ہے کہ کس کا موقف کس حد تک درست ہے اور کس کاکتنا غلط ہے۔
جہاں تک حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان اس حوالے سے عدم اتفاق کا معاملہ ہے، ہمارے ہاں کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اتفاق رائے سے کوئی معاملہ طے ہو ، سوائے ان معاملات کے جہاں قومی ادارے اس کی کوشش نہ کریں۔ الیکٹرانک ووٹنگ کو اگر سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے تکنیکی پہلوؤں پر بات کی جائے تو یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے ، بصورت دیگر یہ اونٹ کھڑا ہی رہے گا اور اس کی کوئی کل بھی سیدھی نظر نہیں آئے گی۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اس معاملے پر اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب واپسی ناممکن لگتی ہے جب کہ حکومت اور الیکشن کمیشن بھی مد مقابل ہیں۔ بجائے اس کے کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات کا تکنیکی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے اور حزب اختلاف کو قائل کیا جاتا، لیکن حکومت نے سادہ اکثریت سے بل منظور کرا کے اپنی من مانی کی ہے ۔
جس طرح ملکی سیاست میں تلخی بڑھتی جارہی ہے اور سیاسی اختلافات ذاتی اختلافات میں تبدیل ہو رہے ہیں، تو ایسے حالات میں متفقہ انتخابی اصلاحات لے کر آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حکومتی وزراء کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے، اس کا احسن طریقہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کا نکتہ وار جواب دے دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا، ایساکرنے سے الزام تراشی سے بچا جاسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ مشین کے ذریعے ووٹر کی شناخت خفیہ نہیں رہے گی، اور نہ یہ بات خفیہ رہے گی کہ ووٹر نے ووٹ کس امیدوار کو دیا، اب اس کا جواب تو یہ ہونا چاہیے کہ کس طرح اس امر کا اہتمام کیا جائے گا کہ دونوں باتیں خفیہ رہ سکیں۔ اس کا یہ جواب تو نہیں بنتا کہ یہ مشین جعلی بیلٹ پیپر والوں کے لیے بری خبر ہے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن کے دوسرے اعتراضات کا بھی جواب ملنا چاہیے۔ قومی اداروں کو متنازعہ بنانے کا عمل خطرناک ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان تک اس سے محفوظ نہیں، سیاستدانوں تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ اداروں کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور یہی ذمے داری اداروں کی بھی ہے کہ وہ اپنے آئینی اور قانونی منیڈیٹ کی حد کراس نہ کریں، اسی میں آئینی اداروں کا احترام پوشیدہ ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں لیکن ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنے اور ملک میں عوام کی رائے کے مطابق حکومت قائم ہو جس پر انگلی اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔
اداروں کو ذاتی اور جماعتی مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کے بجائے حقیقی معنوں میں قومی مقاصد اور ملکی آئین کے تابع کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی نیتوں کی تطہیر کرنا ہو گی۔ الیکشن کمیشن کی ورکنگ کو محض انتخابی ذمے داری نہیں بلکہ انتظامی ذمے داری کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن میں بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل بیوروکریٹس کے ہاتھ دینا ضروری ہے کیونکہ انتخاب منعقدکرانا عدالتی نہیں انتظامی کام ہے۔ بھارت میں بھی سابق اعلیٰ افسران کو الیکشن کرانے کے لیے ذمے داری سونپی جاتی ہے اور یہی اس کے ارکان کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں الیکشن کمیشن کے پاس کلی اختیارات نہیں ہوتے، ڈپٹی کمشنر ، پولیس ، رینجرز سب حکومتی مشینری کے ماتحت ہوتے ہیں ، پولنگ اسٹیشن کے باہر جو کچھ ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار نہیںچلتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دھاندلی شکایات تواتر سے اور وسیع پیمانے پر سامنے آتی ہیں ، کیونکہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن انتظامی اختیارات سے محروم ادارہ ہے جب کہ حکومتی انتظامی ادارے طاقتور ہیں، جس پر حکومت بلاشبہ اثر انداز ہوتی ہے ، اگر واقعی ہم ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو بااختیار بنا ضروری ہے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیے کہ ایک ہی دن میں قومی اور صوبائی الیکشن کرانا ،بڑا انتظامی چیلنج ہے۔
بہتر یہ ہے کہ مرحلہ وار پولنگ کرائی جائے۔ الیکشن کمیشن کو آزادانہ کام کا موقع دے کر جمہوریت پر عوام، سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے ، بصورت دیگر آج الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کی بات ہو رہی ہے تو کل کلاں پورے نظام کو ہی بدلنے کی آوازیں بلند ہو سکتی ہیں۔
حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ ، الیکشن کمیشن کو ایک انتہائی باوقار آئینی ادارے طور پر قبول کرنے کے لیے دل بڑا کریں، اسی راستے سے الیکشن کمیشن کی توقیر بڑھ سکتی ہے اور جمہوریت کا پودا مفادات کے گملوں سے نکل کر زمین میں جڑیں پوست کرکے تناور درخت بن سکے گا۔+