خدارا پنجابی زبان بچا لیں
زبان،الفاظ، الفاظ سے بنے جملوں اور مختلف صوتی اثرات سے مل کر بنتی ہے
زبان ابلاغ کا ایک بڑا اور اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ زبان،الفاظ، الفاظ سے بنے جملوں اور مختلف صوتی اثرات سے مل کر بنتی ہے۔ بعض اشارے بھی پورا مطلب لیے ہوئے ہوتے ہیں،اگر آپ ہاتھ کھڑا کر دیں تو مطلب ہے کہ رک جائیں۔اگر ہونٹوں کو انگلی سے کراس کریں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس موقعے پر چُپ رہا جائے۔ٹریفک سگنل پر کھڑے پولیس اہلکار بولتے نہیں۔ان کے اشاروں پر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف علاقوں میں کئی ایک چھوٹی بڑی ایسی آبادیاں ہیں جن کی زبان صرف اُس کیمونٹی تک محدود ہے۔
ایسے میں ان کی قومی حکومتیں اور بعض اوقات اقوامِ متحدہ اس بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ یہ زبانیں مٹ نہ جائیں۔معدومیت کے خطرے سے دوچار ان زبانوں کے بولنے والوں کو طرح طرح کی مراعات سے نوازا جاتا ہے اور ان کو اس بات پر راضی کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی کیمونٹی سے جڑے رہیں تاکہ ان کے آپسی بول چال سے ،معدومیت کے خطرے سے دوچار زبان کو زندہ رکھا جا سکے۔
پنجابی زبان برِ صغیر پاک و ہند کی ایک بڑی اور صدیوں پرانی زبان ہے۔پنجابی بولنے والے دنیا کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد کسی طرح بھی 20کروڑ سے کم نہیں ہو گی۔مشرقی پنجاب میں سکھ برادری کی مادری اور مذہبی زبان پنجابی ہے۔ پاکستان کی کُل22کروڑ آبادی کا نصف سے زیادہ پنجاب میں ہے۔یوں پاکستان میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد کم و بیش دس کروڑ تو ضرور ہے۔ پاکستان اور مشرقی پنجاب کے پنجابی بولنے والے وہ افراد جو دوسرے ملکوں میں آباد ہیں ان کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو ایسے افراد جو پنجابی بولتے ہیں یا دوسری زبانوں کے ساتھ پنجابی بھی روانی سے بول سکتے ہیں ان کی تعداد دنیا میںبیس کروڑ تو ضرورہو گی،یوں پنجابی زبان دنیا کی چند بڑی اور اہم زبانوں میں آتی ہے۔
سرکردہ پنجابی محقق بھائی جودھ سنگھ کی رائے میں پنجابی زبان ویدوں سے نکلی ہوئی ایک زبان ہے۔ پنجابی زبان میں کئی ایسے الفاظ ہیں جو سنسکرت میں نہیں پائے جاتے البتہ یہ الفاظ ویدوں میں مل جاتے ہیں۔ مشہور مغربی محقق گری زنGriesen جودھ سنگھ کی اس رائے سے متفق نظر آتا ہے۔ گری زن نے بھی کئی ایک پنجابی الفاظ کا ذکر کیا ہے جو سنسکرت میں نہیں ہیں،F.E Keay زبانوں کا بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رائے میں پنجابی زبان ایک ہزار قبل مسیح میں ڈیولپ ہونی شروع ہو گئی تھی۔
وہ یہ بھی کہتا ہے کہ پنجابی زبان اور مراٹھی زبان دونوں تقریباً ساتھ ساتھ پروان چڑھیں۔ مراٹھی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ برِ صغیر پاک و ہند کی سب سے پرانی زبانوں میں سے ایک ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجابی زبان بھی برِ صغیر کی انتہائی پرانی زبان ہے البتہ آج کے دور کی پنجابی نے آٹھویں سے گیارویں صدی عیسوی کے درمیان فروغ پایا۔خواجہ غلام فرید کا کلام 1173 سے1265 عیسوی کے درمیان لکھا گیا۔اس کلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ گرنتھ صاحب کا حصہ ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور کی پنجابی زبان پر خواجہ غلام فرید دور کی ملتانی علاقے کی زبان کا بہت اثر ہے۔
پنجابی زبان میں بیش بہا ادب کا ذخیرہ ہے۔ پنجابی نظم،نثر،گیت اور رزمیہ نظمیں ہر بڑی لائبریری کی زینت ہیں۔حضرت بلھے شاہ،حضرت میاں محمد بخش ،حضرت بابا فرید اور حضرت شاہ مادھو لال حسین اور دوسرے صوفیائے کرام کا کلام پنجابی ادب کا نہایت خوبصورت حصہ ہے۔پہلے ان صوفیا کا کلام لوگوں کو ازبر ہوتا تھا۔
پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر،قصبے اور گاؤں میں جو میلے ٹھیلے ہوتے تھے وہاں صوفیانہ کلام پیش کرنے والے فنکاروں کو ضرور مدعو کیا جاتا تھا۔کسان ہل چلاتے،فصل کاٹتے اور خواتین گھر کے کام کاج میں مصروف،کوئی نہ کوئی کلام یا پنجابی گیت اپنے لبوں سے گنگناتی رہتی تھیں۔سسی پنوں کے بہت ہی مشہور قصے کے علاوہ لاثانی محبت کے سارے قصے پنجاب کے دریاؤں کے کنارے جنم لیے ہوئے ہیں۔ پنجابی ماہیا، ڈھولا،ٹپا اور دوہڑے کا تو جواب ہی نہیں۔ پیر وارث شاہ کی ہیر اور متعدد دوسرے لاثانی ادبی شاہکار پنجابی ادب کا بیش بہا اور نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہیں۔سکھ برادری کی گرنتھ صاحب بھی پنجابی میںہے۔
انگریزوں نے پنجاب پر قابض ہوتے ہی پنجابی زبان کے ساتھ وہ کچھ کیا جو شاید برِ صغیر کی کسی دوسری زبان کے ساتھ نہیں ہوا ۔ انگریزی راج سے پہلے ہر دلہن کو جہیز میںپنجابی قاعدہ دینے کا رواج تھا۔اس کا مقصد شاید ہر عورت کو پنجابی زبان لکھنا پڑھنا سکھانا تھا تاکہ پنجابی زبان،کلچر اور وسیب اگلی نسل کو منتقل ہو سکے۔ انگریزوں نے حکم جاری کیاکہ پنجابی قاعدہ دینا بند کر دیا جائے اور پنجابی قاعدہ کسی بھی سرکاری دفتر میں جمع کروانے پر نقد انعام حاصل کیا جائے۔ لوگوں کو انگریزی چال سمجھ نہ آئی۔لوگ دھڑا دھڑ قاعدے جمع کراوا کے انعام وصول کرنے لگے۔ساتھ ہی پنجابی قاعدے کی مزید چھپائی روک دی گئی۔
یوں پنجابی زبان کے اب ج د کی سوجھ بوجھ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہونے لگی۔ پنجاب کا اپنا صدیوں پرانا بہت ہیRich کلچر تھا جس میں پنجابی زبان،لباس اور پنجابی وسیب کو بہت اہمیت حاصل تھی لیکن قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پنجاب نے پاکستان کی سالمیت اور مختلف اکائیوں میں یکجہتی کویقینی بنانے کے لیے اپنی زبان، ادب،لباس اور وسیب کو چھوڑ دیا۔پنجابی زبان تو انگریزوں کے پنجاب پر قبضے کے ساتھ ہی یتیم ہو گئی تھی، اب رہی سہی کسر پنجابیوں نے خود نکال دی۔
قیامِ پاکستان کے بعد پنجابیوں نے ماں بولی چھوڑ دی بلکہ پنجابی بولنا غیر تہذیب یافتہ ہونا ٹھہرا۔پنجابی لباس کو دیس نکالا مل گیا۔آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ کسی اسمبلی میٹنگ میں،کسی دفتر میں یا کسی بڑی میٹنگ اور تقریب میں کوئی پنجابی فخر سے پنجابی لباس پہن کر آیا ہو۔پنجابیوں نے شاید پاکستان کے لیے اپنی ماں بولی،اپنے لباس اور تاریخی وسیب کی قربانی دے دی۔
پنجابی زبان کو Existantionalخطرہ ہے۔ پنجابی قاعدہ کی عدم موجودگی میں اس زبان کے ا ب ج د Stadardizeنہیں ہو سکے۔پنجابی میں لکھنے والوں کے سامنے ابجد کی کوئی اسٹینڈرڈ فارم نہیں ہے۔زیادہ تر لکھنے والے اردو یا عربی ابجد کا سہارا لیتے ہیں۔پانی کو اردو میں پانی جب کہ پنجابی میں ن اور ی کے درمیان ڑ کا اضافہ کر کے پانڑی کہا اور بولا جاتا ہے۔
یہ سادہ ترین مثال ہے ورنہ صوتی طور پر پنجابی کے کئی ایسے الفاظ ہیں جن کو اردو یا عربی رسم الخط میں لکھنا بہت مشکل ہے اس لیے ضروری ہے کہ پنجابی قاعدہ بنایا جائے اور پنجابی ابجد کو اسٹینڈرڈ کیا جائے کہ فلاں ابجد کیسے لکھا جائے گا۔اسٹینڈرڈ ہو جانے پر سب کو معلوم ہو گاکہ الفاظ اور صوتی اثرات کو کس طرح سے لکھنا ہے۔اس وقت ایسا نہیں ہو رہا۔شکر ہے کہ پاکستان کی دوسری میجر زبانوں جیسے پشتو،سندھی،بلوچی،براہوی اور گلگتی وغیرہ کے ابجد اسٹینڈرد کر دیے گئے ہیں۔
اس لیے ان زبانوں کے بولنے والوں کو لکھنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی لیکن صدیوں بلکہ ہزاروں سال پرانی،کروڑوں کی آبادی رکھنے والی زبان مظلوم دکھائی دیتی ہے۔کتنے ہی پنجابی ایسے ہیں جو پنجابی بول تو سکتے ہیں لیکن نہ تو پنجابی لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔وہ اس لیے لکھ اور پڑھ نہیں سکتے کیونکہ اس زبان کا کوئی قاعدہ نہیں،اس کے ابجد کو Standard نہیں کیا گیا۔پنجاب کے اسکولوں میں پنجابی ابتدائی تعلیم کا حصہ نہیں۔پچھلے تیس چالیس سالوں میں صورتحال بہت بگڑ گئی ہے۔پنجابی گھروں میں بچوں کے ساتھ پنجابی زبان میں مکالمہ ختم ہو چکا ہے۔
گھروں میں یہ بچے اردو اور انگریزی بولتے ہیں۔اس لیے یہ زبان اپنے بولنے والوں کو کھو رہی ہے۔نئی نسل پنجابی سے نا آشنا ہے، اگر یہی صورتحال جاری رہی توموجودہ پنجابی نسل پنجابی بولنے والی آخری نسل ہو گی۔ اس نسل کے رخصت ہونے کے ساتھ یہ زبان پاکستان کی حد تک مر جائے گی۔ہاں گرنتھ صاحب کی وجہ سے سکھ برادری اسے زندہ رکھے گی۔میں باقی ساری پاکستانی زبانوں کے بولنے والوں کو سلام پیش کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان اور پنجاب حکومت سے درخواست گزاروں گا کہ پنجابی زبان کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کریں۔
ایسے میں ان کی قومی حکومتیں اور بعض اوقات اقوامِ متحدہ اس بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ یہ زبانیں مٹ نہ جائیں۔معدومیت کے خطرے سے دوچار ان زبانوں کے بولنے والوں کو طرح طرح کی مراعات سے نوازا جاتا ہے اور ان کو اس بات پر راضی کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی کیمونٹی سے جڑے رہیں تاکہ ان کے آپسی بول چال سے ،معدومیت کے خطرے سے دوچار زبان کو زندہ رکھا جا سکے۔
پنجابی زبان برِ صغیر پاک و ہند کی ایک بڑی اور صدیوں پرانی زبان ہے۔پنجابی بولنے والے دنیا کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد کسی طرح بھی 20کروڑ سے کم نہیں ہو گی۔مشرقی پنجاب میں سکھ برادری کی مادری اور مذہبی زبان پنجابی ہے۔ پاکستان کی کُل22کروڑ آبادی کا نصف سے زیادہ پنجاب میں ہے۔یوں پاکستان میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد کم و بیش دس کروڑ تو ضرور ہے۔ پاکستان اور مشرقی پنجاب کے پنجابی بولنے والے وہ افراد جو دوسرے ملکوں میں آباد ہیں ان کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو ایسے افراد جو پنجابی بولتے ہیں یا دوسری زبانوں کے ساتھ پنجابی بھی روانی سے بول سکتے ہیں ان کی تعداد دنیا میںبیس کروڑ تو ضرورہو گی،یوں پنجابی زبان دنیا کی چند بڑی اور اہم زبانوں میں آتی ہے۔
سرکردہ پنجابی محقق بھائی جودھ سنگھ کی رائے میں پنجابی زبان ویدوں سے نکلی ہوئی ایک زبان ہے۔ پنجابی زبان میں کئی ایسے الفاظ ہیں جو سنسکرت میں نہیں پائے جاتے البتہ یہ الفاظ ویدوں میں مل جاتے ہیں۔ مشہور مغربی محقق گری زنGriesen جودھ سنگھ کی اس رائے سے متفق نظر آتا ہے۔ گری زن نے بھی کئی ایک پنجابی الفاظ کا ذکر کیا ہے جو سنسکرت میں نہیں ہیں،F.E Keay زبانوں کا بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رائے میں پنجابی زبان ایک ہزار قبل مسیح میں ڈیولپ ہونی شروع ہو گئی تھی۔
وہ یہ بھی کہتا ہے کہ پنجابی زبان اور مراٹھی زبان دونوں تقریباً ساتھ ساتھ پروان چڑھیں۔ مراٹھی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ برِ صغیر پاک و ہند کی سب سے پرانی زبانوں میں سے ایک ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجابی زبان بھی برِ صغیر کی انتہائی پرانی زبان ہے البتہ آج کے دور کی پنجابی نے آٹھویں سے گیارویں صدی عیسوی کے درمیان فروغ پایا۔خواجہ غلام فرید کا کلام 1173 سے1265 عیسوی کے درمیان لکھا گیا۔اس کلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ گرنتھ صاحب کا حصہ ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور کی پنجابی زبان پر خواجہ غلام فرید دور کی ملتانی علاقے کی زبان کا بہت اثر ہے۔
پنجابی زبان میں بیش بہا ادب کا ذخیرہ ہے۔ پنجابی نظم،نثر،گیت اور رزمیہ نظمیں ہر بڑی لائبریری کی زینت ہیں۔حضرت بلھے شاہ،حضرت میاں محمد بخش ،حضرت بابا فرید اور حضرت شاہ مادھو لال حسین اور دوسرے صوفیائے کرام کا کلام پنجابی ادب کا نہایت خوبصورت حصہ ہے۔پہلے ان صوفیا کا کلام لوگوں کو ازبر ہوتا تھا۔
پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر،قصبے اور گاؤں میں جو میلے ٹھیلے ہوتے تھے وہاں صوفیانہ کلام پیش کرنے والے فنکاروں کو ضرور مدعو کیا جاتا تھا۔کسان ہل چلاتے،فصل کاٹتے اور خواتین گھر کے کام کاج میں مصروف،کوئی نہ کوئی کلام یا پنجابی گیت اپنے لبوں سے گنگناتی رہتی تھیں۔سسی پنوں کے بہت ہی مشہور قصے کے علاوہ لاثانی محبت کے سارے قصے پنجاب کے دریاؤں کے کنارے جنم لیے ہوئے ہیں۔ پنجابی ماہیا، ڈھولا،ٹپا اور دوہڑے کا تو جواب ہی نہیں۔ پیر وارث شاہ کی ہیر اور متعدد دوسرے لاثانی ادبی شاہکار پنجابی ادب کا بیش بہا اور نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہیں۔سکھ برادری کی گرنتھ صاحب بھی پنجابی میںہے۔
انگریزوں نے پنجاب پر قابض ہوتے ہی پنجابی زبان کے ساتھ وہ کچھ کیا جو شاید برِ صغیر کی کسی دوسری زبان کے ساتھ نہیں ہوا ۔ انگریزی راج سے پہلے ہر دلہن کو جہیز میںپنجابی قاعدہ دینے کا رواج تھا۔اس کا مقصد شاید ہر عورت کو پنجابی زبان لکھنا پڑھنا سکھانا تھا تاکہ پنجابی زبان،کلچر اور وسیب اگلی نسل کو منتقل ہو سکے۔ انگریزوں نے حکم جاری کیاکہ پنجابی قاعدہ دینا بند کر دیا جائے اور پنجابی قاعدہ کسی بھی سرکاری دفتر میں جمع کروانے پر نقد انعام حاصل کیا جائے۔ لوگوں کو انگریزی چال سمجھ نہ آئی۔لوگ دھڑا دھڑ قاعدے جمع کراوا کے انعام وصول کرنے لگے۔ساتھ ہی پنجابی قاعدے کی مزید چھپائی روک دی گئی۔
یوں پنجابی زبان کے اب ج د کی سوجھ بوجھ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہونے لگی۔ پنجاب کا اپنا صدیوں پرانا بہت ہیRich کلچر تھا جس میں پنجابی زبان،لباس اور پنجابی وسیب کو بہت اہمیت حاصل تھی لیکن قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پنجاب نے پاکستان کی سالمیت اور مختلف اکائیوں میں یکجہتی کویقینی بنانے کے لیے اپنی زبان، ادب،لباس اور وسیب کو چھوڑ دیا۔پنجابی زبان تو انگریزوں کے پنجاب پر قبضے کے ساتھ ہی یتیم ہو گئی تھی، اب رہی سہی کسر پنجابیوں نے خود نکال دی۔
قیامِ پاکستان کے بعد پنجابیوں نے ماں بولی چھوڑ دی بلکہ پنجابی بولنا غیر تہذیب یافتہ ہونا ٹھہرا۔پنجابی لباس کو دیس نکالا مل گیا۔آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ کسی اسمبلی میٹنگ میں،کسی دفتر میں یا کسی بڑی میٹنگ اور تقریب میں کوئی پنجابی فخر سے پنجابی لباس پہن کر آیا ہو۔پنجابیوں نے شاید پاکستان کے لیے اپنی ماں بولی،اپنے لباس اور تاریخی وسیب کی قربانی دے دی۔
پنجابی زبان کو Existantionalخطرہ ہے۔ پنجابی قاعدہ کی عدم موجودگی میں اس زبان کے ا ب ج د Stadardizeنہیں ہو سکے۔پنجابی میں لکھنے والوں کے سامنے ابجد کی کوئی اسٹینڈرڈ فارم نہیں ہے۔زیادہ تر لکھنے والے اردو یا عربی ابجد کا سہارا لیتے ہیں۔پانی کو اردو میں پانی جب کہ پنجابی میں ن اور ی کے درمیان ڑ کا اضافہ کر کے پانڑی کہا اور بولا جاتا ہے۔
یہ سادہ ترین مثال ہے ورنہ صوتی طور پر پنجابی کے کئی ایسے الفاظ ہیں جن کو اردو یا عربی رسم الخط میں لکھنا بہت مشکل ہے اس لیے ضروری ہے کہ پنجابی قاعدہ بنایا جائے اور پنجابی ابجد کو اسٹینڈرڈ کیا جائے کہ فلاں ابجد کیسے لکھا جائے گا۔اسٹینڈرڈ ہو جانے پر سب کو معلوم ہو گاکہ الفاظ اور صوتی اثرات کو کس طرح سے لکھنا ہے۔اس وقت ایسا نہیں ہو رہا۔شکر ہے کہ پاکستان کی دوسری میجر زبانوں جیسے پشتو،سندھی،بلوچی،براہوی اور گلگتی وغیرہ کے ابجد اسٹینڈرد کر دیے گئے ہیں۔
اس لیے ان زبانوں کے بولنے والوں کو لکھنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی لیکن صدیوں بلکہ ہزاروں سال پرانی،کروڑوں کی آبادی رکھنے والی زبان مظلوم دکھائی دیتی ہے۔کتنے ہی پنجابی ایسے ہیں جو پنجابی بول تو سکتے ہیں لیکن نہ تو پنجابی لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔وہ اس لیے لکھ اور پڑھ نہیں سکتے کیونکہ اس زبان کا کوئی قاعدہ نہیں،اس کے ابجد کو Standard نہیں کیا گیا۔پنجاب کے اسکولوں میں پنجابی ابتدائی تعلیم کا حصہ نہیں۔پچھلے تیس چالیس سالوں میں صورتحال بہت بگڑ گئی ہے۔پنجابی گھروں میں بچوں کے ساتھ پنجابی زبان میں مکالمہ ختم ہو چکا ہے۔
گھروں میں یہ بچے اردو اور انگریزی بولتے ہیں۔اس لیے یہ زبان اپنے بولنے والوں کو کھو رہی ہے۔نئی نسل پنجابی سے نا آشنا ہے، اگر یہی صورتحال جاری رہی توموجودہ پنجابی نسل پنجابی بولنے والی آخری نسل ہو گی۔ اس نسل کے رخصت ہونے کے ساتھ یہ زبان پاکستان کی حد تک مر جائے گی۔ہاں گرنتھ صاحب کی وجہ سے سکھ برادری اسے زندہ رکھے گی۔میں باقی ساری پاکستانی زبانوں کے بولنے والوں کو سلام پیش کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان اور پنجاب حکومت سے درخواست گزاروں گا کہ پنجابی زبان کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کریں۔