مہنگائی کے اسباب اور ان کا حل
عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے والی حکومت کو اب گھر جانا ہوگا
عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے والی حکومت کو اب گھر جانا ہوگا ، سوا تین سالوں میں آٹا ، چینی، بجلی ، گیس ، پیٹرول ، ڈیزل سمیت روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں ، دو وقت کی روٹی کے لالے پڑگئے ہیں ، جینا مشکل ہوچکا ہے ، یہ داد و فریاد زبان زد عام ہے جب کہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی بندشوں کے باعث عالمی سطح پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ، تاہم پاکستان اس چیلنج سے نسبتا بہتر طور پر نبرد آزما ہوا ہے۔
مہنگائی کیوں بڑھتی رہتی ہے؟ وطن عزیز پاکستان میں یہ دیرینہ سوال ہے۔ کورونا کی وباء کو ابھی بہ مشکل دو سال ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جب مسند اقتدار پر نہیں تھے ،گزشتہ 23 سال پہلے جب انھوں نے اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی تھی ، اس وقت ان کا کہنا تھا وہ اقتدار میں آکر ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کریں گے اور 2018کے عام انتخابات کے موقع پر بھی وہ عوام سے یہی وعدہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آکر ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرے گی۔
اسی طرح کے دیگر خوش کن وعدے بھی عوام سے کیے گئے جن پر عوام نے اعتبارکرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدواروں کو انتخابات میں کامیاب کرایا ، اس طرح پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے ، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کیے گئے ، ایک ایک وعدے پر یوٹرن لیتے رہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جن کو '' چور ، ڈاکو'' کہتے رہے یعنی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو آج عوام کہہ رہی ہے کہ وہ جوکچھ بھی تھے لیکن آج کی حکومت کی طرح انھوں نے عوام کے لیے ناقابل برداشت مہنگائی نہیں کی ، کم سے کم ان کی حکومتوں میں عوام جینے کے لیے سانس لیتے تھے ، اب تو سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جواز ماضی کی تمام حکومتوں نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیے ہیں لیکن حل کرنے کی کوششیں باآور ثابت نہ ہوسکی ہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے اس کی ذمے داری پیشرو حکومتوں پر ڈالی موجودہ حکومت کا وطیرہ بھی یہی ہے۔ آج کی تباہ و برباد حال معیشت کی صورت حال ہمارے سامنے ہے جو ناگفتہ بہ ہے ، جس کی کوکھ سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی اپنی انتہا پر ہے۔ پاکستانی کرنسی کی تنزلی اور ڈالرکی بڑھتی ہوئی قدر کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں آئے روز مندی رہنا معمول بن گیا ہے۔ حکومت ان مسائل کا حل بیرونی امداد میں تلاش کررہی ہے۔ ہم بحیثیت ملک آئی ایم ایف کی کڑی شرائط من وعن مانے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی نے سونامی کی صورت اختیارکر لی ہے۔ ملک میں بے چینی بڑھ چکی ہے ۔
خدانخواستہ کہیں عوامی انتشار نہ پھیل جائے ایسے میں حکمران طبقہ میڈیا میں بیان جاری کرتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کم ہے جس کے جواب میں ، سوشل میڈیا پر عوام حکمرانوں کو بددعائیں دینے کے ساتھ ساتھ نازیبا جملے بھی لکھ اور کہہ رہے ہیں ، جو افسوس ناک اور خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان مہنگائی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ملک میں عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ، بازار ویران ہوچکے ہیں۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ روزگارکے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پوری قوم معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ قوم کو ملکی و عالمی سطح پر بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ حکومت عوامی ریلیف کے نام پر قوم کا مذاق اڑا رہی ہے۔ حکومتی احساس پروگرام مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کا مستقل حل نہیں ہے۔
ملک میں غیر منظم معاشی صورت حال کے پیش نظر بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ پاکستان کو عالمی مارکیٹ کے لیے پرکشش بنانے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ عوام ملک کی بنی ہوئی اشیا خریدنے کے بجائے درآمد شدہ اشیا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ مناسب دام پر بکتی ہیں جب کہ ملکی اشیا مہنگی پڑتی ہے ، اس کی وجہ ان اشیا پر غیر ضروری ٹیکس اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جس وجہ سے زرمبادلہ باہر منتقل ہورہا ہے۔
تاجر ، دکاندار ایندھن اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی آڑ میں اپنی من مانی سے قیمتیں بڑھا رہے ہیں ، ان پر سرکاری کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ ملک میں ڈیمزکی کمی ہے ، پیداوارکم ہے ، توانائی مہنگی ہے ، 2 کروڑ ایکڑ زمین ویران پڑی ہوئی ہے ، صارفین کے پاس ناجائز منافع خوروں سے بچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے کہ عوامی طوفان سب کچھ بہہ کر لے جائے حکمرانوں کو تباہ حال معیشت کو سنجیدگی سے درست کرنا ہوگا، جس کے لیے معاشی نظام منظم کرنا ہوگا ، ملکی پیدا وار کو بڑھانا ہوگا، نئے ڈیمز بنانے ہونگے ، ملکی اشیا کو عالمی معیارکے مطابق بنانے ہونگے ، ملک میں تیار ہونے والی اشیا کی لاگت اور قیمت کم کرنا ہوگی، درآمد شدہ اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کرنا ہوگا،کوئی ایسی شے بیرون ملک سے درآمد نہیں کی جائے جو ملک میں نہ بنتی ہو ، معاشی معاملات کو معاشی طور پر حل کیا جائے نہ کہ سیاسی طور پر ان کا حل تلاش کیا جائے۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے کڑی شرائط کے بجائے ملکی مفادکو ترجیحی دی جائے۔ عالمی معیار کے مطابق عوام کو ریلیف دیا جائے ، ملک بھر میں صنعتوں کو فروغ دیا جائے ، روزگارکے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں ، مختلف حکومتی فلاحی منصوبوں کو وسعت دی جائے ، بیرون ملک سفارت کاروں کو برآمدی ہدف دیے جائیں ، مارکیٹ فورسزکی مادر پدر آزادی کوکنٹرول کیا جائے ، تھوک فروشوں ، خوردہ فروشوں کی ناجائز منافع خوری پر قابو پانا ہوگا۔
صارفین کے پاس ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے وہ موقع پر ہی ناجائز منافع خوروں کو قانون کے گرفت میں معاون ثابت ہوسکے۔ ملکی ترقی اور معیشت کی بہتری کے لیے ملکی وسائل کو جدید انداز میں بروئے کار لانا ہو گا۔ زراعت اور صنعتوں کو ترقی دینا ہو گی۔ ملکی معدنیات سے استفادہ کرنا ہوگا۔
اسٹیل مل اور بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کو منافع بخش بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور صوبائی حکومتیں بھی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں وفاقی حکومت کے اقدامات پر عمل درآمد کرانے میں اپنا کردار ادا کریں توکوئی وجہ نہیں کہ ہماری تباہ حال معیشت میں بہتری نہ آئے۔
مہنگائی کیوں بڑھتی رہتی ہے؟ وطن عزیز پاکستان میں یہ دیرینہ سوال ہے۔ کورونا کی وباء کو ابھی بہ مشکل دو سال ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جب مسند اقتدار پر نہیں تھے ،گزشتہ 23 سال پہلے جب انھوں نے اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی تھی ، اس وقت ان کا کہنا تھا وہ اقتدار میں آکر ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کریں گے اور 2018کے عام انتخابات کے موقع پر بھی وہ عوام سے یہی وعدہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آکر ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرے گی۔
اسی طرح کے دیگر خوش کن وعدے بھی عوام سے کیے گئے جن پر عوام نے اعتبارکرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدواروں کو انتخابات میں کامیاب کرایا ، اس طرح پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے ، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کیے گئے ، ایک ایک وعدے پر یوٹرن لیتے رہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جن کو '' چور ، ڈاکو'' کہتے رہے یعنی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو آج عوام کہہ رہی ہے کہ وہ جوکچھ بھی تھے لیکن آج کی حکومت کی طرح انھوں نے عوام کے لیے ناقابل برداشت مہنگائی نہیں کی ، کم سے کم ان کی حکومتوں میں عوام جینے کے لیے سانس لیتے تھے ، اب تو سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جواز ماضی کی تمام حکومتوں نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیے ہیں لیکن حل کرنے کی کوششیں باآور ثابت نہ ہوسکی ہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے اس کی ذمے داری پیشرو حکومتوں پر ڈالی موجودہ حکومت کا وطیرہ بھی یہی ہے۔ آج کی تباہ و برباد حال معیشت کی صورت حال ہمارے سامنے ہے جو ناگفتہ بہ ہے ، جس کی کوکھ سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی اپنی انتہا پر ہے۔ پاکستانی کرنسی کی تنزلی اور ڈالرکی بڑھتی ہوئی قدر کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں آئے روز مندی رہنا معمول بن گیا ہے۔ حکومت ان مسائل کا حل بیرونی امداد میں تلاش کررہی ہے۔ ہم بحیثیت ملک آئی ایم ایف کی کڑی شرائط من وعن مانے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی نے سونامی کی صورت اختیارکر لی ہے۔ ملک میں بے چینی بڑھ چکی ہے ۔
خدانخواستہ کہیں عوامی انتشار نہ پھیل جائے ایسے میں حکمران طبقہ میڈیا میں بیان جاری کرتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کم ہے جس کے جواب میں ، سوشل میڈیا پر عوام حکمرانوں کو بددعائیں دینے کے ساتھ ساتھ نازیبا جملے بھی لکھ اور کہہ رہے ہیں ، جو افسوس ناک اور خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان مہنگائی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ملک میں عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ، بازار ویران ہوچکے ہیں۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ روزگارکے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پوری قوم معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ قوم کو ملکی و عالمی سطح پر بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ حکومت عوامی ریلیف کے نام پر قوم کا مذاق اڑا رہی ہے۔ حکومتی احساس پروگرام مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کا مستقل حل نہیں ہے۔
ملک میں غیر منظم معاشی صورت حال کے پیش نظر بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ پاکستان کو عالمی مارکیٹ کے لیے پرکشش بنانے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ عوام ملک کی بنی ہوئی اشیا خریدنے کے بجائے درآمد شدہ اشیا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ مناسب دام پر بکتی ہیں جب کہ ملکی اشیا مہنگی پڑتی ہے ، اس کی وجہ ان اشیا پر غیر ضروری ٹیکس اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جس وجہ سے زرمبادلہ باہر منتقل ہورہا ہے۔
تاجر ، دکاندار ایندھن اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی آڑ میں اپنی من مانی سے قیمتیں بڑھا رہے ہیں ، ان پر سرکاری کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ ملک میں ڈیمزکی کمی ہے ، پیداوارکم ہے ، توانائی مہنگی ہے ، 2 کروڑ ایکڑ زمین ویران پڑی ہوئی ہے ، صارفین کے پاس ناجائز منافع خوروں سے بچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس سے پہلے کہ عوامی طوفان سب کچھ بہہ کر لے جائے حکمرانوں کو تباہ حال معیشت کو سنجیدگی سے درست کرنا ہوگا، جس کے لیے معاشی نظام منظم کرنا ہوگا ، ملکی پیدا وار کو بڑھانا ہوگا، نئے ڈیمز بنانے ہونگے ، ملکی اشیا کو عالمی معیارکے مطابق بنانے ہونگے ، ملک میں تیار ہونے والی اشیا کی لاگت اور قیمت کم کرنا ہوگی، درآمد شدہ اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کرنا ہوگا،کوئی ایسی شے بیرون ملک سے درآمد نہیں کی جائے جو ملک میں نہ بنتی ہو ، معاشی معاملات کو معاشی طور پر حل کیا جائے نہ کہ سیاسی طور پر ان کا حل تلاش کیا جائے۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے کڑی شرائط کے بجائے ملکی مفادکو ترجیحی دی جائے۔ عالمی معیار کے مطابق عوام کو ریلیف دیا جائے ، ملک بھر میں صنعتوں کو فروغ دیا جائے ، روزگارکے نئے مواقعے پیدا کیے جائیں ، مختلف حکومتی فلاحی منصوبوں کو وسعت دی جائے ، بیرون ملک سفارت کاروں کو برآمدی ہدف دیے جائیں ، مارکیٹ فورسزکی مادر پدر آزادی کوکنٹرول کیا جائے ، تھوک فروشوں ، خوردہ فروشوں کی ناجائز منافع خوری پر قابو پانا ہوگا۔
صارفین کے پاس ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے وہ موقع پر ہی ناجائز منافع خوروں کو قانون کے گرفت میں معاون ثابت ہوسکے۔ ملکی ترقی اور معیشت کی بہتری کے لیے ملکی وسائل کو جدید انداز میں بروئے کار لانا ہو گا۔ زراعت اور صنعتوں کو ترقی دینا ہو گی۔ ملکی معدنیات سے استفادہ کرنا ہوگا۔
اسٹیل مل اور بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کو منافع بخش بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور صوبائی حکومتیں بھی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں وفاقی حکومت کے اقدامات پر عمل درآمد کرانے میں اپنا کردار ادا کریں توکوئی وجہ نہیں کہ ہماری تباہ حال معیشت میں بہتری نہ آئے۔