پختون محبتیں
پختونوں کی رومانوی داستانیں، جن کے آثار محفوظ کرنے کی ضرورت ہے
PESHAWAR:
ان کے نام، کارنامے، قبریں، منظوم داستانیں، کہانیاں اور ان پر لکھے گئے افسانے، ڈرامے اور فلمیں آج بھی پختون معاشرے میں وجود رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پختونوں کی معاشرتی زندگی میں چاہتیں آج بھی زندہ ہیں بل کہ ان کی ضرورت آج اکیسویں صدی میں کچھ اور بھی بڑھ چکی ہے.
کیوں کہ آج پوری دنیا کی نظریں پختونوں کے خطہ زمین پر لگی ہوئی ہیں جو بھی زبان کھولتا یا قلم اٹھاتا ہے وہ پختونوں کو مذہبی انتہا پسند، بنیاد پرست، جنگجو اور دیگر طرح طرح کے منفی ناموں سے لکھتا اور پکارتا ہے، حالاں کہ تاریخی اور روایتی طور پر پختون قوم ہمیشہ محبت پرست اور انسان دوست رہی ہے۔
پختونوں کی رومانی داستانیں اور کہانیاں ان محبتوں کی امین ہیں، جن میں پیاس ہے، تڑپ ہے، جلن ہے، حسد ہے، مقابلہ ہے، للکار ہے، قومی حمیت ہے، تربورولی ہے، پختون ولی ہے، ایثار اور قربانیاں ہیں، شک اور بدگمانیاں ہیں ۔ وہ سب کچھ ہے جو عشق ومحبت کے معاملات اور کیفیات میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ پختونوں کی رومانی داستانیں اور کہانیاں خلوص، قربانی اور چاہت سے لبریز ہیں۔
اگرچہ محبت ایک عالم گیر انسانی جبلت اور جذبے کا نام ہے، لیکن پختون محبتیں وہ سب کچھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جو پختون معاشرے اور پختون نفسیات ومزاج کا ایک خاصہ ہوتی ہیں جن میں حیا، شرم، ننگ، ناموس، پت، تربورولی، طعنہ (پیغور) وطن پرستی، قبیلہ پرستی اور ان جیسی دیگر معاشرتی اقدار پختون معاشرے اور اس کی اجتماعی قومی نفسیات کا حصہ ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر مورخین اور لکھاری جب بھی اس قوم کے بارے میں قلم اٹھاتے ہیں تو یہ لکھتے نہیں تھکتے کہ یہ قوم بڑی بہادر، جنگجو، شمشیرزن، مہمان نواز، غیرت مند، اسلام پسند، وطن پرست اور انتہاپسند ہے۔
لیکن اس طرف دھیان نہیں دیا جاتا ہے کہ اس قوم میں پیار کتنا ہے اور یہ اپنے مخصوص جغرافیے، آب وہوا اور ماحول کی وجہ سے کتنی رومان پرست اور حسن پرست قوم ہے؟ یا اس کی معاشرتی زندگی اور تاریخ میں عشق ومحبت کی کتنی مضبوط اور توانا روایتیں موجود ہیں۔ اس پہلو پر جتنا لکھنے کی ضرور ت ہے یا اس پہلو کو جتنا اجاگر کرنا چاہیے تھا ہمارے مورخین اور لکھاریوں نے اس جانب وہ توجہ نہیں دی حالاںکہ یہ لوگ بھی انسان ہیں گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان۔ یہ بھی دل رکھتے ہیں، محبت کرنا اور محبت دینا جانتے ہیں اور اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ
چہ محبت ئے کڑے نہ وی
لکہ ہندو بے کلمیے لویے شوے وینہ
(جس نے محبت نہیں کی گویا وہ کلمے کے بغیر جوان ہوا ہے)
رومیو اور جیولیٹ، فرہاد وشیریں، وامق اور عذرا، لیلٰی ومجنون، ہیررانجھا، سسی پنوں اور سوہنی مہیوال کی طرح اس خطے میں بھی آدم خان درخانئی، مومن خان شیرینئی ، موسٰی خان گل مکئی، جلات اور محبوبہ ، توردل اور شہئی، شیرعالم و میمونئی، یوسف خان شیربانو، فتح خان رابیا، خادی خان بیبو، حلیم شاہ اور وزیرئی کی محبتیں گزری ہیں، لیکن دیگر اقوام کی محبتوں اور پختون محبتوں میں ایک اہم فرق ہے اور وہ ہے تاریخ کا فرق، ثبوت کا فرق اور حقیقت کا فرق ۔ لوگ رومیو اور جیولیٹ کی بات کرتے ہیں، شیرین فرہاد اورلیلیٰ مجنون کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کہانیوں کے کردار کون تھے؟
تاریخ اور لوک ورثے میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا عام زندگی میں ان کرداروں کا ماضی اور سینہ بہ سینہ متوارث چلی آنے والی مضبوط روایت، اعتقاد اور یقین موجود ہے؟ اور نہیں توکیا ان کی قبریں یا پھر کوئی اور یادگار کہیں پائی جاتی ہے؟ لیکن پختون محبتوں کے کردار جیتے جاگتے کردار تھے۔
انہوں نے اسی دنیا میں زندگی گزاری ، ہماری لوک داستانوں اور فوک شاعری وادب میں تاریخی حوالوں سے ان کا ذکر موجود ہے۔ وقت کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے کہ اس وقت کس بادشاہ کی حکم رانی تھی اور گرد وپیش کے سیاسی اور سماجی حالات کیا تھے؟ وہ علاقے اور حوالے آج بھی موجود ہیں جن میں یہ محبتیں پروان چڑھیں، انہوں نے ایک فعال متحرک زندگی گزاری۔ طرح طرح کی تکالیف و مصائب برداشت کیے اور ابدیت کا جام نوش کرکے امر ہوگئے۔ آج ہمارے پاس تاریخی ثبوت کے لیے ان کی قبریں، فوک اور کلاسیکی شاعری میں ان کا ذکر منظوم اور منثور شکل میں موجود ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان تاریخی شواہد کو وہ توجہ نہیں دی گئی ہے جیسی کوئی پست سے پست قوم اپنے رومانوں اور محبتوں کو دیتی یا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ گذشتہ سال چند افراد نے رات کی تاریکی میں خزانے کی تلاش میں آدم خان درخانئی جیسے مشہور رومانی کرداروں کی اجتماعی قبروں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اخبار میں خبر چھپی۔ ان کی ویراں قبروں کی تصویریں بھی شائع ہوئیں لیکن کسی نے بھی اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا کہ یہ اتنی گری ہوئی حرکت کس نے کی؟ کیا یہ کوئی آسمانی مخلوق تھی کہ جس کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا؟ علاقے کے لوگوں نے بھی اس واقعے پر چپ سادھ لی اور پولیس بھی ان ملزموں کو شناخت کرنے اور گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ پختونوں کے دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں نے بھی اس واقعے پر اپنا کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ بحیثیت مسلمان کسی بھی قبر کی اس طرح بے حرمتی کرنا اور پھر اس پر خاموشی اختیار کرنا کہاں کی پختون ولی اور اسلام دوستی ہے؟
اس طرح توردل اور شہئی کی قبروں کی زیارت کے لیے آپ کو اکوڑہ خٹک جانا پڑے گا اور ایک چھوٹی سی چاردیواری میں مقید توردل اور شہئی کی قبروں کو دیکھنے کے لیے پھر آپ کو ایک زنگ آلود تالا توڑنا پڑے گا۔ تالاتوڑ کر جب وہاں داخل ہوں گے تو اندر دونوں کی قبریں آپ کو نظر آجائیں گی، جن پر ایک چھوٹا ساسبز پودا اگا ہوا ہے۔ سیمنٹ کی بنی ہوئی ان سادہ قبروں کو ایک چاردیواری میں تالا لگاکر بندکیا گیا ہے، ایک ایسی جگہ پر جہاں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا کہ اس جگہ پختون محبت کے وہ دو اہم کردار ابدی نیند سورہے ہیں، جنہوں نے آنے والی نسل کو پاکیزہ اور حیادار محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا اور موت کے بعد بھی یہ دونوں اکٹھے ہیں کوئی غم نہیں، کوئی قانون، رسم ورواج نہیں، کوئی ڈر اور خوف انہیں جدا نہ کرسکے اور اصل واقعہ سے باخبر اور باعلم افراد جب ان کی قبروں کو دیکھتے ہیں تو ان کے کانوں میں آج بھی پشتو کا یہ عوامی گیت گونجنے لگتا ہے کہ:
اویارلہ غشی لیندہ اوڑینہ
شہئی روانہ دہ د اکوڑی پہ میدانونو
( شہئی اپنے محبوب کے لیے تیر اور کمان لے کر اکوڑہ خٹک کے صحراؤں میں جارہی ہے)
اس کے ساتھ توردل کے بارے میں بابائے چاربیتہ عبدالواحد ٹھیکہ دار کے چاربیتہ کا یہ مطلع بھی یاد آنے لگتا ہے کہ:
شہئی ترے د اکبرد ناوے ہارغوختے دے
''دلے'' دے پہ قلعہ کی بندیوان ناست وی
(شہئی نے اس سے اکبربادشاہ کی دلہن کا ہار مانگا ہے اس لیے توردل گرفتار ہوکر قلعہ میں قیدی کی زندگی گزار رہا ہے)
توردل شہئی کے رومان میں ان دونوں کرداروں کے درمیان جو بات چیت ہوتی ہے اس میں سے چند مکالمے پروفیسر ناصرعلی سید نے اپنے ایک لکھے ہوئے ٹیلی ڈرامے'' زندگی'' میں بھی اپنے کرداروں کے ذریعے پیش کیے ہیں، جنہیں سنتے ہی ذہن کے پردے پر توردل اور شہئی کی داستان اور کردار سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم نے جرم کیا تھا؟ کیا ہم سے کوئی بڑا گنا سرزد ہوا تھا؟ کہ تم لوگوں نے آج بھی ہمیں لوگوں کی نظروں سے چھپاکر ایک تنگ و تاریک گلی کی ایک چھوٹی سی چاردیواری میں قید کررکھا ہے؟
اس طرح یوسف خان شیربانو جیسے رومانی کرداروں کی قبروں کو دیکھنے کی غرض سے آپ جوں ہی شیوہ اڈہ سے شیرہ غونڈ کو جانے والی سڑک پر روانہ ہوں گے تو پتا چلے گا کہ سڑک کیا ہے بس پرانے کھنڈ رات کا ایک منظر ہے۔ ''کڑہ مار'' کی چوٹی پر دفن یوسف خان شیربانو کی قبروں کا حال کیا ہے؟ اتنی خوب صورت جگہ پر اور اتنے حسین قدرتی نظاروں کی آغوش میں دفن یوسف خان، شیربانو کی قبروں کو دیکھنے کے لیے جانے والوں پر کیا گزرتی ہے، وہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ہماری حکومت ہمارے سیاست داں، علاقے کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور ضلعی حکومت کسی کو بھی اس بات کا احساس اور شعور نہیں کہ اگر اس سڑک کی مرمت کی جائے اور یوسف خان شیربانو کی قبروں پر تعمیری کام کرکے وہاں ایک ایسا پارک یا گیسٹ روم بنایا جائے جہاں جانے والے لوگ ان نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوں تو اس طرح ''شیرہ غونڈ'' کے باشندوں کو بھی بہت سے مالی فوائد مل سکتے ہیں۔
صوبہ سرحد کی سرزمین پر کئی ایسی رومانوی کردار اور داستانیں موجود ہیں جن کے بارے میں یا تو سرے سے کسی کو علم نہیں یا اگر کچھ نہ کچھ معلومات ہیں بھی تو ان تک رسائی اور ان کے علاقوں کے حدود اربعہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہماری حکومت ان علاقوں کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔
دیگر اقوام اور علاقوں میں اس طرح تاریخی اور رومانوی یادگاروں کو خوب صورت بنانے اور انہیں محفوظ کرنے کے لیے عام لوگوں کے علاوہ حکومتی ادارے بھی دل چسپی لیتے ہیں۔ ان یادگاروں کے ساتھ پارکس اور گیسٹ روم بنائے جاتے ہیں تاکہ یہاں آنے والے لوگوں کو سہولت بھی رہے اور ملکی خزانے میں کچھ اضافہ بھی ہوسکے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنے ماضی اور اپنی تاریخ کے اس قیمتی ورثے سے چشم پوشی کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ اپنے ماضی کو پس پشت ڈالتے ہیں مستقبل میں ان کا اپنا نام ہی صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔
بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم لوگ اس ورثے کی حفاظت کرنا نہیں جانتے۔ ورنہ ان یادگاروں کو محفوظ کرکے اسے تاریخی مقام دلایاجا سکتا ہے جو نہ صرف ملک کے سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز ہوگا بل کہ غیرملکی سیاح بھی اس جانب امڈ آنا شروع ہوجائیں گے۔ ایسی جگہیں ہماری نئی نسلوں کے لیے بھی ایک قابل قدر سرمایہ ثابت ہوں گی۔ مگر حکومت ان منصوبوں کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کرتی۔ جو تاریخی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک کو دیکھیں تو وہ لوگ اپنی ثقافت اور تہذیب کو محفوظ کرکے اس سے جو فوائد حاصل کررہے ہیں اس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
ملک کے دیگر صوبوں کو چھوڑ کر صرف صوبہ سرحد میں ہمارے پاس یوسف خان شیربانو، آدم خان درخانئی، توردل شہئی ، فتح خان رابیا، مومن خان شیرینئی، شیرعالم میمونئی، حلیم شاہ وزیرئی وغیرہ ایسے ان گنت رومانوی نام اور ان کی یادگاریں پائی جاتی ہیں جن سے ہمارے اندر عشق اور محبت کا ایک عالم گیر جذبہ اور احساس پیدا ہوسکتا ہے اگر ان داستانوں کو زندہ رکھنا ہے تو ان علاقوں کو ترقی دے کر انہیں ملک کے اندر اور غیرملکی سیاحت میں متعارف کرانے کی ضرور ت ہے۔
پختون قوم کی بھی کیا کہیے جب تک خود ان کے بارے میں ان کی تاریخ بولنے نہ لگے یہ اپنی تاریخ سے ناآشنا رہتے ہیں جب تک ان کی دفن کردہ محبتیں چیخ چیخ کر ان کو یہ نہ بتائیں کہ آج دنیا کو ضرورت ہے، ان کی محبتوں کی، ان کی چاہتوں کی، یہ قوم چپ ہی رہے گی۔ شاید یہ اس کو بھی ایک طعنہ سمجھیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پختون محبتیں کل بھی زندہ تھیں آج بھی زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گی۔
دنیا یہ بات مانتی ہے، تاریخ اس امر پر شاہد ہے، روایات اور شعروادب اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ پھر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اگر محبت کی زبان آزمائی جائے تو پختون دوزخ جانے کے لیے بھی تیار ہیں، جب کہ زور زبردستی سے انہیں کوئی جنت میں بھی نہیں لے جاسکتا۔ اس لیے آج اگر کوئی بڑی سیاسی طاقت جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی لانے میں سنجیدہ ہے تو اس قوم سے محبت کی زبان میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی کی پختون محبتوں کی یادگاروں، مزاروں کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، ان محبت بھری داستانوں اور کرداروں کو دنیا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے پوری پختون قوم کو دنیا بھر میں دہشت گرد، انتہاپسند، بنیاد پرست اور جنگجو قوم کی شکل میں پیش کرنا ہٹ دھرمی اور پوری پختون قوم کے خلاف ایک عالمی سازش کا حصہ ہے جس کے نتائج انتہائی خطرناک نکل سکتے ہیں، جس کے اثرات سے ایشیا کا کوئی بھی خطہ اور قوم محفوظ نہیں رہ سکتی۔
تاریخ گواہ ہے پختونوں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی اس بات کی عملی تصویر ہے کہ یہ قوم ہر کسی سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ یہ لوگ سب سے بڑھ کر لبرل اور روشن خیال ہیں اور اس قوم کا بچہ بچہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ
ہم پہ تخریب کا الزام لگانے والو
ہم ہیں اس شہر کے معمار خبر ہے کہ نہیں!
ان کے نام، کارنامے، قبریں، منظوم داستانیں، کہانیاں اور ان پر لکھے گئے افسانے، ڈرامے اور فلمیں آج بھی پختون معاشرے میں وجود رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پختونوں کی معاشرتی زندگی میں چاہتیں آج بھی زندہ ہیں بل کہ ان کی ضرورت آج اکیسویں صدی میں کچھ اور بھی بڑھ چکی ہے.
کیوں کہ آج پوری دنیا کی نظریں پختونوں کے خطہ زمین پر لگی ہوئی ہیں جو بھی زبان کھولتا یا قلم اٹھاتا ہے وہ پختونوں کو مذہبی انتہا پسند، بنیاد پرست، جنگجو اور دیگر طرح طرح کے منفی ناموں سے لکھتا اور پکارتا ہے، حالاں کہ تاریخی اور روایتی طور پر پختون قوم ہمیشہ محبت پرست اور انسان دوست رہی ہے۔
پختونوں کی رومانی داستانیں اور کہانیاں ان محبتوں کی امین ہیں، جن میں پیاس ہے، تڑپ ہے، جلن ہے، حسد ہے، مقابلہ ہے، للکار ہے، قومی حمیت ہے، تربورولی ہے، پختون ولی ہے، ایثار اور قربانیاں ہیں، شک اور بدگمانیاں ہیں ۔ وہ سب کچھ ہے جو عشق ومحبت کے معاملات اور کیفیات میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ پختونوں کی رومانی داستانیں اور کہانیاں خلوص، قربانی اور چاہت سے لبریز ہیں۔
اگرچہ محبت ایک عالم گیر انسانی جبلت اور جذبے کا نام ہے، لیکن پختون محبتیں وہ سب کچھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جو پختون معاشرے اور پختون نفسیات ومزاج کا ایک خاصہ ہوتی ہیں جن میں حیا، شرم، ننگ، ناموس، پت، تربورولی، طعنہ (پیغور) وطن پرستی، قبیلہ پرستی اور ان جیسی دیگر معاشرتی اقدار پختون معاشرے اور اس کی اجتماعی قومی نفسیات کا حصہ ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر مورخین اور لکھاری جب بھی اس قوم کے بارے میں قلم اٹھاتے ہیں تو یہ لکھتے نہیں تھکتے کہ یہ قوم بڑی بہادر، جنگجو، شمشیرزن، مہمان نواز، غیرت مند، اسلام پسند، وطن پرست اور انتہاپسند ہے۔
لیکن اس طرف دھیان نہیں دیا جاتا ہے کہ اس قوم میں پیار کتنا ہے اور یہ اپنے مخصوص جغرافیے، آب وہوا اور ماحول کی وجہ سے کتنی رومان پرست اور حسن پرست قوم ہے؟ یا اس کی معاشرتی زندگی اور تاریخ میں عشق ومحبت کی کتنی مضبوط اور توانا روایتیں موجود ہیں۔ اس پہلو پر جتنا لکھنے کی ضرور ت ہے یا اس پہلو کو جتنا اجاگر کرنا چاہیے تھا ہمارے مورخین اور لکھاریوں نے اس جانب وہ توجہ نہیں دی حالاںکہ یہ لوگ بھی انسان ہیں گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان۔ یہ بھی دل رکھتے ہیں، محبت کرنا اور محبت دینا جانتے ہیں اور اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ
چہ محبت ئے کڑے نہ وی
لکہ ہندو بے کلمیے لویے شوے وینہ
(جس نے محبت نہیں کی گویا وہ کلمے کے بغیر جوان ہوا ہے)
رومیو اور جیولیٹ، فرہاد وشیریں، وامق اور عذرا، لیلٰی ومجنون، ہیررانجھا، سسی پنوں اور سوہنی مہیوال کی طرح اس خطے میں بھی آدم خان درخانئی، مومن خان شیرینئی ، موسٰی خان گل مکئی، جلات اور محبوبہ ، توردل اور شہئی، شیرعالم و میمونئی، یوسف خان شیربانو، فتح خان رابیا، خادی خان بیبو، حلیم شاہ اور وزیرئی کی محبتیں گزری ہیں، لیکن دیگر اقوام کی محبتوں اور پختون محبتوں میں ایک اہم فرق ہے اور وہ ہے تاریخ کا فرق، ثبوت کا فرق اور حقیقت کا فرق ۔ لوگ رومیو اور جیولیٹ کی بات کرتے ہیں، شیرین فرہاد اورلیلیٰ مجنون کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کہانیوں کے کردار کون تھے؟
تاریخ اور لوک ورثے میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا عام زندگی میں ان کرداروں کا ماضی اور سینہ بہ سینہ متوارث چلی آنے والی مضبوط روایت، اعتقاد اور یقین موجود ہے؟ اور نہیں توکیا ان کی قبریں یا پھر کوئی اور یادگار کہیں پائی جاتی ہے؟ لیکن پختون محبتوں کے کردار جیتے جاگتے کردار تھے۔
انہوں نے اسی دنیا میں زندگی گزاری ، ہماری لوک داستانوں اور فوک شاعری وادب میں تاریخی حوالوں سے ان کا ذکر موجود ہے۔ وقت کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے کہ اس وقت کس بادشاہ کی حکم رانی تھی اور گرد وپیش کے سیاسی اور سماجی حالات کیا تھے؟ وہ علاقے اور حوالے آج بھی موجود ہیں جن میں یہ محبتیں پروان چڑھیں، انہوں نے ایک فعال متحرک زندگی گزاری۔ طرح طرح کی تکالیف و مصائب برداشت کیے اور ابدیت کا جام نوش کرکے امر ہوگئے۔ آج ہمارے پاس تاریخی ثبوت کے لیے ان کی قبریں، فوک اور کلاسیکی شاعری میں ان کا ذکر منظوم اور منثور شکل میں موجود ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان تاریخی شواہد کو وہ توجہ نہیں دی گئی ہے جیسی کوئی پست سے پست قوم اپنے رومانوں اور محبتوں کو دیتی یا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ گذشتہ سال چند افراد نے رات کی تاریکی میں خزانے کی تلاش میں آدم خان درخانئی جیسے مشہور رومانی کرداروں کی اجتماعی قبروں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اخبار میں خبر چھپی۔ ان کی ویراں قبروں کی تصویریں بھی شائع ہوئیں لیکن کسی نے بھی اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا کہ یہ اتنی گری ہوئی حرکت کس نے کی؟ کیا یہ کوئی آسمانی مخلوق تھی کہ جس کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا؟ علاقے کے لوگوں نے بھی اس واقعے پر چپ سادھ لی اور پولیس بھی ان ملزموں کو شناخت کرنے اور گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ پختونوں کے دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں نے بھی اس واقعے پر اپنا کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ بحیثیت مسلمان کسی بھی قبر کی اس طرح بے حرمتی کرنا اور پھر اس پر خاموشی اختیار کرنا کہاں کی پختون ولی اور اسلام دوستی ہے؟
اس طرح توردل اور شہئی کی قبروں کی زیارت کے لیے آپ کو اکوڑہ خٹک جانا پڑے گا اور ایک چھوٹی سی چاردیواری میں مقید توردل اور شہئی کی قبروں کو دیکھنے کے لیے پھر آپ کو ایک زنگ آلود تالا توڑنا پڑے گا۔ تالاتوڑ کر جب وہاں داخل ہوں گے تو اندر دونوں کی قبریں آپ کو نظر آجائیں گی، جن پر ایک چھوٹا ساسبز پودا اگا ہوا ہے۔ سیمنٹ کی بنی ہوئی ان سادہ قبروں کو ایک چاردیواری میں تالا لگاکر بندکیا گیا ہے، ایک ایسی جگہ پر جہاں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا کہ اس جگہ پختون محبت کے وہ دو اہم کردار ابدی نیند سورہے ہیں، جنہوں نے آنے والی نسل کو پاکیزہ اور حیادار محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا اور موت کے بعد بھی یہ دونوں اکٹھے ہیں کوئی غم نہیں، کوئی قانون، رسم ورواج نہیں، کوئی ڈر اور خوف انہیں جدا نہ کرسکے اور اصل واقعہ سے باخبر اور باعلم افراد جب ان کی قبروں کو دیکھتے ہیں تو ان کے کانوں میں آج بھی پشتو کا یہ عوامی گیت گونجنے لگتا ہے کہ:
اویارلہ غشی لیندہ اوڑینہ
شہئی روانہ دہ د اکوڑی پہ میدانونو
( شہئی اپنے محبوب کے لیے تیر اور کمان لے کر اکوڑہ خٹک کے صحراؤں میں جارہی ہے)
اس کے ساتھ توردل کے بارے میں بابائے چاربیتہ عبدالواحد ٹھیکہ دار کے چاربیتہ کا یہ مطلع بھی یاد آنے لگتا ہے کہ:
شہئی ترے د اکبرد ناوے ہارغوختے دے
''دلے'' دے پہ قلعہ کی بندیوان ناست وی
(شہئی نے اس سے اکبربادشاہ کی دلہن کا ہار مانگا ہے اس لیے توردل گرفتار ہوکر قلعہ میں قیدی کی زندگی گزار رہا ہے)
توردل شہئی کے رومان میں ان دونوں کرداروں کے درمیان جو بات چیت ہوتی ہے اس میں سے چند مکالمے پروفیسر ناصرعلی سید نے اپنے ایک لکھے ہوئے ٹیلی ڈرامے'' زندگی'' میں بھی اپنے کرداروں کے ذریعے پیش کیے ہیں، جنہیں سنتے ہی ذہن کے پردے پر توردل اور شہئی کی داستان اور کردار سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم نے جرم کیا تھا؟ کیا ہم سے کوئی بڑا گنا سرزد ہوا تھا؟ کہ تم لوگوں نے آج بھی ہمیں لوگوں کی نظروں سے چھپاکر ایک تنگ و تاریک گلی کی ایک چھوٹی سی چاردیواری میں قید کررکھا ہے؟
اس طرح یوسف خان شیربانو جیسے رومانی کرداروں کی قبروں کو دیکھنے کی غرض سے آپ جوں ہی شیوہ اڈہ سے شیرہ غونڈ کو جانے والی سڑک پر روانہ ہوں گے تو پتا چلے گا کہ سڑک کیا ہے بس پرانے کھنڈ رات کا ایک منظر ہے۔ ''کڑہ مار'' کی چوٹی پر دفن یوسف خان شیربانو کی قبروں کا حال کیا ہے؟ اتنی خوب صورت جگہ پر اور اتنے حسین قدرتی نظاروں کی آغوش میں دفن یوسف خان، شیربانو کی قبروں کو دیکھنے کے لیے جانے والوں پر کیا گزرتی ہے، وہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ہماری حکومت ہمارے سیاست داں، علاقے کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور ضلعی حکومت کسی کو بھی اس بات کا احساس اور شعور نہیں کہ اگر اس سڑک کی مرمت کی جائے اور یوسف خان شیربانو کی قبروں پر تعمیری کام کرکے وہاں ایک ایسا پارک یا گیسٹ روم بنایا جائے جہاں جانے والے لوگ ان نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوں تو اس طرح ''شیرہ غونڈ'' کے باشندوں کو بھی بہت سے مالی فوائد مل سکتے ہیں۔
صوبہ سرحد کی سرزمین پر کئی ایسی رومانوی کردار اور داستانیں موجود ہیں جن کے بارے میں یا تو سرے سے کسی کو علم نہیں یا اگر کچھ نہ کچھ معلومات ہیں بھی تو ان تک رسائی اور ان کے علاقوں کے حدود اربعہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہماری حکومت ان علاقوں کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔
دیگر اقوام اور علاقوں میں اس طرح تاریخی اور رومانوی یادگاروں کو خوب صورت بنانے اور انہیں محفوظ کرنے کے لیے عام لوگوں کے علاوہ حکومتی ادارے بھی دل چسپی لیتے ہیں۔ ان یادگاروں کے ساتھ پارکس اور گیسٹ روم بنائے جاتے ہیں تاکہ یہاں آنے والے لوگوں کو سہولت بھی رہے اور ملکی خزانے میں کچھ اضافہ بھی ہوسکے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنے ماضی اور اپنی تاریخ کے اس قیمتی ورثے سے چشم پوشی کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ اپنے ماضی کو پس پشت ڈالتے ہیں مستقبل میں ان کا اپنا نام ہی صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔
بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم لوگ اس ورثے کی حفاظت کرنا نہیں جانتے۔ ورنہ ان یادگاروں کو محفوظ کرکے اسے تاریخی مقام دلایاجا سکتا ہے جو نہ صرف ملک کے سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز ہوگا بل کہ غیرملکی سیاح بھی اس جانب امڈ آنا شروع ہوجائیں گے۔ ایسی جگہیں ہماری نئی نسلوں کے لیے بھی ایک قابل قدر سرمایہ ثابت ہوں گی۔ مگر حکومت ان منصوبوں کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کرتی۔ جو تاریخی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اگر ہم اپنے پڑوسی ممالک کو دیکھیں تو وہ لوگ اپنی ثقافت اور تہذیب کو محفوظ کرکے اس سے جو فوائد حاصل کررہے ہیں اس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
ملک کے دیگر صوبوں کو چھوڑ کر صرف صوبہ سرحد میں ہمارے پاس یوسف خان شیربانو، آدم خان درخانئی، توردل شہئی ، فتح خان رابیا، مومن خان شیرینئی، شیرعالم میمونئی، حلیم شاہ وزیرئی وغیرہ ایسے ان گنت رومانوی نام اور ان کی یادگاریں پائی جاتی ہیں جن سے ہمارے اندر عشق اور محبت کا ایک عالم گیر جذبہ اور احساس پیدا ہوسکتا ہے اگر ان داستانوں کو زندہ رکھنا ہے تو ان علاقوں کو ترقی دے کر انہیں ملک کے اندر اور غیرملکی سیاحت میں متعارف کرانے کی ضرور ت ہے۔
پختون قوم کی بھی کیا کہیے جب تک خود ان کے بارے میں ان کی تاریخ بولنے نہ لگے یہ اپنی تاریخ سے ناآشنا رہتے ہیں جب تک ان کی دفن کردہ محبتیں چیخ چیخ کر ان کو یہ نہ بتائیں کہ آج دنیا کو ضرورت ہے، ان کی محبتوں کی، ان کی چاہتوں کی، یہ قوم چپ ہی رہے گی۔ شاید یہ اس کو بھی ایک طعنہ سمجھیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پختون محبتیں کل بھی زندہ تھیں آج بھی زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گی۔
دنیا یہ بات مانتی ہے، تاریخ اس امر پر شاہد ہے، روایات اور شعروادب اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ پھر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اگر محبت کی زبان آزمائی جائے تو پختون دوزخ جانے کے لیے بھی تیار ہیں، جب کہ زور زبردستی سے انہیں کوئی جنت میں بھی نہیں لے جاسکتا۔ اس لیے آج اگر کوئی بڑی سیاسی طاقت جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی لانے میں سنجیدہ ہے تو اس قوم سے محبت کی زبان میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی کی پختون محبتوں کی یادگاروں، مزاروں کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، ان محبت بھری داستانوں اور کرداروں کو دنیا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے پوری پختون قوم کو دنیا بھر میں دہشت گرد، انتہاپسند، بنیاد پرست اور جنگجو قوم کی شکل میں پیش کرنا ہٹ دھرمی اور پوری پختون قوم کے خلاف ایک عالمی سازش کا حصہ ہے جس کے نتائج انتہائی خطرناک نکل سکتے ہیں، جس کے اثرات سے ایشیا کا کوئی بھی خطہ اور قوم محفوظ نہیں رہ سکتی۔
تاریخ گواہ ہے پختونوں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی اس بات کی عملی تصویر ہے کہ یہ قوم ہر کسی سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ یہ لوگ سب سے بڑھ کر لبرل اور روشن خیال ہیں اور اس قوم کا بچہ بچہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ
ہم پہ تخریب کا الزام لگانے والو
ہم ہیں اس شہر کے معمار خبر ہے کہ نہیں!