ایک فطین کی ان سُنی کہانی
دنیا بھر کے مؤرخین اسے تزک و احترام کے ساتھ اب بھی آفاقی فطین مانتے ہیں
وہ جس دور میں پیدا ہوا تھا، اس زمانے کے یورپ میں بیداری اور نشاۃ الثانیہ کی لہر چل پڑی تھی۔ اس سے قبل جیسا کہ تاریخ بیان کرتی ہے، یورپ تاریک شب سے گزررہا تھا۔ چرچ کے آگے کسی کی عقلی دلیل نہ چلتی تھی۔ لوگوں کی ذہنیت کا یہ حال تھا کہ ذرا ذرا سی بات پر فال نکلوایا کرتے تھے۔ عقل و منطق کی بات کرنے پر سخت سزائیں تجویز کی جاتی تھیں ، جن میں اذیت ناک موت بھی شامل تھی۔ اگر کسی جگہ کوئی شخص کسی وبا سے بیمار ہوتا ، یہ بیماری دوسروں میں پھیلتی تو اس پہلے مریض کو نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب یورپ تاریکی سے تابانی کی جانب بڑھ رہا تھا اور اسی تاریخی سنگم پر اس نے جنم لیا تھا۔
دنیا بھر کے مؤرخین اسے تزک و احترام کے ساتھ اب بھی آفاقی فطین (جینیئس) مانتے ہیں اور اسے یورپی علمی تحریک کا ایک روشن ستون تصور کرتے ہیں۔ اس نے اپنی نوٹ بک اور مسودات میں جن انقلابی ایجادات کی تفصیلات لکھیں، انہیں دیکھ کر عقل آج بھی دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ انسانی اعضا کی ترکیب پر گھنٹوں غوروفکر کرتا رہتا تھا۔ اسے یہ کمال بھی حاصل تھا کہ وہ بہ یک وقت ایک ہاتھ سلکھتا اور دوسرے ہاتھ سے کوئی مجسمہ یا نقشہ بناسکتا تھا۔ اسے عکسی تحریر پر کمال حاصل تھا۔ جب وہ ان مشاغل سے اکتا جاتا تو مصوری کی غرض سے ایزل اٹھالیتا تھا، ایزل سے رنگوں کے چھینٹے اڑتے اور کینوس پر بکھرتے، اور تخیل کی راہ سے گزرتے ہوئے آرٹ کے عظیم فن پارے وجود میں آتے۔
اسے علمِ ریاضی پر عبور حاصل تھا۔ اس کی نوٹ بکس موجی میکانیات سمیت سائنس کے کئی رازوں سے بھری ہوئی تھیں۔ شاید وہ پہلا شخص تھا جس نے پرواز کے اصول دریافت کئے اور ہیلی کاپٹر کا دھندلا سا تصور بھی دیا۔ اس نے بذاتِ خود پہلے انسانی جسموں کی چیڑپھاڑ کی اور وہ خاکے بنائے جو طویل عرصے تک مسیحاؤں کے لیے خضرِ راہ کا کام کرتے رہے۔ اسے نقشہ سازی اور مصوری کا جنون تھا، اس کے بوڑھے ہاتھ سنگی مجسموں میں حقیقت کی روح پھونکتے تھے۔ لیکن اسے شاعری کا اعلیٰ ذوق بھی تھا۔
1452 میں اس نے اٹلی کے ایک پسماندہ ترین دیہات میں آنکھ کھولی۔ والدین کاشتکاری کرتے تھے اور وہ بیج بوتا تھا۔ تاہم اس کے بچپن اور لڑکپن کے آثار نہیں ملتے جو بتاسکیں کہ اس کا ذہنی ارتقا کن مراحل سے گزرا؟
البتہ اس نے جوانی میں وینس اور میلان جیسے بڑے شہروں کا سفر کیا تھا اور شاید وہیں اس کی فطانت کی گرہیں کھلیں اور وہ نابغہ روزگار کے سفر پر روانہ ہوا۔ یورپی بیداری اور روایت پسندی کی کشاکش میں اس نے خود کو منوایا۔ لوگوں نے استاد کہہ کراس کے پیرچھوئےاور بے پناہ عزت دی۔ ایک دن اسے میلان کے شاہی محل میں بلایا گیا تو منادی نے اس کے تعارف بطور، شاعر، مصور، سنگتراش، موجد، فلسفی،سرجن، ریاضی داں اور موسیقار کی حیثیت سے کرایا۔ شاہی خاندان نے اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور کئی اعلیٰ ترین عمارتیں بنائیں جو شاہکار کہلائیں۔ اب اس کا نام ہی اس کی وجہ شہرت بن چکا تھا۔
اگرچہ وہ تجرباتی موجد نہ تھا لیکن اپنے وقت سے آگے نکلنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے ایسی کئی ایجادات کی پیشگوئی کی جن کا تصور اس وقت محال تھا۔ اس کی نوٹ بکس اور کتابوں میں،ہیلی کاپٹر، پن چکی، آبدوز،خودکار ریل، چپونما پہیوں پر مشتمل خودکار کشتی، مشین گن اور دیگر خودکار آلات کی تفصیل، نقشے اور خاکے موجود ہیں۔ جراحی کے میدان میں اسے درجہ کمال حاصل تھے اور اس نے بالخصوص رحمِ مادر اور بچے کی پیدائش پر جو طبی خاکے بنائے وہ آج بھی حیران کئے دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مؤرخین اب تک اس کی تحریروں سے نظرنہیں ہٹاسکے، مقالے شائع ہورہے ہیں اور اس کی فطانت کی گرہیں کھل رہی ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی شخصیت کو بطور مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ایجادات کو قابلِ عمل بنانے پر بھی کام جاری ہے۔
اگرچہ اس کے مصوری کے فن پارے کچھ زیادہ نہیں لیکن اس کا ایک ہی کام اس کا تعارف ہے اور وہ ہے 'مونا لیزا' جسے 1503 میں بنایا گیا تھا۔
عمر کے آخری حصے میں اس کا دایاں ہاتھ بالکل مفلوج ہوچکا تھا۔ مؤرخین اس کی وجہ فالج بتاتے ہیں۔ لیکن اس بیماری نے اسے غمگین بنادیا تھا اور وہ ہمہ وقت اداس رہتا تھا۔ وہ اکثر وقت روتا رہتا تھا اور اتنا روتا تھا ہچکیاں بندھ جاتیں اوراس کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی تھی۔
کسی نے اس سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو، تو اس نے جواب دیا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو چھونا چاہتا ہوں۔ لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور انسانی عہد کا عظیم انسان ، لیونارڈو ڈاونسی دو مئی 1519 کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دنیا بھر کے مؤرخین اسے تزک و احترام کے ساتھ اب بھی آفاقی فطین (جینیئس) مانتے ہیں اور اسے یورپی علمی تحریک کا ایک روشن ستون تصور کرتے ہیں۔ اس نے اپنی نوٹ بک اور مسودات میں جن انقلابی ایجادات کی تفصیلات لکھیں، انہیں دیکھ کر عقل آج بھی دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ انسانی اعضا کی ترکیب پر گھنٹوں غوروفکر کرتا رہتا تھا۔ اسے یہ کمال بھی حاصل تھا کہ وہ بہ یک وقت ایک ہاتھ سلکھتا اور دوسرے ہاتھ سے کوئی مجسمہ یا نقشہ بناسکتا تھا۔ اسے عکسی تحریر پر کمال حاصل تھا۔ جب وہ ان مشاغل سے اکتا جاتا تو مصوری کی غرض سے ایزل اٹھالیتا تھا، ایزل سے رنگوں کے چھینٹے اڑتے اور کینوس پر بکھرتے، اور تخیل کی راہ سے گزرتے ہوئے آرٹ کے عظیم فن پارے وجود میں آتے۔
اسے علمِ ریاضی پر عبور حاصل تھا۔ اس کی نوٹ بکس موجی میکانیات سمیت سائنس کے کئی رازوں سے بھری ہوئی تھیں۔ شاید وہ پہلا شخص تھا جس نے پرواز کے اصول دریافت کئے اور ہیلی کاپٹر کا دھندلا سا تصور بھی دیا۔ اس نے بذاتِ خود پہلے انسانی جسموں کی چیڑپھاڑ کی اور وہ خاکے بنائے جو طویل عرصے تک مسیحاؤں کے لیے خضرِ راہ کا کام کرتے رہے۔ اسے نقشہ سازی اور مصوری کا جنون تھا، اس کے بوڑھے ہاتھ سنگی مجسموں میں حقیقت کی روح پھونکتے تھے۔ لیکن اسے شاعری کا اعلیٰ ذوق بھی تھا۔
1452 میں اس نے اٹلی کے ایک پسماندہ ترین دیہات میں آنکھ کھولی۔ والدین کاشتکاری کرتے تھے اور وہ بیج بوتا تھا۔ تاہم اس کے بچپن اور لڑکپن کے آثار نہیں ملتے جو بتاسکیں کہ اس کا ذہنی ارتقا کن مراحل سے گزرا؟
البتہ اس نے جوانی میں وینس اور میلان جیسے بڑے شہروں کا سفر کیا تھا اور شاید وہیں اس کی فطانت کی گرہیں کھلیں اور وہ نابغہ روزگار کے سفر پر روانہ ہوا۔ یورپی بیداری اور روایت پسندی کی کشاکش میں اس نے خود کو منوایا۔ لوگوں نے استاد کہہ کراس کے پیرچھوئےاور بے پناہ عزت دی۔ ایک دن اسے میلان کے شاہی محل میں بلایا گیا تو منادی نے اس کے تعارف بطور، شاعر، مصور، سنگتراش، موجد، فلسفی،سرجن، ریاضی داں اور موسیقار کی حیثیت سے کرایا۔ شاہی خاندان نے اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور کئی اعلیٰ ترین عمارتیں بنائیں جو شاہکار کہلائیں۔ اب اس کا نام ہی اس کی وجہ شہرت بن چکا تھا۔
اگرچہ وہ تجرباتی موجد نہ تھا لیکن اپنے وقت سے آگے نکلنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے ایسی کئی ایجادات کی پیشگوئی کی جن کا تصور اس وقت محال تھا۔ اس کی نوٹ بکس اور کتابوں میں،ہیلی کاپٹر، پن چکی، آبدوز،خودکار ریل، چپونما پہیوں پر مشتمل خودکار کشتی، مشین گن اور دیگر خودکار آلات کی تفصیل، نقشے اور خاکے موجود ہیں۔ جراحی کے میدان میں اسے درجہ کمال حاصل تھے اور اس نے بالخصوص رحمِ مادر اور بچے کی پیدائش پر جو طبی خاکے بنائے وہ آج بھی حیران کئے دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مؤرخین اب تک اس کی تحریروں سے نظرنہیں ہٹاسکے، مقالے شائع ہورہے ہیں اور اس کی فطانت کی گرہیں کھل رہی ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی شخصیت کو بطور مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ایجادات کو قابلِ عمل بنانے پر بھی کام جاری ہے۔
اگرچہ اس کے مصوری کے فن پارے کچھ زیادہ نہیں لیکن اس کا ایک ہی کام اس کا تعارف ہے اور وہ ہے 'مونا لیزا' جسے 1503 میں بنایا گیا تھا۔
عمر کے آخری حصے میں اس کا دایاں ہاتھ بالکل مفلوج ہوچکا تھا۔ مؤرخین اس کی وجہ فالج بتاتے ہیں۔ لیکن اس بیماری نے اسے غمگین بنادیا تھا اور وہ ہمہ وقت اداس رہتا تھا۔ وہ اکثر وقت روتا رہتا تھا اور اتنا روتا تھا ہچکیاں بندھ جاتیں اوراس کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی تھی۔
کسی نے اس سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو، تو اس نے جواب دیا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو چھونا چاہتا ہوں۔ لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور انسانی عہد کا عظیم انسان ، لیونارڈو ڈاونسی دو مئی 1519 کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔