گرین شرٹس مشکل کنڈیشنز کے امتحان میں سرخرو
بابر اعظم کی قیادت میں فتوحات کا سفر جاری
KARACHI:
پاکستان کے ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان ہوا تو متوازن کمبی نیشن بنتا نظر نہیں آرہا تھا۔
نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کے بعد چند تبدیلیوں سے کپتان بابر اعظم کیلیے پلیئنگ الیون کے حوالے سے فیصلے آسان ہو گئے، پہلے معرکے میں بھارت کے خلاف فتح نے اعتماد بلندیوں پر پہنچا دیا، نیوزی لینڈ اور افغانستان کے خلاف میچز میں مشکل لمحات بھی آئے مگر کھلاڑیوں نے دباؤ میں ہمت ہارنے کی بجائے فتح گلی لگائی، آصف علی چند گیندیں کھیل کر ہی ہیرو بن گئے، نیمبیا اور اسکاٹ لینڈ سے میچز میں بھی کامیابی حاصل ہوئی،یوں پاکستان نے گروپ ٹو میں ناقابل شکست رہتے ہوئے سیمی فائنل میں جگہ بنائی،پاکستان کی فتوحات میں اس قدر تسلسل تھا کہ ٹیم کئی خامیاں، حکمت عملی اور قیادت میں نظر آنے والی غلطیاں نظر انداز ہوگئیں، اسی کا خمیازہ گرین شرٹس کو سیمی فائنل میں بھگتنا پڑا۔
پورے ٹورنامنٹ کے پاور پلے میں پاکستان نے وکٹیں تو بہت کم گنوائیں مگر رنز بھی بہت کم بنائے، سیمی فائنل میں صورتحال قدرے بہتر رہی، دو روز آئی سی یو میں رہنے کے باوجود میچ کھیلنے کا خطرہ مول لینے والے محمد رضوان نے ایک شاندار اننگز سے بڑے ٹوٹل کی بنیاد بھی رکھی مگر وکٹیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود چند اوورز میں فائر پاور نہ ہونے کی وجہ سے 15سے 20 رنز کم بنے، یہ مسئلہ گزشتہ میچز میں بھی نظر آتا رہا تھا،سیمی فائنل میں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنا،پورے ٹورنامنٹ میں حسن علی پاکستانی بولنگ کی کمزور کڑی ثابت ہوئے تھے۔
ان کا اعتماد متزلزل ہورہا تھا مگر وننگ کمبی نیشن برقرار رکھنے کے نام و نہاد فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ان کو تمام میچ کھلائے گئے، نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ سے میچز میں وسیم جونیئر کو چیک کیا جاسکتا تھا،نوجوان پیسر ذہنی طور پر بڑے مقابلے کے لیے تیار بھی ہو جاتے مگر پاکستان میں اس کمزوری کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
آسٹریلیا کے لیے ہدف اتنا بھی آسان نہیں تھا مگر بعض غلطیوں کی وجہ سے ہوتا گیا،محمد حفیظ کی ہاتھوں سے پھسلنے والی ایک گیند نوبال ہوئی،ڈیوڈ وارنر نے اسپورٹس مین اسپرٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے چھکا جڑ دیا، آل راؤنڈر نے باقی 5 گیندوں میں6رنز دیئے، کریز پر لیفٹ ہینڈرز ہونے کے باوجود بابر اعظم نے ان کو دوسرا اوور نہیں دیا،فاسٹ بولرز کی پٹائی ہوتی رہی،ایک اینڈ سے شاداب خان وکٹیں اڑا رہے تھے دوسرے سے کسی نے ساتھ نہیں دیا،کینگروز کی آدھی ٹیم کو پویلین بھیجنے کے باوجود میچ میں واپسی کا راستہ ملتا گیا،بولنگ میں یکسر ناکام حسن علی انفرادی کارکردگی کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھے،اسی وجہ سے اہم موقع پر کیچ نہ تھام سکے۔
بہرحال پاکستان کی شکست کا ذمہ دار صرف ایک ڈراپ کیچ کو ٹھہرانا درست نہیں ہوگا،بیٹنگ کرتے ہوئے چند اوورز میں ضرورت سے زیادہ محتاط انداز،حسن علی کو کھلانے کا فیصلہ بولنگ پلان میں غلطیاں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں،ٹورنامنٹ میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرنے والے شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر کیچ ڈراپ ہو گیا تھا تو اگلی گیندوں پر انہیں حواس پر قابو رکھتے ہوئے تیز گیندوں کے بجائے ورائٹی پر انحصار کرنا چاہیے تھا، آف اسٹمپ سے باہر یارکر لینتھ پر گیندوں سے رنز روک کر ہدف کو مشکل بنایا جا سکتا تھا مگر انہوں نے میتھیو ویڈ کو اسٹروکس کھیلنے کا موقع دیا،اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وکٹ کیپر بیٹسمین نے آف سائیڈ پر ایک سنگل بھی نہیں بنائی،حیرت کی بات یہ ہے کہ3 مسلسل چھکوں کے دوران بابر اعظم کے ساتھ شعیب ملک اور محمد حفیظ نے بھی پیسر کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔
ٹائٹل جیتنے کا خواب تو پورا نہیں ہوسکا مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک عرصہ بعد پاکستان ٹیم لڑتی ہوئی نظر آئی،اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ زیادہ دور نہیں، آئندہ سال ہی آسٹریلیا میں میدان سج جائے گا، پاکستان کو مثبت پہلو آگے لے کر بڑھنے کے ساتھ خامیوں پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔
کنڈیشنز یو اے ای سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے پلان مختلف اور موزوں کمبی نیشن کیلیے بھی از سر نو غور کرنا ہوگا، سینئر شعیب ملک اور محمد حفیظ کی دستیابی اور اگر ایسا ممکن نہیں تو متبادل کھلاڑیوں کے ناموں پر ابھی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
فی الحال تجربات کیلیے پاکستان کو چند سیریز میسر ہیں،بنگلہ دیش کیخلاف بنچ پاور کو آزمانے کا اچھا فیصلہ کیا گیا مگر ورلڈکپ میں چند گیندیں کھیلنے والے آصف علی کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینے کے بجائے ڈراپ کرنے کا فیصلہ درست نہیں،ٹی10لیگ کو ترجیح دینے والے محمد حفیظ کی جگہ حیدر علی آئے تھے تو شعیب ملک کو آرام دیکر خوشدل شاہ کو کھلایا جاسکتا تھا مگر قربانی آصف علی کی دیدی گئی،بہرحال خوش آئند بات یہ ہے کہ مشکل کنڈیشنز میں ٹاپ بیٹسمینوں کی وکٹیں گنوانے والی پاکستان ٹیم کو خوشدل شاہ اور فخرزمان نے اچھا سہارا دیا،شاداب خان اور محمد نواز نے جارحانہ بیٹنگ سے بنگلہ دیش کی فتح کی امیدوں پر پانی پھیرا، حسن علی کی کھوئی فارم بھی واپس لوٹ آئی۔
دوسرے میچ میں بولرز نے مزید بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے میزبان بیٹنگ لائن کو بیک فٹ پر رکھا،وسیم جونیئر نے دونوں میچز میں عمدہ کارکردگی دکھائی،نوجوان پیسر کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے،اپنی کاٹ دار بولنگ کی بدولت شاہین شاہ آفریدی کے اچھے پارٹنر ثابت ہوسکتے ہیں،محمد نواز نے بھی آل را?نڈر کی حیثیت سے اپنی افادیت ثابت کی ہے،ایک خوشگوار پہلو شاداب خان کی ردھم میں واپسی ہے، ورلڈکپ میں کفایتی بولنگ کرنے والے لیگ اسپنر کو بنگلہ دیش میں بھی کھیلنا آسان نہیں رہا، ایک ایسا ملک جس کی کنڈیشنز میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیمیں سرخرو نہیں ہوسکیں،پاکستان کا سیریز میں فیصلہ کن برتری حاصل کرنا خوش آئند ہے،ملک سے باہر فتوحات کا تسلسل کپتان بابر اعظم اور کھلاڑیوں کے اعتماد میں مزید اضافہ کرے گا،اس کے بعد ویسٹ انڈیز کیخلاف ہوم سیریز میں بھی پاکستان کے پاس مختلف کمبی نیشن آزمانے کا اچھا موقع ہوگا۔
پاکستان کے ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان ہوا تو متوازن کمبی نیشن بنتا نظر نہیں آرہا تھا۔
نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کے بعد چند تبدیلیوں سے کپتان بابر اعظم کیلیے پلیئنگ الیون کے حوالے سے فیصلے آسان ہو گئے، پہلے معرکے میں بھارت کے خلاف فتح نے اعتماد بلندیوں پر پہنچا دیا، نیوزی لینڈ اور افغانستان کے خلاف میچز میں مشکل لمحات بھی آئے مگر کھلاڑیوں نے دباؤ میں ہمت ہارنے کی بجائے فتح گلی لگائی، آصف علی چند گیندیں کھیل کر ہی ہیرو بن گئے، نیمبیا اور اسکاٹ لینڈ سے میچز میں بھی کامیابی حاصل ہوئی،یوں پاکستان نے گروپ ٹو میں ناقابل شکست رہتے ہوئے سیمی فائنل میں جگہ بنائی،پاکستان کی فتوحات میں اس قدر تسلسل تھا کہ ٹیم کئی خامیاں، حکمت عملی اور قیادت میں نظر آنے والی غلطیاں نظر انداز ہوگئیں، اسی کا خمیازہ گرین شرٹس کو سیمی فائنل میں بھگتنا پڑا۔
پورے ٹورنامنٹ کے پاور پلے میں پاکستان نے وکٹیں تو بہت کم گنوائیں مگر رنز بھی بہت کم بنائے، سیمی فائنل میں صورتحال قدرے بہتر رہی، دو روز آئی سی یو میں رہنے کے باوجود میچ کھیلنے کا خطرہ مول لینے والے محمد رضوان نے ایک شاندار اننگز سے بڑے ٹوٹل کی بنیاد بھی رکھی مگر وکٹیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود چند اوورز میں فائر پاور نہ ہونے کی وجہ سے 15سے 20 رنز کم بنے، یہ مسئلہ گزشتہ میچز میں بھی نظر آتا رہا تھا،سیمی فائنل میں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنا،پورے ٹورنامنٹ میں حسن علی پاکستانی بولنگ کی کمزور کڑی ثابت ہوئے تھے۔
ان کا اعتماد متزلزل ہورہا تھا مگر وننگ کمبی نیشن برقرار رکھنے کے نام و نہاد فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ان کو تمام میچ کھلائے گئے، نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ سے میچز میں وسیم جونیئر کو چیک کیا جاسکتا تھا،نوجوان پیسر ذہنی طور پر بڑے مقابلے کے لیے تیار بھی ہو جاتے مگر پاکستان میں اس کمزوری کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
آسٹریلیا کے لیے ہدف اتنا بھی آسان نہیں تھا مگر بعض غلطیوں کی وجہ سے ہوتا گیا،محمد حفیظ کی ہاتھوں سے پھسلنے والی ایک گیند نوبال ہوئی،ڈیوڈ وارنر نے اسپورٹس مین اسپرٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے چھکا جڑ دیا، آل راؤنڈر نے باقی 5 گیندوں میں6رنز دیئے، کریز پر لیفٹ ہینڈرز ہونے کے باوجود بابر اعظم نے ان کو دوسرا اوور نہیں دیا،فاسٹ بولرز کی پٹائی ہوتی رہی،ایک اینڈ سے شاداب خان وکٹیں اڑا رہے تھے دوسرے سے کسی نے ساتھ نہیں دیا،کینگروز کی آدھی ٹیم کو پویلین بھیجنے کے باوجود میچ میں واپسی کا راستہ ملتا گیا،بولنگ میں یکسر ناکام حسن علی انفرادی کارکردگی کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھے،اسی وجہ سے اہم موقع پر کیچ نہ تھام سکے۔
بہرحال پاکستان کی شکست کا ذمہ دار صرف ایک ڈراپ کیچ کو ٹھہرانا درست نہیں ہوگا،بیٹنگ کرتے ہوئے چند اوورز میں ضرورت سے زیادہ محتاط انداز،حسن علی کو کھلانے کا فیصلہ بولنگ پلان میں غلطیاں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں،ٹورنامنٹ میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرنے والے شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر کیچ ڈراپ ہو گیا تھا تو اگلی گیندوں پر انہیں حواس پر قابو رکھتے ہوئے تیز گیندوں کے بجائے ورائٹی پر انحصار کرنا چاہیے تھا، آف اسٹمپ سے باہر یارکر لینتھ پر گیندوں سے رنز روک کر ہدف کو مشکل بنایا جا سکتا تھا مگر انہوں نے میتھیو ویڈ کو اسٹروکس کھیلنے کا موقع دیا،اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وکٹ کیپر بیٹسمین نے آف سائیڈ پر ایک سنگل بھی نہیں بنائی،حیرت کی بات یہ ہے کہ3 مسلسل چھکوں کے دوران بابر اعظم کے ساتھ شعیب ملک اور محمد حفیظ نے بھی پیسر کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔
ٹائٹل جیتنے کا خواب تو پورا نہیں ہوسکا مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک عرصہ بعد پاکستان ٹیم لڑتی ہوئی نظر آئی،اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ زیادہ دور نہیں، آئندہ سال ہی آسٹریلیا میں میدان سج جائے گا، پاکستان کو مثبت پہلو آگے لے کر بڑھنے کے ساتھ خامیوں پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔
کنڈیشنز یو اے ای سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے پلان مختلف اور موزوں کمبی نیشن کیلیے بھی از سر نو غور کرنا ہوگا، سینئر شعیب ملک اور محمد حفیظ کی دستیابی اور اگر ایسا ممکن نہیں تو متبادل کھلاڑیوں کے ناموں پر ابھی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
فی الحال تجربات کیلیے پاکستان کو چند سیریز میسر ہیں،بنگلہ دیش کیخلاف بنچ پاور کو آزمانے کا اچھا فیصلہ کیا گیا مگر ورلڈکپ میں چند گیندیں کھیلنے والے آصف علی کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینے کے بجائے ڈراپ کرنے کا فیصلہ درست نہیں،ٹی10لیگ کو ترجیح دینے والے محمد حفیظ کی جگہ حیدر علی آئے تھے تو شعیب ملک کو آرام دیکر خوشدل شاہ کو کھلایا جاسکتا تھا مگر قربانی آصف علی کی دیدی گئی،بہرحال خوش آئند بات یہ ہے کہ مشکل کنڈیشنز میں ٹاپ بیٹسمینوں کی وکٹیں گنوانے والی پاکستان ٹیم کو خوشدل شاہ اور فخرزمان نے اچھا سہارا دیا،شاداب خان اور محمد نواز نے جارحانہ بیٹنگ سے بنگلہ دیش کی فتح کی امیدوں پر پانی پھیرا، حسن علی کی کھوئی فارم بھی واپس لوٹ آئی۔
دوسرے میچ میں بولرز نے مزید بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے میزبان بیٹنگ لائن کو بیک فٹ پر رکھا،وسیم جونیئر نے دونوں میچز میں عمدہ کارکردگی دکھائی،نوجوان پیسر کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے،اپنی کاٹ دار بولنگ کی بدولت شاہین شاہ آفریدی کے اچھے پارٹنر ثابت ہوسکتے ہیں،محمد نواز نے بھی آل را?نڈر کی حیثیت سے اپنی افادیت ثابت کی ہے،ایک خوشگوار پہلو شاداب خان کی ردھم میں واپسی ہے، ورلڈکپ میں کفایتی بولنگ کرنے والے لیگ اسپنر کو بنگلہ دیش میں بھی کھیلنا آسان نہیں رہا، ایک ایسا ملک جس کی کنڈیشنز میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیمیں سرخرو نہیں ہوسکیں،پاکستان کا سیریز میں فیصلہ کن برتری حاصل کرنا خوش آئند ہے،ملک سے باہر فتوحات کا تسلسل کپتان بابر اعظم اور کھلاڑیوں کے اعتماد میں مزید اضافہ کرے گا،اس کے بعد ویسٹ انڈیز کیخلاف ہوم سیریز میں بھی پاکستان کے پاس مختلف کمبی نیشن آزمانے کا اچھا موقع ہوگا۔