اسلام آباد اور بردر کی ایک شام

اسلام آباد میں ان دنوں خنکی بہت ہے، لیکن اُس شام کی گرم جوشی سردی کو شکست دینے میں کام یاب رہی۔

farooq.adilbhuta@gmail.com

اسلام آباد میں ان دنوں خنکی بہت ہے، لیکن اُس شام کی گرم جوشی سردی کو شکست دینے میں کام یاب رہی۔ اسلام آباد میں آنے والوں کے لیے فیصل مسجد کے بعد شہر شاید ختم ہو جاتا ہے ، یہ لوگ لپک جھپک کر مسجد کی عظمت سے کچھ سیراب ہوتے ہیں، کچھ نہیں ہوتے اور واپس پلٹ جاتے ہیں لیکن اسی مسجد سے دو قدم آگے ایک ایسا گلشن آباد ہے جس میں گل و بلبل کے چہچہے ہی مشام جاں کو تازہ نہیں کر دیتے بلکہ فکر و خیال کی روشنی بھی اندھیروں کا دیا بن جاتی ہے۔

یہ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈڈائیلاگ (آئی آرڈی) کا گیسٹ ہاؤس ہے۔ یہ ذکر اسی کنج خوش گوار سے ملنے والی روشنی کا ہے۔آئی آر ڈی کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین نے اس شام خوشی خوشی مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور سوکھی لکڑیوں کے الاؤکے گرد انھیں لا بٹھایا پھر کہا کہ حضرات گرامی، اس شام زحمت دینے کا مقصد محض اقل و شرب نہیں ہے، کچھ انتظام روح کی غذا کا بھی ہے۔

اقدس ہاشمی اردو ادبیات کے طالب علم ہیں، میر و سودا کے پر پیچ شعر کی گتھیوں کو سلجھاتے سلجھاتے ان کی دلچسپی ایک اور میدان میں بھی پیدا ہو گئی۔ کلاسیکی موسیقی سیکھی اور ان اساتذہ کے کلام کو اُن کے زمانے کی تہذیب کے مطابق پڑھنے کا تجربہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس نوجوان کو متعارف کرایا اور اُس سے کہا کہ اب یہ تمھارا ذوق ہے کہ ملک بھر سے ہی نہیں دنیا بھر سے آنے والے دانش وروں کو کیسے محظوظ کرتے ہو۔

نوجوان نے گلا صاف کیا اور تان لگائی، لوح بھی تو، قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب۔ وہ اقبالؒ کی اس عدیم النظیر نعت سے شروع ہوئے اور ان کے کلام سے ہوتے ہوئے فیض و فراز تک پہنچے، درمیان میں انھوں نے مولانا حسرت موہانی اور بابا بلھے شاہ کی کافی کی دردناک تانوں سے خود بھی اشک بہائے اور سننے والوں کو بھی بے تاب کیا۔

اس سفر کے بعد تان ایک بار پھر اقبالؒ پر توڑی۔ اقبالؒ اور آئی آر ڈی کے درمیان فکری رشتہ تو ہے ہی لیکن اُس روز اِس نوجوان سے کلام اقبالؒ سنتے ہوئے اُن کاسفر افغانستان یاد آگیا جس کی تفصیل علامہ سید سلیمان ندوی نے' سیر افغانستان' کے عنوان سے قلم بند کی ہے۔اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ یہ اقبالؒ ہی تھے جنھوں نے سفر افغانستان کے موقع پر وہاں کے حکمرانوں کو تعلیم پر توجہ دینے کے علاوہ یہ مشورہ دیا کہ دنیا کے دیگر خطوں میں سمندری گذرگاہوں کی اہمیت غیر معمولی ہے لیکن ہمارے اس خطے کی ترقی زمینی راستوں کی ترقی سے مشروط ہے جو اس خطے سے ہوتے ہوئے گوادر تک پہنچنے چاہئیں۔


علامہ سید سلیمان ندوی کی یہ تحریر پڑھ کر دل سے ہوک اٹھتی ہے کہ ہماری قیادت نے اگر تھوڑا پڑھ لکھ رکھا ہوتا خاص طور پر علامہ صاحب جیسے بزرگوں کو تو وہ پاک چین اقتصادی راہداری کا کریڈٹ خود لینے یا کسی دوسرے کو دینے سے پہلے ذرا سوچتے پھر دنیا کو بتاتے کہ ہمارے بزرگ کتنے وژنری تھے، انھوں نے دنیا کی قسمت بدل دینے والے اس منصوبے کا خواب کم از کم ایک صدی پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔

مارگلہ کے دامن میں اترنے والی اُس شام میں جہاں اقتصادی راہداری کے سلسلے میں اقبالؒ کے خواب کی یاد آئی،وہیں بردر شہر کی خوشبو دیتی پہاڑیوں کے دامن میں برپا ہونے والی ایک شام کی یاد بھی شدت سے آئی۔ بردر کی یونیورسٹی نے ترکی کے قومی شاعر محمد عاکف ایر سوئے کے فکر و فن کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سمپوزیم منعقد کیا۔ سمپوزیم ختم ہوا تومیزبانوں نے مہمانوں کو محظوظ اور اپنی کئی روز کی تھکن اتارنے کے لیے گالا نائٹ کا اہتمام کیا جس میں ترکی کے معروف مغنیوں نے اپنے کلاسیکی آلات پر نہ صرف عاکف کا کلام پیش کیا بلکہ دیگر شعرا کے علاوہ روایتی ترک موسیقی کا مظاہرہ بھی کیا۔

اسلام آباد کی اس شام جب ہمارے نوجوان مغنی نے یہ کہا کہ وہ ہارمونیم پر گانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں لیکن لیکن کیا کریں، وہ تاریخ کے علاوہ اس دنیا میں بھی زندہ رہنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں تو بردد کی وہ شام زیادہ یاد آئی جس میں نہ صرف آلات موسیقی پر کوئی قدغن نہ تھی بلکہ محفل کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب نوجوان اساتذہ ہی نہیں بلکہ چند سینئر اساتذہ نے بھی اٹھ کر رقص کیا، بعض اساتذہ نے مائیک پر پہنچ کر اپنی پسند کے گانے بھی پیش کیے۔ وجد میں آکر محو رقص ہونے والے اساتذہ میں ڈین شعبہ علوم اسلامیہ بھی شامل تھے۔

ترکی کے قومی شاعر محمد عاکف ایر سوئے ہمارے علامہ اقبالؒ کے ہم عصر ہیں اور ان دونوں بزرگوں کے افکار میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ بردد یونیورسٹی بھی ان ہی سے منسوب ہے اور اس میں عاکف کے افکار کے معاشرے پر اطلاق کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ بھی کام کر رہا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے اساتذہ اس ادارے میں محض ملازمت ہی نہیں کرتے، نظریاتی طور پر بھی عاکف کے پیروکار ہیں لیکن ان کے رویوں میں وہ شدت نہیں پائی جاتی جس کے مظاہر ہمارے ہاں بعض اوقات مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔

خیر، یہ تذکرے بھی چلتے رہیں گے اور ہمارا معاشرہ اپنی خوبیوں کے زور پر ان مشکلات پر قابو پا کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا لیکن اس تذکرے میں اگر اُس تقریب کاذکر نہ ہو جس نے اُس شام ملاقات کی سبیل پیدا کی تواس تذکرے کا حق ادا نہ ہو گا۔ کوئی دو برس ہوئے ہیں، آئی آر ڈی اور اس کے سربراہ متحرک ہوئے، سوچا کہ کیوں نہ اقتصادی راہداری کے معاشی، اقتصادی، سیاسی بلکہ اس کے سماجی اور مذہبی پہلوؤں کا جائزہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے تاکہ صرف ملک و قوم نہیں بلکہ پالیسی سازوں کے سامنے بھی اس عظیم منصوبے کے وہ پہلو اور مسائل آ سکیں جو اقتدار کی راہداریوں اور بڑے منصوبوں پر کام کرتے ہوئے بعض اوقات عملی طور پر سامنے نہیں آ پاتے۔

اس کانفرنس میں یہ پہلو تو فطری طور پر اجاگر ہوا کہ بلوچستان اس عظیم منصوبے سے فیض یاب کیسے ہو گا لیکن وہ کون سے پہلو ہیں جو توجہ سے محروم رہ کر اس کے ثمرات کو محدود کر سکتے ہیں، ان پر بھی بات ہوئی۔ اس موضوع پر بلوچستان حکومت کے ادارے اسٹرٹیجک پلاننگ اینڈ ریفارم سیل کے سربراہ رفیع اللہ کاکڑ کی گفتگو خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے۔ وہ طاقتیں جو اس منصوبے سے خوش نہیں ہیں، ان کی رسائی اُس تک کیسی ہے اور کہاں تک ہے، یہ کانفرنس اس کا سراغ لگانے میں بھی کامیاب رہی ۔
Load Next Story