پلاٹ الاٹمنٹ کیس سپریم کورٹ کے ججز کا انٹرسٹ شامل ہوگیا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ججز ، بیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
LONDON:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے ججز،بیوروکریٹس،سرکاری ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ جبکہ ایف 14 اور ایف 15 میں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف کیسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے کیسز کی سماعت کی۔ وفاقی سیکرٹری ہاؤسنگ اور ڈائریکٹر جنرل فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکرٹری صاحب آپ نے عدالت سے وفاقی حکومت کی پالیسی بنانے تک وقت مانگا تھا، ڈی جی فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی نے اس دوران سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، ڈی جی صاحب آپ کس آرڈر سے متاثر ہیں جس پر اپیل دائر کی ہے، آپ یہاں کچھ اور کہہ کر جاتے ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں، کیا پلاٹ ملنا سول سرونٹس کا حق ہے، اگر یہ سرکاری ملازمین کا حق ہے تو پھر صرف افسران کی بجائے تمام سرکاری ملازمین کو ملنا چاہیے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: قرعہ اندازی میں چیف جسٹس گلزار احمد کا پلاٹ نکل آیا
وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے بولنے کی کوشش لیکن چیف جسٹس نے اجازت نہ دی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت مجھے بولنے کا موقع دے میں ملک کا سینئر ترین وکیل ہوں، عزت دو طرفہ ہے اگر عدالت آواز بلند کریگی تو اسکا مطلب کچھ اور ہو گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالتی فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھا اور کابینہ نے کمیٹی تشکیل دی۔ سیکرٹری وفاقی وزارت ہاؤسنگ نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پالیسی بنا لی ہے، کہ صرف وفاقی حکومت کے ملازمین کو پلاٹ دیے جائیں گے، پالیسی سے صحافیوں، وکلاء اور دیگر کو نکال دیا گیا ہے، سینیارٹی کا تعین عمر کے حساب سے کیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ جب پلاٹ الاٹمنٹ وفاقی حکومت کے ملازمین تک مختص کر دی گئی پھر ججز بھی اس میں نہیں ہیں۔
سیکرٹری ہاؤسنگ نے جواب دیا کہ ججز کی الاٹمنٹ سے متعلق چیف جسٹس رجسٹرار کے ذریعے اتھارٹی کو بھیجیں گے، فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی اب ایف چودہ، پندرہ اور پارک روڈ کو ڈویلپ کرنے جا رہے ہیں، نئے سیکٹرز جی بارہ اور ایف بارہ ہیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا وفاقی کابینہ نے اس معاملے کا جائزہ لیا، وفاقی سرکاری ملازم جو پلاٹ لے گا کیا وہ اسکو فروخت کر سکتا ہے، پھر تو یہ سرکاری خزانے کا پیسہ پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں جائے گا، ہم لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت کیسے دیدیں، یا تو یہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ پر دیں دوسری صورت میں تو یہ باقی شہریوں سے زیادتی ہے، یہ عدالت کس طرح بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت دیدے، اس رقم سے تو جو بے گھر مزدور ہیں انکو گھر بنا کر دیدیں، تین ارب روپیہ سرکاری خزانے سے پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں چلا جائے گا، اس پیسے سے ہسپتال کیوں نہ بنا دیے جائیں، مہنگائی پر قابو کیوں نہ کیا جائے، مفاد کے ٹکراؤ کو اس معاملے سے کیسے ختم کیا جا سکے گا، سپریم کورٹ کے ججز کا انٹرسٹ شامل ہو گیا ہے۔
اکرم شیخ نے اس دوران کہا کہ اس عدالت کی کارروائی سپریم کورٹ کے ججز کو اسکینڈلائز کر رہی ہے، اس عدالت کی کارروائی سے لگ رہا ہے جیسے سپریم کورٹ کے ججز فائدہ لے رہے ہیں، اتوار کے روز سیکرٹری اور ڈی جی کو کالز کر کے طلب کر لیا گیا، یہاں بادشاہ اور ملکہ والا نظام نہیں، یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہو گا تو اتوار کو بھی عدالت لگائیں گے۔
سیکرٹری نے بتایا کہ جن سرکاری ملازمین کو پہلی اسکیم میں پلاٹ نہیں ملے پالیسی میں انکو پہلے پلاٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین تو زیادہ ضرورت مند ہیں انکو کیوں نہ پلاٹ دیے جائیں۔ سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ سی ڈی آرڈیننس کے مطابق ایف سیکٹر میں دس مرلے سے کم کے پلاٹ نہیں بنا سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ہاؤسنگ اتھارٹی نے اپنے ہر ممبر کو ایک ایک پلاٹ دیدیا، کیا وہ مفاد کا ٹکراؤ نہیں ہے؟
سیکرٹری نے کہا کہ بورڈ کے ممبران نے بطور بورڈ ممبر پلاٹ لینے کا فیصلہ نہیں کیا، مجھے بطور سرکاری ملازم پلاٹ مل چکا ہے بطور ممبر ہاؤسنگ اتھارٹی مجھے پلاٹ نہیں ملا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پانچ کروڑ کا پلاٹ چالیس لاکھ روپے کا دیا جا رہا ہے، اس شہر میں لینڈ ایکوزیشن میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، گیارہ ہزار لوگ 1960 سے انتظار میں ہیں کہ انکو پلاٹ ملے گا، سرکار نے ان لوگوں سے زمینیں زبردستی لی ہیں اور انہیں آج تک معاوضہ نہیں ملا۔
اکرم شیخ نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے ججز کیلئے رولز بنوا رہے ہیں، وہاں انکے پر جلتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک بات واضح کر لیں، ججز اور بیوروکریٹ عوام کی خدمت کیلئے ہیں، ہم عوام کو جوابدہ ہیں اور انہی کے پیسوں پر یہاں بیٹھے ہیں۔
سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ اس عدالت نے فیصلے وزیراعظم کے سامنے رکھے اور انہوں نے اتفاق کیا، وزیراعظم نے کہا کہ لینڈ ایکوزیشن سے متعلق قانون میں بھی تبدیلی کر دینگے، اس کے بعد سی ڈی اے اور فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی زمین ایکوائر نہیں کریگی۔
ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے ججز،بیوروکریٹس،سرکاری ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ جبکہ ایف 14 اور ایف 15 میں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف کیسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے کیسز کی سماعت کی۔ وفاقی سیکرٹری ہاؤسنگ اور ڈائریکٹر جنرل فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکرٹری صاحب آپ نے عدالت سے وفاقی حکومت کی پالیسی بنانے تک وقت مانگا تھا، ڈی جی فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی نے اس دوران سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، ڈی جی صاحب آپ کس آرڈر سے متاثر ہیں جس پر اپیل دائر کی ہے، آپ یہاں کچھ اور کہہ کر جاتے ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں، کیا پلاٹ ملنا سول سرونٹس کا حق ہے، اگر یہ سرکاری ملازمین کا حق ہے تو پھر صرف افسران کی بجائے تمام سرکاری ملازمین کو ملنا چاہیے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: قرعہ اندازی میں چیف جسٹس گلزار احمد کا پلاٹ نکل آیا
وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے بولنے کی کوشش لیکن چیف جسٹس نے اجازت نہ دی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت مجھے بولنے کا موقع دے میں ملک کا سینئر ترین وکیل ہوں، عزت دو طرفہ ہے اگر عدالت آواز بلند کریگی تو اسکا مطلب کچھ اور ہو گا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالتی فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھا اور کابینہ نے کمیٹی تشکیل دی۔ سیکرٹری وفاقی وزارت ہاؤسنگ نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پالیسی بنا لی ہے، کہ صرف وفاقی حکومت کے ملازمین کو پلاٹ دیے جائیں گے، پالیسی سے صحافیوں، وکلاء اور دیگر کو نکال دیا گیا ہے، سینیارٹی کا تعین عمر کے حساب سے کیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ جب پلاٹ الاٹمنٹ وفاقی حکومت کے ملازمین تک مختص کر دی گئی پھر ججز بھی اس میں نہیں ہیں۔
سیکرٹری ہاؤسنگ نے جواب دیا کہ ججز کی الاٹمنٹ سے متعلق چیف جسٹس رجسٹرار کے ذریعے اتھارٹی کو بھیجیں گے، فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی اب ایف چودہ، پندرہ اور پارک روڈ کو ڈویلپ کرنے جا رہے ہیں، نئے سیکٹرز جی بارہ اور ایف بارہ ہیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا وفاقی کابینہ نے اس معاملے کا جائزہ لیا، وفاقی سرکاری ملازم جو پلاٹ لے گا کیا وہ اسکو فروخت کر سکتا ہے، پھر تو یہ سرکاری خزانے کا پیسہ پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں جائے گا، ہم لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت کیسے دیدیں، یا تو یہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ پر دیں دوسری صورت میں تو یہ باقی شہریوں سے زیادتی ہے، یہ عدالت کس طرح بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت دیدے، اس رقم سے تو جو بے گھر مزدور ہیں انکو گھر بنا کر دیدیں، تین ارب روپیہ سرکاری خزانے سے پرائیویٹ لوگوں کی جیبوں میں چلا جائے گا، اس پیسے سے ہسپتال کیوں نہ بنا دیے جائیں، مہنگائی پر قابو کیوں نہ کیا جائے، مفاد کے ٹکراؤ کو اس معاملے سے کیسے ختم کیا جا سکے گا، سپریم کورٹ کے ججز کا انٹرسٹ شامل ہو گیا ہے۔
اکرم شیخ نے اس دوران کہا کہ اس عدالت کی کارروائی سپریم کورٹ کے ججز کو اسکینڈلائز کر رہی ہے، اس عدالت کی کارروائی سے لگ رہا ہے جیسے سپریم کورٹ کے ججز فائدہ لے رہے ہیں، اتوار کے روز سیکرٹری اور ڈی جی کو کالز کر کے طلب کر لیا گیا، یہاں بادشاہ اور ملکہ والا نظام نہیں، یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہو گا تو اتوار کو بھی عدالت لگائیں گے۔
سیکرٹری نے بتایا کہ جن سرکاری ملازمین کو پہلی اسکیم میں پلاٹ نہیں ملے پالیسی میں انکو پہلے پلاٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین تو زیادہ ضرورت مند ہیں انکو کیوں نہ پلاٹ دیے جائیں۔ سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ سی ڈی آرڈیننس کے مطابق ایف سیکٹر میں دس مرلے سے کم کے پلاٹ نہیں بنا سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ہاؤسنگ اتھارٹی نے اپنے ہر ممبر کو ایک ایک پلاٹ دیدیا، کیا وہ مفاد کا ٹکراؤ نہیں ہے؟
سیکرٹری نے کہا کہ بورڈ کے ممبران نے بطور بورڈ ممبر پلاٹ لینے کا فیصلہ نہیں کیا، مجھے بطور سرکاری ملازم پلاٹ مل چکا ہے بطور ممبر ہاؤسنگ اتھارٹی مجھے پلاٹ نہیں ملا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پانچ کروڑ کا پلاٹ چالیس لاکھ روپے کا دیا جا رہا ہے، اس شہر میں لینڈ ایکوزیشن میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، گیارہ ہزار لوگ 1960 سے انتظار میں ہیں کہ انکو پلاٹ ملے گا، سرکار نے ان لوگوں سے زمینیں زبردستی لی ہیں اور انہیں آج تک معاوضہ نہیں ملا۔
اکرم شیخ نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے ججز کیلئے رولز بنوا رہے ہیں، وہاں انکے پر جلتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک بات واضح کر لیں، ججز اور بیوروکریٹ عوام کی خدمت کیلئے ہیں، ہم عوام کو جوابدہ ہیں اور انہی کے پیسوں پر یہاں بیٹھے ہیں۔
سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ اس عدالت نے فیصلے وزیراعظم کے سامنے رکھے اور انہوں نے اتفاق کیا، وزیراعظم نے کہا کہ لینڈ ایکوزیشن سے متعلق قانون میں بھی تبدیلی کر دینگے، اس کے بعد سی ڈی اے اور فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ اتھارٹی زمین ایکوائر نہیں کریگی۔
ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔