سندھ حکومت کا افسران کے تبادلوں سے انکاراسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اظہار وجوہ کے نوٹس جاری
روٹیشن پالیسی 2020 پر عمل درآمد نہ کرنے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 17 پولیس افسران کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے ہیں
سندھ سے افسران کے تبادلے کا معاملہ مزید شدت اختیار کرگیا،وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ صوبائی کابینہ نے سندھ میں تعینات 5افسران کے تبادلوں سے انکار کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاق اور سندھ کے درمیان افسران کے تبادلوں کا معاملہ حل نہ ہوسکا وزیراعلی مرادعلی شاہ نے سندھ کابینہ کے فیصلے سے وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے۔ ایک دوسرے کو خطوط کا سلسلہ بھی جاری ہے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو خط کے ذریعے اپنی اور سندھ کابینہ کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے افسر کو کسی بڑے عہدے پر وزیراعلی کی منظوری کے بغیر تعینات نہیں کیاجاسکتا۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ مشاورت کا مطلب وزیراعلی کو افسران کے نام کا پینل بھیجنا ہے۔ مرادعلی شاہ نے کہا کہ بامعنی مشاورت وزیراعظم اور وزیراعلی کے درمیان ہونی ہے۔وفاقی حکومت سے متعدد مرتبہ رجوع کیا کہ سندھ میں افسران کی کمی کو پورا کریں۔
مرادعلی شاہ نے خط میں کہا ہے کہ سول سروس آف پاکستان میں شامل افسرا ن کے تبادلے رولز کی شق 15 کے تحت ہونا ہیں۔ سندھ میں 26 پولیس افسران کے بجائے 22 اور ایڈمنسٹریٹو سروس کے 47 افسران کم ہیں، گریڈ 20 کے پولیس افسران کو سندھ سے واپس بلانےسے انتتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کیے گئے ٹرانسفر نوٹیفیکیشن کو سندھ کابینہ نے مسترد کردیا ہے۔ سندھ میں تعینات سینئر پولیس افسران ثاقب اسماعیل، مقصود میمن، عمرشاہد، نعیم شیخ اور نعمان صدیقی کے ٹرانسفر فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ وزیراعظم صاحب ازراہ کرم سندھ حکومت کے ردعمل کو قبول کرلیں۔
وزیراعلی سندھ نے خط میں کہا کہ ہم پولیس سروس کے 4 افسران محمد کریم خان، شہزاد اکبر،محمد زبیر دریشک اور سید خرم علی کو سندھ میں تعینات کرنے کی تجویزمنظور کرتےہیں۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو احکامات دیے جائیں کہ سندھ کی تجاویز پر نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔ گریڈ 17 سے گریڈ 21 کے افسران کی مقررہ تعداد کے مطابق سندھ میں تعیناتی کے احکامات بھی دیں۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سرکاری افسران کے تبادلوں سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی، تبادلوں کے لیے وزیراعظم نے وزیراعلی سے مشاورت نہیں کی۔ سندھ میں پہلے ہی سرکاری افسران کی تعداد کم ہے۔ سندھ میں 20 گریڈ کے 22 افسران کام کررہے ہیں جب کہ 20 گریڈ کے پولیس افسران کی تعداد 26 ہونی چاہیئے۔
وفاقی حکومت نے 9 نومبر کو پولیس سروس کے 8 افسران کا دیگر صوبوں سےسندھ میں تبادلہ کیاتھا۔ وفاق نے گریڈ 17 سے 20 تک کے سرکاری افسران کے تبادلہ کیے تھے۔ تبادلے روٹیشن پالیسی کے تحت کیے گئے تھے۔
دوسری جانب روٹیشن پالیسی 2020 پر عملدرآمد نہ کرنے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 17 پولیس افسران کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے ہیں اور 7 روز میں احکامات نہ ماننے پر کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔
جن افسران کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں ڈی آئی جی مسرور عالم، یونس چانڈیو، شہزاد اکبر، ڈی آئی جی عمر شاہد، ڈی آئی جی عبداللہ شیخ، ڈی جی آئی نعمان صدیقی، ثاقب اسماعیل، جاوید اکبر، ڈی آئی جی نعیم احمد، ڈی آئی جی مقصود احمد، ڈی آئی جی احمد ارسلان، ضعیم اقبال، خرم علی، ڈی آئی جی انعام وحید، سہیل اختر، زبیر دریشک اور ڈی آئی جی عبد الغفور شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاق اور سندھ کے درمیان افسران کے تبادلوں کا معاملہ حل نہ ہوسکا وزیراعلی مرادعلی شاہ نے سندھ کابینہ کے فیصلے سے وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے۔ ایک دوسرے کو خطوط کا سلسلہ بھی جاری ہے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو خط کے ذریعے اپنی اور سندھ کابینہ کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے افسر کو کسی بڑے عہدے پر وزیراعلی کی منظوری کے بغیر تعینات نہیں کیاجاسکتا۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ مشاورت کا مطلب وزیراعلی کو افسران کے نام کا پینل بھیجنا ہے۔ مرادعلی شاہ نے کہا کہ بامعنی مشاورت وزیراعظم اور وزیراعلی کے درمیان ہونی ہے۔وفاقی حکومت سے متعدد مرتبہ رجوع کیا کہ سندھ میں افسران کی کمی کو پورا کریں۔
مرادعلی شاہ نے خط میں کہا ہے کہ سول سروس آف پاکستان میں شامل افسرا ن کے تبادلے رولز کی شق 15 کے تحت ہونا ہیں۔ سندھ میں 26 پولیس افسران کے بجائے 22 اور ایڈمنسٹریٹو سروس کے 47 افسران کم ہیں، گریڈ 20 کے پولیس افسران کو سندھ سے واپس بلانےسے انتتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کیے گئے ٹرانسفر نوٹیفیکیشن کو سندھ کابینہ نے مسترد کردیا ہے۔ سندھ میں تعینات سینئر پولیس افسران ثاقب اسماعیل، مقصود میمن، عمرشاہد، نعیم شیخ اور نعمان صدیقی کے ٹرانسفر فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ وزیراعظم صاحب ازراہ کرم سندھ حکومت کے ردعمل کو قبول کرلیں۔
وزیراعلی سندھ نے خط میں کہا کہ ہم پولیس سروس کے 4 افسران محمد کریم خان، شہزاد اکبر،محمد زبیر دریشک اور سید خرم علی کو سندھ میں تعینات کرنے کی تجویزمنظور کرتےہیں۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو احکامات دیے جائیں کہ سندھ کی تجاویز پر نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔ گریڈ 17 سے گریڈ 21 کے افسران کی مقررہ تعداد کے مطابق سندھ میں تعیناتی کے احکامات بھی دیں۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سرکاری افسران کے تبادلوں سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی، تبادلوں کے لیے وزیراعظم نے وزیراعلی سے مشاورت نہیں کی۔ سندھ میں پہلے ہی سرکاری افسران کی تعداد کم ہے۔ سندھ میں 20 گریڈ کے 22 افسران کام کررہے ہیں جب کہ 20 گریڈ کے پولیس افسران کی تعداد 26 ہونی چاہیئے۔
وفاقی حکومت نے 9 نومبر کو پولیس سروس کے 8 افسران کا دیگر صوبوں سےسندھ میں تبادلہ کیاتھا۔ وفاق نے گریڈ 17 سے 20 تک کے سرکاری افسران کے تبادلہ کیے تھے۔ تبادلے روٹیشن پالیسی کے تحت کیے گئے تھے۔
دوسری جانب روٹیشن پالیسی 2020 پر عملدرآمد نہ کرنے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 17 پولیس افسران کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے ہیں اور 7 روز میں احکامات نہ ماننے پر کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔
جن افسران کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں ڈی آئی جی مسرور عالم، یونس چانڈیو، شہزاد اکبر، ڈی آئی جی عمر شاہد، ڈی آئی جی عبداللہ شیخ، ڈی جی آئی نعمان صدیقی، ثاقب اسماعیل، جاوید اکبر، ڈی آئی جی نعیم احمد، ڈی آئی جی مقصود احمد، ڈی آئی جی احمد ارسلان، ضعیم اقبال، خرم علی، ڈی آئی جی انعام وحید، سہیل اختر، زبیر دریشک اور ڈی آئی جی عبد الغفور شامل ہیں۔