مراعات یافتہ طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے
منصفانہ معیشت قائم کرنے کے لیے سیاسی نظام میں نئی جمہوری روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ چھٹے جائزہ کے تحت معاملات طے ہونے کے بعد ایک ارب 5کروڑ 90لاکھ ڈالر کی قسط کا معاہد ہ طے پا گیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات شوکت ترین نے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہاکہ ترقیاتی پروگرام میں 200 ارب کمی ہوگی، جب کہ پٹرولیم لیوی کی مد میں ماہانہ 4روپے اضافہ کیا جائے گا اور اس کو 30روپے تک لے جایا جائے گا، جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت اور پٹرول کی لیوی بڑھے گی۔
حکومت نے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا ہے، عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ ملکی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا اور اس سے مالیاتی معاملات مزید بہتر ہوںگے، پی ٹی آئی دور حکومت میں قرضوں کے حجم میںجس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، وہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہے اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے حکومت میں اِن قرضوں کی واپسی کی استطاعت نہیں رہی، جو اب ایک خطرناک صورت حال اختیار کرگیا ہے۔
تاہم یہ بات خوش آیند ہے کہ کورونا کی صورت حال کے باعث مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی واپسی کی مدت میں ڈیڑھ سے چار سال تک اضافہ کردیا گیا ہے، جس سے پاکستان کو قرضوں کی واپسی میں کچھ مہلت مل گئی ہے۔
قرضے لینا کوئی معیوب بات نہیں بشرطیکہ یہ قرضے ملک کے ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جائیں جس سے نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہو بلکہ عوام کے لیے روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوں،لیکن ہمارے یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب الٹ ہے ، ہم ترقیاتی منصوبوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کررہے ہیں، روزگارکے مواقعے انتہائی محدود ہوچکے ہیں۔
روپے کی قدر بتدریج کم کرکے' متعدد ضمنی میزانیے لا کر اور پٹرولیم' بجلی' گیس اور ادویات کے نرخوں میں بے مہابہ اضافہ کرکے عوام کو بے رحمی کے ساتھ مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈالا جاتا رہا ہے اور کبھی یہ احساس تک نہیں کیا گیا کہ یوٹیلیٹی بلز میں اضافہ ، نت نئے ٹیکسوں، مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کی عوام میں ہمت بھی رہی ہے یا نہیں۔
پاکستان میں معاشی عدم مساوات اور اختیارات کے استحصالانہ استعمال کا چلن عام ہے، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیر داروں، سیاسی طبقے ، سرکار سے تنخواہیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ رہائش ، علاج و معالجے، مفت بجلی، گیس ، فون اور ٹی اے ڈی اے کی شکل میں بھاری مالی مراعات لینے اور بغیر محنت کے امیر ہونے والے طبقے کو دی جانے والی مراعات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ خرچہ بھی کئی ارب روپے ہوگا ۔ ملک کی ریاست، معیشت، سیاست اور سماج پر تسلط رکھنے والا طبقہ اپنے منصفانہ حق سے کئی گنا زائد کے حصول کے لیے اپنی سماجی، سرکاری اور سیاسی حیثیت کو استعمال کرتا ہے۔
ملک میں قومی اسمبلی ،سینیٹ، چاروں صوبائی اسمبلیاں اور گلگت وبلتستان کی اسمبلی کے نمایندگان، تمام تر مراعات اور بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی کینٹین میں سبسڈائیز کھانا کھاتے ہیں ۔اسمبلیوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہوائی جہاز کے انھیں فری ٹکٹ ملتے ہیں ، پانی ، بجلی ، سوئی گیس کے بل حکومت ادا کرتی ہے ،علاج ومعالجہ بھی فری ہے جب کہ ایک عام آدمی ایک ماہ بجلی کا بل ادا نہ کرسکے تو اس کی بجلی کی لائن کاٹ دی جاتی ہے ، علاج ومعالجے کی سہولت نہ ہونے سے غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں قائم مدارس ٹیکس نہیں دیتے اورنہ ہی ان کی آمدنی اور خرچ کا آڈٹ ہوتا ہے ، فلاحی اور خیراتی ادارے ٹیکس سے ماورا ہیں، قبائلی سردار، وڈیرے اور گدی نشین انکم ٹیکس نہیں دیتے اور کوئی دیتا بھی ہے تو بہت کم، صنعت کار قومی بینکوں سے بھاری قرض لیتے ہیں، پھر تعلقات استعمال کراکے قرضہ معاف کرالیتے ہیں ، قرضہ معاف نہ ہو تو مارک یا سرچارج معاف کرالیتے ہیں جب کہ اس ملک کا غریب اور متوسط طبقہ ایک ماچس کی ڈبیہ سے لے کر ہر میڈیسن تک کوئی نہ کوئی ٹیکس ادا کررہا ہے۔
عدم مساوات پر مبنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک میں مڈل کلاس ختم ہوتی جارہی ہے۔پبلک سرونٹس کا ٹیگا لگا کر مراعات حاصل کرنے والا طبقہ بغیر محنت امیر ہوگیا ہے ، یہ طبقہ کام کرنے والے طبقات کو ٹیکس چور ،جاہل اور کرپٹ قرار دیتا ہے، کارپوریٹ طبقہ کھربوں روپے کی مراعات سالانہ کی بنیاد پر حاصل کرتا ہے۔ اس عدم مساوات نے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کررکھی ہے ۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت ہمارے اس غیر منصفانہ معاشی نظام کا نتیجہ ہے۔ رہی سہی کسر کووڈ 19 کے اثرا ت نے پوری کر دی اور اب آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 40 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ پاکستان جس کی معیشت کا بنیادی انحصار غیر ملکی وسائل اور بیرونی سرمایہ کاری پر ہے وہاں ستم یہ بھی ہوا کہ قوم کو ٹیکنالوجی یا بیرونی سرمایہ کاری کے میدان میں بڑی حد تک دیگر ممالک کا دست نگر بنا دیا گیا۔ بھاری آلات کی صنعتیں قومیائی گئیں اور ہنرمند افراد نے چینی، مرغی کے گوشت اور دودھ کی پیداوار شروع کر دی، جس سے قوم کو ٹیکنالوجی کی ترقی میں کوئی مدد نہیں ملی۔
ریاست کے نظام پر غلبہ رکھنے والے امراء اور اشرافیہ نے معاشی نظام کو استوار ہی ایسے خطوط پر کیا جو عوام کو آسودگی دینے کے بجائے حکمرانوں کے عالمی مفادات کو تحفظ اور فروغ دے۔مثلاً وہ انفرا اسٹرکچر کا بہت سا حصہ ایسا تعمیر کرتے ہیں جو رائج عالمی معیشت کو فروغ دیتا ہے۔ پہلی ترجیح ان منصوبوں کو دینی چاہیے جو غربت، غذائیت کی کمی کا قلع قمع اور دولت کی تقسیم میں ناہمواری کو کم سے کم کرتے ہیں۔
پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، حکمران طبقے انتظامی اور معاشی شعبوں میں ضروری اصلاحات کے لیے آمادہ نہیں ہیں کہ ان کی اولین ترجیح اپنے طبقاقی مفادات ہیں۔پاکستان میں حقیقی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام سیاسی اختیارات امیرترین اور بدعنوان اشرافیہ سے سماجی سیاستدانوں کو منتقل نہ کر دیں جو انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جد و جہد کریں۔
بانی پاکستان قائداعظم کے انتقال کے بعد نظام مملکت کی باگ ڈور جن شخصیات کے ہاتھوں میں آئی،ان کا گراس روٹ لیول پر عوام سے کوئی رابطہ نہیں تھا،جن کا رابطہ تھا ، وہ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتے تھے جب کہ نوکرشاہی خود کو ملک کا مالک سمجھتی رہی ، یوں کسی بھی حکمران نے قومی معیشت کو خودانحصاری کے تحت اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا تردد نہیں کیا اور آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ہی اپنی مجبوری بنائے رکھا ہے جب کہ یہ قرض کن شرائط پر لیا جاتا رہا ہے۔
اس بارے میں عوام کو لاعلم رکھا گیا،مہنگائی درمہنگائی کی صورت میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط عوام پر کسی افتاد کی طرح ٹوٹتی رہی ہیں۔ یہ شرائط قومی خودداری اور خودمختاری کے بھی سراسر منافی نظر آتی ہیں جب کہ آئی ایم ایف کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ قرضوں کی واپسی کی خاطر اس کی جانب سے عائد کی جانے والی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے متعلقہ حکومت عوام کی کس حد تک بدحالی کا اہتمام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کو تو مقررہ معیاد کے اندر محض اپنے قرض کی بمعہ سود وصولی سے ہی سروکار ہوتا ہے۔
اس عمل میں عوام کے تن پر کوئی کپڑا بھی رہ پاتا ہے یا نہیں، انھیں سکھ کا سانس مل بھی پاتا ہے یا نہیں، اور ان کا آبرومندی کے ساتھ زندگی گزارنے والا چلن قائم رہ پاتا ہے یا نہیں' آئی ایم ایف کو ایسے کسی معاملے میں قطعاً دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ تو حکومت چلانے والوں کے سوچنے کا مقام ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ لوٹانے کے لیے اسے عوام کا خون نچوڑنا پڑتا ہے تو کیوں نہ آئی ایم ایف کے ناروا قرضوں کے بجائے ریونیو بڑھانے کا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیا جائے۔
اگر واقعی معیشت کو سنبھالنے کے لیے سخت فیصلے کرنا مقصود ہے تو ان فیصلوں کا رخ پسماندہ ، غریب اور سفید پوش عوام کے بجائے حکمران طبقات کی جانب کیا جائے اور انھیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں لا کر ان سے واجب الادا ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنائی جائے۔ اس سے یقیناً آئی ایم ایف کو بھی مطمئن کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسے تو مقررہ معیاد میں اپنے قرضوں کی بمع سود وصولی سے ہی سروکار ہے۔ یہ حکومت کی اپنی حکمت عملی ہے کہ اس نے عوام پر ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف کا قرض لوٹانا ہے یا باوسیلہ اور مراعات یافتہ طبقات کی جیبیں ڈھیلی کراکے عوام کو زندہ درگور ہونے سے بچانا ہے۔
منصفانہ معیشت قائم کرنے کے لیے سیاسی نظام میں نئی جمہوری روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظریات اور قواعد پر رائج نظام بے انصافی اور عدم استحکام کا باعث رہے گا اور عوام کی اکثریت کو غربت کے چنگل سے نجات نہ ملے گی۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات شوکت ترین نے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہاکہ ترقیاتی پروگرام میں 200 ارب کمی ہوگی، جب کہ پٹرولیم لیوی کی مد میں ماہانہ 4روپے اضافہ کیا جائے گا اور اس کو 30روپے تک لے جایا جائے گا، جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت اور پٹرول کی لیوی بڑھے گی۔
حکومت نے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا ہے، عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ ملکی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا اور اس سے مالیاتی معاملات مزید بہتر ہوںگے، پی ٹی آئی دور حکومت میں قرضوں کے حجم میںجس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، وہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے زیادہ ہے اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے حکومت میں اِن قرضوں کی واپسی کی استطاعت نہیں رہی، جو اب ایک خطرناک صورت حال اختیار کرگیا ہے۔
تاہم یہ بات خوش آیند ہے کہ کورونا کی صورت حال کے باعث مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی واپسی کی مدت میں ڈیڑھ سے چار سال تک اضافہ کردیا گیا ہے، جس سے پاکستان کو قرضوں کی واپسی میں کچھ مہلت مل گئی ہے۔
قرضے لینا کوئی معیوب بات نہیں بشرطیکہ یہ قرضے ملک کے ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جائیں جس سے نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہو بلکہ عوام کے لیے روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوں،لیکن ہمارے یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب الٹ ہے ، ہم ترقیاتی منصوبوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کررہے ہیں، روزگارکے مواقعے انتہائی محدود ہوچکے ہیں۔
روپے کی قدر بتدریج کم کرکے' متعدد ضمنی میزانیے لا کر اور پٹرولیم' بجلی' گیس اور ادویات کے نرخوں میں بے مہابہ اضافہ کرکے عوام کو بے رحمی کے ساتھ مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈالا جاتا رہا ہے اور کبھی یہ احساس تک نہیں کیا گیا کہ یوٹیلیٹی بلز میں اضافہ ، نت نئے ٹیکسوں، مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کی عوام میں ہمت بھی رہی ہے یا نہیں۔
پاکستان میں معاشی عدم مساوات اور اختیارات کے استحصالانہ استعمال کا چلن عام ہے، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیر داروں، سیاسی طبقے ، سرکار سے تنخواہیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ رہائش ، علاج و معالجے، مفت بجلی، گیس ، فون اور ٹی اے ڈی اے کی شکل میں بھاری مالی مراعات لینے اور بغیر محنت کے امیر ہونے والے طبقے کو دی جانے والی مراعات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ خرچہ بھی کئی ارب روپے ہوگا ۔ ملک کی ریاست، معیشت، سیاست اور سماج پر تسلط رکھنے والا طبقہ اپنے منصفانہ حق سے کئی گنا زائد کے حصول کے لیے اپنی سماجی، سرکاری اور سیاسی حیثیت کو استعمال کرتا ہے۔
ملک میں قومی اسمبلی ،سینیٹ، چاروں صوبائی اسمبلیاں اور گلگت وبلتستان کی اسمبلی کے نمایندگان، تمام تر مراعات اور بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی کینٹین میں سبسڈائیز کھانا کھاتے ہیں ۔اسمبلیوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہوائی جہاز کے انھیں فری ٹکٹ ملتے ہیں ، پانی ، بجلی ، سوئی گیس کے بل حکومت ادا کرتی ہے ،علاج ومعالجہ بھی فری ہے جب کہ ایک عام آدمی ایک ماہ بجلی کا بل ادا نہ کرسکے تو اس کی بجلی کی لائن کاٹ دی جاتی ہے ، علاج ومعالجے کی سہولت نہ ہونے سے غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں قائم مدارس ٹیکس نہیں دیتے اورنہ ہی ان کی آمدنی اور خرچ کا آڈٹ ہوتا ہے ، فلاحی اور خیراتی ادارے ٹیکس سے ماورا ہیں، قبائلی سردار، وڈیرے اور گدی نشین انکم ٹیکس نہیں دیتے اور کوئی دیتا بھی ہے تو بہت کم، صنعت کار قومی بینکوں سے بھاری قرض لیتے ہیں، پھر تعلقات استعمال کراکے قرضہ معاف کرالیتے ہیں ، قرضہ معاف نہ ہو تو مارک یا سرچارج معاف کرالیتے ہیں جب کہ اس ملک کا غریب اور متوسط طبقہ ایک ماچس کی ڈبیہ سے لے کر ہر میڈیسن تک کوئی نہ کوئی ٹیکس ادا کررہا ہے۔
عدم مساوات پر مبنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک میں مڈل کلاس ختم ہوتی جارہی ہے۔پبلک سرونٹس کا ٹیگا لگا کر مراعات حاصل کرنے والا طبقہ بغیر محنت امیر ہوگیا ہے ، یہ طبقہ کام کرنے والے طبقات کو ٹیکس چور ،جاہل اور کرپٹ قرار دیتا ہے، کارپوریٹ طبقہ کھربوں روپے کی مراعات سالانہ کی بنیاد پر حاصل کرتا ہے۔ اس عدم مساوات نے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کررکھی ہے ۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت ہمارے اس غیر منصفانہ معاشی نظام کا نتیجہ ہے۔ رہی سہی کسر کووڈ 19 کے اثرا ت نے پوری کر دی اور اب آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 40 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ پاکستان جس کی معیشت کا بنیادی انحصار غیر ملکی وسائل اور بیرونی سرمایہ کاری پر ہے وہاں ستم یہ بھی ہوا کہ قوم کو ٹیکنالوجی یا بیرونی سرمایہ کاری کے میدان میں بڑی حد تک دیگر ممالک کا دست نگر بنا دیا گیا۔ بھاری آلات کی صنعتیں قومیائی گئیں اور ہنرمند افراد نے چینی، مرغی کے گوشت اور دودھ کی پیداوار شروع کر دی، جس سے قوم کو ٹیکنالوجی کی ترقی میں کوئی مدد نہیں ملی۔
ریاست کے نظام پر غلبہ رکھنے والے امراء اور اشرافیہ نے معاشی نظام کو استوار ہی ایسے خطوط پر کیا جو عوام کو آسودگی دینے کے بجائے حکمرانوں کے عالمی مفادات کو تحفظ اور فروغ دے۔مثلاً وہ انفرا اسٹرکچر کا بہت سا حصہ ایسا تعمیر کرتے ہیں جو رائج عالمی معیشت کو فروغ دیتا ہے۔ پہلی ترجیح ان منصوبوں کو دینی چاہیے جو غربت، غذائیت کی کمی کا قلع قمع اور دولت کی تقسیم میں ناہمواری کو کم سے کم کرتے ہیں۔
پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، حکمران طبقے انتظامی اور معاشی شعبوں میں ضروری اصلاحات کے لیے آمادہ نہیں ہیں کہ ان کی اولین ترجیح اپنے طبقاقی مفادات ہیں۔پاکستان میں حقیقی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام سیاسی اختیارات امیرترین اور بدعنوان اشرافیہ سے سماجی سیاستدانوں کو منتقل نہ کر دیں جو انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جد و جہد کریں۔
بانی پاکستان قائداعظم کے انتقال کے بعد نظام مملکت کی باگ ڈور جن شخصیات کے ہاتھوں میں آئی،ان کا گراس روٹ لیول پر عوام سے کوئی رابطہ نہیں تھا،جن کا رابطہ تھا ، وہ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتے تھے جب کہ نوکرشاہی خود کو ملک کا مالک سمجھتی رہی ، یوں کسی بھی حکمران نے قومی معیشت کو خودانحصاری کے تحت اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا تردد نہیں کیا اور آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ہی اپنی مجبوری بنائے رکھا ہے جب کہ یہ قرض کن شرائط پر لیا جاتا رہا ہے۔
اس بارے میں عوام کو لاعلم رکھا گیا،مہنگائی درمہنگائی کی صورت میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط عوام پر کسی افتاد کی طرح ٹوٹتی رہی ہیں۔ یہ شرائط قومی خودداری اور خودمختاری کے بھی سراسر منافی نظر آتی ہیں جب کہ آئی ایم ایف کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ قرضوں کی واپسی کی خاطر اس کی جانب سے عائد کی جانے والی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے متعلقہ حکومت عوام کی کس حد تک بدحالی کا اہتمام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کو تو مقررہ معیاد کے اندر محض اپنے قرض کی بمعہ سود وصولی سے ہی سروکار ہوتا ہے۔
اس عمل میں عوام کے تن پر کوئی کپڑا بھی رہ پاتا ہے یا نہیں، انھیں سکھ کا سانس مل بھی پاتا ہے یا نہیں، اور ان کا آبرومندی کے ساتھ زندگی گزارنے والا چلن قائم رہ پاتا ہے یا نہیں' آئی ایم ایف کو ایسے کسی معاملے میں قطعاً دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ تو حکومت چلانے والوں کے سوچنے کا مقام ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ لوٹانے کے لیے اسے عوام کا خون نچوڑنا پڑتا ہے تو کیوں نہ آئی ایم ایف کے ناروا قرضوں کے بجائے ریونیو بڑھانے کا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیا جائے۔
اگر واقعی معیشت کو سنبھالنے کے لیے سخت فیصلے کرنا مقصود ہے تو ان فیصلوں کا رخ پسماندہ ، غریب اور سفید پوش عوام کے بجائے حکمران طبقات کی جانب کیا جائے اور انھیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں لا کر ان سے واجب الادا ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنائی جائے۔ اس سے یقیناً آئی ایم ایف کو بھی مطمئن کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسے تو مقررہ معیاد میں اپنے قرضوں کی بمع سود وصولی سے ہی سروکار ہے۔ یہ حکومت کی اپنی حکمت عملی ہے کہ اس نے عوام پر ٹیکس لگا کر آئی ایم ایف کا قرض لوٹانا ہے یا باوسیلہ اور مراعات یافتہ طبقات کی جیبیں ڈھیلی کراکے عوام کو زندہ درگور ہونے سے بچانا ہے۔
منصفانہ معیشت قائم کرنے کے لیے سیاسی نظام میں نئی جمہوری روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظریات اور قواعد پر رائج نظام بے انصافی اور عدم استحکام کا باعث رہے گا اور عوام کی اکثریت کو غربت کے چنگل سے نجات نہ ملے گی۔