جنس کی تبدیلی کا مسئلہ
آج دنیا بھر میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو اللہ کے نظام کو چیلنج کررہا ہے۔
سورۃ النسا کی پہلی آیت مبارکہ ہے'''اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے''۔
آج دنیا بھر میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو اللہ کے نظام کو چیلنج کررہا ہے، اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد، اپنے مرد ہونے پر اور عورتیں اپنے عورت ہونے پر نالاں ہیں، سائنس کی ترقی ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں سہولت کار بن چکی ہے۔
آج تبدیلی جنس دنیا میں فیشن بن چکا ہے، تبدیلیِ جنس یعنی مرد سے عورت اور عورت سے مرد بننے کے ذریعے اپنی نامراد جنسی تسکین میں مبتلا ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ قدرت سے ٹکراؤ کا یہ غلیظ جذبہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔اب تو کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں بھی اس سنگین اور بہت سے دنیاوی ودینی مفاسد پر مشتمل عمل کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس مقصد کو پورا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو 2018 میں بننے والے ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے قانون نے دور کردیا۔
1973کے آئین میں واضح ہے کہ یہاں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنے گا۔مگر افسوس کہ پچھلی سات دہائیوں سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
بد قسمتی سے روز اول سے اس ملک کی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت مغرب پرستی میں حد سے گزر جاتی ہے، مگر پچھلے تین برسوں میں یہاں پارلیمنٹ کو بلڈوز کرکے جس طریقے سے قانون سازی ہورہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ابھی چند روز قبل کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی ہی دیکھ لیں جس میں کیسے بھونڈے انداز میں انتخابی قوانین کی منظوری دی گئی۔
ایسے ہی ٹرانس جینڈر کا قانون پاس کرایا گیا ہوگا۔ اس بل کے مطابق کوئی بھی اپنی صوابدید پر قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کرا سکتا ہے۔ خواجہ سرا ایک حقیقت ہے جس سے قطعی طور پر انکار نہیں لیکن خواجہ سرا کا مطلب ہے کہ مرد ہوتے ہوئے اس کے جنسی نظام میں کوئی معذوری ہے یا عورت ہوتے ہوئے کوئی جنسی معذوری ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک بندے کی بینائی نہیں یا جسم کا کوئی دوسرا عضو نہیں یا صحیح کام نہیں کر رہا ہے، لیکن اسے جو اللہ نے بنایا ہے وہ وہی رہے گا۔
اس بات اور نظریے پر قرآن شاہد ہے کہ رب العالمین نے جنس دو ہی پیدا کی ہیں، ایک مرد اور دوسری عورت، تیسری کوئی جنس نہیں ہے اور نہ کوئی زبردستی تیسری جنس بنا سکتا ہے۔یہ بل بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے بنا لیکن اس کا فائدہ ہم جنس پرست اٹھا رہے ہیں۔ کوئی بھی مرد نادرا میں جا کر یہ کہے کہ مجھ میں عورتوں والے احساسات جنم لے رہے ہیں لہٰذا شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں مجھے عورت لکھا جائے۔ اسی طرح کوئی بھی بچوں والی ماں یہ دعویٰ کرے کہ اب میرے اندر مردوں والے احساسات پیدا ہو گئے ہیں لہٰذا جنس کے خانے میں مجھے مرد لکھا جائے تو اس قانون کے تحت نادرا بنا کسی میڈیکل بورڈ کی سفارش کے یا بنا کسی چیک اپ کرائے مرد کو عورت اور عورت کو مرد لکھ سکتا ہے۔
اس کے بعد مرد کو کیونکہ شناختی کارڈ میں عورت لکھ دیا گیا ہے اسے قانونی طور پر مکمل آزادی ہے کہ وہ کسی مرد سے شادی کرلے، اسی طرح جس عورت کو شناختی کارڈ میں مرد قرار دے دیا گیا ہے وہ قانونی طور پر کسی بھی عورت سے شادی کرسکتی ہے۔
یعنی مرد کی شادی مرد سے، عورت کی شادی عورت سے ہوسکے گی۔ اور قانونی طور پر انھیں تحفظ حاصل ہوگا۔ 2018 سے اب تک کتنے لوگوں نے اس قانون کا فائدہ اٹھایا اور اس حوالے سے سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے سوال کیا کہ جولائی 2018 سے جون 2021 تک نادرا کو جنس تبدیلی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لیے ملنے والی درخواستوں کی کْل تعداد بتائی جائے اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ درخواست دینے والوں کی موجودہ جنس کیا تھی اور وہ اسے تبدیل کروا کر کیا لکھوانا چاہتے تھے۔
اس پر وزارت داخلہ نے جواب جمع کروایا ۔ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق، گزشتہ تین سالوں میں نادرا کو جنس تبدیلی کی 28723 درخواستیں موصول ہوئیں، جن پر عمل درآمد کیا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ 16530 درخواستیں جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے اور 15154 درخواستیں خاتون سے مرد میں تبدیل کرنے کی تھیں۔
علماء حق اس بات پر متفق ہیں کہ کسی مرد یا عورت کا اپنی جنس کو بذریعہ آپریشن تبدیل کردینا ناجائز عمل ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی خلقت وبناوٹ کو بدلنا، فطرت سے بغاوت، مذموم وشیطانی حرکت کا ارتکاب اور تخلیقِ الٰہی کو چیلنج کرنا ہے، شریعتِ اسلامیہ میں اس کی اجازت نہیں۔قرآنِ کریم کی سورۃ الروم کی آیت نمبر 30میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔'' اللہ کی فطرت پر قائم رہو، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں۔''
اور حدیثِ پاک میں ہے کہ'' اللہ پاک نے خلقت میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے'' جب عورتوں کا مردوںکے ساتھ، یا مردوں کا عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا، ناجائز وممنوع ہے، تو جنس کو تبدیل کرنا، بدرجہ اولیٰ ناجائز اور حرام ہے، ایسے ناجائز تصرفات کی اجازت انسانوں میں حیوانیت اور درندگی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہوگا۔
یہ بات واضح ہے کہ تبدیلی جنس کسی مرض کا علاج، ضرورت، داخلی دباؤ، طبعی میلان نہیں بلکہ فطرتِ الٰہی سے ہٹ کر دوسرے راستے سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا ایک نیا ڈھونگ ہے جس کا ارتکاب کرنا سراسر گمراہی اور حد سے تجاوز ہے۔ جنس کو تبدیل کرانے والا شخص نجانے کتنے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے اور محض اپنی جنسی تسکین کی خاطر کتنے احکام خداوندی کو توڑتا ہے۔ تبدیلی جنس تخلیقِ الٰہی کو بدلنا ہے جس کو شیطانی زندگی، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی طرف سے لعنت، اور دنیا وآخرت میں خسارے سے تعبیر کیاگیا ہے۔
یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پر عام مسلمان، مذہبی تنظیمات اور سیاسی جماعتیں جنسی تبدیلی کے ملکی قانون کو ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کا باعث قرار دے رہی ہیں۔اورکیوں نہ ہو؟ بھارت سمیت کئی ممالک میں جنسی تبدیلی اتنا آسان کام نہیں جتنا کلمہ طیبہ کے نام پر اسلام کے قلعے پاکستان میں بنا دیا ہے۔ بھارت میں اگر کوئی جنس تبدیلی کی درخواست دیتا ہے تو اس کے میڈیکل ایگزمینیشن کے لیے باقاعدہ طبی ماہرین کا ایک بورڈ بنتا ہے جو مکمل میڈیکل چیک اپ اور تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ آیا دعویدار کا دعوٰی ٹھیک ہے یا نہیں لیکن پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اس کی کوئی قید نہیں اور یہ چور دروازہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم جنس پرستوں کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
یہ بیہودہ قانون ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا gays اورlesbians کے ریاست میں موجود سرپرستوںکی کاوشوں کا نتیجہ اور روشن خیالی کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔ یہ سب کچھ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے پاکستان میں ہورہا ہے۔ مگر ریاست مدینہ کے دعویدار اس کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں۔ اس قانون کو ملک کے نامور دانشور، محقق اور اسکالر برادرم اوریا مقبول جان نے بھی عدالت میں چیلنج کررکھا ہے اس کیس کی سماعت دو دسمبر کو ہوگی۔
سینیٹ میں اس قانون میں ترمیم کے حوالے سے ایک ایسا مسودہ قانون پیش کیا جاچکا ہے جس کے ذریعے شہریوں کے لیے جنس کی تبدیلی کے طبی عمل کو مشکل بنانا مقصود ہے۔ یہ مطالبہ ہر ذی شعور مسلمان کا ہے کسی بھی شہری کو جنس کی تبدیلی کی اجازت دینے کے لیے علاقائی طبی بورڈ قائم کیا جانا چاہیے۔
اور 100 فیصد شواہد پر ماہرین کی رائے اور فیصلے کی بنیاد پر نادرا جنس کی تبدیلی پر عمل کرے۔ کسی بھی پاکستانی کو غیر واضح صنفی تخصیص یا نفسیاتی مسائل کی بنیاد پر جنسی اعضاء کی سرجری کی صورت میں اس کی صنف کے نئے سرے سے تعین کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس قانون میں ترمیم نہیں بلکہ اسے سرے سے ہی ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کسی ایسے قانون کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔کیوں کہ یہ جنسی معذوری ہے اس لیے یہ اپنے اور دوسرے کے قانون فطرت کے مطابق جنسی تسکین کا ذریعہ بن ہی نہیں سکتے تو ان کی شادی پر قانوناً مکمل پابندی ہونا چاہیے۔
اس کام کے لیے تمام محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا اور پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں پارلیمنٹ کے باہر بھی اس کے خلاف جدوجہد ضروری ہے۔ یہ قانون کسی خاص ایجنڈے کا نکتہ آغاز معلوم ہوتا ہے، اس کو قانون کہنا قانون کی توہین ہے، کیونکہ اس کا مقصد معاشرے میں بے راہ روی و بے حیائی کے فروغ کے لیے '' ہم جنس پرستی کا لائسنس'' ہے۔ پاکستان کے اسلام پسند عوام کو دین سے دور کرنے اور ریاست کو سیکولر بنانے کے لیے اسی قسم کے منصوبے بنائے گئے ہیں، تاکہ مسلمانان پاکستان کے دلوں سے دین کی محبت نکل جائے اور باطل قوتوں کو یہاں کھیل کھیلنے کا موقع ملے۔
آج دنیا بھر میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو اللہ کے نظام کو چیلنج کررہا ہے، اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد، اپنے مرد ہونے پر اور عورتیں اپنے عورت ہونے پر نالاں ہیں، سائنس کی ترقی ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں سہولت کار بن چکی ہے۔
آج تبدیلی جنس دنیا میں فیشن بن چکا ہے، تبدیلیِ جنس یعنی مرد سے عورت اور عورت سے مرد بننے کے ذریعے اپنی نامراد جنسی تسکین میں مبتلا ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ قدرت سے ٹکراؤ کا یہ غلیظ جذبہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔اب تو کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں بھی اس سنگین اور بہت سے دنیاوی ودینی مفاسد پر مشتمل عمل کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس مقصد کو پورا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو 2018 میں بننے والے ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے قانون نے دور کردیا۔
1973کے آئین میں واضح ہے کہ یہاں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنے گا۔مگر افسوس کہ پچھلی سات دہائیوں سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
بد قسمتی سے روز اول سے اس ملک کی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت مغرب پرستی میں حد سے گزر جاتی ہے، مگر پچھلے تین برسوں میں یہاں پارلیمنٹ کو بلڈوز کرکے جس طریقے سے قانون سازی ہورہی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ابھی چند روز قبل کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی ہی دیکھ لیں جس میں کیسے بھونڈے انداز میں انتخابی قوانین کی منظوری دی گئی۔
ایسے ہی ٹرانس جینڈر کا قانون پاس کرایا گیا ہوگا۔ اس بل کے مطابق کوئی بھی اپنی صوابدید پر قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کرا سکتا ہے۔ خواجہ سرا ایک حقیقت ہے جس سے قطعی طور پر انکار نہیں لیکن خواجہ سرا کا مطلب ہے کہ مرد ہوتے ہوئے اس کے جنسی نظام میں کوئی معذوری ہے یا عورت ہوتے ہوئے کوئی جنسی معذوری ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک بندے کی بینائی نہیں یا جسم کا کوئی دوسرا عضو نہیں یا صحیح کام نہیں کر رہا ہے، لیکن اسے جو اللہ نے بنایا ہے وہ وہی رہے گا۔
اس بات اور نظریے پر قرآن شاہد ہے کہ رب العالمین نے جنس دو ہی پیدا کی ہیں، ایک مرد اور دوسری عورت، تیسری کوئی جنس نہیں ہے اور نہ کوئی زبردستی تیسری جنس بنا سکتا ہے۔یہ بل بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے بنا لیکن اس کا فائدہ ہم جنس پرست اٹھا رہے ہیں۔ کوئی بھی مرد نادرا میں جا کر یہ کہے کہ مجھ میں عورتوں والے احساسات جنم لے رہے ہیں لہٰذا شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں مجھے عورت لکھا جائے۔ اسی طرح کوئی بھی بچوں والی ماں یہ دعویٰ کرے کہ اب میرے اندر مردوں والے احساسات پیدا ہو گئے ہیں لہٰذا جنس کے خانے میں مجھے مرد لکھا جائے تو اس قانون کے تحت نادرا بنا کسی میڈیکل بورڈ کی سفارش کے یا بنا کسی چیک اپ کرائے مرد کو عورت اور عورت کو مرد لکھ سکتا ہے۔
اس کے بعد مرد کو کیونکہ شناختی کارڈ میں عورت لکھ دیا گیا ہے اسے قانونی طور پر مکمل آزادی ہے کہ وہ کسی مرد سے شادی کرلے، اسی طرح جس عورت کو شناختی کارڈ میں مرد قرار دے دیا گیا ہے وہ قانونی طور پر کسی بھی عورت سے شادی کرسکتی ہے۔
یعنی مرد کی شادی مرد سے، عورت کی شادی عورت سے ہوسکے گی۔ اور قانونی طور پر انھیں تحفظ حاصل ہوگا۔ 2018 سے اب تک کتنے لوگوں نے اس قانون کا فائدہ اٹھایا اور اس حوالے سے سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے سوال کیا کہ جولائی 2018 سے جون 2021 تک نادرا کو جنس تبدیلی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لیے ملنے والی درخواستوں کی کْل تعداد بتائی جائے اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ درخواست دینے والوں کی موجودہ جنس کیا تھی اور وہ اسے تبدیل کروا کر کیا لکھوانا چاہتے تھے۔
اس پر وزارت داخلہ نے جواب جمع کروایا ۔ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق، گزشتہ تین سالوں میں نادرا کو جنس تبدیلی کی 28723 درخواستیں موصول ہوئیں، جن پر عمل درآمد کیا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ 16530 درخواستیں جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے اور 15154 درخواستیں خاتون سے مرد میں تبدیل کرنے کی تھیں۔
علماء حق اس بات پر متفق ہیں کہ کسی مرد یا عورت کا اپنی جنس کو بذریعہ آپریشن تبدیل کردینا ناجائز عمل ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی خلقت وبناوٹ کو بدلنا، فطرت سے بغاوت، مذموم وشیطانی حرکت کا ارتکاب اور تخلیقِ الٰہی کو چیلنج کرنا ہے، شریعتِ اسلامیہ میں اس کی اجازت نہیں۔قرآنِ کریم کی سورۃ الروم کی آیت نمبر 30میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔'' اللہ کی فطرت پر قائم رہو، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں۔''
اور حدیثِ پاک میں ہے کہ'' اللہ پاک نے خلقت میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے'' جب عورتوں کا مردوںکے ساتھ، یا مردوں کا عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا، ناجائز وممنوع ہے، تو جنس کو تبدیل کرنا، بدرجہ اولیٰ ناجائز اور حرام ہے، ایسے ناجائز تصرفات کی اجازت انسانوں میں حیوانیت اور درندگی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہوگا۔
یہ بات واضح ہے کہ تبدیلی جنس کسی مرض کا علاج، ضرورت، داخلی دباؤ، طبعی میلان نہیں بلکہ فطرتِ الٰہی سے ہٹ کر دوسرے راستے سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا ایک نیا ڈھونگ ہے جس کا ارتکاب کرنا سراسر گمراہی اور حد سے تجاوز ہے۔ جنس کو تبدیل کرانے والا شخص نجانے کتنے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے اور محض اپنی جنسی تسکین کی خاطر کتنے احکام خداوندی کو توڑتا ہے۔ تبدیلی جنس تخلیقِ الٰہی کو بدلنا ہے جس کو شیطانی زندگی، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی طرف سے لعنت، اور دنیا وآخرت میں خسارے سے تعبیر کیاگیا ہے۔
یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پر عام مسلمان، مذہبی تنظیمات اور سیاسی جماعتیں جنسی تبدیلی کے ملکی قانون کو ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کا باعث قرار دے رہی ہیں۔اورکیوں نہ ہو؟ بھارت سمیت کئی ممالک میں جنسی تبدیلی اتنا آسان کام نہیں جتنا کلمہ طیبہ کے نام پر اسلام کے قلعے پاکستان میں بنا دیا ہے۔ بھارت میں اگر کوئی جنس تبدیلی کی درخواست دیتا ہے تو اس کے میڈیکل ایگزمینیشن کے لیے باقاعدہ طبی ماہرین کا ایک بورڈ بنتا ہے جو مکمل میڈیکل چیک اپ اور تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ آیا دعویدار کا دعوٰی ٹھیک ہے یا نہیں لیکن پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اس کی کوئی قید نہیں اور یہ چور دروازہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم جنس پرستوں کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
یہ بیہودہ قانون ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا gays اورlesbians کے ریاست میں موجود سرپرستوںکی کاوشوں کا نتیجہ اور روشن خیالی کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔ یہ سب کچھ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے پاکستان میں ہورہا ہے۔ مگر ریاست مدینہ کے دعویدار اس کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں۔ اس قانون کو ملک کے نامور دانشور، محقق اور اسکالر برادرم اوریا مقبول جان نے بھی عدالت میں چیلنج کررکھا ہے اس کیس کی سماعت دو دسمبر کو ہوگی۔
سینیٹ میں اس قانون میں ترمیم کے حوالے سے ایک ایسا مسودہ قانون پیش کیا جاچکا ہے جس کے ذریعے شہریوں کے لیے جنس کی تبدیلی کے طبی عمل کو مشکل بنانا مقصود ہے۔ یہ مطالبہ ہر ذی شعور مسلمان کا ہے کسی بھی شہری کو جنس کی تبدیلی کی اجازت دینے کے لیے علاقائی طبی بورڈ قائم کیا جانا چاہیے۔
اور 100 فیصد شواہد پر ماہرین کی رائے اور فیصلے کی بنیاد پر نادرا جنس کی تبدیلی پر عمل کرے۔ کسی بھی پاکستانی کو غیر واضح صنفی تخصیص یا نفسیاتی مسائل کی بنیاد پر جنسی اعضاء کی سرجری کی صورت میں اس کی صنف کے نئے سرے سے تعین کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس قانون میں ترمیم نہیں بلکہ اسے سرے سے ہی ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کسی ایسے قانون کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔کیوں کہ یہ جنسی معذوری ہے اس لیے یہ اپنے اور دوسرے کے قانون فطرت کے مطابق جنسی تسکین کا ذریعہ بن ہی نہیں سکتے تو ان کی شادی پر قانوناً مکمل پابندی ہونا چاہیے۔
اس کام کے لیے تمام محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا اور پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں پارلیمنٹ کے باہر بھی اس کے خلاف جدوجہد ضروری ہے۔ یہ قانون کسی خاص ایجنڈے کا نکتہ آغاز معلوم ہوتا ہے، اس کو قانون کہنا قانون کی توہین ہے، کیونکہ اس کا مقصد معاشرے میں بے راہ روی و بے حیائی کے فروغ کے لیے '' ہم جنس پرستی کا لائسنس'' ہے۔ پاکستان کے اسلام پسند عوام کو دین سے دور کرنے اور ریاست کو سیکولر بنانے کے لیے اسی قسم کے منصوبے بنائے گئے ہیں، تاکہ مسلمانان پاکستان کے دلوں سے دین کی محبت نکل جائے اور باطل قوتوں کو یہاں کھیل کھیلنے کا موقع ملے۔