المصطفیٰ ٹرسٹ ایک کہانی

ہمارے ملک میں ایک عجیب کلچر ہے کہ ہم غیر ملکی این جی اوز اور فلاحی اداروں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

msuherwardy@gmail.com

لاہور:
پاکستان درد دل رکھنے والے لوگوں کا ملک ہے۔ یہاں لوگ خیراتی اور فلاحی اداروں کو دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس دینے پر اتنا یقین نہیں رکھتے جتنا خلق خدا کی مدد کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میںفلاحی کام کرنے کے بہت مواقعے ہیں۔ ہمیںمتمول طبقے کو اس جانب لانا چاہیے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد مصطفی خان نے المصطفیٰ ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور یہ ٹرسٹ کام کر رہا ہے۔ مجھے المصطفیٰ ٹرسٹ اس لیے بھی دلچسپ لگا کیونکہ زیادہ تر این جی اوز اور ٹرسٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑے شہروں میں کام کریں تا کہ اس کام کو لوگوں کو آسانی سے دکھایا جا سکے۔ صاف بات ہے کہ اگر کام نظر نہیں آئے گا تو لوگوں سے مدد لینے میں مشکل ہو گی۔ اس لیے ہم نے دیکھا ہے کہ شہروں میں مختلف تنظیمیں فلاحی کام کرتی نظر آتی ہیں۔ حالانکہ کام کرنے کی زیادہ ضرورت دیہی اور غریب علاقوں میں ہے۔

لیکن دیہی اور غریب علاقوں میں کیے جانا والا کام لوگوں کو دکھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد مصطفیٰ خان کا المصطفیٰ ٹرسٹ شہروں سے دور غریب اور متوسط علاقوں میں کام کر رہا ہے، اور انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ان کا یہ کام میڈیا اور لوگوں کی نظر میں ہے کہ نہیں۔

المصطفیٰ ٹرسٹ بنیادی طور پر غریب اور سطح غربت سے نیچے رہنے والے طبقوں کو پرائمری ہیلتھ اور صحت کی بنیادی سہولتیں دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے المصطفیٰ ٹرسٹ نہایت غریب علاقوں میں میڈیکل سینٹرز، ڈسپنسریز اور موبائل ڈسپنسریز قائم کرتا ہے۔ جہاں غریب لوگوں کو مفت علاج کی سہولت دی جاتی ہے۔ ٹرسٹ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اس کے سینٹرز میں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کو لیجایا جائے اور وہ وہاں غریب لوگوں کا مفت چیک اپ کریں اور ان کا علاج کریں۔ اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسپیشلسٹ کے ساتھ المصطفیٰ ٹرسٹ نے معاہدے بھی کیے ہیں۔

اس کے ساتھ ٹرسٹ لوگوں کو ایکسرے ،ای سی جی اور الٹرا ساؤنڈ، کی مفت سہولیات بھی فراہم کرتا ہے۔ لوگوں میں صحت کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کے لیے غریب علاقوں میں آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے تا کہ لوگوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کا احساس دیا جا سکے۔ دور دراز علاقے جہاں پہنچنا مشکل ہے وہاں موبائل ڈسپنسریز پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ سب کام ان علاقوں میں کیے جا رہے ہیں جہاں کی خبر بھی ہم تک نہیں پہنچ سکتی ایسے میں ان علاقوں میں کیے جانے والا کام کیسے ہم تک پہنچ سکتا ہے۔

مجھے المصطفیٰ ٹرسٹ کی ایک بات یہ بھی اچھی لگی ہے کہ اس میں کام کرنے والے کسی بھی شخص کو کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی۔ سب جذبہ انسانیت کے تحت مفت کام کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں جن کے ڈائریکٹرز نے اپنی پر کشش تنخواہیں رکھی ہوئی ہیں، شاندار دفاتر بنائے ہیں اور بہترین اسٹاف رکھا ہوا ہے ۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ بھائی یہ سب کچھ کیوں تو وہ کہتے ہیں کہ دکھائیںگے نہیں تو بیچیں گے کیا۔ لیکن المصطفیٰ ٹرسٹ نے خود کو ان سب دنیاوی چیزوں سے دور رکھا ہوا ہے۔


وہاں کسی کی کوئی تنخواہ نہیں ہے۔ کسی کو مراعات حاصل نہیں ہے۔ جس میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ ہے وہ کام کر لے جس کو نوکری کی تلاش ہے وہ کوئی اور جگہ دیکھ لے۔ اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر فلاحی اداروں میں تنخواہوں اور مراعات میں ہی گھپلے نظر آتے ہیں۔ ایک بہت بڑے اسلامی ریلیف کے ادارے میں 2016 میں اسکینڈل سامنے آیا تھا کہ اس نے اپنے لوگوں کو ساٹھ ہزار پاؤنڈ سے زیادہ دیے جس کا کوئی حساب نہیں تھا۔

2020میں المصطفیٰ ٹرسٹ نے آٹھ لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج کی مفت سہولیات میسر کی ہیں۔ اسی طرح چونسٹھ ہزار سے زائد مریضوں کو مفت لیب کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ نو ہزار سے زائد مریضوں کے مفت الٹرا ساؤنڈ کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں لوگوں کو دیگر طبی سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ آجکل پاکستان میں ڈینٹل علاج بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ ضرورت مند اور انتہائی غریب لوگوں کو فری ڈینٹل علاج کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ اس طرح 2020میں دس لاکھ سے زائد لوگوں کو المصطفیٰ ٹرسٹ کی جانب سے پرائمری ہیلتھ کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں پاکستان میں فلاحی اداروں کو صحت کے شعبہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مخیر حضرات بھی دینی درسگاہوں کی مدد کرنے کو بہت افضل سمجھتے ہیں۔ میں دینی درسگاہوں کی اہمیت سے انکاری نہیں ہوں۔ مجھے ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ لیکن پھر بھی سمجھتا ہوں پاکستان میں صحت کی سہولیات کی بہت کمی ہے۔ ویسے تو تعلیم کی سہولیات کی بھی بہت کمی ہے۔ لیکن صحت انسانی جان کا مسئلہ ہے۔ اس لیے انسان کی جان بچانا سب سے افضل ہے۔

جان ہے تو جہان کی مصداق جان بچانے کی اپنی اہمیت ہے۔ اس لیے اگر ہم صحت کے شعبہ میں کام کرنے والوں کو ترجیح دیں تو مجھے امید ہے کہ پاکستان میں ہر غریب کو علاج کی سہولت مل سکتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ اس لیے انسانوں کی جان بچانے سے افضل کوئی کام نہیں۔

مجھے امید ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد مصطفیٰ خان کی قیادت میں المصطفیٰ ٹرسٹ ایک نیک کام کر رہا ہے۔ وہ اس ملک کے محروم اور غریب طبقہ کی فکر کر رہے ہیں۔ ان کا الیکشن لڑنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کا کوئی انتخابی حلقہ بھی نہیں ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے لیے بھی کام نہیں کر رہے۔ ان کا کام پورے پنجاب میں پھیلا ہوا ہے۔ اور وہ اس کا دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ گاؤں گاؤں کام کرنے کی چاہت رکھتے ہیں۔ میری رب کریم سے دعا ہے کہ اللہ میاں ان کی مدد کرے اور ان کے تمام اہداف ان کے لیے آسان بنادے۔

ہمارے ملک میں ایک عجیب کلچر ہے کہ ہم غیر ملکی این جی اوز اور فلاحی اداروں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب کہ اپنے اداروں کو وہ عزت اور احترام نہیں دیتے جو ہمیں دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان میں المصطفیٰ ٹرسٹ جیسے کئی ادارے جو کہیں نہ کہیں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ ہمارے اصل ہیرو ہیں۔
Load Next Story