معاشی ترقی کی شرح 4 تا 5 فیصد اور افراط زر 9 فیصد رہنے کا امکان اسٹیٹ بینک
ترسیلاتِ زر30.5ارب ڈالر سے 32.5 ارب ڈالر ، برآمدات 27.5 ارب ڈالر جبکہ درآمدات63.5 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ واں مالی سال افراط زر کی شرح 7 سے 9 فیصد رہنے کا امکان ہے جب کہ معاشی ترقی کی شرح 4 سے 5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 21-2020 کی سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے جس میں مالی سال2020-21ء کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مالی سال21ء میں پاکستانی معیشت بحال ہوئی اور حقیقی جی ڈی پی کی نمو بڑھ کر3.9فیصد تک پہنچ گئی۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ معاشی سرگرمی میں اس توسیع کے ساتھ جاری کھاتے کا توازن 10برس کی کم ترین سطح پر آ گیا جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کافی اضافہ ہوا۔ سال کے دوران عمومی صارف اشاریہ قیمت( CPI) مہنگائی بھی معتدل ہو گئی جس کا اہم سبب غیرغذائی اور غیر توانائی اشیا کی نسبتاً مستحکم قیمتیں تھیں۔ تاہم رسدی چیلنجز کی وجہ سے قیمتوں کی مجموعی خصوصاً غذائی اشیا کی قیمتوں کی سطح بلند رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی بحالی میں کووڈ کی وبا کے زبردست انتظام کے ساتھ اس کے معاشی نمو اور آمدنیوں پر اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے فوری اور برہدف زری اور مالیاتی اقدامات سے بھی مدد ملی۔
حکومت نے معاشی تحریک پیکیج کے ذریعے جی ڈی پی کے تقریباً2فیصد تک برہدف مالیاتی اعانت فراہم کی، جس سے ہنگامی نقد رقوم کی منتقلیوں کے ذریعے 15 ملین سے زائد خاندانوں کو اعانت دی گئی۔
مزید برآں، مالی سال21ء میں حکومت نے زراعت، مینوفیکچرنگ اور برآمدی شعبوں میں سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلیے متعدد ترغیبات دیں۔ مالی سال20ء میں کووڈ کے سبب سکڑاؤ کے پست اساسی اثر کی بدولت مالی سال 21ء میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں14.9فیصد اضافہ درج کیا گیا۔
زراعت کی نمو مالی سال20ء کے مقابلے میں کچھ کم رہی، تاہم، گندم، چاول اور مکئی کی پیداوار بڑھ کر تاریخی سطح تک پہنچ گئی۔ اسٹیٹ بینک کی عارضی معاشی ری فنانس سہولت اور طویل مدتی فنانس سہولت جیسی رعایتی ری فنانس اسکیموں نے بھی سال کے دوران معین سرمایہ کاری قرضوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کارکنوں کی ریکارڈ بلند ترسیلات زر اور برآمدی وصولیوں کے باعث جاری کھاتے کا خسارہ کافی سکڑ گیا اور وہ دورانِ سال اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر میں 5.2 ارب ڈالر اضافے کا سبب بنا۔
آئی ایم ایف اور قرض دینے والے دیگر کثیر فریقی اور دو طرفہ اداروں سے رقوم کی وصولی، طویل وقفے کے بعد یورو بانڈ کے اجرا اور روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے غیر مقیم پاکستانیوں سے ڈپازٹس اور سرمایہ کاری کی آمدن سے کافی بیرونی فنانسنگ دستیاب ہوئی۔ بلند برآمدات نے درآمدی ادائیگیوں میں نمایاں اضافے کو جزوی طور پر زائل کر دیا۔
مالیاتی خسارہ جو گذشتہ سال جی ڈی پی کا 8.1 فیصد تھا ، زیرِ جائزہ سال میں 7.1 فیصد رہ گیا۔ ترقیاتی اخراجات بھی معمولی سے بحال ہوئے جو گذشتہ تین سال سے متواتر کم ہو رہے تھے۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 21-2020 کی سالانہ معاشی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے جس میں مالی سال2020-21ء کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مالی سال21ء میں پاکستانی معیشت بحال ہوئی اور حقیقی جی ڈی پی کی نمو بڑھ کر3.9فیصد تک پہنچ گئی۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ معاشی سرگرمی میں اس توسیع کے ساتھ جاری کھاتے کا توازن 10برس کی کم ترین سطح پر آ گیا جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کافی اضافہ ہوا۔ سال کے دوران عمومی صارف اشاریہ قیمت( CPI) مہنگائی بھی معتدل ہو گئی جس کا اہم سبب غیرغذائی اور غیر توانائی اشیا کی نسبتاً مستحکم قیمتیں تھیں۔ تاہم رسدی چیلنجز کی وجہ سے قیمتوں کی مجموعی خصوصاً غذائی اشیا کی قیمتوں کی سطح بلند رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی بحالی میں کووڈ کی وبا کے زبردست انتظام کے ساتھ اس کے معاشی نمو اور آمدنیوں پر اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے فوری اور برہدف زری اور مالیاتی اقدامات سے بھی مدد ملی۔
حکومت نے معاشی تحریک پیکیج کے ذریعے جی ڈی پی کے تقریباً2فیصد تک برہدف مالیاتی اعانت فراہم کی، جس سے ہنگامی نقد رقوم کی منتقلیوں کے ذریعے 15 ملین سے زائد خاندانوں کو اعانت دی گئی۔
مزید برآں، مالی سال21ء میں حکومت نے زراعت، مینوفیکچرنگ اور برآمدی شعبوں میں سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلیے متعدد ترغیبات دیں۔ مالی سال20ء میں کووڈ کے سبب سکڑاؤ کے پست اساسی اثر کی بدولت مالی سال 21ء میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں14.9فیصد اضافہ درج کیا گیا۔
زراعت کی نمو مالی سال20ء کے مقابلے میں کچھ کم رہی، تاہم، گندم، چاول اور مکئی کی پیداوار بڑھ کر تاریخی سطح تک پہنچ گئی۔ اسٹیٹ بینک کی عارضی معاشی ری فنانس سہولت اور طویل مدتی فنانس سہولت جیسی رعایتی ری فنانس اسکیموں نے بھی سال کے دوران معین سرمایہ کاری قرضوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کارکنوں کی ریکارڈ بلند ترسیلات زر اور برآمدی وصولیوں کے باعث جاری کھاتے کا خسارہ کافی سکڑ گیا اور وہ دورانِ سال اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر میں 5.2 ارب ڈالر اضافے کا سبب بنا۔
آئی ایم ایف اور قرض دینے والے دیگر کثیر فریقی اور دو طرفہ اداروں سے رقوم کی وصولی، طویل وقفے کے بعد یورو بانڈ کے اجرا اور روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے غیر مقیم پاکستانیوں سے ڈپازٹس اور سرمایہ کاری کی آمدن سے کافی بیرونی فنانسنگ دستیاب ہوئی۔ بلند برآمدات نے درآمدی ادائیگیوں میں نمایاں اضافے کو جزوی طور پر زائل کر دیا۔
مالیاتی خسارہ جو گذشتہ سال جی ڈی پی کا 8.1 فیصد تھا ، زیرِ جائزہ سال میں 7.1 فیصد رہ گیا۔ ترقیاتی اخراجات بھی معمولی سے بحال ہوئے جو گذشتہ تین سال سے متواتر کم ہو رہے تھے۔