تحریک انصاف کو اب کرنا کیا چاہیے
لو بھئی ! رہی سہی کسر اب نکل رہی ہے کہ اب پٹرول بھی عوام کو مہنگا اور لائنوں میں لگ کر ہی ملے گا،
KARACHI:
لو بھئی ! رہی سہی کسر اب نکل رہی ہے کہ اب پٹرول بھی عوام کو مہنگا اور لائنوں میں لگ کر ہی ملے گا، غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ساڑھے 3 سال میں ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے تو اس کی ذمے دار صرف حکومت نہیں ہے۔
اپوزیشن اس میں برابر کی سہولت کار ہے، خیر یہ تو الگ بحث ہے۔مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ آٹا، چینی، دال، سبزی، پٹرول، بجلی اور گیس سمیت بنیادی استعمال کی ہر چیز اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ عام آدمی اپنے شب روز کیسے بسر کررہا ہے، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
وزرا، مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج اعداد و شمار کو جتنا مرضی گھما پھرا لیں، یہ بات ان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنارکھا ہے، یا یوں کہیے کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے جینا اجیرن ہو چکا ہے۔ خوفناک مہنگائی کی لپیٹ میں آئے عوام میں غصے کی ایک لہر موجود ہے۔ تحریک انصاف پر مرمٹنے والے کارکن بھی اب مہنگائی کی اس لہر کا دفاع پہلے سے جوش و جذبے کے ساتھ نہیں کر پاتے، مگر وزیراعظم اس حوالے سے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ اس سب کے باوجود بھی راوی ابھی تک تبدیلی سرکار کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔
نومبر تو لگتا ہے کہ اس ملک پر ہی بھاری ثابت ہو رہا ہے اور حکومت مسائل سے بے خبر چپ سادھے کھڑی ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں لاہور میں ہوئی اپنے ڈھب کی آزادی اظہار کانفرنس، جس میں ملکی اداروں کو تاک تاک کر نشانے لگائے گئے' یقینا درست طرز عمل نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس کی ایک مبینہ آڈیو بھی گردش کررہی ہے، یہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے وائرل کروائی گئی، مسلم لیگ نون اسے بنیاد بناکر اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہ رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس اس آڈیو کو جعلی قرار دے کر مسترد تو کرچکے ہیں لیکن ، قانونی کارروائی کا اعلان نہیں کیا گیا۔
ادھر آئی ایم ایف حکومت کو چاروں شانے چت کیے ہوئے ہے۔حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے اُس وقت سے آئی ایم ایف پاکستان سے 6ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے جس کے بعد حکومت نے رواں سال مارچ میں مزید قرضہ لینے کے لیے رابطہ کیا جو بے سود گیا۔
تاہم اب آٹھ ماہ کے تعطل کے بعد حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں ، اس کامیابی کے بعد حکومت کو تقریباً ایک ارب ڈالر کی رقم مل سکے گی، جس کی حتمی منظوری ایگزیکٹو بورڈ جنوری2022 میں دے گا، مگر اس کے ساتھ ہی نئی کڑی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں، حکومت اگر ان شرائط کو پورا کرتی ہے تو عوام کی مشکلات بڑھ جائیں گی لیکن حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں ہے، تمام مسائل حکومت کے سامنے ہیں اور ''حکومت'' عوام کے سامنے ہے ۔ عوام حکومت کا منہ دیکھ رہے ہیں اور حکومت عوام کا۔ اب تو یقین مانیں حکومت کو کوئی تجویز دینے کو بھی دل نہیں مانتا ۔اب کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ حکومت کو مسائل کی دلدل سے کون نکالے گا۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اُسے کس بلاک میں بیٹھنا ہے۔
چین، روس تو خود امریکا کے بغیر چل نہیں سکتے تو وہ پاکستان کو کیا سپورٹ کریں گے۔ یعنی اگر حکومت امریکا کے ساتھ مراسم ٹھیک کر لے تو اُس کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، کل بھی تھا، اور اگلے 50سال تک رہے گا۔ جو ملک امریکا سے ڈبل گیم کرے گا، وہ معاشی ابتری کا شکار ہوگا۔ اس کی حالیہ مثال ترکی ہے، صدر اردوان نے 23اکتوبر کو دس مغربی ملکوں کے سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا تھا ۔ ان میںامریکا، کینیڈا،ڈنمارک، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، نیوزی لینڈکے سفارتکار شامل تھے۔
آج صرف ایک ماہ گزرنے کے بعد ترکی کو دن میں تارے نظر آگئے اور ہر چیز کے دام دوگنا ہوگئے ہیں لہٰذا ہماری حکومت کو چاہیے کہ اپنے مسائل حل کرے، اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بتدریج سارے مسئلے حل ہوتے جائیں گے۔
لو بھئی ! رہی سہی کسر اب نکل رہی ہے کہ اب پٹرول بھی عوام کو مہنگا اور لائنوں میں لگ کر ہی ملے گا، غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ساڑھے 3 سال میں ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے تو اس کی ذمے دار صرف حکومت نہیں ہے۔
اپوزیشن اس میں برابر کی سہولت کار ہے، خیر یہ تو الگ بحث ہے۔مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ آٹا، چینی، دال، سبزی، پٹرول، بجلی اور گیس سمیت بنیادی استعمال کی ہر چیز اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ عام آدمی اپنے شب روز کیسے بسر کررہا ہے، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
وزرا، مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج اعداد و شمار کو جتنا مرضی گھما پھرا لیں، یہ بات ان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنارکھا ہے، یا یوں کہیے کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے جینا اجیرن ہو چکا ہے۔ خوفناک مہنگائی کی لپیٹ میں آئے عوام میں غصے کی ایک لہر موجود ہے۔ تحریک انصاف پر مرمٹنے والے کارکن بھی اب مہنگائی کی اس لہر کا دفاع پہلے سے جوش و جذبے کے ساتھ نہیں کر پاتے، مگر وزیراعظم اس حوالے سے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ اس سب کے باوجود بھی راوی ابھی تک تبدیلی سرکار کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔
نومبر تو لگتا ہے کہ اس ملک پر ہی بھاری ثابت ہو رہا ہے اور حکومت مسائل سے بے خبر چپ سادھے کھڑی ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں لاہور میں ہوئی اپنے ڈھب کی آزادی اظہار کانفرنس، جس میں ملکی اداروں کو تاک تاک کر نشانے لگائے گئے' یقینا درست طرز عمل نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس کی ایک مبینہ آڈیو بھی گردش کررہی ہے، یہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے وائرل کروائی گئی، مسلم لیگ نون اسے بنیاد بناکر اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہ رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس اس آڈیو کو جعلی قرار دے کر مسترد تو کرچکے ہیں لیکن ، قانونی کارروائی کا اعلان نہیں کیا گیا۔
ادھر آئی ایم ایف حکومت کو چاروں شانے چت کیے ہوئے ہے۔حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے اُس وقت سے آئی ایم ایف پاکستان سے 6ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے جس کے بعد حکومت نے رواں سال مارچ میں مزید قرضہ لینے کے لیے رابطہ کیا جو بے سود گیا۔
تاہم اب آٹھ ماہ کے تعطل کے بعد حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں ، اس کامیابی کے بعد حکومت کو تقریباً ایک ارب ڈالر کی رقم مل سکے گی، جس کی حتمی منظوری ایگزیکٹو بورڈ جنوری2022 میں دے گا، مگر اس کے ساتھ ہی نئی کڑی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں، حکومت اگر ان شرائط کو پورا کرتی ہے تو عوام کی مشکلات بڑھ جائیں گی لیکن حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں ہے، تمام مسائل حکومت کے سامنے ہیں اور ''حکومت'' عوام کے سامنے ہے ۔ عوام حکومت کا منہ دیکھ رہے ہیں اور حکومت عوام کا۔ اب تو یقین مانیں حکومت کو کوئی تجویز دینے کو بھی دل نہیں مانتا ۔اب کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ حکومت کو مسائل کی دلدل سے کون نکالے گا۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اُسے کس بلاک میں بیٹھنا ہے۔
چین، روس تو خود امریکا کے بغیر چل نہیں سکتے تو وہ پاکستان کو کیا سپورٹ کریں گے۔ یعنی اگر حکومت امریکا کے ساتھ مراسم ٹھیک کر لے تو اُس کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، کل بھی تھا، اور اگلے 50سال تک رہے گا۔ جو ملک امریکا سے ڈبل گیم کرے گا، وہ معاشی ابتری کا شکار ہوگا۔ اس کی حالیہ مثال ترکی ہے، صدر اردوان نے 23اکتوبر کو دس مغربی ملکوں کے سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا تھا ۔ ان میںامریکا، کینیڈا،ڈنمارک، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، نیوزی لینڈکے سفارتکار شامل تھے۔
آج صرف ایک ماہ گزرنے کے بعد ترکی کو دن میں تارے نظر آگئے اور ہر چیز کے دام دوگنا ہوگئے ہیں لہٰذا ہماری حکومت کو چاہیے کہ اپنے مسائل حل کرے، اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بتدریج سارے مسئلے حل ہوتے جائیں گے۔