ہم اور ہماری جمہوریت

میوزیکل چیئرزکا یہ گھناؤنا کھیل عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر مسلسل کھیلا جا رہا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ جنھوں نے مملکت پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور خاکہ ترتیب دیا تھا، وہ اس خاکہ میں رنگ بھرنے اور اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے سے قبل ہی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے، پھر اس کے بعد بابائے قوم نے اس خاکہ میں رنگ بھر کر علامہ اقبالؒ کے خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا لیکن ان کی زندگی نے بھی کچھ زیادہ وفا نہ کی اور ان کی وفات کے بعد ملک کی باگ ڈور ان کے جانشین اور دست راست نواب زادہ لیاقت علی خان کے ہاتھ میں آگئی جو اپنی اربوں روپے کی املاک اور جائیداد چھوڑ چھاڑ کر اس مملکت خداد میں ہجرت کرکے آگئے تھے ، لیکن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انھیں شہید کردیا گیا۔

اس کے بعد یہ ملک عملاً لاوارث ہوگیا اور اپنی منزل مراد سے محروم ہو کر اقتدار کے بھوکوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگیا جو کبھی بنیادی جمہوریت اور کبھی مغربی جمہوریت کے نام پر اپنی ہوس مٹاتے رہے۔ تب سے لے کر آج تک یہ ملک ان ظالموں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے جو لوٹ مارکرنے میں مصروف ہیں اور پاکستان کے عوام کو کبھی فرقہ بندی اور لسانی جھگڑوں اور طرح طرح کے اختلافات میں پھنسا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ اس عظیم المیہ کو محسن بھوپالی نے اپنے درجہ ذیل شعر میں بیان کر کے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے:

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

میوزیکل چیئرزکا یہ گھناؤنا کھیل عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر مسلسل کھیلا جا رہا ہے ، جو نورا کشتی کی شکل اختیارکر چکا ہے۔ پاکستان کے بھولے بھالے عوام الیکشن کے نام پرکھیلے جانے والے ناٹک کو حقیقت سمجھ کر ہر بار دھوکا کھاتے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتاتے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں یہ کھیل کرکٹ کے ایک نامورکھلاڑی کے ذریعہ کھیلا گیا جس کا نتیجہ عوام بے لگام مہنگائی کے بھیانک روپ میں دیکھ رہے ہیں اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں۔

صرف غریب ہی نہیں متوسط طبقہ بھی گرانی کی اس چکی میں بہت بری طرح پس رہا ہے اور اسے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔ بے چارے عوام کا کچومر نکل رہا ہے اور ارباب اختیار انھیں جھوٹی تسلیاں دے کر اور وعدہ فردا کی آڑ لے کر اقتدار سے بری طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ عوام سے کیے گئے تبدیلی کے سہانے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں لیکن حکمراں ہیں کہ ان کے کانوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان کی چیخیں حکمرانوں کے کانوں میں نہیں جا رہیں۔ نام نہاد اپوزیشن بھی چلے ہوئے کارتوسوں کی طرح بے کار اور بے سود ہے۔سچ تو یہ ہے اس کے کارنامے بھی قوم ابھی بھلا نہیں سکی ہے۔

مغربی جمہوریت کی جو بیل جو خود اپنی سرزمین پر جڑ نہیں پکڑ سکی بھلا وہ ہمارے ملک میں کیا خاک منڈھے چڑھ سکتی ہے۔ مصور پاکستان علامہ اقبال بہت عرصہ قبل یہ بات سمجھانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ:

اس راز کو ایک مرد رنگیں نے کیا پاش

ہر چندکہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبال نے بھی شاید مغربی طرز جمہوریت کے نتائج پر غوروفکر کے بعد ہی اسے مطعون کیا تھا

گلشن راز جدید میں کہتے ہیں:

فرنگیوں نے جمہوریت کی بنیاد رکھتے ہوئے شیطان کی گردن سے رسی کھول کر اسے آزاد کردیا ہے۔ فرنگیوں نے جمہوریت کی آڑ میں صرف ایک فرد کی رائے کی برتری کو اکثریتی رائے عامہ کا روپ دے کر مقاصد پورے کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ فرنگیوں کا ہنر بھی صرف انسان کو پھاڑنے کا ہنر ہے۔ ان کے نظام میں ایک قوم دوسری قوم کو لوٹنے کے لیے تاک میں بیٹھی ہے۔

اگر ان کا یہی کاروبار ہے تو انسانیت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ میری طرف سے اہل مغرب کو یہ پیغام دے دو کہ عوام برہنہ تلوار کی طرح ہوتے ہیں۔یہ کیسی تلوار ہے جو جان لیتے ہوئے مسلمان اورکافر کی تمیز نہیں کرتی۔ یہ تو اپنی جان بھی لیتی ہے اور جہاں والوں کی بھی جان لے لیتی ہے۔


یعنی جمہوریت کی تلوار میں ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت، روح قانون کو پروان چڑھانے کا رجحان رکھتی ہے۔ یہ خود کوئی بری چیز نہیں ہے ، لیکن بدقسمتی سے یہ خالص اخلاقی موقف سے ہٹ جانا چاہتی ہے اور اس طرح قانونی اور غیر قانونی (صحیح اور غلط) کو ایک ہی معنی پہنا دیتی ہے۔ مغربی طرز کی جو جمہوریت ملی ہے اس سے دور بھاگ ایک تجربہ کار اور سمجھ دار مرد کی غلامی اختیار کر لے کیونکہ دو سو گدھوں کے دماغ سے ایک انسان کی فکر پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ دو سو گدھوں کا دماغ رکھنے والے تیرے حقوق کی نگہداشت نہیں کر سکیں گے ہاں کسی ایک صاحب الرائے کو اپنا آقا تسلیم کرلے وہ تیرے غم کو اپنا غم بنا لے گا۔ (پیام مشرق)

تقلید کو اگر ہم بھیڑ چال سے تعبیرکریں تو ہمارے لیے اس مرض کا سمجھنا بھی آسان ہوجائے جس کی طرف اقبال نے مشرق و مغرب کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا:

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری

جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

(ضرب کلیم)

آج کا پاکستانی معاشرہ نسلی، لسانی، گروہی، قبائلی اور علاقائی وفاداریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے گویا ایک مریضانہ سوچ کی غلامی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم کے مختلف طبقات اپنے اپنے مسلک کی تقلیدی نہج پر قائم ہیں اور یوں اس تقلیدی روش سے ملی اجتماعیت پارہ پارہ ہورہی۔ مغرب کی ''جمہوریت'' میں اکثریتی رائے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔

اس جمہوریت میں ہر وہ کام جائز ہے جو سو میں سے اکاون افراد نے جائز مان لیا ہو۔ اب اگر اسلامی معاشرہ بھی ایسی ہی جمہوریت کو اپنانے کا درس دیتا ہے جس میں صاحبان اقتدار کے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون الٰہی کو پامال کیا جا سکتا ہو تو ایسی جمہوریت کو دور سے سلام لیکن یہی جمہوریت اگر تابع فرمان الٰہی اور عدل و مساوات کی نگہداری کے لیے قائم ہوسکے تو یہ قابل قبول بھی ہے اور لائق احترام بھی۔ اقبال کہتے ہیں:

''میرے خیال میں، حکومت، چاہے کسی طرز کی ہو، لوگوں کے کردار کا تعین کرنے والی قوتوں میں سے ایک ہے۔'' جمہوریت کی روح تو اسلام ہی میں پائی جاتی ہے۔ اسلامی نظام میں کوئی حکمران قانون سے بالا تر نہیں ہو سکتا لیکن پاکستانی جمہوریت میں ہر حکمران کا چھوٹے سے چھوٹا وفادار قانون سے بالا تر ہے۔ ہم نے صرف آئی واش کے لیے لکھ رکھا ہے کہ ہمارا کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگا لیکن عملاً ہمارا ہر فعل قرآن و سنت سے متصادم ہو کر اللہ کے غضب کو دعوت دے رہا ہے۔ ظالم حکمران اپنے حربوں میں پختہ ہوتا ہے، باز اپنے تیز پنجوں سے جلد شکار پکڑلیتا ہے۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کمزوروں کو اپنا مشیر بنا لیتا ہے۔ وہ رعایا کو فریب دینے کے لیے اپنی جابرانہ اور ذاتی منفعت کے لیے کیے جانے والے حربوں کو دستور کا نام دے کر گویا اندھے عوام کو سرمہ فراہم کرتا ہے۔ ملک کے آئین کا حاصل یہ ہے کہ جاگیردار موٹے ہوجاتے ہیں اور کسان چرخے کے تکلے کی طرح کمزور۔ فرنگیوں کے جمہوری نظام پر افسوس ہے جس کے صور کی آواز سے مردے قبروں سے اٹھتے نہیں ہیں بلکہ اور زیادہ مردہ ہوجاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ تاجر ہیں اور ہم سب ان کے لیے قابل خریداری مال ہیں۔

خلافت ہی اسلامی جمہوریت کی شکل میں بہترین نظام حکومت ہے جو ''وحی'' کے احکامات کے تابع ہوتی ہے۔ جمہوری نظام کے مغربی حامی بھی اس عملی نفاذ کے ضمن میں متذبذب رہے ہیں۔ روسو ہی کی مثال لے لیجیے وہ جمہوریت کا قائل ہے لیکن کہتا ہے: ''ایسی طرز حکومت تو فرشتوں کی دنیا کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہے، ہم انسان تو اس کے قابل نظر نہیں آتے۔''

اقبال نے دین کے بغیر حکمرانی کے کسی بھی طریق کو پسند نہیں کیا، انھوں نے برملا کہا:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے رہ جاتی ہے چنگیزی
Load Next Story