کراچی کی گلیاں کراچی کا ماضی
اس باغ کے قریب ہی ایک خوبصورت ندی بہتی تھی جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیاں ہوتی تھی
میرے سامنے اس وقت کتاب '' کراچی کی گلیاں'' رکھی ہوئی ہے ، جس کی تحقیق و تدوین نسرین اسلم شاہ کی ہے۔ نسرین اسلم شاہ ، سینٹر آف ایکسیلینس فار ویمینز اسٹڈیز ، کراچی یونیورسٹی کی سابق ڈائریکٹر اور جامعہ کراچی کی ایک معروف استاد ہیں۔ اس کتاب میں کراچی کی تقریباً تمام ہی پرانے علاقوں اورگلیوں کا ذکر ہے۔
ان میں اورنگی ٹاؤن کی پھول والی گلی، بنے میاں کا ہوٹل، سائٹ ٹاؤن کی تانبے و پیتل والی گلی شیر شاہ ، آٹو پارٹس والی گلی شیر شاہ ، مزار والی گلی گارڈن ، چیلا رام گلی (بند گلی) گارڈن ویسٹ، پتنگ گلی، چھالیہ گلی، مرچی گلی جوڑیا بازار ، ٹھوکرگلی جونا مارکیٹ، بوتل گلی،طور بابا والی گلی عیدو لین، دھاگہ گلی لانڈھی، پیتل گلی، پھول والی گلی گلبہار، دوپٹہ رنگائی گلی لیاقت آباد، مکھڑا گلی، ممباسا گلی بغدادی لیاری ٹاؤن ، وغیرہ جیسی اہم گلیوں کا بھی ذکر ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ان گلیوں کا ایک تعارف ہے جس پر یہ شہر کراچی آباد ہے، یعنی یہ نئی نسل اور کراچی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والوں کے لیے ایک اچھا ذریعہ ہے۔
اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے راقم کو بھی اپنے ماضی کی کچھ حسین یادیں پھر سے یاد آگئیں۔گوہر آباد کے محلے میں ایک بوڑھا شخص اپنے ٹھیلے پر آٹا فروخت کرنے کے لیے آواز لگاتا ''سفید آٹا پچاس پیسے کلو'' گھر سے کچھ دور ایک باغ، باغ قاسم کے نام سے مشہور تھا جہاں ہم دوستوں کے ساتھ جاکر جنگل جلیبی اور کھٹارے درختوں کے نیچے سے چنتے اورکبھی کوئی پتھر تلاش کرکے درخت پر مارتے کہ کچھ اور جلیبی، کھٹارے حاصل کرلیں۔
اس باغ کے قریب ہی ایک خوبصورت ندی بہتی تھی جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیاں ہوتی تھی اور پانی اس قدر شفاف ہوتا ہے پانی کے اندر زمین پر پڑے پتھر تک صاف نظر آتے۔ یہ ہرا بھرا ماحول بہت پرسکون ہوتا تھا ، مگر آج اس علاقے کا باغ ختم ہوچکا ، اب یہاں ٹریفک کا شور اور دھواں دکھائی دیتا ہے اور یہ ندی کالے سیاہ بد بودار پانی سے بھری دکھائی دیتی ہے۔
مجھے آج بھی لیاقت آباد کی پھول والی گلی، دوپٹہ گلی، پیلی بھیت سمیت وہ گلیاں بھی یاد ہیں۔ لیاقت آباد میں سیاسی مظاہرے اور احتجاج ہوا کرتے تھے اور لوگ دن بھر کی ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی صورتحال جاننے کے لیے رات کو بی بی سی اردو سے خبریں اور سیربین پروگرام سنتے تھے جس میں مارک ٹیلی اپنی تازہ رپورٹ پیش کرتا تھا، شفیع نقی جامی کی آواز بھی سنتے تھے۔
لوگ تفریح کے لیے یہاں فردوس اور نیرنگ سنیما کا بھی رخ کرتے تھے جہاں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے لمبی قطارنظر آتی اور ایک گھنگریالے بال والا مکرانی ہاتھ میں پائپ لیے لوگوں کو ڈراتا کہ سیدھی قطار نہیں بناؤ گے تو پائپ کی مار پڑے گی۔ سنیما کا یہ کلچر توکراچی شہر کے تمام سنیماؤں میں ملتا تھا کیونکہ اس وقت فلم دیکھنے کے شائقین بڑی تعداد میں سنیما کا رخ کرتے تھے اور اس قدر رش ہوتا تھا کہ اکثر ٹکٹ کی فروخت وقت سے پہلے ہی ہو جاتی تھی اور سنیما والے ہاؤس فل کا بورڈ لگا دیتے تھے جب کہ بلیک میں ٹکٹوں کی فروخت بھی ہوتی تھی ، لیکن اب منظر نامہ بدل چکا ہے ، ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ماحول کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
پہلے عید یا شادی بیاہ کے موقع پر تصاویر بنوائیں جاتی تھیں اور فلم کا رول پروسسنگ اور پرنٹ کے لیے فلم اسٹوڈیو بھیجا جاتا تھا، لیاقت آباد میں ڈاکخانے کے اسٹاپ کے پاس ایک فلم اسٹوڈیو میں ہم اپنے فلم کا رول دے کر آتے تھے اور انتظار کرتے تھے کہ کب تصاویر ''دھل'' کر آئیں گی۔ عام طور پر لوگ ان فلم اسٹوڈیو میں جاکر اپنی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں بھی بنواتے تھے۔ آج یہ فلم اسٹوڈیو پہلے کی طرح عام نہیں رہے سب جدید ٹیکنالوجی میں ڈھل چکے ہیں۔
تفریح کے لیے گھروں میں ریڈیو سننا جاتا تھا ، لوگ اپنی پسند کے فلمی گیت سننے کے لیے ریڈیو پاکستان کو خط لکھتے کہ ہمیں فلاں فلم کا مہدی حسن وغیرہ کا فلاں نغمہ سنوا دیں۔ ریڈیو پاکستان اپنے فلمی گیتوں کے پروگرام ''آپ کی فرمائش'' میں ان خطوط لکھنے والوں کے نام پڑھ کرگانے نشرکرتا تھا۔ بچپن میں یہ نام جو سنے تو حافظے میں محفوظ ہو گئے مثلاً شمع آرزو ، ایم آرزو وغیرہ۔ کراچی کی گلیاں اس وقت ویران محسوس ہونے لگتیں جب ریڈیو پاکستان سے '' اسٹوڈیو نمبر نو '' ڈرامہ براڈ کاسٹ ہوتا۔ بلاشبہ ریڈیو سے اس قدر جاندار اور شاندار ڈرامہ نشر ہونا کہ سننے کے لیے لوگ گھروں میں مقید ہو جائیں، اس کا سہرا ریڈیو پاکستان اوراس کی ٹیم کو جاتا ہے۔
بہرکیف تفریح کے حوالے سے کراچی کا ماضی ایک اپنا ہی کلچر رکھتا تھا، جہاں کسی کی شادی ہو تو بڑے سے لاؤڈ اسپیکر پر ہفتے بھر صبح تا رات گانے چلتے جس سے دور تک محلے والے بھی لطف اندوز ہوتے۔ کسی کی ختنے ہو تو بھی گلی میں دو بانس گاڑھ کر ایک سفید چادر تان دی جاتی اور کسی فلم پروجیکٹر والے کو بلا کر پاکستانی فلم چلائی جاتی جیسے سب محلے کے لوگ سڑک پر چادر بچھاکر یاگھروں کے باہر قائم چبوتروں وغیرہ جیسے جگہوں پر بیٹھ کر دیکھتے۔ دلچسپ منظر اس وقت اور دلچسپ ہو جاتا کہ جب کوئی پولیس والا ادھر آ ٹپکتا اور کہتا '' فلم چلانے کا پرمٹ دکھاؤ '' یوں جوڑ توڑ ہوتا کچھ دیر فلم رکتی ، اور پھر دوبارہ سے چلنے لگتی تو لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے۔
سندھی ہوٹل سے صدر، ٹاور تک بسیں بھی چلتی تھیں ، ایک کا نمبر سات تھا اور دوسری سیون ایچ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ سفرکی صورتحال یہ تھی کہ بس اسٹاپ پر لوگ خود قطار بناکرکھڑے ہوجاتے تھے اور جیسے ہی بس آتی نہایت مہذب انداز میں ایک ایک کر کے سوار ہو جاتے اور جب تمام نشستیں پر ہوجاتیں تو باقی رہ جانے والے یا تو نیچے اتر کر دوسری بس کا انتظار کرتے یا پھر کھڑے ہوکر سفر کرتے ، طلبہ کو اسٹوڈنٹ کارڈ دکھانے پر رعایت ملتی اور وہ محض پچیس پیسے دیکر سفر کرتے۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ صاف ستھری دکھائی دیتی جب کہ وقفے وقفے سے ان کی دھلائی بھی ہوتی۔ سفر کے لیے ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرام سروس بھی دستیاب تھی۔
خیر اب کراچی کی وہ گلیاں اور ماحول ماضی کا ایک کتابی حصہ ہی بن گیا ہے، نئی نسل اس ماضی کا تصور بھی نہیں کر سکتی کہ محلے میں دور تک کوئی میڈیکل اسٹور ہی نہیں ہوتا تھا ، جب بھی بیمار پڑے محلے ہی کے ڈاکٹر سے نیلی ، پیلی اور سفید قسم کی دو تین گولیاں اور ایک عجیب ذائقے والا شربت لے کر دو تین دن میں چنگے بھلے ہو جاتے تھے۔
شادی بیاہ کے لیے پلاؤ اور زردے کی دو ڈیشیں ہی کافی ہوتی تھیں اور کسی شادی ہال کی بکنگ کا بکھیڑا تھا نہ کسی شادی دفتر کا ، بس بزرگوں نے رشتہ طے کیا ، تاریخ آئی اور محلے ہی کی گلی یا قریبی خالی میدان میں شامیانے لگا کر تقریب کر ڈالی وہ بھی سورج کی روشنی میں، بہت اچھی فضول خرچی والی شادی ہوئی تو بارات کے ساتھ بینڈ باجے والوں کو بلا لیا اور '' ایک پیسہ ، دوپیسہ یا پانچ پائی '' کے سکے دلہے کی بارات پر برسا دیے جسے محلے کے بچے بھاگ بھاگ کر لوٹ تھے اور تقریب میں ہلچل مچادیتے۔ یہ تھیں کراچی کی وہ گلیاں اور ماحول جسے ہم نے شہری منصوبہ بندی نہ کرکے، غلط سیاست کرکے اور کچھ جدیدیت و ٹیکنا لوجی نے کہیں گم کردیا، ہمیشہ کے لیے۔
ان میں اورنگی ٹاؤن کی پھول والی گلی، بنے میاں کا ہوٹل، سائٹ ٹاؤن کی تانبے و پیتل والی گلی شیر شاہ ، آٹو پارٹس والی گلی شیر شاہ ، مزار والی گلی گارڈن ، چیلا رام گلی (بند گلی) گارڈن ویسٹ، پتنگ گلی، چھالیہ گلی، مرچی گلی جوڑیا بازار ، ٹھوکرگلی جونا مارکیٹ، بوتل گلی،طور بابا والی گلی عیدو لین، دھاگہ گلی لانڈھی، پیتل گلی، پھول والی گلی گلبہار، دوپٹہ رنگائی گلی لیاقت آباد، مکھڑا گلی، ممباسا گلی بغدادی لیاری ٹاؤن ، وغیرہ جیسی اہم گلیوں کا بھی ذکر ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ان گلیوں کا ایک تعارف ہے جس پر یہ شہر کراچی آباد ہے، یعنی یہ نئی نسل اور کراچی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والوں کے لیے ایک اچھا ذریعہ ہے۔
اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے راقم کو بھی اپنے ماضی کی کچھ حسین یادیں پھر سے یاد آگئیں۔گوہر آباد کے محلے میں ایک بوڑھا شخص اپنے ٹھیلے پر آٹا فروخت کرنے کے لیے آواز لگاتا ''سفید آٹا پچاس پیسے کلو'' گھر سے کچھ دور ایک باغ، باغ قاسم کے نام سے مشہور تھا جہاں ہم دوستوں کے ساتھ جاکر جنگل جلیبی اور کھٹارے درختوں کے نیچے سے چنتے اورکبھی کوئی پتھر تلاش کرکے درخت پر مارتے کہ کچھ اور جلیبی، کھٹارے حاصل کرلیں۔
اس باغ کے قریب ہی ایک خوبصورت ندی بہتی تھی جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیاں ہوتی تھی اور پانی اس قدر شفاف ہوتا ہے پانی کے اندر زمین پر پڑے پتھر تک صاف نظر آتے۔ یہ ہرا بھرا ماحول بہت پرسکون ہوتا تھا ، مگر آج اس علاقے کا باغ ختم ہوچکا ، اب یہاں ٹریفک کا شور اور دھواں دکھائی دیتا ہے اور یہ ندی کالے سیاہ بد بودار پانی سے بھری دکھائی دیتی ہے۔
مجھے آج بھی لیاقت آباد کی پھول والی گلی، دوپٹہ گلی، پیلی بھیت سمیت وہ گلیاں بھی یاد ہیں۔ لیاقت آباد میں سیاسی مظاہرے اور احتجاج ہوا کرتے تھے اور لوگ دن بھر کی ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی صورتحال جاننے کے لیے رات کو بی بی سی اردو سے خبریں اور سیربین پروگرام سنتے تھے جس میں مارک ٹیلی اپنی تازہ رپورٹ پیش کرتا تھا، شفیع نقی جامی کی آواز بھی سنتے تھے۔
لوگ تفریح کے لیے یہاں فردوس اور نیرنگ سنیما کا بھی رخ کرتے تھے جہاں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے لمبی قطارنظر آتی اور ایک گھنگریالے بال والا مکرانی ہاتھ میں پائپ لیے لوگوں کو ڈراتا کہ سیدھی قطار نہیں بناؤ گے تو پائپ کی مار پڑے گی۔ سنیما کا یہ کلچر توکراچی شہر کے تمام سنیماؤں میں ملتا تھا کیونکہ اس وقت فلم دیکھنے کے شائقین بڑی تعداد میں سنیما کا رخ کرتے تھے اور اس قدر رش ہوتا تھا کہ اکثر ٹکٹ کی فروخت وقت سے پہلے ہی ہو جاتی تھی اور سنیما والے ہاؤس فل کا بورڈ لگا دیتے تھے جب کہ بلیک میں ٹکٹوں کی فروخت بھی ہوتی تھی ، لیکن اب منظر نامہ بدل چکا ہے ، ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ماحول کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
پہلے عید یا شادی بیاہ کے موقع پر تصاویر بنوائیں جاتی تھیں اور فلم کا رول پروسسنگ اور پرنٹ کے لیے فلم اسٹوڈیو بھیجا جاتا تھا، لیاقت آباد میں ڈاکخانے کے اسٹاپ کے پاس ایک فلم اسٹوڈیو میں ہم اپنے فلم کا رول دے کر آتے تھے اور انتظار کرتے تھے کہ کب تصاویر ''دھل'' کر آئیں گی۔ عام طور پر لوگ ان فلم اسٹوڈیو میں جاکر اپنی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں بھی بنواتے تھے۔ آج یہ فلم اسٹوڈیو پہلے کی طرح عام نہیں رہے سب جدید ٹیکنالوجی میں ڈھل چکے ہیں۔
تفریح کے لیے گھروں میں ریڈیو سننا جاتا تھا ، لوگ اپنی پسند کے فلمی گیت سننے کے لیے ریڈیو پاکستان کو خط لکھتے کہ ہمیں فلاں فلم کا مہدی حسن وغیرہ کا فلاں نغمہ سنوا دیں۔ ریڈیو پاکستان اپنے فلمی گیتوں کے پروگرام ''آپ کی فرمائش'' میں ان خطوط لکھنے والوں کے نام پڑھ کرگانے نشرکرتا تھا۔ بچپن میں یہ نام جو سنے تو حافظے میں محفوظ ہو گئے مثلاً شمع آرزو ، ایم آرزو وغیرہ۔ کراچی کی گلیاں اس وقت ویران محسوس ہونے لگتیں جب ریڈیو پاکستان سے '' اسٹوڈیو نمبر نو '' ڈرامہ براڈ کاسٹ ہوتا۔ بلاشبہ ریڈیو سے اس قدر جاندار اور شاندار ڈرامہ نشر ہونا کہ سننے کے لیے لوگ گھروں میں مقید ہو جائیں، اس کا سہرا ریڈیو پاکستان اوراس کی ٹیم کو جاتا ہے۔
بہرکیف تفریح کے حوالے سے کراچی کا ماضی ایک اپنا ہی کلچر رکھتا تھا، جہاں کسی کی شادی ہو تو بڑے سے لاؤڈ اسپیکر پر ہفتے بھر صبح تا رات گانے چلتے جس سے دور تک محلے والے بھی لطف اندوز ہوتے۔ کسی کی ختنے ہو تو بھی گلی میں دو بانس گاڑھ کر ایک سفید چادر تان دی جاتی اور کسی فلم پروجیکٹر والے کو بلا کر پاکستانی فلم چلائی جاتی جیسے سب محلے کے لوگ سڑک پر چادر بچھاکر یاگھروں کے باہر قائم چبوتروں وغیرہ جیسے جگہوں پر بیٹھ کر دیکھتے۔ دلچسپ منظر اس وقت اور دلچسپ ہو جاتا کہ جب کوئی پولیس والا ادھر آ ٹپکتا اور کہتا '' فلم چلانے کا پرمٹ دکھاؤ '' یوں جوڑ توڑ ہوتا کچھ دیر فلم رکتی ، اور پھر دوبارہ سے چلنے لگتی تو لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے۔
سندھی ہوٹل سے صدر، ٹاور تک بسیں بھی چلتی تھیں ، ایک کا نمبر سات تھا اور دوسری سیون ایچ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ سفرکی صورتحال یہ تھی کہ بس اسٹاپ پر لوگ خود قطار بناکرکھڑے ہوجاتے تھے اور جیسے ہی بس آتی نہایت مہذب انداز میں ایک ایک کر کے سوار ہو جاتے اور جب تمام نشستیں پر ہوجاتیں تو باقی رہ جانے والے یا تو نیچے اتر کر دوسری بس کا انتظار کرتے یا پھر کھڑے ہوکر سفر کرتے ، طلبہ کو اسٹوڈنٹ کارڈ دکھانے پر رعایت ملتی اور وہ محض پچیس پیسے دیکر سفر کرتے۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ صاف ستھری دکھائی دیتی جب کہ وقفے وقفے سے ان کی دھلائی بھی ہوتی۔ سفر کے لیے ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرام سروس بھی دستیاب تھی۔
خیر اب کراچی کی وہ گلیاں اور ماحول ماضی کا ایک کتابی حصہ ہی بن گیا ہے، نئی نسل اس ماضی کا تصور بھی نہیں کر سکتی کہ محلے میں دور تک کوئی میڈیکل اسٹور ہی نہیں ہوتا تھا ، جب بھی بیمار پڑے محلے ہی کے ڈاکٹر سے نیلی ، پیلی اور سفید قسم کی دو تین گولیاں اور ایک عجیب ذائقے والا شربت لے کر دو تین دن میں چنگے بھلے ہو جاتے تھے۔
شادی بیاہ کے لیے پلاؤ اور زردے کی دو ڈیشیں ہی کافی ہوتی تھیں اور کسی شادی ہال کی بکنگ کا بکھیڑا تھا نہ کسی شادی دفتر کا ، بس بزرگوں نے رشتہ طے کیا ، تاریخ آئی اور محلے ہی کی گلی یا قریبی خالی میدان میں شامیانے لگا کر تقریب کر ڈالی وہ بھی سورج کی روشنی میں، بہت اچھی فضول خرچی والی شادی ہوئی تو بارات کے ساتھ بینڈ باجے والوں کو بلا لیا اور '' ایک پیسہ ، دوپیسہ یا پانچ پائی '' کے سکے دلہے کی بارات پر برسا دیے جسے محلے کے بچے بھاگ بھاگ کر لوٹ تھے اور تقریب میں ہلچل مچادیتے۔ یہ تھیں کراچی کی وہ گلیاں اور ماحول جسے ہم نے شہری منصوبہ بندی نہ کرکے، غلط سیاست کرکے اور کچھ جدیدیت و ٹیکنا لوجی نے کہیں گم کردیا، ہمیشہ کے لیے۔