پنجاب حکومت کا جانوروں کے شکار کیخلاف پروٹیکشن فورس بنانے کا فیصلہ

غیرقانونی شکار کو روکنے کی بڑی وجہ محکمے کے پاس افرادی قوت اور وسائل کی کمی ہے، حکام

غیرقانونی شکار کو روکنے کی بڑی وجہ محکمے کے پاس افرادی قوت اور وسائل کی کمی ہے، حکام - فوٹو:فائل

PARIS:
پنجاب میں جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے، گزشتہ سال غیرقانونی شکار کے دو ہزار سے زائد واقعات سامنے آئے تھے جبکہ رواں سال ان کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

حکام کے مطابق غیر قانونی شکار کو مکمل طور پر روکنے کی بڑی وجہ محکمے کے پاس افرادی قوت اور وسائل کی کمی ہے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے غیرقانونی شکار کی روک تھام اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے پنجاب وائلڈ لائف پروٹیکشن فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پنجاب میں اتوار کو چھٹی کے روز مختلف اضلاع میں غیر قانونی شکار میں ملوث 35 افراد کو گرفتار کر کے دو لاکھ 17 ہزار روپے سے زائد جرمانہ وصول کیا گیا ہے۔ غیرقانونی شکار کے زیادہ تر واقعات راولپنڈی ڈویژن اور سالٹ رینج میں سامنے آئے ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2020ء میں غیر قانونی شکار کے 2140 واقعات رجسٹرڈ ہوئے تھے جس کے نتیجے میں ملزمان کو ایک کروڑ 38 لاکھ 65 ہزار روپے جرمانے کیے گئے۔

سالٹ رینج میں تعینات پنجاب وائلڈ لائف کے ایک فیلڈ ملازم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں جو شکاری قانونی طور پر شکار کرنے آتے ہیں ان کے پاس جدید گاڑیاں اور اسلحہ ہوتا ہے، ہمارے پاس پرانی موٹر سائیکلیں ہیں یاپھر ڈسٹرکٹ افسر کے پاس گاڑی ہے۔ ہم ان شکاریوں کامقابلہ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے بتایا کہ شکاریوں کو روکیں تو تشدد کرتے ہیں جبکہ کئی واقعات میں الٹا وائلد لائف ملازمین کیخلاف تھانوں میں مقدمات درج کروادیئے جاتے ہیں۔ اگر کسی شکاری کو ایک جانور یا چند پرندے شکارکرنے کی اجازت ملتی ہے تو وہ اس سے کہیں زیادہ شکار کرتا ہے۔


پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان نے بتایا کہ پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے مگر ہمارے پاس صرف ایک ہزار کے قریب فیلڈ اسٹاف ہے، گاڑیوں کی کمی ہے اس کے باوجود ہم اپنی استعداد سے بڑھ کرغیرقانونی شکار اور جنگی جانورں، پرندوں کی غیرقانونی خرید وفروخت کو روکنے کے لئے سرکرداں ہیں اوراس میں خاصی کامیابی بھی ملی ہے۔

دوسری طرف جنگلی حیات کے ماہر بدر منیر کا کہنا ہے جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار کی کئی ایک وجوہات ہیں جس میں افرادی قوت اور وسائل کی کمی، کمیونٹی بیسیڈآرگنائزیشنز کے فقدان، قانونی شکار کا عدم فروغ اور جنگلی حیات کی اہمیت سے متعلق آگاہی کا نہ ہوناہے، ہمارے یہاں کئی لوگ صرف گوشت کے حصول کے لئے بھی بے دریغ شکارکرتے ہیں جس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ اگرمقامی کمیونٹیزکو اپنے ساتھ شامل کرے تو غیرقانونی شکار کی روک تھام میں معاونت مل سکتی ہے۔ اسی طرح قانونی شکار کو فروغ دیا جائے جس کا بہترین طریقہ ٹرافی ہنٹنگ ہے، جب شکاری بھاری فیس ادا کر کے اپنے شوق اور کھیل کے طور پر شکار کریں گے تو وہ پھرغیرقانونی شکاریوں کو خود بھی روک سکیں گے۔

بدر منیر نے مزید بتایا کہ پنجاب غیرقانونی شکار کے بڑھنے کی وجہ غیرقانونی اور بااثر شکاری ہیں، اس کے علاوہ سی بی اوز کو محدود کردیا گیا ہے، حالانکہ سی بی اوز نے پاکستان میں مارخور کو بچایا ہے، گلگت بلستان میں کامیاب ماڈل موجود ہے، اسی طرح پنجاب میں پرائیویٹ گیم ریزوز کی منظوری نہیں دی جارہی، گزشتہ کئی برسوں سے صرف دو گیم ریزورز ہیں جبکہ دس گیم ریزروز کے قیام کی درخواستیں سیکرٹری فاریسٹ کے پاس پینڈنگ پڑی ہیں۔

سیکرٹری جنگلات وجنگلی حیات پنجاب شاہدزمان نے بتایا کہ غیرقانونی شکارکی روک تھام اورمعدومی کاشکار جنگلی حایت کی افزائش کے لئے جہاں ایک طرف ہم ٹرافی ہنٹنگ کروانے جارہے ہیں وہیں پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کو ایک فورس کا درجہ دینے پر بھی کام شروع کردیا گیا ہے، ابتدائی طور پر چولستان کے لئے 88 گارڈزبھرتی کئے جارہے ہیں، 67 نئی گاڑیاں، 400 موٹرسائیکلیں، اسلحہ اور یونیفارم بھی خریدے جارہے ہیں، اس کے لئے 2 بلین روپے کے فنڈزدیئے جارہے ہیں، پنجاب وائلڈ لائف کے پاس افرادقوت کی شدید کمی ہے اس لئے 550 نئے افراد بھرتی کئے جائیں گے، یہ سمری وزیراعلی پنجاب کوبھیجی جاچکی ہے، جنگلات کے لئے 1700 جبکہ فشریزکے لئے 600 ملازم بھرتی ہوں گے۔

شاہدزمان نے یہ بھی بتایا کہ وائلڈلائف پروٹیکشن فورس ابتدائی طورپرنیشنل پارکوں میں تعینات ہوگی۔ پنجاب میں پانچ نئے نیشنل پارک بنائے گئے ہیں جن میں پبی نیشنل پارک، خیری مورت نیشنل پارک، لال سوہنرا نیشنل پارک بہاولپور، سالٹ رینج نیشنل پارک، چنجی نیشنل پارک شامل ہیں۔
Load Next Story