پیپلزپارٹی مذاکرات کیخلاف نہیں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے زرداری
طریقہ کار پر اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ضروری ہے تمام اسٹیک ہولڈرز مذاکرات کی حمایت کریں
ISLAMABAD:
سابق صدرآصف علی زرداری کی سوات میں امن کے لیے ترجیح مذاکرات ہی تھی لیکن جب مذاکرات کی حکمت عملی جنگجوئوں کے طرزعمل کی وجہ سے ناکام ہوگئی تواس کے بعد طاقت کے استعمال سے ریاست کی رٹ قائم کی گئی۔
سابق صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ بات حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان حالیہ مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق صدر کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہی۔ سابق صدر نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس آل پارٹیز کانفرنس کا حصہ تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ملک اور خطے میں امن کے قیام کے لیے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں اس لیے پارٹی ان مذاکرات کے خلاف نہیں اور انھیں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے طریقہ کار پراختلافات ہو سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ان مذاکرات کی حمایت کریں۔ پیپلز پارٹی کے ماضی کے تجربے سے یہ سبق ملتا ہے کہ طاقت صرف اس وقت استعمال کی جائے جب مذاکرات ناکام ہوجائیں یہی حکمت عملی کارآمد ہوگی تاکہ عسکریت پسندی کا خاتمہ کیا جا سکے اورریاست کی رٹ قائم کی جا سکے ۔
سابق صدرآصف علی زرداری کی سوات میں امن کے لیے ترجیح مذاکرات ہی تھی لیکن جب مذاکرات کی حکمت عملی جنگجوئوں کے طرزعمل کی وجہ سے ناکام ہوگئی تواس کے بعد طاقت کے استعمال سے ریاست کی رٹ قائم کی گئی۔
سابق صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ بات حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان حالیہ مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق صدر کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہی۔ سابق صدر نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس آل پارٹیز کانفرنس کا حصہ تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ملک اور خطے میں امن کے قیام کے لیے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں اس لیے پارٹی ان مذاکرات کے خلاف نہیں اور انھیں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے طریقہ کار پراختلافات ہو سکتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ان مذاکرات کی حمایت کریں۔ پیپلز پارٹی کے ماضی کے تجربے سے یہ سبق ملتا ہے کہ طاقت صرف اس وقت استعمال کی جائے جب مذاکرات ناکام ہوجائیں یہی حکمت عملی کارآمد ہوگی تاکہ عسکریت پسندی کا خاتمہ کیا جا سکے اورریاست کی رٹ قائم کی جا سکے ۔