اتفاق رائے

قانون سازی میں اتفاق رائے کو اہمیت دی جائے۔

اقتدار کی مدت جوں جوں اختتام کے قریب آرہی ہے ، پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے

KARACHI:
آپ دنیا کے مہذب ، باشعور اور باوقار جمہوری ملکوں کی پارلیمانی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح جمہوری روایات اور پارلیمانی آداب کی پاسداری کرتے اور کسی قیمت پر اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں اگر کوئی جہوری روایات کو پامال کرنے کی کوشش کرے تو پوری قوم اس کے خلاف یک زبان ہو جاتی ہے۔

پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارہ ہے جہاں ملکی عوام کے منتخب نمایندے قومی معاملات اور عوامی مسائل پر بحث و مباحثہ کرکے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے قوانین بناتے ہیں۔ پارلیمان کے ایوان زیریں اور ایوان بالا ہر دو جگہ عوامی نمایندے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔

حکومتی اور اپوزیشن اراکین قومی مفاد کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی میں حصہ لیتے ہوئے اتفاق رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ مہذب جمہوری روایات کا احترام کیا جاتا ہے۔ کسی رکن پارلیمنٹ پر قانون سازی میں اظہار خیال کرنے اور اس کے حق میں یا خلاف ووٹ دینے کے حوالے سے کسی بھی فرد ، گروہ یا ادارے کا قطعاً کوئی دبائو نہیں ہوتا۔ آزادانہ ماحول میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور منصفانہ ووٹنگ کے ذریعے قوانین پاس کیے جاتے ہیں اور جمہوری اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے۔

اگر کسی منتخب نمایندے یا وزیر پر کسی بھی نوعیت کا کوئی الزام عائد ہو جائے یا اس کی لاپروائی کا شائبہ بھی گزر جائے تو عوام کا اس قدر دباؤ ہوتا ہے کہ اس منتخب نمایندے یا وزیر کو فوری طور پر استعفیٰ دینا پڑ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کوئی بھی سرکاری افسر کسی بھی وزیر یا منتخب نمایندے کے دباؤ پر کوئی غلط کام نہیں کرتا اور ہر ممکن طور پر قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے تمام امور سرانجام دیتا ہے۔

منتخب نمایندے بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ان پر یہ الزام ثابت ہو جائے کہ انھوں نے اپنے مفاد کے لیے سرکاری امور میں مداخلت کی یا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو اس کو اپنی کرسی سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے۔

اس کے برعکس ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے 70سے زائد برس گزرنے کے باوجود ہم من حیث القوم جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق وطن عزیز میں نافذ نہ کرسکے۔ ابھی تک جمہوریت کا راگ الاپنے کے باوجود اس کے مقابل قبائلی اور سرداری نظام اپنی پوری قوت سے موجود ہے اور صورتحال یوں ہے کہ اس بااثر شخصیت کے سامنے پورا نظام سرنگوں ہو جاتا ہے۔

پارلیمنٹ کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی، جمہوری روایات کی پاسداری اور پارلیمانی آداب کا تحفظ تو بہت دور کی بات ہے، جمہوریت ، جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں کیا جمہوریت کے بنیادی عناصر سے آگاہ ہیں ؟ افسوس کہ اس کا جواب ہاں میں نہیں دیا جاسکتا ! کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے سیاسی رہنما صرف ملک میں جمہوریت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں جب کہ ان کی اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے بجائے موروثی آمریت کا غلبہ ہے۔

بڑی سیاسی جماعتیں خاندانی اجارہ داری کی مثال ہیں۔ سینئر تجربہ کار اور کہنہ مشق سیاست دان اپنی پارٹی کی جونیئر ترین کارکن کو اپنا رہنما و قائد ماننے پر مجبور ہیں یعنی تجربہ کار وکہنہ مشق سیاست داں جونیئر کو اپنا لیڈر و قائد ماننے پر کوئی خفت محسوس نہیں کرتے۔


یہ سیاستدان بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ عوام پر اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے جو نظریہ وہ رائج کر چکے ہیں اسی میں ان کی سیاسی بقا ہے،لہٰذا اس نظریہ کی حامل جماعت کا قائد جو عوام میں مقبول ہو چکا ہے،وہ خواہ کتنا ہی کم عمر، کم علم اور ذہنی نا پختگی کا حامل ہو،اسی کو ہیرو بنانے میں ان کی سیاست کا بھرم قائم رہے گا۔

پاکستان کی سیاست شخصیت پرستی کے دائرے میں گھوم رہی ہے یہاں جمہوریت بس نام کو نظر آتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ غیر جمہوری قوتیں سیاست دانوں کی خامیوں و کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر دو جگہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور یہی سیاست دان غیر مرئی طاقتوں قوتوں کی '' کار فرمائی'' سے کبھی '' اِن '' اور کبھی ''آئوٹ'' ہوتے رہتے ہیں لیکن جمہوریت کے سیدھے راستے پر آج تک نہ آسکے۔

پی ٹی آئی کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے ، اپوزیشن اسے تواتر کے ساتھ یہ طعنہ دیتی اور طنز کے نشتر چلاتی آرہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت جعلی ہے۔ 2018ء کے الیکشن چوری کیے گئے۔ یہ کٹھ پتلی حکومت ہے جس کی ڈور طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ہے۔ حکومتی اتحادی بیساکھوں پر کھڑی ہے وغیرہ وغیرہ۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے کئی مرتبہ حکومت گرانے کی تاریخیں دیں لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل ایسا ماحول بنایا گیا کہ جیسے پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور ق لیگ حکومت سے ناراض ہیں اور قانون سازی میں حکومت کا ساتھ نہیں دیں گی، اسی طرح یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں کہ تحریک انصاف کی قیادت کو لانے والے طاقتور حلقہ اب ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

ایک صفحے پر ہونے کا سحر ٹوٹ گیا ہے، لندن میں میاں صاحب سے '' اہم لوگ '' ملاقاتیں کررہے ہیں اور '' ان ہائوس '' تبدیلی کی ہوائیں چلنے والی ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن پھر کیا ہوا پارلیمنٹ کا ملتوی ہونے والا اجلاس دو ہی دن بعد بلا لیا گیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت جسے ایک عشرے قبل ایوان زریں میں اپوزیشن کے ایک بل پر ووٹنگ میں 101کے مقابلے میں 112 ووٹ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا ، کو اپنے 33 مسودہ قانون پاس کروانے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 203 ووٹوں کے مقابلے میں 221 ووٹوں کی اکثریت سے باآسانی 33بلوں کو منظور کروا لیا۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں ق لیگ ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سب نے حکومت کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا اور اپوزیشن منہ دیکھتی رہ گئی۔ اس کے وہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ دونوں صفحے الگ الگ ہوگئے اور پی ٹی آئی ارکان اسمبلی بھی اپوزیشن سے رابطے میں ہیں اور وہ اپوزیشن کو ووٹ دیں گے۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ دو دن بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بھی اکثریت رکھنے والی اپوزیشن کو ایک اور ناکامی بلکہ غیر متوقع اور حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑا جب حکومت نے نیب ترمیمی، جرنلسٹ پروٹیکشن اور ہائر ایجوکیشن سمیت چار بل 28کے مقابلے میں 34 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کروا لیے۔ غیر متوقع طور پر ایک گروپ جس نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا اپنا وزن حکومتی پلڑے میں ڈال دیا۔

اب اپوزیشن عدالت عظمیٰ جانے کی اور وہاں منظور کردہ قوانین کو چیلنج کرنے کی بات کررہی ہے۔ عدلیہ کی تاریخ پر سب کی نظر ہے جاننے والے جانتے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا سچ نہیں ہے ، کہا جاتا ہے کہ ججز نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ پی سی او حلف اور نظریہ ضرورت اب تاریخ کا حصہ ہیں اور اب سابق منصف اعلیٰ کی آڈیو لیگ نے نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کہ حکومت نے جلد بازی میں مباحثے کے بغیر الیکٹرونک ووٹنگ مشین سمیت جو بلز 33 منظور کرائے ہیں ان پر اپوزیشن کے تحفظات بالخصوص ای وی ایم پر الیکشن کمیشن کے تحفظات بھی دور کیے بغیر آیندہ انتخابات اپوزیشن کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے اور ایک تنازعے کو جنم دینے کا باعث بنیں گے۔ مناسب ہوگا کہ قانون سازی میں اتفاق رائے کو اہمیت دی جائے۔
Load Next Story