ادھورے انسان
عزت تو دور کی بات ۔ ان کی جان تک بے وقعت ہوتی ہے۔ ان کا قتل کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتا۔
RAWALPINDI/ISLAMABAD:
علیشاہ نام کی خواجہ سرا' پشاور میں ایک شادی سے واپس آ رہی تھی۔ کام وہی جو اس بدقسمت نسل کے نصیب میںہمارے جیسے ملکوں میں مختص کر دیا گیا ہے یعنی ناچ گانا۔ تقریب کے اختتام پر خواجہ سرا کے گروہ کو پیسے نہیں دیے گئے۔ بنیادی طور پر یہ صریحاً وعدہ خلافی تھی۔ جب ان لوگوں سے تکراربڑھی۔ تو ایک شخص نے پستول نکالا اور علیشاہ کے جسم میں آٹھ گولیاں پیوست کر دیں۔
بھگدڑ مچ گئی۔ خیر یہ بدقسمتی کی صرف ابتدا تھی۔ جب زخمی کو پشاور کے سرکاری اسپتال میں لے جایا گیا۔ توعلیشاہ دم توڑ رہی تھی۔ وہاں ڈیوٹی ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اسے کس وارڈ میں داخل کریں۔ مردانہ یا زنانہ وارڈ۔ اسٹریچر پر موجود ایک مرتے ہوئے انسان کو ہمارے پاکیزہ معاشرے میں زنانہ اور مردانہ ' دونوں وارڈوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
صرف یہی نہیں وہاں موجود لوگوں نے خواجہ سراؤں کی ٹولی کو حد درجہ ذلیل کرنا شروع کر دیا۔ پوچھنے لگے کہ تم لوگ گانا بجانے کے کتنے پیسے لیتے ہو۔ چلو' یہاں ناچ کر تو دکھاؤ۔ ناچنا نہیں تو گانا ہی سنا دو۔ یہ اس وقت کے حالات تھے جس وقت ان لوگوں کا ایک ساتھی موت کی دہلیز پر تھا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ چند سفاک انسانوں نے اسپتال میں ان کا تعاقب کرنا شروع کردیا۔
چھیڑنا شروع کر دیا اور ان سے معیوب حرکتوں کا آغازکر دیا۔ اسپتال کی انتظامیہ بذات خود اس تماشے میں شامل تھی۔ نتیجہ یہ کہ وہ بدقسمت آدم زاد زخموں کی تاب نہ لا کر تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ دم توڑتے وقت عمر صرف پچیس برس تھی۔ ہمارے سماج میں ویسے تو کسی عام انسان کی بھی کوئی عزت نہیںہے۔ مگر خواجہ سرا تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک کے عادی ہو چکے ہیں۔ علیشاہ کے قاتلوں کو کسی قسم کی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔
نایاب علی صرف تیرہ برس کی تھی کہ اس کے عزیز واقارب نے اسے ہر دم ذلیل کرنا شروع کردیا۔ والدین نے بھی کسی قسم کی حفاظت کرنے سے انکار کر دیا۔ جب سوداسلف لینے گھر سے باہر نکلتی تو اوچھے لوگ زور زور سے آوازے کستے ۔ گالیاں دیتے اور تمسخر اڑاتے۔ اکثر لوگ اسے تنہائی میں ملنے کا بھی کہتے۔ جب ہر چیز برداشت سے باہر ہو گئی۔
تو نایاب نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر کو خیر آباد کہہ دیا۔ مگر ہمت نہ ہاری۔ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ ارادہ بذات خودبہت دشوار تھا۔ یونیورسٹی میں بھی ٹھٹھہ اڑانے والے لوگ بہت زیادہ تھے۔ نایاب نے کافی حدتک برداشت کیا۔ اور بہر حال بڑی مشکل سے تعلیم مکمل کر لی۔ مگر اس معاشرے کی ادنیٰ سوچ اس کے متعلق بالکل تبدیل نہ ہوسکی۔ ایک دن ایک شخص گھر کے نزدیک آیا۔
اسے باہر بلا کر تیزاب سے بھری بوتل چہرے پر انڈیل دی۔ نایاب کا پورا چہرہ جھلس گیا۔ اس نے بلند آواز میں چیخیں مارنی شروع کر دی۔ ار دگرد کے لوگ اسے تکلیف میں دیکھ کر قہقہے لگانے لگ گئے۔ ایک مجمع اکٹھا ہو گیا۔ مگر طبی سہولت کے لیے اسپتال لے جانے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ اسی کی قبیل کے چند خواجہ سراؤں نے مدد کی۔ اسپتال لے کر گئے۔ اس کا چہرہ مکمل طور پر برباد ہو چکا تھا۔ نایاب کو برباد کرنے والے کے خلاف معمولی سی قانونی کارروائی ہوئی ۔اور پھر راوی ہمیشہ کی طرح خاموش ہو گیا۔
خواجہ سراؤںکی بدنصیبی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ متعدد مسلم ممالک میں ان کا کوئی مستقبل نہیںہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد امین نام کا ایک پاکستانی درزی سعودی عرب میں کام کرتا تھا۔ خواتین کے کپڑے سینے سے روزی روٹی کماتا تھا۔ اور واپس پاکستان میںاپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا ۔ بہت کم لوگوں کو اس امر کا ادراک تھاکہ وہ خواجہ سرا ہے۔
ایک دن جدہ میں ایک دعوت پر گیا تو اس نے زنانہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ کسی مقامی شخص نے شکایت کر دی کہ ایک مرد' زنانہ کپڑے پہن کر بلڈنگ میں آیا ہے۔ پولیس نے ریڈ کیا اور محمد امین کو گرفتار کر لیا۔ رات ہی کو جیل بھیجوا دیا گیا۔ پولیس نے اس پر اس قدر وحشیانہ تشدد کیا کہ کال کوٹھڑی میں ہی دم توڑ گیا۔ اس قتل پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
پاکستانی حکومت نے بھی معمولی سا احتجاج نہیں کیا۔ مغربی ممالک میں جب یہ خبر پہنچی تو وہاں کہرام مچ گیا۔ انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں نے محمد امین کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سعودی حکومت نے جواب دیا کہ محمد امین کو جیل میں دل کا دورہ پڑا اور وہیں مر گیا۔ کسی قسم کی کوئی غیر جانبدار تفتیش نہ ہو پائی۔ نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ کمزور فریق کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے۔کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔
تھامسن رپورٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں پانچ سے نو لاکھ خواجہ سرا موجود ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ انتہائی قابل نفرت ہے۔ ان کو خاندان والے تک چھپاتے ہیںیا انھیں عاق کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کی اصل تعداد کے متعلق وثوق سے کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ ظلم تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی مرد م شماری میں ان کو شامل نہیں کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے حکومت کو حکم دیا کہ ان بدنصیب لوگوں کو بھی مردم شاری میں شامل کیا جائے۔ ان کی باقاعدہ گنتی کی جائے۔
عدالت عالیہ کے اس حکم کی تعمیل میں پہلی بار ان کے وجود کو شمار کیا گیا۔ اس سے پہلے حکومتی سطح پر ان کے وجود کا اقرار تک نہیں تھا۔ 2012ء میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو ملکیتی جائداد میں حصہ دار قرار دیا۔ ان لوگوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا عدالتی حکم جاری کیا گیا۔فیصلے میں یہ بھی درج تھا کہ خواجہ سراؤں کو باقی انسانوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں۔
انھیں کسی تضحیک اور تفریق کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جہاں عدالتوں نے اتنی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2018ء میں پارلیمنٹ نے Transgender Persons (protection of Rights) Act منظور کیا۔ اس قانون کے تحت خواجہ سراؤں کے تمام حقوق کو باضابطہ طور پر ریاست کی سطح پر پذیرائی دی گئی۔ ان کے جان و مال' عزت' شہریت کو عام پاکستانیوں کی طرح قانونی حرمت حاصل ہو گئی۔
تمام قوانین اور عدالتی فیصلے ایک طرف۔ مگر کیاہمارے سماجی رویے' ان بدقسمت لوگوں کی طرف متوازن ہیں۔ کیا ہم ان لوگوں کو انسانی حقوق دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہم خواجہ سراؤں کو واقعی انسان سمجھتے ہیں؟اس کا جواب مکمل نفی میں ہے۔ اگر کسی گھرانے میں اس قبیل کا بچہ پیدا ہو جائے تو پیدا ہوتے ہی ایک کلنک کا ٹیکہ بن جاتا ہے۔ والدین اس کو ایک ہولناک حادثہ قرار دیتے ہوئے اپنے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی پوشیدہ رکھتے ہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ ان بدنصیبوں پر معمولی تعلیم کے دروازے بھی اکثر اوقات بند کر دیے جاتے ہیں۔
اسکول جانے کی اجازت بھی ہو تو ہر طرح کی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ کسی سے نہیں ملنا' کسی سے بات نہیں کرنی۔ کسی کو اپنے متعلق کچھ بھی نہیں بتانا۔ مگر قانون قدرت ہے کہ یہ لوگ پھر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد تعلیمی درسگاہوں میں ان کی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے۔ طلباء اور اساتذہ ان میں ادنیٰ پن تلاش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اس بے رحم معاشرے میں عملی طور پر ان کے لیے عزت سے زندہ رہنے کے تمام مواقع ختم کر دیے جاتے ہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ مجبوراً اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں شمولیت سے انھیں چار پیسے مل جاتے ہیں۔ اکثریت مختلف شاہراہوں پر بھیک مانگنا شروع کر دیتی ہے۔
عزت تو دور کی بات ۔ ان کی جان تک بے وقعت ہوتی ہے۔ ان کا قتل کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتا۔ مارنے والوں کو کبھی سزا نہیں ملتی۔ یہ توہین آمیز رویوں کو اپنا مقدر سمجھ کر صرف سانس لیتے رہتے ہیں۔ مگر ذرا سوچیئے۔ انھیں بھی خدا نے اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح عام بچے اور بچیوں کو۔ اگر اللہ کی مرضی سے ان کا جسم ادھورے انسان کی طرح ہے تو اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے۔ یہ ہماری توجہ اور رحم کے خواہاں ہیں۔ مگر یہ تو دور کی بات 'خدارا' ان ادھورے انسانوں کو انسان تو سمجھیے۔
علیشاہ نام کی خواجہ سرا' پشاور میں ایک شادی سے واپس آ رہی تھی۔ کام وہی جو اس بدقسمت نسل کے نصیب میںہمارے جیسے ملکوں میں مختص کر دیا گیا ہے یعنی ناچ گانا۔ تقریب کے اختتام پر خواجہ سرا کے گروہ کو پیسے نہیں دیے گئے۔ بنیادی طور پر یہ صریحاً وعدہ خلافی تھی۔ جب ان لوگوں سے تکراربڑھی۔ تو ایک شخص نے پستول نکالا اور علیشاہ کے جسم میں آٹھ گولیاں پیوست کر دیں۔
بھگدڑ مچ گئی۔ خیر یہ بدقسمتی کی صرف ابتدا تھی۔ جب زخمی کو پشاور کے سرکاری اسپتال میں لے جایا گیا۔ توعلیشاہ دم توڑ رہی تھی۔ وہاں ڈیوٹی ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اسے کس وارڈ میں داخل کریں۔ مردانہ یا زنانہ وارڈ۔ اسٹریچر پر موجود ایک مرتے ہوئے انسان کو ہمارے پاکیزہ معاشرے میں زنانہ اور مردانہ ' دونوں وارڈوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
صرف یہی نہیں وہاں موجود لوگوں نے خواجہ سراؤں کی ٹولی کو حد درجہ ذلیل کرنا شروع کر دیا۔ پوچھنے لگے کہ تم لوگ گانا بجانے کے کتنے پیسے لیتے ہو۔ چلو' یہاں ناچ کر تو دکھاؤ۔ ناچنا نہیں تو گانا ہی سنا دو۔ یہ اس وقت کے حالات تھے جس وقت ان لوگوں کا ایک ساتھی موت کی دہلیز پر تھا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ چند سفاک انسانوں نے اسپتال میں ان کا تعاقب کرنا شروع کردیا۔
چھیڑنا شروع کر دیا اور ان سے معیوب حرکتوں کا آغازکر دیا۔ اسپتال کی انتظامیہ بذات خود اس تماشے میں شامل تھی۔ نتیجہ یہ کہ وہ بدقسمت آدم زاد زخموں کی تاب نہ لا کر تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ دم توڑتے وقت عمر صرف پچیس برس تھی۔ ہمارے سماج میں ویسے تو کسی عام انسان کی بھی کوئی عزت نہیںہے۔ مگر خواجہ سرا تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک کے عادی ہو چکے ہیں۔ علیشاہ کے قاتلوں کو کسی قسم کی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔
نایاب علی صرف تیرہ برس کی تھی کہ اس کے عزیز واقارب نے اسے ہر دم ذلیل کرنا شروع کردیا۔ والدین نے بھی کسی قسم کی حفاظت کرنے سے انکار کر دیا۔ جب سوداسلف لینے گھر سے باہر نکلتی تو اوچھے لوگ زور زور سے آوازے کستے ۔ گالیاں دیتے اور تمسخر اڑاتے۔ اکثر لوگ اسے تنہائی میں ملنے کا بھی کہتے۔ جب ہر چیز برداشت سے باہر ہو گئی۔
تو نایاب نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر کو خیر آباد کہہ دیا۔ مگر ہمت نہ ہاری۔ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ ارادہ بذات خودبہت دشوار تھا۔ یونیورسٹی میں بھی ٹھٹھہ اڑانے والے لوگ بہت زیادہ تھے۔ نایاب نے کافی حدتک برداشت کیا۔ اور بہر حال بڑی مشکل سے تعلیم مکمل کر لی۔ مگر اس معاشرے کی ادنیٰ سوچ اس کے متعلق بالکل تبدیل نہ ہوسکی۔ ایک دن ایک شخص گھر کے نزدیک آیا۔
اسے باہر بلا کر تیزاب سے بھری بوتل چہرے پر انڈیل دی۔ نایاب کا پورا چہرہ جھلس گیا۔ اس نے بلند آواز میں چیخیں مارنی شروع کر دی۔ ار دگرد کے لوگ اسے تکلیف میں دیکھ کر قہقہے لگانے لگ گئے۔ ایک مجمع اکٹھا ہو گیا۔ مگر طبی سہولت کے لیے اسپتال لے جانے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ اسی کی قبیل کے چند خواجہ سراؤں نے مدد کی۔ اسپتال لے کر گئے۔ اس کا چہرہ مکمل طور پر برباد ہو چکا تھا۔ نایاب کو برباد کرنے والے کے خلاف معمولی سی قانونی کارروائی ہوئی ۔اور پھر راوی ہمیشہ کی طرح خاموش ہو گیا۔
خواجہ سراؤںکی بدنصیبی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ متعدد مسلم ممالک میں ان کا کوئی مستقبل نہیںہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد امین نام کا ایک پاکستانی درزی سعودی عرب میں کام کرتا تھا۔ خواتین کے کپڑے سینے سے روزی روٹی کماتا تھا۔ اور واپس پاکستان میںاپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا ۔ بہت کم لوگوں کو اس امر کا ادراک تھاکہ وہ خواجہ سرا ہے۔
ایک دن جدہ میں ایک دعوت پر گیا تو اس نے زنانہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ کسی مقامی شخص نے شکایت کر دی کہ ایک مرد' زنانہ کپڑے پہن کر بلڈنگ میں آیا ہے۔ پولیس نے ریڈ کیا اور محمد امین کو گرفتار کر لیا۔ رات ہی کو جیل بھیجوا دیا گیا۔ پولیس نے اس پر اس قدر وحشیانہ تشدد کیا کہ کال کوٹھڑی میں ہی دم توڑ گیا۔ اس قتل پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
پاکستانی حکومت نے بھی معمولی سا احتجاج نہیں کیا۔ مغربی ممالک میں جب یہ خبر پہنچی تو وہاں کہرام مچ گیا۔ انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں نے محمد امین کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سعودی حکومت نے جواب دیا کہ محمد امین کو جیل میں دل کا دورہ پڑا اور وہیں مر گیا۔ کسی قسم کی کوئی غیر جانبدار تفتیش نہ ہو پائی۔ نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ کمزور فریق کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے۔کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔
تھامسن رپورٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں پانچ سے نو لاکھ خواجہ سرا موجود ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ انتہائی قابل نفرت ہے۔ ان کو خاندان والے تک چھپاتے ہیںیا انھیں عاق کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کی اصل تعداد کے متعلق وثوق سے کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ ظلم تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی مرد م شماری میں ان کو شامل نہیں کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے حکومت کو حکم دیا کہ ان بدنصیب لوگوں کو بھی مردم شاری میں شامل کیا جائے۔ ان کی باقاعدہ گنتی کی جائے۔
عدالت عالیہ کے اس حکم کی تعمیل میں پہلی بار ان کے وجود کو شمار کیا گیا۔ اس سے پہلے حکومتی سطح پر ان کے وجود کا اقرار تک نہیں تھا۔ 2012ء میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو ملکیتی جائداد میں حصہ دار قرار دیا۔ ان لوگوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا عدالتی حکم جاری کیا گیا۔فیصلے میں یہ بھی درج تھا کہ خواجہ سراؤں کو باقی انسانوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں۔
انھیں کسی تضحیک اور تفریق کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جہاں عدالتوں نے اتنی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2018ء میں پارلیمنٹ نے Transgender Persons (protection of Rights) Act منظور کیا۔ اس قانون کے تحت خواجہ سراؤں کے تمام حقوق کو باضابطہ طور پر ریاست کی سطح پر پذیرائی دی گئی۔ ان کے جان و مال' عزت' شہریت کو عام پاکستانیوں کی طرح قانونی حرمت حاصل ہو گئی۔
تمام قوانین اور عدالتی فیصلے ایک طرف۔ مگر کیاہمارے سماجی رویے' ان بدقسمت لوگوں کی طرف متوازن ہیں۔ کیا ہم ان لوگوں کو انسانی حقوق دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہم خواجہ سراؤں کو واقعی انسان سمجھتے ہیں؟اس کا جواب مکمل نفی میں ہے۔ اگر کسی گھرانے میں اس قبیل کا بچہ پیدا ہو جائے تو پیدا ہوتے ہی ایک کلنک کا ٹیکہ بن جاتا ہے۔ والدین اس کو ایک ہولناک حادثہ قرار دیتے ہوئے اپنے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی پوشیدہ رکھتے ہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ ان بدنصیبوں پر معمولی تعلیم کے دروازے بھی اکثر اوقات بند کر دیے جاتے ہیں۔
اسکول جانے کی اجازت بھی ہو تو ہر طرح کی پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ کسی سے نہیں ملنا' کسی سے بات نہیں کرنی۔ کسی کو اپنے متعلق کچھ بھی نہیں بتانا۔ مگر قانون قدرت ہے کہ یہ لوگ پھر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد تعلیمی درسگاہوں میں ان کی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے۔ طلباء اور اساتذہ ان میں ادنیٰ پن تلاش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اس بے رحم معاشرے میں عملی طور پر ان کے لیے عزت سے زندہ رہنے کے تمام مواقع ختم کر دیے جاتے ہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ مجبوراً اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں شمولیت سے انھیں چار پیسے مل جاتے ہیں۔ اکثریت مختلف شاہراہوں پر بھیک مانگنا شروع کر دیتی ہے۔
عزت تو دور کی بات ۔ ان کی جان تک بے وقعت ہوتی ہے۔ ان کا قتل کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتا۔ مارنے والوں کو کبھی سزا نہیں ملتی۔ یہ توہین آمیز رویوں کو اپنا مقدر سمجھ کر صرف سانس لیتے رہتے ہیں۔ مگر ذرا سوچیئے۔ انھیں بھی خدا نے اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح عام بچے اور بچیوں کو۔ اگر اللہ کی مرضی سے ان کا جسم ادھورے انسان کی طرح ہے تو اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے۔ یہ ہماری توجہ اور رحم کے خواہاں ہیں۔ مگر یہ تو دور کی بات 'خدارا' ان ادھورے انسانوں کو انسان تو سمجھیے۔