5دسمبر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا نیا امتحان

بہترین حکمتِ عملی کے تحت پیپلز پارٹی کی قیادت نے جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی حلقوں کے ووٹ لینے کی سعی بھی کی ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

تقریباً دو ماہ قبل لاہور کے حلقہ این اے 133 سے منتخب رکن قومی اسمبلی جناب محمدپرویز ملک اچانک اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ دل کے حملے نے اُن کی جان ہی لے لی ۔ وہ ایک شائستہ مزاج سیاستدان تھے ۔ نون لیگ کا ایک بڑا ہی قیمتی اثاثہ۔ ملک صاحب کی اچانک رخصتی سے نون لیگ کو یقیناً ایک بڑا دھچکا لگا۔

وہ کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہُوئے۔ اسی سے حلقے میں اُن کی مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی وسیع آرائیں برادری کا بھی ایک پسندیدہ نام تھے ۔ اُن کے والدِ گرامی ، جسٹس محمد اکرم ملک، ہماری اعلیٰ عدلیہ کا ایک معروف نام تھے ۔اُن کی ایک ہمشیرہ بھی ایم این اے رہی ہیں۔ اُن کے ایک بھائی لاہور ہائیکورٹ کے سابق جسٹس رہے اور ایک بھائی ہمارے ملک کے معروف معالج ہیں۔پرویز ملک مرحوم کا ایک صاحبزادہ، علی پرویز ملک، بھی ایم این اے ہے۔ اُن کی اہلیہ ، محترمہ شائستہ پرویز ملک، نون لیگ کے پلیٹ فارم سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی ہیں۔

نون لیگ کے ٹکٹ پر ایک ہی گھر کے اگر تین افراد رکن قومی اسمبلی ہوں تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ فیملی نون لیگ اور میاں محمد نواز شریف کی کس قدر معتمد ہوگی !یہی وجہ ہے کہ پرویز ملک کے انتقال کے بعد، این اے 133کے ضمنی انتخاب کے لیے، نون لیگ کا ٹکٹ شائستہ پرویز ملک صاحبہ کو عنائت کیا گیا ہے۔ اگر وہ 5دسمبر 2021 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں منتخب ہو گئیں تو خواتین کی خصوصی نشست چھوڑ دیں گی۔ اُن کی جگہ کوئی اور نون لیگی خاتون منتخب کر لی جائے گی۔

پرویز ملک صاحب مرحوم نے 2018کے عام انتخابات میں این اے133کے حلقہ سے پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری صاحب کو12ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی۔ اعجاز چوہدری اب پی ٹی آئی کے سینیٹر اور سینٹرل پنجاب میں پی ٹی آئی کے صدر ہیں۔ یہ وہی اعجاز چوہدری صاحب ہیں جنھوں نے حال ہی میں ٹی ایل پی کے سربراہ، مولانا سعد رضوی صاحب، کو چھ ماہ سے زائد جیل کی رہائی کے فوراً بعد گلدستہ پیش کرکے مبارکباد دی ہے ۔ اُن کی جپھیوں کی تصاویر اور بیانات نے نقادوں کے دلوں میں خاصی ہلچل سی مچائی ہے ۔

اعجاز چوہدری صاحب کا مگر کہنا ہے کہ '' مولانا موصوف سے یہ گلدستہ والی ملاقات خالصتاً خیر سگالی پر مشتمل تھی ۔'' راز دان درونِ خانہ کا مگر کہنا ہے کہ یہ ملاقات خیر سگالی کے جذبات و احساسات سے کہیں زیادہ اور آگے کی اسٹرٹیجی پر مشتمل تھی ۔

نون لیگ کی فطری خواہش اور تمنا ہے کہ این اے 133کا ضمنی انتخاب بدستور اپنے ہاتھ ہی میں رہے۔ اِسی لیے تو نون لیگ نے پرویز ملک صاحب مرحوم کی بیوہ کو یہ ٹکٹ تفویض کیا ہے۔ پنجاب پر حکمران جماعت، پی ٹی آئی ، کی بھی خواہش تھی کہ یہ نشست جیت کر وہ نون لیگیوں کو آئینہ دکھائے ۔ یہ خواہش یوں دھری کی دھری رہ گئی ہے کہ پی ٹی آئی نے جس اُمیدوار (جمشید اقبال چیمہ صاحب) کو میدان میں اُتارنا چاہاتھا ، وہ بوجوہ اور بسیار کوشش کے باوصف میدان سے پہلے ہی آؤٹ ہو چکے ہیں ۔ چیمہ صاحب نے 2018 کے انتخابات میں لاہور (مغلپورہ) ہی سے انتخاب لڑا تھا لیکن ہار گئے تھے۔


موصوف وزیر اعظم جناب عمران خان کے اسپیشل اسسٹنٹ برائے فوڈ سیکیورٹی ہیں۔ یہ عہدہ اور وزیر اعظم سے اُن کا تقرب بھی انھیں میدان میں کھڑا رکھنے میں معاون نہ ہو سکا۔چیمہ صاحب کے ضمنی انتخابی میدان سے بوجوہ آؤٹ ہونے پر متعلقہ حلقے میں کئی چہ میگوئیاں بھی گردش میں ہیں۔ اُن کی اہلیہ ، محترمہ مسرت جمشید چیمہ، پی ٹی آئی کی طرف سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں لیکن وہ بھی این اے 133کی دوڑ میں شامل نہ ہو سکیں ۔جمشید چیمہ صاحب میدان میں رہتے تو انھیں خوب معلوم ہوجاتا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان آج عوام میں کس نظر سے دیکھے جا رہے ہیں۔

اب این اے133کے ضمنی انتخابی معرکے میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے بطورِ حریف کھڑی ہیں۔ دونوں کا یکساں زور لگ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اُمیدوار ایک معروف، کمٹڈ اور کہنہ مشق سیاستدان، چوہدری محمد اسلم گل، ہیں۔ اسلم گل صاحب پیپلز پارٹی کا جیالا اور جوشیلا کارکن ہے۔ جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری صاحب کی بھی زبردست خواہش ہے کہ اسلم گل صاحب یہ میدان مار لیں۔ خواہش رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے اور چھوٹے زرداری صاحبان کے حکم پر پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت نے این اے133میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

سابق وزیر اعظم ، راجہ پرویز اشرف صاحب، بھی اسلم گل کی الیکشن کمپین میں دن رات مگن ہیں۔ سندھ سے لاہور آئی پیپلز پارٹی کی معروف خاتون سیاستدان، صوبائی وزیر ، محترمہ سیدہ شہلا رضا، بھی اسلم گل کے حلقہ میں خواتین کو پیپلز پارٹی کی طرف مائل اور قائل کرنے کے لیے تندہی سے محنت کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر، پلوشہ خان صاحبہ، بھی اسلم گل کے لیے متحرک ہیں۔اخبارات کی حد تک ، این اے133میں، پیپلز پارٹی کی سرگرمیاں زیادہ نظر آ رہی ہیں ۔

ان محنتوں کا ثمر پیپلز پارٹی اور اسلم گل کو ملتا ہے یا نہیں، یہ تو پانچ دسمبر کو پتہ چلے گا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے این اے 133میں خوب رونق لگا رکھی ہے۔ پنجاب میں کبھی پیپلز پارٹی مقبول ترین جماعت ہُوا کرتی تھی۔ اب مگر حالات مختلف ہیں۔ اس کے باوجود، ضمنی انتخاب کے لیے، پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کا تحرک و جوش قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ تحسین بھی ۔

این اے133ایک وسیع حلقہ ہے۔ یہ لاہور کے لیاقت آباد، ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن، پنڈی راجپوتاں، اسماعیل نگر، کوٹ لکھپت، چونگی امر سدھو، باگڑیاں، گرین ٹاؤن، ٹاؤن شپ، مریم کالونی ، ستارہ کالونی اور فرید کالونی پر مشتمل ہے۔ یہاں تقریباًپونے چار لاکھ ووٹرز ہیں۔نون لیگ کی اُمیدوار ، شائستہ پرویز ملک، خاتون ہونے اور شوہر کی وفات کے ناتے کنویسنگ کرتی کم کم نظر آئی ہیں لیکن اُن کی پارٹی پوری طاقت سے اُن کے ساتھ کھڑی ہے ۔پیپلز پارٹی کی رونق مگر زیادہ نظر آ تی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ، ایم پی اے، سید حسن مرتضیٰ صاحب کی توانا اور جری آواز بھی پیپلز پارٹی کے اسلم گل کے حق میں بلند ہو رہی ہے۔ حسن مرتضیٰ کا پنجابی لہجے کا دلچسپ اسلوب اس حلقے کے ووٹروں کے لیے مقناطیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کا داستانوی اندازِ گفتگو سامعین کو مبہوت تو یقیناً کر دیتا ہے لیکن ووٹروں کی مُٹھی سے پیپلز پارٹی کے لیے ووٹ نکالنا ذرا مشکل اور وکھرا کام ہے۔

بہترین حکمتِ عملی کے تحت پیپلز پارٹی کی قیادت نے جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی حلقوں کے ووٹ لینے کی سعی بھی کی ہے۔ حلقہ این اے133کا یہ ضمنی انتخاب دراصل ہمیں یہ بھی بتائے گا کہ پانچ دسمبر کو نئی سیاسی ہوا کس جانب چل رہی ہے؟ اس لہر سے پیپلز پارٹی کو بھی اپنے بارے میں کئی نئے اندازے لگانے میں کئی آسانیاں ہوں گی ۔ گویا5دسمبر کو این اے133 میں یہ ضمنی انتخاب دراصل پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لیے باد نما کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔
Load Next Story