اپوزیشن کی ناکامیاں
ہوسکتاہے وقت بدل جائے اورریلیف کی کوئی راہ نکل آئے۔ وہ اسی دن کاانتظارکررہے ہیں۔
CARACAS, VENEZUELA:
پی ٹی آئی کی حکومت اس لحاظ سے بھی بہت خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ اُسے ایک انتہائی کمزور اپوزیشن ملی ہے۔ گیارہ جماعتیں ملکربھی حزب اختلاف کا وہ کردار ادا نہیں کرپائی ہیں جو ایک تحریک انصاف اکیلی نے میاں صاحب کے ابتدائی سالوں سے شروع کررکھا تھا۔کہنے کو یہ گیارہ جماعتیں ایک گروپ کی شکل میں متحد ہیں لیکن سب مل کر بھی ابھی تک کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے پائی ہیں۔
گیارہ جماعتوں میں سے دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن )کے درمیان عرصہ دراز سے چلی آنے والی چپقلش اس اتحاد کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بنی ہوئی ہے، یہ دونوں جماعتیں دکھانے کو ایک دوسرے سے کتنی ہی محبت ودوستی کی پینگیں بڑھالیں لیکن اُن کے درمیان عدم اعتماد اورسیاسی منافرت کا خاتمہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔
یہ ایک دوسرے کی ہمیشہ سے نہ صرف مخالف رہی ہیں بلکہ انتخابی میدان میں بھی ہمیشہ سے ایک دوسرے کی سخت حریف رہی ہیںاورشاید آیندہ بھی رہیں گی۔پی ٹی آئی فیکٹر انھیں کچھ دنوں کے لیے قریب تو لے آتاہے لیکن اُن کے درمیان پلنے والا نفرت انگیز جذبہ اور احساس انھیں مستقل بنیادوں پر تعلق استوار کرنے نہیں دیتا۔وہ ایک دوسرے سے ایسے زخم کھائے ہوئے ہیںجنھیں بھلاناتو درکناربلکہ یاد رکھ کر دہراتے رہنا ان کی سیاسی ضرورت اورمجبوری بھی ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل نو جماعتیں توشاید ایک سوچ اورنظریہ کی حامل ہوسکتی ہیں لیکن پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی اُن کے ساتھ ہر فیصلے پر ہاں میں ہاں نہیں ملاسکتی۔ اُن کے اپنے مفادات اورنظریات ہیں جو پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں سے یکسر مختلف ہیں۔ پیپلزپارٹی کی ایک صوبے میں مضبوط حکومت ہے جسے کوئی بھی آئینی طریقے سے ختم نہیں کرسکتا اورخود پیپلزپارٹی بھی اُسے قبل ازوقت چھوڑ کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کو تیار نہیں ہے۔
اسی لیے وہ کبھی اجتماعی استعفوں پر راضی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ آخری مرحلہ نہ آجائے۔دوسری جانب ایک کامیاب لانگ مارچ کرنا اور وہ بھی بغیرکسی پس پردہ قوت کی سرپرستی کے پی ڈی ایم کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے یہاںلانگ مارچ کی کامیابی کاانحصار بھی ہمیشہ ایسے ہی عوامل پر ہوا کرتاہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ1993 میں جب میاں نوازشریف حکومت کو سپریم کورٹ نے بحال کردیاتو پھر محترمہ بے نظیر بھٹونے اسلام آباد کی طرف اچانک ایک لانگ مارچ شروع کرنے کااعلان کر ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا پانسہ پلٹ ڈالاتھا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے بحال تو ہوگئے لیکن پنجاب صوبے میں اُن کی پارٹی کی مضبوط حکومت کو اچانک عدم اعتماد کی تحریک سے دوچار کرڈالاگیا۔غلام حیدر وائیںکی دوتہائی اکثریت والی حکومت کو منٹوں میں فارغ کرکے وہاں منظوروٹو کی حکومت قائم کردی گئی ۔
جس نے محترمہ بے نظیر بھٹوکے مجوزہ لانگ مارچ کو مکمل سہولت اورمدد فراہم کرنے کایقین بھی دلایاتھا۔ یوں عدلیہ سے بحال ہوکربھی میاں نواز شریف ایک کمزور وزیراعظم بنادیے گئے۔ایک ایسا وزیراعظم جس نے ڈکٹیشن نہ لینے کاجرات مندانہ دعویٰ کرڈالاتھابالآخر چند مہینوں بعد از خود استعفیٰ دیکر سرنگوں ہونے ہی کو عافیت جانا۔ہماری سیاسی تاریخ کی یہ تلخ حقیقتیں اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ یہاں کوئی بھی تبدیلی تنہا سیاست کے بل بوتے پرممکن نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی تمام ناکامیوں اورنااہلیوں کے باوجود ابھی تک اپوزیشن کے کاری حملوں سے محفوظ ہے، وہ عددی لحاظ سے ایک کمزور حکومت ہونے کے باوجود اپنا ہر بل پارلیمنٹ سے منٹوں اورلمحوں میں منظور بھی کروا لیتی ہے۔
اپوزیشن کو بھی اب سمجھ لیناچاہیے اورسیاسی تبدیلی کے خوابوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آجاناچاہیے۔ مہنگائی اوربے روزگاری ایک ایساگھمبیر مسئلہ ہے جسے ہماری اپوزیشن درست اورصحیح طریقے سے ابھی تک اُٹھا نہیں سکی ہے ۔ ورنہ یاد ہوگا کہ ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت میں صرف 25 پیسے کے اضافے کولے کر بھٹو صاحب نے ایک ایسی تحریک شروع کرڈالی تھی جس نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔آج مہنگائی عروج پرہے اورہماری اپوزیشن ابھی تک عوامی مشکلوں اوراحساسات کو کیش بھی نہیں کرواپائی ہے۔
اُس نے عوامی مظاہروں کااہتمام تو ضرور کیالیکن عوام کو اس میں شامل ہونے پرمجبور نہ کر سکی۔ یہ پھس پھسے مظاہروں اورچند اشتعال انگیز تقریروں سے تو کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ ایسے ناکام مظاہروں سے تو حکومت اوربھی نڈر اوربے باک ہوکر مزید مہنگائی کاسوچنے لگی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے مظاہروں میں شرکت سے عدم دلچسپی نے لوگوں کو مایوس کیاہے۔ بلاول بھٹو کایہ خیال ہے کہ اِن مظاہروں سے اگر حکومت کا زوال ہوبھی جائے تواُسے کیاملے گا۔یہی ایک صوبے کی حکومت تو پھر بھلاوہ کیونکر اپنی جان جھونکوں میں ڈالیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جب تک لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کاکوئی امکان نہیں ہے۔ وہ شاید اس دن اوروقت کاانتظارکررہے ہیں جب حالات اُن کے لیے سازگار شکل اختیار کرجائیں گے اوروطن واپسی پر گرفتاری کاکوئی امکان غالب نہ رہے گا۔اُس سے پہلے واپس آنا اُن کے اپنے لیے مشکل کھڑی کردینے کے مترادف ہوگا۔وہ جیل کی سلاخوں سے جب تک باہر ہیں، ذہنی ٹینشن اوردباؤ سے بھی بچے ہوئے ہیں۔
ہوسکتاہے وقت بدل جائے اورریلیف کی کوئی راہ نکل آئے۔ وہ اسی دن کاانتظارکررہے ہیں،جب کہ ادھر مولانا فضل الرحمن اورمحمود خان اچکزئی مہنگائی کے خلاف عوامی مظاہروں میں مسلسل شرکت کرکے مایوس ہوچکے ہیں۔مظاہروں میں صرف جے یوآئی کے لوگ ہی شرکت کرتے نظر آتے ہیں جب کہ باقی پارٹیوں کے کارکن اکا دکا ہی دکھائی دیتے ہیں۔اس بات نے بھی مولانا کو بددل اورناراض کردیا ہے یوں اپوزیشن کے تحریک اب غیر موثر ہوتی نظر آرہی ہے۔
حزب اختلاف کا وجود صرف اخبارات اورٹی وی شوز تک ہی محدود ہوکررہ گیاہے۔ سینیٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وہاں بھی بے اثر دکھائی دیتی ہے۔لگتاہے یہ سلسلہ اس وقت تک چلتارہے گا جب نئے انتخابات میں صرف چند مہینے رہ جائیں گے۔ اُس وقت پیپلزپارٹی بھی اجتماعی استعفوں پررضامند ہوجائے گی اورحکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی اس کاساتھ چھوڑتی دکھائی دینے لگیں گی۔ایم کیوایم یہ کہتی ہوئی حکومت سے الگ ہوجائے گی کہ حکومت نے ہمیں دھوکا دیا اورہمارا ایک کام بھی نہیں کیا۔
نہ نئے سرے سے مردم شماری کروائی اورنہ ہمیں اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دی۔دوسری جانب مسلم لیگ (ق) بھی ایسے بہانے کرکے حکومت کو خیرباد کہہ دے گی۔پاکستانی سیاست اسی طرح چلتی رہی ہے اورآیندہ بھی چلتی رہے گی،مگر عوام یونہی پستے رہیں گے اوربے وقوف بن کر پھر انھیں ووٹ بھی دیتے رہیں گے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اس لحاظ سے بھی بہت خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ اُسے ایک انتہائی کمزور اپوزیشن ملی ہے۔ گیارہ جماعتیں ملکربھی حزب اختلاف کا وہ کردار ادا نہیں کرپائی ہیں جو ایک تحریک انصاف اکیلی نے میاں صاحب کے ابتدائی سالوں سے شروع کررکھا تھا۔کہنے کو یہ گیارہ جماعتیں ایک گروپ کی شکل میں متحد ہیں لیکن سب مل کر بھی ابھی تک کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے پائی ہیں۔
گیارہ جماعتوں میں سے دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن )کے درمیان عرصہ دراز سے چلی آنے والی چپقلش اس اتحاد کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بنی ہوئی ہے، یہ دونوں جماعتیں دکھانے کو ایک دوسرے سے کتنی ہی محبت ودوستی کی پینگیں بڑھالیں لیکن اُن کے درمیان عدم اعتماد اورسیاسی منافرت کا خاتمہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔
یہ ایک دوسرے کی ہمیشہ سے نہ صرف مخالف رہی ہیں بلکہ انتخابی میدان میں بھی ہمیشہ سے ایک دوسرے کی سخت حریف رہی ہیںاورشاید آیندہ بھی رہیں گی۔پی ٹی آئی فیکٹر انھیں کچھ دنوں کے لیے قریب تو لے آتاہے لیکن اُن کے درمیان پلنے والا نفرت انگیز جذبہ اور احساس انھیں مستقل بنیادوں پر تعلق استوار کرنے نہیں دیتا۔وہ ایک دوسرے سے ایسے زخم کھائے ہوئے ہیںجنھیں بھلاناتو درکناربلکہ یاد رکھ کر دہراتے رہنا ان کی سیاسی ضرورت اورمجبوری بھی ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل نو جماعتیں توشاید ایک سوچ اورنظریہ کی حامل ہوسکتی ہیں لیکن پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی اُن کے ساتھ ہر فیصلے پر ہاں میں ہاں نہیں ملاسکتی۔ اُن کے اپنے مفادات اورنظریات ہیں جو پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں سے یکسر مختلف ہیں۔ پیپلزپارٹی کی ایک صوبے میں مضبوط حکومت ہے جسے کوئی بھی آئینی طریقے سے ختم نہیں کرسکتا اورخود پیپلزپارٹی بھی اُسے قبل ازوقت چھوڑ کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کو تیار نہیں ہے۔
اسی لیے وہ کبھی اجتماعی استعفوں پر راضی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ آخری مرحلہ نہ آجائے۔دوسری جانب ایک کامیاب لانگ مارچ کرنا اور وہ بھی بغیرکسی پس پردہ قوت کی سرپرستی کے پی ڈی ایم کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے یہاںلانگ مارچ کی کامیابی کاانحصار بھی ہمیشہ ایسے ہی عوامل پر ہوا کرتاہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ1993 میں جب میاں نوازشریف حکومت کو سپریم کورٹ نے بحال کردیاتو پھر محترمہ بے نظیر بھٹونے اسلام آباد کی طرف اچانک ایک لانگ مارچ شروع کرنے کااعلان کر ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا پانسہ پلٹ ڈالاتھا۔ میاں نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے بحال تو ہوگئے لیکن پنجاب صوبے میں اُن کی پارٹی کی مضبوط حکومت کو اچانک عدم اعتماد کی تحریک سے دوچار کرڈالاگیا۔غلام حیدر وائیںکی دوتہائی اکثریت والی حکومت کو منٹوں میں فارغ کرکے وہاں منظوروٹو کی حکومت قائم کردی گئی ۔
جس نے محترمہ بے نظیر بھٹوکے مجوزہ لانگ مارچ کو مکمل سہولت اورمدد فراہم کرنے کایقین بھی دلایاتھا۔ یوں عدلیہ سے بحال ہوکربھی میاں نواز شریف ایک کمزور وزیراعظم بنادیے گئے۔ایک ایسا وزیراعظم جس نے ڈکٹیشن نہ لینے کاجرات مندانہ دعویٰ کرڈالاتھابالآخر چند مہینوں بعد از خود استعفیٰ دیکر سرنگوں ہونے ہی کو عافیت جانا۔ہماری سیاسی تاریخ کی یہ تلخ حقیقتیں اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ یہاں کوئی بھی تبدیلی تنہا سیاست کے بل بوتے پرممکن نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی تمام ناکامیوں اورنااہلیوں کے باوجود ابھی تک اپوزیشن کے کاری حملوں سے محفوظ ہے، وہ عددی لحاظ سے ایک کمزور حکومت ہونے کے باوجود اپنا ہر بل پارلیمنٹ سے منٹوں اورلمحوں میں منظور بھی کروا لیتی ہے۔
اپوزیشن کو بھی اب سمجھ لیناچاہیے اورسیاسی تبدیلی کے خوابوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آجاناچاہیے۔ مہنگائی اوربے روزگاری ایک ایساگھمبیر مسئلہ ہے جسے ہماری اپوزیشن درست اورصحیح طریقے سے ابھی تک اُٹھا نہیں سکی ہے ۔ ورنہ یاد ہوگا کہ ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت میں صرف 25 پیسے کے اضافے کولے کر بھٹو صاحب نے ایک ایسی تحریک شروع کرڈالی تھی جس نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔آج مہنگائی عروج پرہے اورہماری اپوزیشن ابھی تک عوامی مشکلوں اوراحساسات کو کیش بھی نہیں کرواپائی ہے۔
اُس نے عوامی مظاہروں کااہتمام تو ضرور کیالیکن عوام کو اس میں شامل ہونے پرمجبور نہ کر سکی۔ یہ پھس پھسے مظاہروں اورچند اشتعال انگیز تقریروں سے تو کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ ایسے ناکام مظاہروں سے تو حکومت اوربھی نڈر اوربے باک ہوکر مزید مہنگائی کاسوچنے لگی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے مظاہروں میں شرکت سے عدم دلچسپی نے لوگوں کو مایوس کیاہے۔ بلاول بھٹو کایہ خیال ہے کہ اِن مظاہروں سے اگر حکومت کا زوال ہوبھی جائے تواُسے کیاملے گا۔یہی ایک صوبے کی حکومت تو پھر بھلاوہ کیونکر اپنی جان جھونکوں میں ڈالیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جب تک لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کاکوئی امکان نہیں ہے۔ وہ شاید اس دن اوروقت کاانتظارکررہے ہیں جب حالات اُن کے لیے سازگار شکل اختیار کرجائیں گے اوروطن واپسی پر گرفتاری کاکوئی امکان غالب نہ رہے گا۔اُس سے پہلے واپس آنا اُن کے اپنے لیے مشکل کھڑی کردینے کے مترادف ہوگا۔وہ جیل کی سلاخوں سے جب تک باہر ہیں، ذہنی ٹینشن اوردباؤ سے بھی بچے ہوئے ہیں۔
ہوسکتاہے وقت بدل جائے اورریلیف کی کوئی راہ نکل آئے۔ وہ اسی دن کاانتظارکررہے ہیں،جب کہ ادھر مولانا فضل الرحمن اورمحمود خان اچکزئی مہنگائی کے خلاف عوامی مظاہروں میں مسلسل شرکت کرکے مایوس ہوچکے ہیں۔مظاہروں میں صرف جے یوآئی کے لوگ ہی شرکت کرتے نظر آتے ہیں جب کہ باقی پارٹیوں کے کارکن اکا دکا ہی دکھائی دیتے ہیں۔اس بات نے بھی مولانا کو بددل اورناراض کردیا ہے یوں اپوزیشن کے تحریک اب غیر موثر ہوتی نظر آرہی ہے۔
حزب اختلاف کا وجود صرف اخبارات اورٹی وی شوز تک ہی محدود ہوکررہ گیاہے۔ سینیٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود وہ وہاں بھی بے اثر دکھائی دیتی ہے۔لگتاہے یہ سلسلہ اس وقت تک چلتارہے گا جب نئے انتخابات میں صرف چند مہینے رہ جائیں گے۔ اُس وقت پیپلزپارٹی بھی اجتماعی استعفوں پررضامند ہوجائے گی اورحکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بھی اس کاساتھ چھوڑتی دکھائی دینے لگیں گی۔ایم کیوایم یہ کہتی ہوئی حکومت سے الگ ہوجائے گی کہ حکومت نے ہمیں دھوکا دیا اورہمارا ایک کام بھی نہیں کیا۔
نہ نئے سرے سے مردم شماری کروائی اورنہ ہمیں اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دی۔دوسری جانب مسلم لیگ (ق) بھی ایسے بہانے کرکے حکومت کو خیرباد کہہ دے گی۔پاکستانی سیاست اسی طرح چلتی رہی ہے اورآیندہ بھی چلتی رہے گی،مگر عوام یونہی پستے رہیں گے اوربے وقوف بن کر پھر انھیں ووٹ بھی دیتے رہیں گے۔