اجناس کی قلت سے بچنے کیلیے اسٹریٹجک ریزرو کی ضرورت

آئندہ اس نوع کے بحرانوں سے بچنے کے لیے رسد کی رکاوٹوں پر توجہ دینی ہو گی۔

آئندہ اس نوع کے بحرانوں سے بچنے کے لیے رسد کی رکاوٹوں پر توجہ دینی ہو گی۔فوٹو : فائل

پاکستان میں ان دنوں ہم '' شارٹیج اکانومی'' سے گزر رہے ہیں جہاں ہمیں مختلف اشیا و اجناس کی شارٹیج یعنی قلت کا سامنا ہے تاہم اس کے عالمی و بین الاقوامی اسباب ہیں۔

کووڈ 19 کے بعد جب حالات بہتر ہونے لگے تو طلب میں یکایک اضافہ ہوا، عالمی چین آف سپلائی اس دبائو کا مقابلہ نہ کرسکی، اور مختلف اشیاء کی قلت ہوتی چلی گئی۔ ملکی سطح پر پیداواری شعبوں اور مڈل مین کا رول ادا کرنے والے افراد و اداروں کا کردار ' شارٹیج اکانومی' کے لیے اہم رہا۔

حالیہ عرصے کے دوران ملک میں چینی، گندم، آئل سمیت کئی اشیاء کا بحران آیا۔ مستقبل میں اس نوع کے بحرانوں سے بچنے کے لیے ہمیں سپلائی سائیڈ کی رکاوٹوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


کیا ہم آئندہ عشرے میں توانائی کی طلب پوری کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم بڑھتی ہوئی آبادی کی طلب اور صارفین کے بدلتے رجحانات کی تکمیل کرپائیں گے؟ کیا ہمارے پاس اہم اجناس و اشیاء کے لیے سپلائی انفرا اسٹرکچر موجود ہے؟

بدقسمتی سے ہم ان پہلوؤں پر غور نہیں کرتے، ہماری توجہ مختصر مدتی مسائل پر مرکوز رہتی ہے۔ شارٹیج اکانومی کی ایک اور وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب صارفین کی گھٹتی ہوئی قوت خرید ہے، کیوں کہ حقیقی آمدن کم ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان میں ہمیں ملکی اور عالمی رجحانات کا ادراک کرتے ہوئے معاشی پالیسی کو اسی مناسبت سے تشکیل دینا ہوگا۔

مختلف شعبوں میں شارٹیج ( قلت) کا اندازہ کرنا ہو گا۔ کچھ سیکٹرز بالخصوص فوڈ اور انرجی کو نیشنل سیکیورٹی کے دائرے میں لانا ہوگا۔ ان سیکٹرز میں حکومتی مداخلت یا نگرانی زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے تاکہ مارکیٹ کی قوتوں کو اس طرح مینیج کیا جا سکے کہ متوقع شارٹیج کی صورت میں بھی شدید نوعیت کے مسائل پیدا نہ ہوسکیں۔

رسد کو ہموار بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کے درمیان شراکت داری کا طریقہ اپنایا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی بالخصوص تیل، خوراک اور اناج کے اسٹریٹجک ریزرو ہونے چاہئیں۔
Load Next Story