ایران اورعالمی طاقتوں میں جوہری معاہدے کی بحالی پر مذاکرات کا آغاز

امریکا کو اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے 2018 سے ہم پر عائد پابندیاں اٹھانی چاہیے، ایران

امریکا کو اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے 2018 سے ہم پر عائد پابندیاں اٹھانی چاہیے، ایران۔(فوٹو: رائٹرز)

ایران اور عالمی طاقتوں نے امریکا کی جانب سے تین سال کے تعطل کے بعد بین ا لاقوامی جوہری معاہدے کی دوبارہ بحالی پر مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ نے ایک بار پھر 'نیوکلیئر ڈیل ' پر ساتھ چلنے پر رضامندی ظاہر کی جب کہ اس مذاکرات کے پیغامات سےامریکی نمائندگان کو بھی آگاہ کیا جائے گا کیوں کہ ایران نے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے۔

یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اس ضمن میں عالمی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور جوہری معاہدے کے نکات پر اتفاق کیا۔ ویانا مذاکرات کے دوران مذکورہ ممالک معاہدے کے حوالے سے مستقبل کے لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی راضی ہوئے۔ بات چیت کے آئندہ دور میں اہم پیش رفت کا امکان ہے۔


مذاکرات میں شامل اہم روسی مصالحت کار میکائل الیانوو نے بات چیت شروع ہونے سے کئی گھنٹے قبل کہا تھا کہ وہ اس معاہدے میں حائل رکاوٹوں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود کافی حد تک خوش فہم ہیں کہ جوہری معاہدے پر دوبارہ کام شروع کرنے اور اس کی بحالی کے علاوہ کوئی دوسرا بہتر راستہ نہیں۔

اس بابت ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کو اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے 2018 سے ہم پر عائد پابندیوں کو اٹھاتے ہوئے دوبارہ ایسا نہ ہونے کی ضمانت دینی چاہیے۔

دوسری جانب امریکا کا کہنا ہے کہ وہ ان پابندیوں کو اٹھانے پر راضی ہے جو کہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن( جے سی پی او اے) کے ساتھ متضاد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق ان پابندیوں کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جو کہ خود انہوں نے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئیں تھی۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیرخارجہ یائر لاپد فرانس کا دورہ کریں گے اس دوران ان کی فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں سے ملاقات متوقع ہے، اس اہم دورہ کا مقصد ایران کی حالیہ پالیسی پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
Load Next Story