ماتحت عدلیہ بمقابلہ افسر شاہی
اگر افسر شاہی عدلیہ کے احکامات نہیں مانے گی تو کل عام آدمی بھی نہیں مانے گا۔
MULTAN:
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منڈی بہاؤالدین راؤ عبدالجبار خان نے توہین عدالت کے مقدمہ میں اس ضلع کے ڈپٹی کمشنرطارق بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز علی کو تین تین ماہ کی سزا سنا دی ہے۔ اس خبر کے بعد افسر شاہی میں ایک طوفان آگیا ہے۔ بیوروکریسی میں جہاں غصہ نظر آرہا ہے، وہاں تقسیم بھی نظر آرہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے نہیں ہے۔ وہ پنجاب سروس سے ہیں۔ اس لیے بیوروکریسی کی برہمن کلاس کا موقف ہے کہ پنجاب سروس کے دلت لوگ ڈپٹی کمشنر جیسے انتظامی عہدے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ اگر وہاں ڈی ایم جی کا کوئی افسر ہوتا تو وہ حالات کو اس نہج تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔اس لیے ہمیں افسر شاہی کی طرف سے سخت رد عمل دیکھنے میں نہیں ملا' صرف پنجاب سروس کے افسران نے کہنے کو ہڑتال کی۔ لیکن وہ بھی کوئی موثر ہڑتال نہیں تھی جس سے کوئی کاروبار حکومت متاثر ہوا ہو۔
بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت کی جانب سے توہین عدالت جیسے سنگین جرم میں سزا دینے کے باوجود افسر شاہی کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ متعلقہ افسران کو نہ تو ہتھکڑی لگی اور نہ ہی انھیں جیل منتقل کیا جا سکا۔ یوں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔ پولیس نے عدالتی احکامات پر عمل کروانا تھا لیکن ڈی پی او صاحب بھی چھٹی چلے گئے اور یوں افسران بھی گھر چلے گئے' انھیں جیل منتقل نہیں کیا جا سکا۔
گزشتہ سال ساہیوال کے سول جج نے عدالتی احکامات نہ ماننے پر ساہیوال کے اسسٹنٹ کمشنر کو ہتھکڑی لگانے کے احکامات دیے تھے جس کے بعد پنجاب بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز نے ہڑتال کر دی تھی۔ یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑ گئی اور معاملات طے ہوئے۔ میں نے تب بھی لکھا تھا کہ عدالتی احکامات پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے۔ عدالتی احکامات کے خلاف ہڑتال کوئی اچھا کلچر نہیں ہے۔ آج دیکھیں ایک سال بعد ہم دوبارہ وہیں کھڑے ہیں۔ افسر شاہی پھر عدالتی احکامات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور ایک انتظامی بحران کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔
دراصل پاکستان کی افسر شاہی ماتحت عدلیہ کو ذہنی طور پر عدلیہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔ ماتحت عدلیہ کے نوٹسز اور عدالتی کارروائی کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے' ان کے احکامات کو بھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ان کو اکثر ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ میں معزز ڈپٹی کمشنر نے عدالت کے نوٹس پر اپنے کلر ک کو بھیجا اور اس نے بھی اپنے افسر کے زعم میں عدالتی پیشی کو سنجیدہ نہیں لیا۔
جب جج صاحب نے کلرک کو عدالت میں بٹھا لیا تو کلرک نے افسر کو اطلاع دی ڈپٹی کمشنر اپنے کلرک کو چھڑانے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ میں سمجھتا ہوں یہاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے قانون کے مطابق اور سمجھداری سے کام لیا اور کلرک کے بجائے محترم ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو عدالت آنے پر مجبورکر دیا، اور انھیں تین تین ماہ کی سزا سنا دی۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں مسائل ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں مسائل ہیں۔ بالخصوص ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ ماتحت عدلیہ، انصاف کا پہلا دروازہ ہے۔ اگر وہاں مسائل ٹھیک ہو جائیں تو کافی مسائل ٹھیک ہو جائیں۔ وہاں کی خرابی کافی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس لیے اعلیٰ عدلیہ کو بھی ماتحت عدلیہ کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
افسوس کی بات ہے کہ وکلا برادری بھی ماتحت عدلیہ کے وقار کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتی۔ ہم نے متعدد بار ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں وکلا برادری نے ماتحت عدلیہ کے ججز کو نہ صرف یرغمال بنایا ہے بلکہ ان کی عدالتوں کی تالہ بندی بھی کی ہے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کی توہین، وکلا کی جانب سے ایک معمول ہی بن گیا ہے۔ شاید اسی کو دیکھتے ہوئے افسر شاہی نے بھی ماتحت عدلیہ کی توہین شروع کر دی ہے۔چھوٹے اضلاع کے بالخصوص اور بڑے اضلاع کے بار عہدیداران ماتحت عدلیہ کے ججز کو اپنے ماتحت ہی سمجھتے ہیں۔بار کا صدر خود کو اعلیٰ سیشن جج کے اوپر ہی سمجھتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماتحت عدلیہ کے پاس توہین عدالت کے اس طرح اختیارات نہیں ہیں جیسے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے پاس ہیں۔ اسی لیے ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ بد تمیزی کے واقعات زیادہ سامنے آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی طرح توہین عدالت کے اختیارات دے دیے جائیں۔ لیکن صورتحال یہ بھی بتا رہی ہے کہ ان کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کا کوئی قابل عمل حل نکالنا چاہیے۔
افسر شاہی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عدالت عدالت ہوتی ہے۔ اس میں ماتحت عدلیہ اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی فرق نہیں ہے۔ انھیں ہر عدالت کو برابر عزت اور احترام دینا ہوگا۔ افسر شاہی کی سرکشی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ افسر شاہی کا یہ رویہ کوئی ان کا مثبت چہرہ نہیں ہے۔ افسر شاہی اور عدلیہ کی محاذ آرائی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ عدالتی احکامات کا مذاق اڑا کر افسر شاہی نے کوئی پاکستان کی خدمت نہیں کی ہے۔ بلکہ پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
میری چیف جسٹس سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس معاملے میں نرمی نہ دکھائیں ۔ ایک سال قبل جب پنجاب کے اسسٹنٹ کمشنر زنے ہڑتال کی تھی تب بھی عدلیہ اور افسر شاہی کے ذمے داران کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جنھیں میں نے نظام عدل کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ اور دیکھیں آج پھر واقعہ ہو گیا۔
اگر افسر شاہی عدلیہ کے احکامات نہیں مانے گی تو کل عام آدمی بھی نہیں مانے گا۔ آج ڈپٹی کمشنر کو جیل نہیں بھیجا گیا کل وزیر بھی جیل نہیں جائیں گے۔ ہر بااثر آدمی خود کو عدلیہ کے احکامات سے بالاتر سمجھنے لگ جائے گا۔ اس لیے عدالتی احکامات کی بجا آوری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منڈی بہاؤالدین راؤ عبدالجبار خان کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ انھوں نے عدلیہ کی بالادستی کے لیے جرات دکھائی ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منڈی بہاؤالدین راؤ عبدالجبار خان نے توہین عدالت کے مقدمہ میں اس ضلع کے ڈپٹی کمشنرطارق بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز علی کو تین تین ماہ کی سزا سنا دی ہے۔ اس خبر کے بعد افسر شاہی میں ایک طوفان آگیا ہے۔ بیوروکریسی میں جہاں غصہ نظر آرہا ہے، وہاں تقسیم بھی نظر آرہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے نہیں ہے۔ وہ پنجاب سروس سے ہیں۔ اس لیے بیوروکریسی کی برہمن کلاس کا موقف ہے کہ پنجاب سروس کے دلت لوگ ڈپٹی کمشنر جیسے انتظامی عہدے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ اگر وہاں ڈی ایم جی کا کوئی افسر ہوتا تو وہ حالات کو اس نہج تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔اس لیے ہمیں افسر شاہی کی طرف سے سخت رد عمل دیکھنے میں نہیں ملا' صرف پنجاب سروس کے افسران نے کہنے کو ہڑتال کی۔ لیکن وہ بھی کوئی موثر ہڑتال نہیں تھی جس سے کوئی کاروبار حکومت متاثر ہوا ہو۔
بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت کی جانب سے توہین عدالت جیسے سنگین جرم میں سزا دینے کے باوجود افسر شاہی کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ متعلقہ افسران کو نہ تو ہتھکڑی لگی اور نہ ہی انھیں جیل منتقل کیا جا سکا۔ یوں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔ پولیس نے عدالتی احکامات پر عمل کروانا تھا لیکن ڈی پی او صاحب بھی چھٹی چلے گئے اور یوں افسران بھی گھر چلے گئے' انھیں جیل منتقل نہیں کیا جا سکا۔
گزشتہ سال ساہیوال کے سول جج نے عدالتی احکامات نہ ماننے پر ساہیوال کے اسسٹنٹ کمشنر کو ہتھکڑی لگانے کے احکامات دیے تھے جس کے بعد پنجاب بھر کے اسسٹنٹ کمشنرز نے ہڑتال کر دی تھی۔ یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑ گئی اور معاملات طے ہوئے۔ میں نے تب بھی لکھا تھا کہ عدالتی احکامات پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے۔ عدالتی احکامات کے خلاف ہڑتال کوئی اچھا کلچر نہیں ہے۔ آج دیکھیں ایک سال بعد ہم دوبارہ وہیں کھڑے ہیں۔ افسر شاہی پھر عدالتی احکامات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور ایک انتظامی بحران کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔
دراصل پاکستان کی افسر شاہی ماتحت عدلیہ کو ذہنی طور پر عدلیہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔ ماتحت عدلیہ کے نوٹسز اور عدالتی کارروائی کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے' ان کے احکامات کو بھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ان کو اکثر ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ میں معزز ڈپٹی کمشنر نے عدالت کے نوٹس پر اپنے کلر ک کو بھیجا اور اس نے بھی اپنے افسر کے زعم میں عدالتی پیشی کو سنجیدہ نہیں لیا۔
جب جج صاحب نے کلرک کو عدالت میں بٹھا لیا تو کلرک نے افسر کو اطلاع دی ڈپٹی کمشنر اپنے کلرک کو چھڑانے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ میں سمجھتا ہوں یہاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے قانون کے مطابق اور سمجھداری سے کام لیا اور کلرک کے بجائے محترم ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو عدالت آنے پر مجبورکر دیا، اور انھیں تین تین ماہ کی سزا سنا دی۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں مسائل ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں مسائل ہیں۔ بالخصوص ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ ماتحت عدلیہ، انصاف کا پہلا دروازہ ہے۔ اگر وہاں مسائل ٹھیک ہو جائیں تو کافی مسائل ٹھیک ہو جائیں۔ وہاں کی خرابی کافی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس لیے اعلیٰ عدلیہ کو بھی ماتحت عدلیہ کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
افسوس کی بات ہے کہ وکلا برادری بھی ماتحت عدلیہ کے وقار کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتی۔ ہم نے متعدد بار ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں وکلا برادری نے ماتحت عدلیہ کے ججز کو نہ صرف یرغمال بنایا ہے بلکہ ان کی عدالتوں کی تالہ بندی بھی کی ہے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کی توہین، وکلا کی جانب سے ایک معمول ہی بن گیا ہے۔ شاید اسی کو دیکھتے ہوئے افسر شاہی نے بھی ماتحت عدلیہ کی توہین شروع کر دی ہے۔چھوٹے اضلاع کے بالخصوص اور بڑے اضلاع کے بار عہدیداران ماتحت عدلیہ کے ججز کو اپنے ماتحت ہی سمجھتے ہیں۔بار کا صدر خود کو اعلیٰ سیشن جج کے اوپر ہی سمجھتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماتحت عدلیہ کے پاس توہین عدالت کے اس طرح اختیارات نہیں ہیں جیسے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے پاس ہیں۔ اسی لیے ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ بد تمیزی کے واقعات زیادہ سامنے آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی طرح توہین عدالت کے اختیارات دے دیے جائیں۔ لیکن صورتحال یہ بھی بتا رہی ہے کہ ان کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کا کوئی قابل عمل حل نکالنا چاہیے۔
افسر شاہی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عدالت عدالت ہوتی ہے۔ اس میں ماتحت عدلیہ اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی فرق نہیں ہے۔ انھیں ہر عدالت کو برابر عزت اور احترام دینا ہوگا۔ افسر شاہی کی سرکشی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ افسر شاہی کا یہ رویہ کوئی ان کا مثبت چہرہ نہیں ہے۔ افسر شاہی اور عدلیہ کی محاذ آرائی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ عدالتی احکامات کا مذاق اڑا کر افسر شاہی نے کوئی پاکستان کی خدمت نہیں کی ہے۔ بلکہ پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
میری چیف جسٹس سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس معاملے میں نرمی نہ دکھائیں ۔ ایک سال قبل جب پنجاب کے اسسٹنٹ کمشنر زنے ہڑتال کی تھی تب بھی عدلیہ اور افسر شاہی کے ذمے داران کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جنھیں میں نے نظام عدل کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ اور دیکھیں آج پھر واقعہ ہو گیا۔
اگر افسر شاہی عدلیہ کے احکامات نہیں مانے گی تو کل عام آدمی بھی نہیں مانے گا۔ آج ڈپٹی کمشنر کو جیل نہیں بھیجا گیا کل وزیر بھی جیل نہیں جائیں گے۔ ہر بااثر آدمی خود کو عدلیہ کے احکامات سے بالاتر سمجھنے لگ جائے گا۔ اس لیے عدالتی احکامات کی بجا آوری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منڈی بہاؤالدین راؤ عبدالجبار خان کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ انھوں نے عدلیہ کی بالادستی کے لیے جرات دکھائی ہے۔