نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی
جب ملک کے پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انھیں ان کا حق مانگنے سے نہیں ملے گا، تو پھر وہ بندوق۔۔۔
سہ پہر کا وقت تھا، گرم گرم کافی ڈرائی فروٹ اور بھنے ہوئے چنوں کے ساتھ اپنا لطف دوبالا کر رہی تھی۔ ہمارے ساتھ دو نہایت پڑھے لکھے اعلیٰ ادبی ذوق کے حامل ایسے حضرات بیٹھے تھے جن سے مل کر ہمیشہ نہ صرف خوشی ہوتی ہے بلکہ معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ایک صاحب نے جناب عثمان دموہی کی نہایت اہم تصنیف ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' کا تازہ ترین دوسرا ایڈیشن جو حال ہی میں شایع ہوا ہے، ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ''کیا زمانہ آگیا ہے ایک شخص دن رات کی تحقیق سے آنکھیں جلاتا ہے، تاریخ کے کونوں کھدروں میں جھانکتا ہے، جالوں کو صاف کر کے تاریخ اور جغرافیہ کا چہرہ اور نقوش سامنے لاتا ہے، لیکن کچھ لوگ اس قیمتی کام کو لے اڑتے ہیں۔ اور صفحے کے صفحے بعینہ اپنے یا اپنے ادارے کے نام سے چھپوا کر مال بناتے ہیں اور اصل شخصیت کے کام اور نام کا حوالہ تک دینا ضروری نہیں سمجھتے۔'' وہ بالکل درست فرما رہے تھے، دوسرے قابل احترام شخصیت نے طنزاً کہا ''بھائی جس ملک میں ایک ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل دو اساتذہ، جو اسی یونیورسٹی کے ایک ہی شعبے میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، اپنی اپنی باری پر ''چیئرمین'' کی کرسی پہ بھی فائز رہتے ہوئے ایک دوسرے کے مقالے چوری کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر لیتے ہوں۔
مزید ستم ظریفی اور بددیانتی یہ کہ دونوں کے گائیڈ بھی ایک ہی تھے اور مقالہ چوری کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے والے پروفیسر نے اپنی اس حرکت پہ اپنے سینئر سے معافی مانگ لی اور اسے اس لیے معاف بھی کر دیا گیا کہ دونوں کا تعلق ایک ہی مذہبی و سیاسی جماعت سے ہے۔۔۔۔ تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔۔۔؟۔۔۔ باتوں باتوں میں بہت سی ادبی چوریوں اور دیدہ دلیریوں پہ بات ہوتی رہی کہ اچانک گفتگو کا رخ موجودہ حالات کی طرف مڑ گیا۔ پروفیسر قریشی نے افسردگی سے کہا ''کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں پاکستان میں مذہبی منافرت بہت زیادہ بڑھی ہے؟ یا بڑھائی گئی ہے۔ خاص کر نوجوان طبقہ اس کا زیادہ شکار نظر آتا ہے۔
ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں تھا۔ عجیب تکلیف دہ صورت حال ہے کہ جو لوگ پچاس اور ساٹھ سے اوپر ہیں وہ محبت اور امن کی بات کرتے ہیں۔ لیکن نوجوان طبقہ خصوصاً بیس سے 30 سال کے درمیانی عمر کے نوجوانوں میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ منافرت عروج پہ نظر آتی ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو گا، اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں، لیکن بصیرت رکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہ دلدل ہے جس میں پھنسنے والی قومیں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہیں''۔
پروفیسر صاحب کی تشویش بلاجواز نہیں تھی۔ نوجوان طبقے میں بڑھتی ہوئی غنڈہ گردی، چوری، ڈکیتی، صوبائی و لسانی تعصب مذہبی اور مسلکی منافرت کی اصل وجہ ہے، غربت، مفلسی اور حقوق کی پامالی۔۔۔۔بعض تجزیہ کار اسے قانون کی گرفت کا مضبوط نہ ہونا بتاتے ہیں۔ وہ بھی غلط نہیں کہہ رہے۔۔۔۔ لیکن تمام اخلاقی، سماجی اور معاشی جرائم غربت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ نوجوان طبقے کی اصل محرومی ان کے ساتھ کی جانے والی وہ بے انصافی ہے جو ہر جگہ منہ پھاڑے انھیں دبوچنے کو بیٹھی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کر کے، اعلیٰ ترین جینوئن ڈگریوں کے حامل نوجوان جب کسی ادارے میں اپنی اہلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر ملازمت کے خواہاں ہوتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ یہ اشتہار وغیرہ تو سب دکھاوا ہیں۔
وہاں تو پہلے ہی کسی وزیر اعظم، صدر محترم، وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ یا گورنر کا بھائی، سالا، بیٹا، بیٹی، بھتیجا، بھانجا یا بہو کا تقرر ہو چکا ہے۔۔۔۔!!۔۔۔۔ امیدوں کے روشن چراغ جلائے اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل ناامیدی کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جنھوں نے ان کا حق مارا ہے انھیں بھی جینے کا کوئی حق نہیں۔۔۔۔ یہیں محرومی اور اختیارات کی بندر بانٹ ٹارگٹ کلنگ کو جنم دیتی ہے تو کہیں یہی بے روزگاری اور مفلسی اچھے اچھے گھروں کے نابالغ لڑکوں کو خودکش بمبار بنا دیتی ہے۔ جب بیمار بچے کے علاج کے لیے دوا کے پیسے نہ ہوں، جب باپ کا دمے سے سانس اکھڑ رہا ہو، جب بیوہ ماں کی سلائی کرتے کرتے بینائی زائل ہونے لگی ہو، اور پڑھی لکھی بیٹی کو دس ہزار مہینہ کی معقول ملازمت بھی نہ مل رہی ہو اور جب کہ صنعت کار، سیاست دان اور سرمایہ دار صرف ایک رات میں لاکھوں روپے ناچنے گانے والیوں پر نچھاور کر رہے ہوں، تو بدامنی جنم لیتی ہے۔ قانون سرنگوں ہوتا ہے۔
جب ملک کے پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انھیں ان کا حق مانگنے سے نہیں ملے گا، تو پھر وہ بندوق اٹھا لیتے ہیں اور کتابیں پھینک دیتے ہیں۔ قانون کے رکھوالوں کو جب خود اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ درکار ہو تو نوجوانوں کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ۔۔۔۔ ان ہی نام نہاد قانون کے محافظوں نے انھیں بے یار و مددگار چھوڑا ہے اور ساری سیکیورٹی اور حفاظتی عملہ صرف اپنے اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے تھا۔ جب اس ڈرامے کے آخری سین سے پردہ اٹھ جاتا ہے تو چہروں سے سارا میک اپ اتر جاتا ہے اور اصل چہروں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اور پھر ایسی ہی بھیانک سچائیاں تشدد اور نفرت کو جنم دیتی ہیں۔
حقوق کی پامالی، میرٹ کا کھلے عام قتل عام، اس طبقے کے خلاف جذبات کو جنم دیتا ہے۔ جنھوں نے ایک ٹڈی دل بن کر عام متوسط طبقے کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالا ہے۔۔۔۔ کیا وہ یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ ان ہی کے جیسے انسانوں نے ان کے لیے زندگی اجیرن کر دی ہے، یہ نفرتیں جب تناور درخت بن جاتی ہیں تو کبھی کبھی دشمنوں، اسمگلروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی حاصل کر لیتی ہیں اور چھوٹے پیمانے پر اپنی نفرت اور حقوق غصب کرنے کے جذبے کی تسکین، موبائل فونز، کریڈٹ کارڈ، گاڑی اور موٹرسائیکل گن پوائنٹ پہ چھین کر کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔ اس طرح ان کا جذبہ انتقام بھی تسکین پاتا ہے اور مالی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔
اب بات رہ جاتی ہے کہ نوجوان نسل میں مذہبی رواداری کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ امن کی فاختاؤں اور بہار کے نغمے گانے والی بلبلوں کی جگہ بارود کی بو اور نفرتوں کے شعلوں نے جگہ کیوں لے لی ہے، اس کا ذکر پھر کسی کالم میں کریں گے۔
ایک صاحب نے جناب عثمان دموہی کی نہایت اہم تصنیف ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' کا تازہ ترین دوسرا ایڈیشن جو حال ہی میں شایع ہوا ہے، ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ''کیا زمانہ آگیا ہے ایک شخص دن رات کی تحقیق سے آنکھیں جلاتا ہے، تاریخ کے کونوں کھدروں میں جھانکتا ہے، جالوں کو صاف کر کے تاریخ اور جغرافیہ کا چہرہ اور نقوش سامنے لاتا ہے، لیکن کچھ لوگ اس قیمتی کام کو لے اڑتے ہیں۔ اور صفحے کے صفحے بعینہ اپنے یا اپنے ادارے کے نام سے چھپوا کر مال بناتے ہیں اور اصل شخصیت کے کام اور نام کا حوالہ تک دینا ضروری نہیں سمجھتے۔'' وہ بالکل درست فرما رہے تھے، دوسرے قابل احترام شخصیت نے طنزاً کہا ''بھائی جس ملک میں ایک ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل دو اساتذہ، جو اسی یونیورسٹی کے ایک ہی شعبے میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، اپنی اپنی باری پر ''چیئرمین'' کی کرسی پہ بھی فائز رہتے ہوئے ایک دوسرے کے مقالے چوری کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر لیتے ہوں۔
مزید ستم ظریفی اور بددیانتی یہ کہ دونوں کے گائیڈ بھی ایک ہی تھے اور مقالہ چوری کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے والے پروفیسر نے اپنی اس حرکت پہ اپنے سینئر سے معافی مانگ لی اور اسے اس لیے معاف بھی کر دیا گیا کہ دونوں کا تعلق ایک ہی مذہبی و سیاسی جماعت سے ہے۔۔۔۔ تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔۔۔؟۔۔۔ باتوں باتوں میں بہت سی ادبی چوریوں اور دیدہ دلیریوں پہ بات ہوتی رہی کہ اچانک گفتگو کا رخ موجودہ حالات کی طرف مڑ گیا۔ پروفیسر قریشی نے افسردگی سے کہا ''کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں پاکستان میں مذہبی منافرت بہت زیادہ بڑھی ہے؟ یا بڑھائی گئی ہے۔ خاص کر نوجوان طبقہ اس کا زیادہ شکار نظر آتا ہے۔
ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں تھا۔ عجیب تکلیف دہ صورت حال ہے کہ جو لوگ پچاس اور ساٹھ سے اوپر ہیں وہ محبت اور امن کی بات کرتے ہیں۔ لیکن نوجوان طبقہ خصوصاً بیس سے 30 سال کے درمیانی عمر کے نوجوانوں میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ منافرت عروج پہ نظر آتی ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو گا، اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں، لیکن بصیرت رکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہ دلدل ہے جس میں پھنسنے والی قومیں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہیں''۔
پروفیسر صاحب کی تشویش بلاجواز نہیں تھی۔ نوجوان طبقے میں بڑھتی ہوئی غنڈہ گردی، چوری، ڈکیتی، صوبائی و لسانی تعصب مذہبی اور مسلکی منافرت کی اصل وجہ ہے، غربت، مفلسی اور حقوق کی پامالی۔۔۔۔بعض تجزیہ کار اسے قانون کی گرفت کا مضبوط نہ ہونا بتاتے ہیں۔ وہ بھی غلط نہیں کہہ رہے۔۔۔۔ لیکن تمام اخلاقی، سماجی اور معاشی جرائم غربت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ نوجوان طبقے کی اصل محرومی ان کے ساتھ کی جانے والی وہ بے انصافی ہے جو ہر جگہ منہ پھاڑے انھیں دبوچنے کو بیٹھی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کر کے، اعلیٰ ترین جینوئن ڈگریوں کے حامل نوجوان جب کسی ادارے میں اپنی اہلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر ملازمت کے خواہاں ہوتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ یہ اشتہار وغیرہ تو سب دکھاوا ہیں۔
وہاں تو پہلے ہی کسی وزیر اعظم، صدر محترم، وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ یا گورنر کا بھائی، سالا، بیٹا، بیٹی، بھتیجا، بھانجا یا بہو کا تقرر ہو چکا ہے۔۔۔۔!!۔۔۔۔ امیدوں کے روشن چراغ جلائے اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل ناامیدی کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جنھوں نے ان کا حق مارا ہے انھیں بھی جینے کا کوئی حق نہیں۔۔۔۔ یہیں محرومی اور اختیارات کی بندر بانٹ ٹارگٹ کلنگ کو جنم دیتی ہے تو کہیں یہی بے روزگاری اور مفلسی اچھے اچھے گھروں کے نابالغ لڑکوں کو خودکش بمبار بنا دیتی ہے۔ جب بیمار بچے کے علاج کے لیے دوا کے پیسے نہ ہوں، جب باپ کا دمے سے سانس اکھڑ رہا ہو، جب بیوہ ماں کی سلائی کرتے کرتے بینائی زائل ہونے لگی ہو، اور پڑھی لکھی بیٹی کو دس ہزار مہینہ کی معقول ملازمت بھی نہ مل رہی ہو اور جب کہ صنعت کار، سیاست دان اور سرمایہ دار صرف ایک رات میں لاکھوں روپے ناچنے گانے والیوں پر نچھاور کر رہے ہوں، تو بدامنی جنم لیتی ہے۔ قانون سرنگوں ہوتا ہے۔
جب ملک کے پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انھیں ان کا حق مانگنے سے نہیں ملے گا، تو پھر وہ بندوق اٹھا لیتے ہیں اور کتابیں پھینک دیتے ہیں۔ قانون کے رکھوالوں کو جب خود اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ درکار ہو تو نوجوانوں کو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ۔۔۔۔ ان ہی نام نہاد قانون کے محافظوں نے انھیں بے یار و مددگار چھوڑا ہے اور ساری سیکیورٹی اور حفاظتی عملہ صرف اپنے اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے تھا۔ جب اس ڈرامے کے آخری سین سے پردہ اٹھ جاتا ہے تو چہروں سے سارا میک اپ اتر جاتا ہے اور اصل چہروں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اور پھر ایسی ہی بھیانک سچائیاں تشدد اور نفرت کو جنم دیتی ہیں۔
حقوق کی پامالی، میرٹ کا کھلے عام قتل عام، اس طبقے کے خلاف جذبات کو جنم دیتا ہے۔ جنھوں نے ایک ٹڈی دل بن کر عام متوسط طبقے کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالا ہے۔۔۔۔ کیا وہ یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ ان ہی کے جیسے انسانوں نے ان کے لیے زندگی اجیرن کر دی ہے، یہ نفرتیں جب تناور درخت بن جاتی ہیں تو کبھی کبھی دشمنوں، اسمگلروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی حاصل کر لیتی ہیں اور چھوٹے پیمانے پر اپنی نفرت اور حقوق غصب کرنے کے جذبے کی تسکین، موبائل فونز، کریڈٹ کارڈ، گاڑی اور موٹرسائیکل گن پوائنٹ پہ چھین کر کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔ اس طرح ان کا جذبہ انتقام بھی تسکین پاتا ہے اور مالی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔
اب بات رہ جاتی ہے کہ نوجوان نسل میں مذہبی رواداری کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ امن کی فاختاؤں اور بہار کے نغمے گانے والی بلبلوں کی جگہ بارود کی بو اور نفرتوں کے شعلوں نے جگہ کیوں لے لی ہے، اس کا ذکر پھر کسی کالم میں کریں گے۔