دو زندہ آوازیں

بھارت میں اردو زبان اور بالخصوص اس کے رسم الخط کو جو مسائل درپیش ہیں اس کا اثر وہاں کی شاعری کے معیار پر پڑا ہے۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

آپ شاید بھول بیٹھے ہیں' یہاں میں بھی تو ہوں
''اس زمیں اور آسماں کے درمیان میں بھی تو ہوں''
خشیت کچھ بھی نہیں بس ایک تنکے کی طرح
فکر و فن کے اس سمندر میں رواں میں بھی تو ہوں
بے سبب بے جرم پتھر شاہزادی بن گئی
بس یہی تھی اک صدائے بے زباں میں بھی تو ہوں
انکساری' پائیداری سب رواداری گئی
جب تکبر نے کہا بڑھ کر میاں میں بھی تو ہوں
آج اس انداز سے تم نے مجھے آواز دی
سچ بتاؤں اب لگا مجھ کو کہ ہاں میں بھی تو ہوں
تیرے شعروں سے مجھے منسوب کر دیتے ہیں لوگ
ناز ہے مجھ کو' جہاں تو ہے وہاں میں بھی تو ہوں
روٹھنا کیا ہے چلو میں ہی منا لاؤں اسے
بے رخی سے اس کی نصرت نیم جاں میں بھی تو ہوں

یہ غزل ہے بھوپال (بھارت) کی شاعرہ نصرت مہدی کی جو انھوں نے 30 جنوری کو دبئی میں منعقد ہونے والے ایک پرہجوم مشاعرے میں پڑھی اور اسٹیج کے دونوں طرف سے یعنی شعراء اور سامعین سے بیک وقت بھرپور اور مسلسل داد حاصل کی۔ یہ مشاعرہ امارات میں پاک بھارت مشاعروں کی روایت کو مستحکم کرنے والے سلیم جعفری مرحوم کے پرانے ساتھی سید صلاح الدین نے اپنے رفقاء کی اعانت سے ترتیب دیا تھا اور یہ ان کا مسلسل بارہواں مشاعرہ تھا۔ بھارت میں اردو زبان اور بالخصوص اس کے رسم الخط کو جو مسائل درپیش ہیں اس کا اثر وہاں کی شاعری کے معیار پر تو پڑا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مشاعرے کی روایت وہاں نہ صرف پاکستان کی نسبت بہت زیادہ مستحکم اور مقبول ہے بلکہ مسلسل فروغ پذیر بھی ہے البتہ جہاں تک وہاں کی شاعرات کا تعلق ہے ان میں سے بہت سے کم ایسی ہیں جن کے کلام کو اعلیٰ تو کیا درمیانے درجے کا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مشاعروں میں وہاں سے جو خواتین شعراء آتی ہیں ان میں سے بیشتر کے اگر ترنم کو خارج کر دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔ اس فہرست میں میرے مشاہدے اور تجربے کی حد تک صرف عزیز بانو داراب وفا' فاطمہ شعری حیدرآبادی' ملکہ نسیم اور مذکورہ بالا غزل کی شاعرہ نصرت مہدی ہی چند ایسے نام ہیں جنھیں شاعرات کی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جس میں ادا جعفری' زہرہ نگاہ' کشور ناہید' فہمیدہ ریاض' شبنم شکیل' پروین شاکر' شاہدہ حسن' نوشی گیلانی' یاسمین حمید' منصورہ احمد' ثمینہ راجہ' ناہید قاسمی' عشرت آفرین' فاطمہ حسن' ڈاکٹر صبیحہ صبا' حمیرا رحمن' فرحت زاہد' ڈاکٹر ثروت زہرا' حمیدہ شاہین' شاہین مفتی' ریحانہ رومی' بشریٰ اعجاز' حمیرا راحت اور دیگر کئی پاکستانی شاعرات کے نام شامل ہیں۔

اس فرق کی بہت سی وجوہات ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں کہ فی الوقت میں نصرت مہدی کے شعری لہجے اور نسائیت کے اس معتدل' متوازن اور خوب صورت اظہار کی تحسین کرنا چاہتا ہوں جس میں عورت کے الگ اور مخصوص تشخص کے ساتھ ساتھ مردوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں عورت کو (جنس کی تفریق کو تسلیم کرتے ہوئے) ایک مکمل فرد اور Person کی طرح دیکھنے اور دکھانے پر زور دیا گیا ہے۔ وہ یقینا اکیسویں صدی کی عورت کا وہ روپ ہے جسے گزشتہ صدیوں میں بوجوہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس غزل کی ردیف ''میں بھی تو ہوں'' میں معنی کا ایک جہان سمٹ آیا ہے۔

اتفاق سے اس مشاعرے کے اگلے ہی روز مجھے ڈاکٹر ثروت زہرا کے دوسرے شعری مجموعے ''وقت کی قید سے'' کی تقریب پذیرائی میں بھی شرکت کا موقع ملا اور یوں یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ آج کی اچھی شاعرات اپنا ایک الگ لہجہ اور مینی فیسٹو رکھتی ہیں۔ سو نصرت مہدی اور ڈاکٹر ثروت زہرا دو مختلف ملکوں اور معاشروں میں رہنے کے باوجود ایک سطح پر ہاتھوں میں ہاتھ لیے چلتی دکھائی دیتی ہیں۔

ڈاکٹر ثروت زہرا میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور گزشتہ تقریباً پندرہ برسوں سے دبئی میں مقیم ہیں۔ ان کے پڑھنے کا انداز دلکش بھی ہے اور منفرد بھی جو ان کی نظموں کے موضوعات سے مل کر ایک الگ سی فضا پیدا کر دیتا ہے۔ شاید یہ ان کی میڈیکل کی تعلیم کا اثر ہو کہ ان کے یہاں چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا سائنسی رویہ غالب نظر آتا ہے۔ وہ ایک ترقی پسند شاعرہ ہیں جو اپنے معاشرے کی صورت حال سے دل گرفتہ' پریشان' ناراض اور فکرمند ہونے کے ساتھ ساتھ مزاحمت اور احتجاج سے بھی کام لیتی ہیں۔ وہ ہر نوع کی بے انصافی پر کھل کر تنقید کرتی ہیں اور آمریت کے ہر انداز کو چاہے وہ بھاری بوٹوں والے فوجی حاکموں کا ہو یا نام نہاد عوامی لیڈروں کا' سختی سے رد کرتی ہیں:

بھاری بوٹوں تلے روندتے جایئے

کونپلوں کے بدن' آہٹوں کے دیے
صرف خانے بدلنے سے کیا فائدہ
چند نامے بدلنے سے کیا فائدہ
ہم پیادہ سفر تھے پیادے رہے
بھاری بوٹوں تلے روندتے جایئے

نصرت مہدی کی غزل میں مرد کے ساتھ جو مصالحت کی امید اور امن غالب ہے' ثروت زہرا کی نظموں میں اس کی جگہ احتجاجی رویے نے لے لی ہے۔ اپنی نظم ''بے پروں کی تتلی'' میں وہ کہتی ہیں:
یہ جھاڑن کی مٹی سے میں گر رہی ہوں
یہ پنکھے کی گھوں گھوں میں' میں گھومتی ہوں
یہ سالن کی خوشبو پہ میں جھومتی ہوں
میں بیلن سے چکلے پہ بیلی گئی ہوں
توے پر پڑی ہوں ابھی جل رہی ہوں
یہ ککر کی سیٹی میں' میں چیختی ہوں
کسی دیگچی میں پڑی گل رہی ہوں
مگر جی رہی ہوں

نظم ''انٹرنیٹ استھان کی ملکہ'' میں انگریزی کے الفاظ کے برمحل استعمال نے اس نظم کو ایک ایسا منفرد اور تخلیقی رنگ دے دیا ہے جو بیک وقت شاعرہ کی ہمت اور بالغ نظری کا ترجمان ہے:
دور کسی کیفے میں بیٹھے
خواہش اور محبت کے یہ اجلے سائن
یہ جلتے ہونٹوں کے خط
یہ ہنسنا رونا
سب کچھ آدھا سچ ہے
آدھے سچ میں ڈوب مرو گی
گورکھ دھندا بس اک پل کا
انٹرنیٹ استھان پہ بیٹھی خواب کی ملکہ

یہ دو تازہ نسائی آوازئیں جہاں ایک طرف ہمیں ادبی منظرنامے میں خواتین کی بھرپور اور خوش آئند موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں وہاں اس بات کی بھی شاہد ہیں کہ آج کی عورت ہر اعتبار سے مردوں کے دوش بدوش چلنے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ اس سفر میں کچھ نئی جہتوں کی سمت نمائی بھی کر رہی ہے۔
Load Next Story