اجمل خٹک
اجمل خٹک پاکستان اورافغانستان دونوں ممالک میں قدر واحترام سے دیکھے جاتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے ایک سنگلاخ خطے خیبر پختون خواہ نے کئی نابغہ روز گار شخصیات کو جنم دیا جنھوں نے ہر دور میں تاریخ کے صفٖحوں پر اپنا نام قلم بند کرایا وہ خواہ داد شجاعت کا معرکہ ہو جہاں پانی پت کی پہلی جنگ سے لے کر تیسری پانی پت جنگ کی کہانی شروع ہو کر آج گوروں سے مسلسل جنگ کا سلسلہ جاری ہو جہاں اس دھرتی کے سورما ابراہیم لودھی، شیر شاہ سوری اور احمد شاہ ابدالی جیسے جری سپاہی میدان جنگ کے غازی ہوں یا پھرسخن ادب سے اس کا تعلق ہو ایسی بہت سی شخصیات جنھوں نے کسی مدرسہ کا رخ کبھی نہیں کیا مگر خداداد صلاحیتوں کے بل پر شاعری میں ایسے گوہر نایاب اشعار کہے جنھیں پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ان عظیم ادیب وشاعروں کی ایک لمبی قطار ہمارے تاریخی ورثے میں شامل ہیں جن میں چند بڑے نام کبیر استوری ، سولہویں صدی میں پیر روشن ،سترویں صدی کو اپنی شاعری سے ہمکلام کراتے خوشحال خان خٹک ،اٹھارویں صدی کے عظیم شاعر امیر کروسری ،غرض اس لمبی قطار میں پریشان خان خٹک اور پشتو شاعری کے حافظ شیرازی کا نام بھی شامل ہے ایک حساس ملک وقوم سے محبت کر نے والے شاعرکسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ان ہی صاحب درد مند شاعروں میں انیسویں صدی کے شاعر اجمل خٹک بھی شامل ہیں جنھیں اپنے وطن کے غریبوں سے محبت اور ان کے دکھ درد کا احساس تھا جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے ۔
انھوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا کسی غرض لالچ ، مرتبے اور عہدے کو خاطر میں لائے بغیر رکھا ۔ قوم کے دکھ درد کو اپنے شعر کی زبان دینے والے اس شاعر نے 15 ستمبر 1925ء کو اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا اپنے والد حکمت خان خٹک کی طرح قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ۔منشی فاضل اور جامعہ دہلی سے بی اے کی ڈگری لی۔ عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور اسکرپٹ را ئٹر کیا وہ روز نامہ'' انجام'' پشاور سے بطور ایڈیٹر بھی وابستہ رہے جس کی جھلک ان کی شخصیت میں بھی نمایاں تھی۔
اجمل خٹک نے اپنے اخباری کالمز اور مضامین میں خیر وشر، قوموں کو ظلم و جبر ، استبداد اور استحصالی قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی راہ دکھائی ان کی حوصلہ افزائی کی موجودہ زمینی حقائق کے با رے میں دلائل کے ساتھ جرات مندانہ اظہارکرتے تھے۔ باچا خان کے فکری نظریے سے بے حد متاثر تھے۔ خان عبدلوالی خان کی صدارت میں عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے۔ مارچ 1973ء بھٹو دور حکومت، لیاقت باغ راولپنڈی میں اپو زیشن (اے این پی) جلسے میں حملہ ہوا، اسٹیج پر بیٹھے خان عبدالولی خان پرگولیاںچلیں ان کا ایک ساتھی کارکن گولی کی زد میں آ گیا اور اس نے ان کے ہاتھوں میں جان دے دی۔ اس واقعے نے اجمل خٹک پر بہت اثر ڈالا اور وہ دل برداشتہ ہوکر کابل جلا وطن ہوگئے تقریبا سترہ سال کی جلا وطنی کے بعد بے نظیر دور حکومت میں 1989ء میں وطن واپس لوٹے اور دوبارہ سیاست میں حصہ لینے لگے۔
اجمل خٹک پاکستان اورافغانستان دونوں ممالک میں قدر واحترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی پہلی اور آخری غلطی خان ولی خان کی پارٹی چھوڑ کر پرویز مشرف کے دور حکومت میں شا مل ہو کر کی تھی لیکن اپنی غلطی کا ادراک ہونے کے بعد وہ دوبارہ ولی خان سے آملے، پارٹی لیڈروں نے بھی خندہ پیشانی سے انھیں معاف کیا اور گلے لگایا۔ اجمل خٹک کی پارٹی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے تو وہ محض اس لیے تھی کہ موجودہ حکومت میں رہ کر وہ عوام کی تکالیف کا ازالہ کر سکیں گے۔ اگر انھیں دولت کمانے کی خواہش ہوتی تو ان کے پاس بھی دیگر ساتھیوں کی طرح بینک بینلس کی کمی نہ ہوتی انھوں نے درویشانہ زندگی گزاری اور اپنے اسی گھر میں جہاں انھوں نے آنکھ کھو لی تھی ہوش سنبھالا اسی گھر میں زندگی کے آخری وقت تک قیام کیا۔
ان کی زندگی کے کچھ گو شوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے معروف ادیب وکالم نگار سعداللہ جان برق لکھتے ہیں ''بیمار ہوئے تو یوں لگا جیسے انھیں کوئی جانتا تک نہیں تھا صرف چند ان جیسے ملنگ شاعر ہی تھے جو ان کا حلقہ احباب رہ گئے تھے ، جس کاز کے لیے انھوں نے آغاز جوانی میں ہی زنجیریں پہن لی تھیں ان کو یاد بھی نہیں رہا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک دن ہم دس بارہ برس کی عمر میں اپنے دادا کے ساتھ بپی تھانے گئے، دادا تو اپنے کام سے اندر گئے ہم حوالات میں ایک جھاڑ جھنکار والے مخنی سے آدمی کو دیکھنے لگے جو سنتری کے کہنے کے مطابق پاگل تھا، ہمارے حافظے میں اس پاگل کی تصویر نقش ہوگئی اس وقت ہمیں سیاست سے نہ کوئی آشنائی تھی نہ شعر وادب سے۔
کئی سال بعد جب اجمل خٹک سے ملاقات ہوئی تو کوئی احساس نہیں ہوا وہ تو جب ہم نے ان کی کتاب'' کیا میں پاگل تھا '' پڑھی تو اس میں بپی تھانے میں اپنی پٹائی اور اذیتوںکا جو ذکر کیا ہے اس سے ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ پھر ان سے پوچھا کچھ سن وسال ملائے تو جس پاگل کو بپی تھانے میں دیکھا تھا انھوں نے بتایا ہاں وہ میں ہی تھا،اصل میں اجمل خٹک کو سزا ملنی ہی چاہیے وہ شاعر بنا ،مجنوں بنا ،مفرور بنا، شاہان وقت کی صحبت میں رہا سیاہ و سفید کھیلا مگر وقت اور زمانے کا نبض شناس نہ بن سکا لوگوں اور چہروں کو پہچاننے کا سلیقہ نہ سیکھ سکا۔ بعد ازاں افغانستان چلے گئے وہاں حکمران سر داؤد خان نے ان کو ہاتھوں ہا تھ لیا ہر فیصلے میں انکو مشیر خاص بنایا ، وہ کیا کچھ نہیں کما سکتے تھے اپنے کسی بیٹے کو ایک پرمٹ ہی دلا دیتے تو وارے نیارے ہو جاتے ہم نے خود وہاں ان کی قدر و منزلت دیکھی ہے لیکن ملنگ تخت شاہی پر پہنچ کر بھی ملنگ ہی رہا ۔''
نئی نسل کوذہنی فکر عطا کرنے وا لے صاحب طرزشاعر، ادیب،صحافی اور دانش ور اجمل خٹک 7 فروری 2010 کو پچاسی سال کی عمر میں ہم سے رخصت ہوئے یوں تو پختون قوم میں شاعروںکی بہتات ہے لیکن اجمل خٹک اپنے قلم سے عوام کو بیدار کرنے والے لکھاری تھے بطور شاعر وادیب ترقی پسند تحریک سے متاثر اور باغی شاعر مانے جاتے ہیں ۔ ایک طرف تو جدید پشتو نظم کی بنیاد رکھی تو دوسری جانب پشتو لوک گیت کو نیا انداز بیان دیا 1958ء میں جب ان کا شعری مجموعہ '' کلونہ تکلونہ'' اور پھر '' دغیرت چغہِ،'' (صدائے غیرت) منظر عام پر آیا تو اس شعری مجموعے کو وہ پذ یرا ئی حاصل ہو ئی جو کسی پشتو مجموعے کو حاصل نہیں ہوئی نئی نسل نہ صرف ان کی ذہنی فکر سے متاثر ہوئی بلکہ اس نے اس راہ کو اپنانے کی کوشش بھی کی ویسے تو ان کی ساری شاعری گہرے شعور کی عمدہ تصویر پیش کر تی نظرآتی ہے۔ فرماتے ہیں کاش کہ ان کی انسان دوستی و محبت کے فکر کی تھوڑی سی کوشش ہم سب کر پاتے۔
انھوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا کسی غرض لالچ ، مرتبے اور عہدے کو خاطر میں لائے بغیر رکھا ۔ قوم کے دکھ درد کو اپنے شعر کی زبان دینے والے اس شاعر نے 15 ستمبر 1925ء کو اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا اپنے والد حکمت خان خٹک کی طرح قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ۔منشی فاضل اور جامعہ دہلی سے بی اے کی ڈگری لی۔ عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور اسکرپٹ را ئٹر کیا وہ روز نامہ'' انجام'' پشاور سے بطور ایڈیٹر بھی وابستہ رہے جس کی جھلک ان کی شخصیت میں بھی نمایاں تھی۔
اجمل خٹک نے اپنے اخباری کالمز اور مضامین میں خیر وشر، قوموں کو ظلم و جبر ، استبداد اور استحصالی قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی راہ دکھائی ان کی حوصلہ افزائی کی موجودہ زمینی حقائق کے با رے میں دلائل کے ساتھ جرات مندانہ اظہارکرتے تھے۔ باچا خان کے فکری نظریے سے بے حد متاثر تھے۔ خان عبدلوالی خان کی صدارت میں عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے۔ مارچ 1973ء بھٹو دور حکومت، لیاقت باغ راولپنڈی میں اپو زیشن (اے این پی) جلسے میں حملہ ہوا، اسٹیج پر بیٹھے خان عبدالولی خان پرگولیاںچلیں ان کا ایک ساتھی کارکن گولی کی زد میں آ گیا اور اس نے ان کے ہاتھوں میں جان دے دی۔ اس واقعے نے اجمل خٹک پر بہت اثر ڈالا اور وہ دل برداشتہ ہوکر کابل جلا وطن ہوگئے تقریبا سترہ سال کی جلا وطنی کے بعد بے نظیر دور حکومت میں 1989ء میں وطن واپس لوٹے اور دوبارہ سیاست میں حصہ لینے لگے۔
اجمل خٹک پاکستان اورافغانستان دونوں ممالک میں قدر واحترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی پہلی اور آخری غلطی خان ولی خان کی پارٹی چھوڑ کر پرویز مشرف کے دور حکومت میں شا مل ہو کر کی تھی لیکن اپنی غلطی کا ادراک ہونے کے بعد وہ دوبارہ ولی خان سے آملے، پارٹی لیڈروں نے بھی خندہ پیشانی سے انھیں معاف کیا اور گلے لگایا۔ اجمل خٹک کی پارٹی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے تو وہ محض اس لیے تھی کہ موجودہ حکومت میں رہ کر وہ عوام کی تکالیف کا ازالہ کر سکیں گے۔ اگر انھیں دولت کمانے کی خواہش ہوتی تو ان کے پاس بھی دیگر ساتھیوں کی طرح بینک بینلس کی کمی نہ ہوتی انھوں نے درویشانہ زندگی گزاری اور اپنے اسی گھر میں جہاں انھوں نے آنکھ کھو لی تھی ہوش سنبھالا اسی گھر میں زندگی کے آخری وقت تک قیام کیا۔
ان کی زندگی کے کچھ گو شوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے معروف ادیب وکالم نگار سعداللہ جان برق لکھتے ہیں ''بیمار ہوئے تو یوں لگا جیسے انھیں کوئی جانتا تک نہیں تھا صرف چند ان جیسے ملنگ شاعر ہی تھے جو ان کا حلقہ احباب رہ گئے تھے ، جس کاز کے لیے انھوں نے آغاز جوانی میں ہی زنجیریں پہن لی تھیں ان کو یاد بھی نہیں رہا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک دن ہم دس بارہ برس کی عمر میں اپنے دادا کے ساتھ بپی تھانے گئے، دادا تو اپنے کام سے اندر گئے ہم حوالات میں ایک جھاڑ جھنکار والے مخنی سے آدمی کو دیکھنے لگے جو سنتری کے کہنے کے مطابق پاگل تھا، ہمارے حافظے میں اس پاگل کی تصویر نقش ہوگئی اس وقت ہمیں سیاست سے نہ کوئی آشنائی تھی نہ شعر وادب سے۔
کئی سال بعد جب اجمل خٹک سے ملاقات ہوئی تو کوئی احساس نہیں ہوا وہ تو جب ہم نے ان کی کتاب'' کیا میں پاگل تھا '' پڑھی تو اس میں بپی تھانے میں اپنی پٹائی اور اذیتوںکا جو ذکر کیا ہے اس سے ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ پھر ان سے پوچھا کچھ سن وسال ملائے تو جس پاگل کو بپی تھانے میں دیکھا تھا انھوں نے بتایا ہاں وہ میں ہی تھا،اصل میں اجمل خٹک کو سزا ملنی ہی چاہیے وہ شاعر بنا ،مجنوں بنا ،مفرور بنا، شاہان وقت کی صحبت میں رہا سیاہ و سفید کھیلا مگر وقت اور زمانے کا نبض شناس نہ بن سکا لوگوں اور چہروں کو پہچاننے کا سلیقہ نہ سیکھ سکا۔ بعد ازاں افغانستان چلے گئے وہاں حکمران سر داؤد خان نے ان کو ہاتھوں ہا تھ لیا ہر فیصلے میں انکو مشیر خاص بنایا ، وہ کیا کچھ نہیں کما سکتے تھے اپنے کسی بیٹے کو ایک پرمٹ ہی دلا دیتے تو وارے نیارے ہو جاتے ہم نے خود وہاں ان کی قدر و منزلت دیکھی ہے لیکن ملنگ تخت شاہی پر پہنچ کر بھی ملنگ ہی رہا ۔''
نئی نسل کوذہنی فکر عطا کرنے وا لے صاحب طرزشاعر، ادیب،صحافی اور دانش ور اجمل خٹک 7 فروری 2010 کو پچاسی سال کی عمر میں ہم سے رخصت ہوئے یوں تو پختون قوم میں شاعروںکی بہتات ہے لیکن اجمل خٹک اپنے قلم سے عوام کو بیدار کرنے والے لکھاری تھے بطور شاعر وادیب ترقی پسند تحریک سے متاثر اور باغی شاعر مانے جاتے ہیں ۔ ایک طرف تو جدید پشتو نظم کی بنیاد رکھی تو دوسری جانب پشتو لوک گیت کو نیا انداز بیان دیا 1958ء میں جب ان کا شعری مجموعہ '' کلونہ تکلونہ'' اور پھر '' دغیرت چغہِ،'' (صدائے غیرت) منظر عام پر آیا تو اس شعری مجموعے کو وہ پذ یرا ئی حاصل ہو ئی جو کسی پشتو مجموعے کو حاصل نہیں ہوئی نئی نسل نہ صرف ان کی ذہنی فکر سے متاثر ہوئی بلکہ اس نے اس راہ کو اپنانے کی کوشش بھی کی ویسے تو ان کی ساری شاعری گہرے شعور کی عمدہ تصویر پیش کر تی نظرآتی ہے۔ فرماتے ہیں کاش کہ ان کی انسان دوستی و محبت کے فکر کی تھوڑی سی کوشش ہم سب کر پاتے۔